وحدت نیوز(آرٹیکل) انیسویں اور بیسوی صدی عیسوی میں برطانوی استعمار نے اپنے مقبوضہ علاقوں میں بہت سارے فتنوں کی بنیاد رکھی۔ بوڑھے استعمار نے کہیں پر سرحدوں کا مسئلہ کھڑا کیا، کہیں پر لسانیت وقومیت کو ہوا دی،  اور کہیں پر دین ومذہب اورفرقوں کے نام پر بت تراشے۔

انہیں فتنوں میں سے ایک فتنہ جو اہل تشیع کے  درمیان بویا گیا وہ شیخیت اور خالصیت کا فتنہ ہے. اس فتنے کو بالخصوص عراق ، لبنان اور پاکستان میں نسبتا زیادہ ہوا دی گئی.  پاکستان میں جب امریکی اور روسی نفوذ کی سرد جنگ جاری تھی اور امریکہ نے اپنے ہدف کے حصول کے لئے جہاں دیگر حربے استعمال کئے ان میں سے ایک حربہ اہل سنت بالخصوص دیوبندی مکتب فکر اور جماعت اسلامی کو روس کے خلاف استعمال کرنا تھا ۔  اور جب امریکا آخر کار روس نواز  وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوا ، تو پھر مذکورہ بالا قوتوں کو ضیاء الحق کے دور اقتدار میں پاکستان میں مزید  پالابوسا اور طاقتور بنایا۔

70 ء کے عشرے میں جب پاکستان میں یہ سازش جاری تھی تو اسی دوران  بانیان پاکستان کے فرزندوں کو غافل رکھنے اور سیاسی منظر نامے سے دور رکھنے کے لئے انہیں داخلی اختلافات میں بری طرح الجھا دیا گیا۔ برطانیہ کے لگائے ہوئے پودے شیخیت اور خالصیت کے فتنے کو بہت ہوا دی گئی اور پوری ملت تشیع فکری طور پر دو حصوں میں بٹ گئی ،  جس کے نتیجے میں مساجد وامامبارگاہوں میں مکتب اہل بیت علیہم السلام کے پیروکاروں کے مابین واضح تقسیم ہو گئی۔

ایک گروہ اپنے آپ کو موحد وملتزم اور مد مقابل کو نصیری اور غالی کہنے لگا.  اور اسی طرح دوسرا گروہ اپنے آپ کو موالی وخوش عقیدہ اور مد مقابل کو وہابی و مقصر کہنے لگا.  طرفین نے محراب و منبر کو اس مشن کے لئے خوب استعمال کیا اور بعض اوقات تو لڑائی جھگڑے تک نوبت آ جاتی تھی. اور ہر ایک اپنے تئیں دین ومذھب اور تشیع کا دفاع کر رہا تھا۔

 شیعیان پاکستان اسی طرح ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں لگے رہے اور دوسری طرف  اقلیتی دیوبندی فرقہ، ملک پر قابض ہو گیا. دیوبندی حضرات کو اس وقت، امریکہ، سعودی عرب اور حکومت وقت تینوں کی سپورٹ حاصل تھی۔

اس زمانے میں اہل تشیع کے اکابرین سیاست کو شجرہ ممنوعہ سمجھ بیٹھے تھے اور بانی پاکستان کے فرزند منبر اور محراب سے یہ کہتے تھے .کہ ہمیں معاویہ کی سیاست سے کوئی سروکار نہیں، یہ شریفوں کا پیشہ نہیں،  ہمیں تو فقط رونے دو، ہمیں فقط مذھبی رسوم کی ادائیگی کے لئے آزادی چاہیے، تم لو اقتدار اور سنبھالو حکومت ، ہمیں تو فقط عزاداری چاہیے ۔

شیعہ سیاستدان بھی چونکہ شیعہ ووٹ کو اپنی جیب ڈیپازٹ سمجھتے تھے اور اب انہیں فقط سنی ووٹ درکار تھا. انھوں نے بھی اپنی اپنی کرسی بچانے اور سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لئے تشیع کے حقوق کی کبھی بات نہ کی بلکہ اگر کوئی آواز اٹھتی تو عوامی پریشر اور اپنے نفوذ سے اسے دبا دیتے اور کہتے کہ ہم تو اقلیت ہیں اور غیر موثر ہیں۔

 شیعہ عوام کو یہ باور کرایا گیا تھا کہ شیعہ نام سے سیاست میں جانا بے سود ہے. چنانچہ  شیعیانِ پاکستان پر ظلم ہوتا رہا، بے بنیاد الزامات لگے ، حق تلفیاں ہوئیں ، مذھبی آزادی سلب ہوئی  اور عزاداری کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں حتی کہ قتل و غارت اور  قانون سازیاں تک ہوئیں. یہ تشیع کے ہمدرد سیاستدان نہ تو پارلیمنٹ میں کوئی دفاع کرتے اور جب کبھی کوئی گلہ شکوہ کرتا تو جواب میں کہتے کہ میں تو اہل سنت کے ووٹ سے اسمبلی  میں پہنچا ہوں لہذا میں مذہب شیعہ کا دفاع نہیں کر سکتا۔

یوں ملک کے اکثریتی طبقات اہل سنت بریلوی اور شیعہ محکوم ہوتے گئے اور دیوبندی حضرات ملک کے تمام شعبوں میں سرایت کر گئے۔

یاد رہے کہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے بانی پاکستان کی آزادی واستقلال کی تحریک کی مخالفت کی تھی اور فتوے جاری کئے تھے. اور انہیں کافر اعظم تک کہا تھا. اور یہ لوگ  پاکستان کے قیام اور  ہندوستان سےعلیحدگی کے مخالف تھے۔

آج ایک بار پھر جب  داعش کی شام وعراق میں ناکامی کے بعد امریکہ اور سعودیہ اسے افغانستان اور پاکستان منتقل کرنے میں مصروف ہیں تو  بانیان پاکستان کے فرزندوں کے خلاف ایک بین الاقوامی سازش اپنے عروج پر ہے۔

وطن عزیز پاکستان ، پاکستانی مسلح افواج و عوام اور بالخصوص تشیع پاکستان سے عراق وشام کی ناکامی کا بدلہ لینے کے لئے امریکی صدر اپنی نئی پالیسی کا اعلان کر چکا ہے. جس کے تحت تکفیری مسلح گروہ مذھبی فتنوں کی آگ کے شعلے پورے ملک میں پھیلائیں گے اور اسے عراق وشام بنائیں گے ۔

دوسری طرف تشیع کی داخلی وحدت پر کاری ضربیں لگائی جا رہی ہیں.  کچھ منحرف لوگ، امریکہ و برطانیہ کی ایما پر منبر و محراب سے فتنوں کو ھوا دینے کے لئے اپنی زبانیں بیچ چکے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ ایک طرف ملکی اداروں اور ایوانوں میں بیٹھے ملکی مفادات کے دشمن اور متعصب افراد تشیع کو ہر لحاظ سے دبانے اور دیوار سے لگانے میں شبانہ روز مصروف ہیں. اور دوسری طرف ناعاقبت اندیش ہمارے اکثر قومی لیڈر ان تحولات اور سازشوں کو سمجھنے اور درست سمت میں  قوم کی راھنمائی کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں ۔

ایسی صورتحال میں بشارت وولایت کے نام پر تشیع  میں تقسیم ، اہل تشیع  کو کھوکھلا کرنے کے مترادف ہے. فقط بعض منحرف یا مخصوص عقائد ونظریات کے حامل افراد کی بنا پر عمومی حکم لگانا اور ایک صنف کو دوسری صنف کے مد مقابل لانا ، بلکہ ایک ہی صنف کے افراد کے مابین نفرتوں کی دیواریں کھڑی کرنا ، تشیع پر ہونے والے بیرونی حملوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہے. حالات بتا رہے ہیں کہ اس وقت تشیع کا من حیث القوم وجود اور شیعوں کی  عزت وناموس خطرے میں ہے۔

ہمیں کب احساس ہوگا کہ ہمارا وطن عزیز پاکستان اور شیعیان پاکستان ، اندرونی وبیرونی دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں. اس وقت باہمی وحدت واخوت اور مشترکہ دشمنوں کےخلاف متحد ہوئے بغیر ان مسائل سے نکلنا مشکل ہے۔

ہمیں مشکلات اور مسائل کے حل کے لئے متبادل راستے تلاش کرنے کی ضرورت ہے. ہمیں حکمت وبصیرت سے مسائل سلجھانے کی کوشش کرنی چاہیئے، ہرزی شعور سمجھ سکتا ہے ، کہ اس خالصیت وشیخیت یا ہدایت واصلاح کی موجودہ روش سے ناقابل تلافی نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔

امریکہ، سعودیہ، اسرائیل اور انکے اتحادیوں کی عراق وشام میں ذلت آمیز شکست وپسپائی در اصل ہماری رہبریت ومرجعیت اور مقاومت  کی وجہ سے ہوئی ہے. اور آج  انتقامی سازش کے تحت تشیع کے مابین اختلافات اور فتنوں  کو ابھار کر  ہمارے ایک بہت بڑے اور موثر طبقے کو رہبریت ومرجعیت اور مقاومت سے کاٹ کر الگ کیا جا رہا ہے۔ اور بہت سارے مخلص  افراد لاشعوری طور پر دشمن کے معاون ومدد گار بن رہے ہیں۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ  منبرِ اہل بیتؑ پر آنے والے بعض افراد یہ تک بھول جاتے ہیں کہ آج اگر اھل بیت علیہم السلام  کے مزارات اور حرمِ سیدہ ؑ کو  دشمنان خدا منہدم نہیں کرسکے تو اس کا سبب یہی رہبریت ومرجعیت اور مقاومت ومدافعینِ حرم کا میدان میں موجود ہونا ہے۔ یہ اللہ تعالی کی عطا کردہ مرجعیت کی بصیرت، اجتھاد کا ثمر اور علمائے کرام کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ دشمن زلیل اور ناکام ہوا ہے۔

وگرنہ کون نہیں جانتا کہ بقیع کی طرح ایک بار پھر وھابیت اور آل سعود کربلا ونجف ، کاظمین و سامراء اور شام میں حرم مطہر حضرت زینب وحضرت رقیہ بنت حسین علیہما السلام اور دیگر سب مزارات کو شہید اور خراب کر نے کے درپے تھے۔

اس وقت منبر پر آنے والے افراد کی اوّلین زمہ داری بنتی ہے کہ وہ دشمن کے مقابلے کے لئے مرجعیت و اجتہاد کے مورچے کو مضبوط کریں اسی طرح مرجعیت و اجتھاد کے علمبرداروں کو بھی چاہیے کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کریں جو ملت میں تقسیم اور تفرقے کا باعث بنے۔

ہمارا دشمن انتہائی تجربہ کار، مکار اور خبث باطن میں سر فہرست ہے لہذا ہم سب کو یہ سمجھنا چاہیے کہ  جو بھی ہمیں تقسیم کرنے کی کوشش کرے وہ در اصل  شعوری یا لاشعوری طور پر دشمن کا آلہ کار ہے۔

 تحریر:  ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

وحدت نیوز(آرٹیکل) درد اسی کو ہوتا جس کا کوئی چلا جائے ۔ اور اس سے کہیں زیادہ درد اس وقت ہوتا ہے جب کسی کا کوئی عزیزگم ہوجائےاوراس کی تلاش میں دن رات ایک کردیں اور در در کی ٹھوکریں کھاتے پھریں کہ شاید میرےبیٹے،باپ ،بھائی یا شوہر کا کوئی سراغ مل سکے ۔ لیکن جب آگےسے یہ کہا جائے کہ اپنے پیاروں کو سرد خانوں ،یا تھانوں میں تلاش کرو! ہو سکتا اپنی مراد کو پہنچ جائو ! تویقین کریں یہ سن کر جو دل پر چوٹ لگتی ہے وہ بیان سے باہر ہے۔جب ہر طرف سے امید ٹوٹنے لگے توپھر کچھ صاحبان علم ودانش نے یہی فیصلہ کریں نا! اگر انہیں واپس نہیں کرتےہو، تو ہمیں بھی ان تک پہنچا دو ۔ہو سکتا ہمارے اس عمل سے کسی عمررسیدہ باپ ،ستم رسیدہ ماں،بہن کا بیٹا اور بھائی یا کسی کا سہاگ بچ جائے اور ان کی دعائوں کے ظفیل ہم بھی اپنے رب کے سامنے سرخرو ہو سکیں اور اپنے کریم پروردگار سے یہ کہہ سکیں کہ آج ہم نے اپنی اخلاقی ،قومی اور ملی ذمہ داری نبھائی ہے ۔ تو ہم سب پر رحم فرما ۔ظالمین کو ان کے انجام تک پہنچا!!

کسی نےمجھ سے سوال کیا کہ تحریک آزادی ،تحریک انقلاب ، عوامی تحریک کا تو سنا تھا مگر جیل بھرو تحر یک کا پہلی بار سن رہا ہوں ۔ہوسکتا ہے مجھے اس کا سامنا نہ رہا ہو یا پھر ۔۔۔ جیل بھرو تحریک آخر ہے کیا؟لوگ تو پولیس اور تھانے کا نام سن کے ڈر جاتے ہیں کہ کہیں ان پرپولیس والے بے جا ظلم نہ کریں ،اور تو اور پولیس کی ڈر سے لوگ کسی احتجاج ،ریلی اور تحریک وغیرہ میں شرکت کرنے سے بھی خوف کھاتے ہیں لیکن یہ لوگ جیل بھرو تحریک کا آغاز کر کے خود کو پولیس کے حوالے کر رہے ہیں؟آخر کیوں؟کیا انہیں اپنی زندگی عزیز نہیں ہے؟کیا ان کےبال بچے نہیں ہے؟اور اگر زندگی سب سے پیاری ہے تو زندگی کو خطرے میں ڈال کر یہ سب کچھ کیوں کر رہے ہیں؟ٹھوری دیر سوچنے کے بعدوہ بولے جیل بھرو تحریک کا آغاز اس لئے ہوا ہے تاکہ کسی معصوم بچے کو اس کے باپ کے چہرئے کی زیارت ہوسکے، ستم رسیدہ ماں اور بہن اپنے گم شدہ بیٹے اور بھائی کا دیدار کر سکیں اور عمر رسیدہ باپ اپنے بوڑھاپے کے وقت کےسہارے کا سایہ دیکھ سکے،کاش ہم اس ملک میں پیدا ہی نہ ہوتے توکم از کم ہم اس اذیت سے ہمکنار بھی تو نہ ہوتے ،ٹھیک کہا نا میں نے،،وہ بولے!!اس کی داد رسی کے لئے میرئے پاس سوائے جی جی کےکہنے کو اور کچھ نہ تھا،جب وہ چلے گئے تو میں سوچ میں پڑ گیااور سوچنے لگا کہ اس نے آخر کہا کیا ہے ؟ یقیناًآپ اس بات سے مانوس ہیں کہ ملک عزیز پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا ہے،اس دو قومی نظریے کا فلسفہ بھی تو یہی ہے کہ مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن ہو تاکہ مسلمان اپنے عقیدے کی بنا پر زندگی گزار سکیں،انہیں اپنے طوروطریقے سے زندگی گزارنے کی مکمل آذادی ہو اور جب وطن عزیز اللہ تعالیٰ کے خاص کرم سے وجود میں آیا توانگریزوں اور ہندوؤں کے ظلم سے مجروح اور بے بس مسلمانوں کے قائد، قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے نوزائیدہ مملکت کے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے یہی فرمایا تھا:’’ کہ آپ لوگ آج کے بعد آفیسراور حکمران کی روپ میں اس قوم اور اس ملک میں بسنے والے تمام مسلک ورنگ ونسل کے خدمت گزارہیں،اس ملک کو بچانے کے لئے آپ نے ایک خادم کی سی خدمت انجام دینا ہے‘‘ اور آپ نے یہاں تک فرمایا تھا:’’کہ اس ملک میں بسنے والے لوگوں کے جان اورمال کے آپ محافظ ہے۔‘‘
لیکن افسو س آج اس وطن عزیز پاکستان میں قائداعظم ؒکے فرامین کا مذاق اڑائی جارہا ہے،قائداعظم ؒ کے فرمان کے مطابق کسی بھی شہری کے جان ومال کے ذمہ دا ری سرکاری کرسی پہ بیٹھے ہوئے لو گوں پر عائد ہوتی ہے،ایک عام سپاہی سے لیکر اسٹبلشمنٹ اور وزیر اعظم تک سب کے سب اس ذمہ داری کو انجام تک پہنچانے میں برابر کے شریک ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ چور، لٹیروں اور کرپٹ مافیا نے ملک کو آج اس مقام پر پہنچایا ہے کہ ایک عام شہری اپنے ہی غلاموں کے آگے ہاتھ پھیلائے زندگی کی بھیک مانگ رہا ہے اور یہ لوگ اپنے محسنوں کے خون چوسنے کو جمہوریت کا نام دے رہے ہیں اور ہم ایک ایسی جمہوریت کے ہاتھوں غلام بنے ہوئے ہیں جو اپنے ہی شہریوں کو حفاظت دینے سے بالکل قا صرہےیہی وجہ ہے کہ مسنگ پرسنز کی تعداد آئے روز کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے،اعلی عہداران کوسب معلوم ہے کہ کون کہاں ہے ؟سب کچھ جانتے ہوئےبقول قائداعظم ؒکے قوم کے یہ خادم اعلیٰ عوامی خدمت سے لاتعلق ہیں ہیں ،ان سے مسنگ پرسن کی ریکوری نہ ہو نے سے ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ یا تو اعلی عہداران شہریوں کی گمشدگی میں خود شیریک ہیں یا جان بوجھ کے اس ملت کو تنگ کر رہے ہیں،جناب اعلی اس ملک کو بنانے میں تمام شہریوں کا حصہ ہے اور تمام فرقے کے لوگ اس ملک کو وجود میں لانے کے لئے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے خدارا !اس ملت کے صبر کا مزید امتحان نہ لیں ،اس ملک میں اتنا ہمارابھی حق ہے جتنا تمہارا حق ہے،ملک عزیز پہلے سے ہی عدم تحفظ کا شکار ہے ایسے میں حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ گمشدہ افراد کی ریکوری کو یقینی بنائے تاکہ مسنگ پرسنزکی فیملیز کو ذہنی سکون حاصل ہو اور شہر ی آزادی کے صحیح مفہوم سے آشنا ہو سکیں۔
 

تحریر۔۔۔۔ظہیر کربلائی

وحدت نیوز(آرٹیکل) افراد کے لئے ریاست ماں کا درجہ رکھتی ہے، غیرت مند لوگ اپنی ماں کی طرح ریاست سے محبت اور اس کی حفاظت کرتےہیں، بدقسمتی سے ریاست پاکستان میں چند سالوں سے اس دھرتی کے بیٹے لاپتہ ہونا شروع ہو گئے ہیں،  ان لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد کے بارے میں فی الحال  ٹھیک طور سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

جسٹس(ر)جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم انکوائری کمیشن  کی  اگست2017کی  جاری شدہ رپورٹ کے مطابق کمیشن کے پاس لاپتہ افراد کی مجموعی تعداد 1372 ہے، عوام کی سہولت کے لئے کمیشن نے www.coioed.pk کے نام سے ویب سائٹ بنا دی ہے جس پر کیسوں کی تفصیل اور سماعت کی تاریخوں سمیت دیگر معلومات دستیاب ہیں جبکہ سول سیکرٹریٹ پنجاب لاہور میں کمیشن کا باضابطہ طور پر سب آفس قائم کر دیا گیا ہے اس سب آفس کا رابطہ نمبر042-99210884ہے۔

تاہم دوسری طرف آزاد ذرائع کےمطابق صرف بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد بیس ہزار سے اوپر ہے جبکہ  ملک کے دیگر حصوں سے لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد بھی ہزاروں تک پہنچ چکی ہے۔

ہماری دانست کے مطابق اب ریاستی اداروں کو اس مسئلے کے حل کے لئے اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرنی چایے۔ مثلا بلوچستان کے عوام کو جسمانی طور پر اغوا کرنے کے بجائے ان کےانسانی حقوق ادا کئے جائیں، انہیں وڈیروں کی غلامی اور قبائلی تعصب سے نکالا جائے ، تعلیم اور صحت سمیت رفاہِ عامہ  پر خصوصی توجہ دی جائے ، ان کے عوامی  مطالبات کو  بخوشی قبول کیا جائے اور غلط فہمیوں کو ختم کر کے انہیں قومی دھارے میں لایا جائے۔

 اسی طرح ملک کے دیگر حصوں سے اگر لوگوں کو دہشت گردی کے خوف کی وجہ سے پکڑا گیا ہے تو ہماری عرض یہ ہے کہ دہشت گردی کے سارے مراکز ہماری ایجنسیوں کو پتہ ہیں، بلا شبہ ان پر پابندی لگنی چاہیے اور ریاست کو چاہیے کہ وہ جہاد کے عنوان کو اپنے لئے مخصوص کرے ، کسی بھی مدرسے یا مولوی کو یہ اجازت نہیں دی جانی چاہیے کہ وہ جہاد کا علم بلند کرے۔

اگر حکومت کو یہ ضرورت ہے کہ لوگوں کو جہاد کی تربیت دی جائے تو یہ کام مسلکوں، مسجدوں اور فرقوں سے بالاتر ہوکر  حکومتی مراکز میں ، حکومت کی سرپرستی میں ہونا چاہیے۔

تعلیمی اداروں سے کلاشنکوف کلچر اور شدت پسندی کو ختم کرنے کے لئے ماضی کے این سی سی کے کورس کی طرح کے کورسز لانچ کر کے جوانوں کی درست سمت میں رہنمائی کی جانی چاہیے۔

اسی طرح جن لوگوں کو افغانستان، شام یا کشمیر میں جاکر جہاد کرنے کے شک میں اٹھایا گیا ہے،حکومت کو ماننا چاہیے کہ ان سارے مسائل میں خود حکومت ہی قصور وار ہے۔

ملک میں کسی کو بھی مسلکی ، علاقائی یا لسانی بنیادوں پرہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے،  لیکن ہمارے ہاں ماضی میں حکومت نے ایک مخصوص مسلک کو عسکری تربیت دی اور ان کے لئے بیرونِ ملک جاکر لڑنے کے دروازے کھولے، آج اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ اب حکومتی ادارے انہی لوگوں سے ڈر رہے ہیں۔

اس وقت حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جہاد کے حوالے سے تمام مسالک و مکاتب کے لئے یکساں پالیسی کااعلان کرے ، اور  جو لوگ حکومت کی نئی جہاد پالیسی کو تسلیم کریں اور تعاون کا عہد کریں ، انہیں اغوا اور لاپتہ کرنے کے بجائے ، اُن سے ملک کے دفاع کے لئے استفادہ کیا جائے۔

ماضی میں جب حکومت خودایک مخصوص فرقے کے  لوگوں کو عقیدے کی بنیاد پر مسلح کرتی تھی تو اس سے خود بخود دوسرے مسالک کے لوگوں کو بھی مسلح ہونے کی ترغیب ملتی تھی۔ یہ اسی ترغیب کا نتیجہ ہے کہ آج عقیدے کی جنگ میں پاکستانی جوان ہر محاز پر نظر آتے ہیں۔

یہ حکومت کی ہی بنائی ہوئی پالیسی ہے لہذا اب حکومت کو ہی اس کا مثبت حل سوچنا چاہیے۔اس وقت لاپتہ افراد کے لواحقین نے جیلیں بھرو تحریک کا آغاز کر رکھا ہے، سرکاری اداروں کے لئے یہ سنہری موقع ہے کہ وہ ان افراد کے حوالے سے ان کے لواحقین کو اپنے اعتماد میں لیں اور  ملکی سلامتی کے لئے ان سے عہد لے کر ان کے پیاروں کو ان کے حوالے کریں۔

 یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ افراد کے لئے ریاست ماں کا درجہ رکھتی ہے،لہذا جولوگ اپنے وطن کے وفادار ہیں انہیں عقوبت خانوں سے رہائی ملنی چاہیے۔یہ وقت کی آواز، انسانی ضمیر کا فیصلہ  اور یہی ریاست کے بہترین مفاد میں ہے۔


تحریر۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) دہشت گردی کیا ہے ؟ آج تک اس کی کوئی متفقہ علمی تعریف سامنے نہیں آسکی ۔ ہر ایک کی نظر میں اس کی مختلف تشریح ہو سکتی ہے ۔ میری نظر میں جب کوئی فرد ، گروہ ، ادارہ یا حکومت دوسروں کے بنیادی حقوق کا احترام کئے بغیر ان پر ماؤرائے آئین اپنی مرضی ، سوچ ، نظریہ ، پالیسی یا عقیدہ دھونس دھمکی یا تشدد کے ذریعے زبردستی مسلط کرنا چاہے تو اسے دہشت گردی کہتے ہیں ۔دہشت گردی کی تاریخ اور پس منظر میں جائیں تو کتابوں پر کتابیں لکھنے کی ضرورت ہوگی ۔ مختصریہ کہ دہشت گردی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود انسانی تاریخ ۔دہشت گردی کے پیچھے کوئی بھی سوچ یا نظریہ کا فرما ہوسکتا ہے ۔ عقاید کی ترویج کے نام پر ہونے والے جہاد ، فاشزم کی آڑ میں ہونے والی جنگیں ، نظریاتی تبدیلی کے نام پر برپا ہونے والے انقلابات اور کشور کشائی اور فتوحات کے نام پر دنیا بھر کے حملہ آوراور جنگجوؤں کی قتل و غارت ، لوٹ مار ، آبرو ریزی اور سروں کے مینار بنائے جانے کے عمل ، طاقت کے حصول یا معاشی اور سیاسی اثرو رسوخ حاصل کرنے کی خاطر لڑی جانے والی براہ راست یا بالواسطہ جنگوں کو میرے خیال میں دہشت گردی کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا ،یہ الگ بات ہے کہ کسی مخصوص نظریے کا حامی اپنے مخالفین کی گردنیں کاٹنے اور انہیں سولیوں پر لٹکانے کے عمل کو حق بجانب ، جہاد یا انقلاب کا نام دیتے ہیں جبکہ انکا یہی جہاد اور احسن عمل ان کے مخالفین کی نظر میں غیر انسانی عمل اور دہشت گردی کے سوا کوئی اور مفہوم نہیں رکھتا ۔

دنیا کی جدید تاریخ میں دونوں عالمی جنگوں میں کروڑوں انسانی جانوں کے ضیاع اور اوران کے بعد کئی دہائیوں تک جاری رہنے والی سرد جنگ نے نہ صرف پوری دنیا کو دہشت گردی کی لپیٹ میں لئے رکھا بلکہ اس سرد جنگ کے بظاہر خاتمے کے باوجود آج بھی دنیا کے اکثر ممالک دونوں عالمی طاقتوں کی لگائی ہوئی آگ میں جھلس رہے ہیں ۔ہمارا اپنا خطہ بھی گزشتہ تقریباَ کئی دہائیوں سے ایسی ہی دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے ۔اس دہشت گردی کی مختلف وجوہات اور محرکات ہو سکتےہیں لیکن میرے خیال میں کئی دہائیوں سے جاری اس دہشت گردی کے پیچھے ان بین الاقوامی اور علاقائی طاقتوں کا زیادہ ہاتھ ہے جو خطے میں اپنی من پسند پالیسیاں نا فذ کرنا چاہتی ہیں ۔

 اسی کی دہائی میں وطن عزیز میں برپا ہونے والےغیر معمولی حالات ( انہیں آپ چاہیں جو بھی نام دیں) دراصل سوشلزم کے علمبردار سوویت یونین اور سرمایہ دار ممالک کے سرخیل امریکہ کے درمیان جاری کشمکش کا نتیجہ تھے جنہوں نے پورے خطے کو جنگ و جدل اور ناآرامی کے ایک ایسے دلدل میں دھکیل دیا جس سے یہاں کی عوام لاکھ کوششوں کے باوجود ابھی تک نکلے پر قادر نہیں ہوسکی ۔ اس دوران پاکستان اور افغانستان میں جس ترتیب اور مختصر وقفوں سے تبدیلیاں رونماء ہوئیں وہ بلا شک و شبہہ ان دو عالمی طاقتوں کی باہمی چپقلش کا شاخسانہ تھیں ۔ جن کے نتیجے میں لاکھوں افراد کی زندگیاں قربان ہوئیں اور کروڑوں لوگ اپنی خاک اور گھربار چھوڑ کر غیر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ۔ اسی قتل و غارت اور مہاجرت کا نتیجہ تھا کہ ان جنگ زدہ انسانوں کی ایک پوری نسل تعلیم اور بہتر روزگار سے محروم رہی جسے بعد میں مختلف طاقتوں نے بطور Tool اپنے مفادات کی بھٹی میں جھونک دیا ۔

اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ افغانستان میں سوویت حمایت یافتہ پی ڈی پی اے کی حکومت کو ناکام بنانے اور سوویت یونین کو زک پہنچانے کے لئے امریکہ نے دنیا بھر سے دہشت گردوں کو جہاد کے نام پرافغانستان اور پاکستان کی سرزمین پر آباد کیا جوعرب ممالک کے پیسے اور امریکی و پاکستانی اسلحے کے زور پر لوگوں کی لاشیں گراتے رہے ۔ اس امریکی جہاد کے دوران جہاں ایک طے شدہ منصوبے کے تحت خطے میں مذہبی شدت پسندی کو فروغ دیا گیا وہاںعرب شیوخ نے داخلی چپقلش اور امت مسلمہ کی امامت حاصل کرنے کی دوڑ نے یہاں فرقہ واریت کو بھی اپنے عروج پر پہنچادیا ۔اور اس طرح جہادیوں کو پال پوس کر پاکستان اور افغانستان سمیت وسط ایشیاء اور مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں پھیلا کر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت امریکہ، اسرائیل اور اس کے اتحادیوں نے اسلامی ممالک کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونک دیا ۔

یہ ایک اتفاق ہرگز نہیں تھا ،جب پاکستان اور افغانستان میں عرب جہادیوں کی آمد شروع ہو گئی تھی جنکا مقصد بظاہر سوویت یونین کے خلاف جہاد میں حصہ لینا تھا ۔ اس دوران عرب ممالک کی سرپرستی میں نہ صرف پورے پاکستان میں دینی مدرسوں کے نام پر جہادیوں کی تربیت گاہوں کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا بلکہ امریکہ اور عربوں نے ملکر علاقے میں اسلامی انقلاب کے اثرات کے خاتمے کے لئے مختلف فرقہ پرست گروہوں کو نوازنے کی بھی ابتدا کی۔اور یہی وہ دور تھا جب پاکستان کی سرزمین پر فرقہ واریت کی کشمکش اور پراکسی جنگ کا آغاز ہوا ۔

اکتوبر 1985 کا مہینہ پاکستان کوعملی طور فرقہ واریت کی آگ میں جھونکنے کا نقطہ آغاز تھا جس ماہ جھنگ میں سپاہ صحابہ نامی تنظیم کی داغ بیل ڈالی گئی ۔ بعد میں اسں تنظیم کے بطن سے پھوٹنے والے دیگر گروہوں (لشکر جھنگوی وغیرہ)نے مل کر پنجاب میں قتل و غارت کا جو سلسلہ شروع کیا اس نےپنجاب پر حاکم شریف خاندان کو ایک ایسے معاہدے پر مجبور کردیا جس کا بظاہر مقصد پنجاب کو اس فرقہ وارانہ دہشت گردی سے نجات دلانا تھا ۔لیکن باطن میں کچھ اور منصوبے اپنے اندر سموئے ہو ئے تھی ۔ اس معاہدے کے بعد نہ صرف وہاں کی سنّی فرقہ پرست تنظیمیں نواز شریف کی اتحادی بن گئیں بلکہ انہوں نے پنجاب سے کوچ کرکے اپنا مرکز بلوچستان میں منتقل کردیا ۔

ان فرقہ پرست گروہوں نے اپنی کاروائیوں کے لئے پہلے پہل آر سی ڈی شاہراہ پر واقع بلوچ علاقے مستونگ کا انتخاب کیا جو پاکستانی اور ایران کو ملانے والی معروف بین الاقوامی شاہراہ پر واقع ہے ،یہاں اپنے پاؤں جمانے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے انہی خاندانوں کا صفایا کرنا شروع کیا جو اپنا مسلک ترک کر کے شیعہ ہوچکے تھے ۔ یہ ان لوگوں کے لئے ایک واضح پیغام تھا جو ان کے خیال میں شیعہ مسلک اختیار کرکے علاقے میںشیعہ اثرو نفوذ کو بڑھاوا دینے کا سبب بن رہے تھے ۔اور دہشت گردوں کی نظر میں یہ سب کچھ (مسلک کی تبدیلی ) ہزارہ برادری کی وجہ سے ہو رہا تھا ۔ اور دہشت گردوں کو ایجنسیوں نے جو غلط رپورٹ دی اسی کے تناظر میں وہ اپنا کام کرنے لگے دوسرا اس ہزارہ ٹارگٹ کلنگ میں امریکہ ، اسرائیل ،عرب ، افغانستان اورہندوستان کی خفیہ ایجنسیاں لوکل دہشت گردوں کے ذریعے بلوچستان میں فعال تھیں اور مقصد صرف اور صرف بلوچستان بالعموم اور ہزارہ بالخصوص تھا ۔ یہ بھی عالمی جنایتکار طاقتوں کا ایک فتنہ ہے جو خطے میں پھیلا رہیں۔
    
 تب سے لیکر اب تک ہزارہ قوم کی نشل کشی (ٹارگٹ کلنگ) کے زمرجتنے دہشت گرد حملے ہوئے اور جس طرح ہزارہ قوم کو نشانہ بنایا گیا ۔وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ یاد رہے کہ خطے میںموجود دہشت گردوں کی تکفیری سوچ کےحامل دہشت گردوں کی مالی معاونت کا تسلسل، جنہیں میڈیا رپورٹس کے مطابق آل سعود اور دیگر خلیجی ملکوں سے سالانہ کروڑوں ڈالر ملتے رہے ہیں ۔ دوسری طرف الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ایسی بھی رپورٹس شائع ہوتی رہی ہیں جن کے مطابق ہندوستان بھی پاکستان کے اندر بعض ایسے دہشت گرد گرہوں کی سرپرستی کر رہا ہے جوبڑی تعداد میں مخالفین کے قتل میں ملوث ہیں ۔ جہاں تک حکومتی اور ریاستی اداروں کا تعلق ہے تو انہوں نے جس طرح بے گناہ لوگوں کے قتل عام سے متعلق اپنی آنکھیں بند رکھی ہیں اسے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا ہر گز مشکل نہیں کہ انہوں نے پنجاب کو بچانے اور بوقت ضرورت ان گروہوں سے ماوارائے قانون کام لینے کی خاطر ان کے سروں پر دست شفقت رکھ کران کا رخ بلوچستان بالخصوص ہزارہ قوم کی طرف موڑ دیا گیا۔

یہاں اس بات کا تذکرہ بھی لازم ہے کہ اگست 2006 میں نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد ہزارہ قوم کے خلاف دہشت گردی میں جس تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا اسے اتفاق ہر گز نہیں کہا جاسکتا ۔یاد رہے نواب بگٹی کے قتل کے بعد نہ صرف تیزی آئی بلکہ صوبے میں آباد سیٹلرز کے قتل میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا ۔ اسی دوران بلوچستان کے آئی جی پولیس کا وہ بیان شاید اکثر لوگوں کی نظروں سے گزرا ہوگا جس میں انہوں نے ٹارگٹ کلنک کا علاج ٹارگٹ کلنگ کو قرار دیا تھا ۔ جس کے بعد نہ صرف بلوچوں کے اغوا اور ٹارکلنگ میں تیزی آئی بلکہ ہزارہ قوم کے خلاف دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ۔

 ہزارہ قوم کے بے رحمانہ قتل عام کا ایک مقصد بلوچوں کی تحریک آزادی سے دنیا کی توجہ ہٹانا ہے جس میں مقتدر قوتیں کافی حد تک کامیاب رہیں ۔اور اس کے پیچھے بھارت نواز بلوچوں کا ہاتھ رہا ہے ۔
 
 یہ محض ایک الزام نہیں بلکہ دسمبر 2013 میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار کا ایک بیان سامنے آیا تھا جس کے مطابق حکومت نے ان "محب الوطن” اور "عوام دوست” گروہوں کو غیر مسلح کرنے کا اعلان کیا تھا جنہیں انکے بقول اسلم رئیسانی کی حکومت کے دوران تشکیل دیا گیا تھا اور جو وسیع پیمانے پر صوبے میں دہشت گردی اور قتل و غارت میں ملوث تھے ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق یہ گروہ نہ صرف بلوچوں کے اغوا اور قتل عام میں ملوث تھے بلکہ ہزارہ قوم کے خلاف ہونے دہشت گردی کے واقعات میں بھی انہی گروہوں کا ہاتھ تھا ۔

کچھ لوگ اس دہشت گردی کے پیچھے ان بین الاقوامی قوتوں کا ہاتھ تلاش کرتے ہیں جن کی نظریں بلوچستان کے جغرافیائی محل وقوع اور یہاں کی معدنیات پر ٹکی ہیں ۔میرا سوال یہ ہے کہ کیا معصوم ہزارہ بچّوں ، عورتوں ، بو ڑھوں اور جوانوں کا قتل عام صرف اس لئے کیا جا رہا ہے تاکہ بلوچستان کے خزانوں کی کنجی حاصل کی جا سکیں ؟میری ناقص معلومات کے مطابق بلوچستان سے زیادہ معدنیات اور قدرتی وسائل تو مڈل ایسٹ اور سنٹرل ایشیائی ممالک میں ہیں ۔ لہٰذا ان کا گھیراؤ کرنے کے بجائے ان پر براہ راست کمندیں کیوں نہیں ڈالی جاتیں ؟ یہ  بات سمجھ سے بالاتر ہے ۔ اورکیا وجہ ہے کہ ان پر ڈورے ڈالنے کی کوئی کوشش نہیں کرتا ۔ بلکہ ان سے پینگیں بڑھائی جاتی ہیں ؟

لہٰذا میری نظر میں خطے با لخصوص پاکستان میں جاری دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ علاقائی طاقتوں کی کشمکش بالخصوص عرب نوازتکفیری دہشت گردوںاور را کے علاقے میں موجود ایجنٹوں کو قرار دیا جاسکتا ہے جو اپنی تھیو کریٹک اقتدار کو سنبھالادینے اور اپنے اثرو رسوخ میں اضافے کے لئے خطے کو فرقہ وارانہ جنگ میں مبتلا رکھے ہوئے ہیں ۔ دوسری طرف پاکستانی حکمرانوں اور ریاستی اداروں کی عوام کے مسائل سے چشم پوشی ، عوام کی جان و مال کے تحفظ میں مجرمانہ غفلت ۔، ریاستی اداروں کی آپس کی لڑائی بلکہ خارجی طاقتوں کے آلہ کار کی حیثیت سے ان کے ماورائے آئین اقدامات بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری اس دہشت گردی کی وجوہات ہو سکتی ہیں ۔اس کے علاوہ اس دہشت گردی اور قتل و غارت میں کچھ مقامی گروہ اورلینڈ مافیا کے کچھ حلقے بھی ملوث ہو سکتے ہیں جو بقول ہزارہ گی ” آؤ رہ غٹول دیدہ مائی خود خو بّر مونہ ” یعنی جو موقع محل دیکھ کے اپنا کام نکالتے ہیں ۔اب صورت حال یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے بیگانہ ہوکر اپنی حدود میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں ۔وہ اونچی دیواروں اور ناکوں کے درمیان زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔کاروبار ، تعلیم اور ملازمت کے دروازے ان پر مسدود ہو چکے ہیں اور وہ بہتر زندگی کی تلاش میں اپنا گھر بار ترک کرنے اور مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں ۔اب رہا یہ سوال کہ دہشت گردی سے چھٹکارا کیسے پایا جا سکتا ہے ؟ تو میرے خیال میں یہ سوال جتنا سیدھا ہے اسکا جواب اتنا ہی ٹیڑھا ۔

اگر ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ فرقہ واریت کی آڑ میں ہم پر مسلط کی گئی اس دہشت گردی کے پیچھے کچھ بین الاقوامی یا طاقتور علاقائی قوتیں ملوث ہیں جنہیں کچھ داخلی قوتوں اور اداروں کی پشت پناہی حاصل ہے ۔ تو ہمیں اس سوال کا جواب بھی ڈھونڈنا پڑے گا کہ ہمارے اندر ان قوتوں سے لڑنے کی کتنی سکت ہے ؟کیا اگر ہم سارے اختلافات بھلا کر ایک ہو جائیں (جو میری نظر میں ناممکن اور غیر فطری سوچ ہے) تو کیا ہم اس دہشت گردی سے نجات حاصل کر سکتے ہیں ؟کیا ہمآل سعود،افغانستان اورانڈیا سمیت تمام علاقائی یا بین الاقوامی کھلاڑیوں کو اس بات پر آمادہ کر سکتے ہیں کہ خدا کے لئے وہ ہماری جان بخش دیں ؟کیا ہم بلوچوں سے اس بات کا تقاضا کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی جدو جہد ترک کرکے ، صبر شکر کرکے بیٹھ جائیں؟یا پھر کیا ہم اجتماعی مہاجرت کر سکتے ہیں ؟اگر نہیں تو ہمیں ہر حال میں باعزت طریقے سے زندہ رہنے کا گُر اپنانا ہوگا ۔

ہمیں اپنی صفیں ٹھیک کرنی ہونگیں اور (تمام تر اختلافات کے باوجود جو ایک فطری عمل ہے )ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے بجائے ایک دوسرے کو حوصلہ دینا ہوگا ۔ہمیں دوسروں کے نظریات اور عقاید کا اتنا ہی احترام کرنا ہوگا جتنا ہم اپنے نظریات کا کرتے ہیں ۔معاشرے میں رواداری اور برداشت کو فروغ دینا ہوگا اور اس کی ابتدا اپنے آپ سے کرنی ہوگی ۔دہشت گردی اور قتل عام سے ڈر کر خاموشی اختیار کرنے کے بجائے اس ظلم کے خلاف ہرفورم پرآواز بلند کرکے ہمیں اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دینا ہوگا ۔باہمی اختلافات اور گروہی ،قبائلی اختلافات کا شکار ہیں ۔ہمیں اپنے ہمسایوں سے تعلقات بہتر بنانے ہو نگے اورایک دوسرے کے دکھ درد میں عملاَ شریک ہونا ہوگا ۔ہمیں ہر حال میں مذہبی شدت پسندی اور تکفیری مائنڈ سیٹ کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی اور ایسے عناصر کا راستہ روکنا ہوگا جو معاشرے کو منافرت اور عدم برداشت کی طرف لے جا رہے ہیں ۔مجھے امیدہے کہ اگر ہم یہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہم بے شک دہشت گردی کو جڑ سے ختم نہ کر سکیں لیکن ایک ایسی سوچ کی بنیاد ضرور ڈال سکتے ہیں جو ہماری نئی نسل کو دہشت گردی سے پاک ماحول فراہم کرنے میں معاون ثابت ہواور یہ وہی سوچ ہےجس کی سفارش قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اور علامہ اقبال ؒ کے فرمودات میں ملتی ہے ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے ہم ایک ہو جائیں اور قوم و ملت کی خاطر اپنا کرادار ادا کر سکیں ۔

اللہ تعالیٰ نےمجلس وحدت مسلمین پاکستان کی شکل میں ہمیں ایک قومی پلیٹ فارم دیا اور علامہ راجہ ناصر عباس جعفری جیسے بہادر انسان کا ساتھ دیا ہے جس نے قوم میں مایوسی کے بت کو توڑا ہے ۔ہمیںمخلص ہوکر اس تنظیم کاساتھ دینا اور علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے ہاتھ مضبوط کرنے ہونگے ۔ جس نے ہمیں ہمت دی کہ آج بھی ہم میں وہ رمق موجود ہے ۔ جس سے ہم دہشت گردی جیسی ناسور سے چھٹکارہ حاصل کرسکتے ہیں مگر آپ نے دیکھا کہ مسنگ پرسن کے معاملے پر خاموشی طاری تھی ۔ ہر ایک ایک دوسرے کی طرف دیکھتا اور سر جھکا لیتا ۔ اب جب مجلس وحدت مسلمین کے غیور دوستوں نے راجہ صاحب کی ہم آہنگی سے جیل بھرو تحریک کا آغاز کیا ہے تو کئی برادران نے اپنے تیروں کا رخ مجلس کے راہنمائوں کی جانب پھیر دیا ۔ جبکہ دیکھا جائے تو وہ دس بیس سال اور بھی گزر جاتے اور مجلس یہ اقدام بھی نہ اٹھاتی تو ان برادران نے چپ کا روزہ تو رکھا ہی ہوا تھا ۔ بہرحالان کے اس اقدام سے نہ مجلس کو کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ ہی علامہ راجہ ناصر عباس یا مجلس کے دوسرے راہنمائوں کو ۔تاریخ میں ایسے کئی کرداراپنی موجودگی کا اظہار اسی طرح کرتے آئے ہیں ۔

اگر ہم نے وحدت کو اپنا لیا اور ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے ہو گئے تو یقین کرلیں وہ دن دور نہیں جب ہم ایک باوقار قوم کی طرح اس وطن میں جی سکیںگے اور اپنا رول ادا کر سکیں گے ۔ ان شاء اللہ ۔ اور اگر ایسا نہیں کریں گے تو آئے دن ہزارہ برادری کی طرح ہم بھی اس ٹارگٹ کلنگ کے لئے تیار رہیں ۔ویسے تو پاکستان پورا دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے مگر بلوچستان بالعموم اور ہزارہ بالخصوص اس دہشت گردی کا آئے روز شکار ہیں ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ بحق چہاردہ معصومین ؑ ان تمام شہداء ملت کو جنہوں نےوطن عزیز اور ملت نجیب و شریف کے لئے اپنی جانیں نچھاور کیں ،انہیں اعلیٰ علیّن میں جگہ عطا فرمائے ۔

 آخر میں ہمارے لاکھوں کروڑوں سلام ہوں ان شہداء پر، جن کے خون سے یہ چمن لہلہا رہا ہے۔ انہوں نے اپنی جانوں نے نذرانے دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ دشمن چاہے ان کے سروں سے فٹبال کھیلے، ان کے گلے کاٹے، انہیں ناپاک فوج کہے، ان کے خلاف کفر کے فتوے دے اور نئی دہلی سے لے کر تل ابیب تک پورا عالم کفر ایک ہو جائے، اس کے باوجود پاک فوج کے جوان کبھی بھی ارض وطن پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ ان شاء اللہ ۔

نصرمن اللہ و فتح قریب

تحریر : ظہیر کربلائی

وحدت نیوز(آرٹیکل) کربلا وہ عظیم درسگاہ ہے جہاں ہر انسان کے لئے جو جس مکتب فکر سے بھی تعلق رکھتا ہو اور جس نوعیت کی ہو درس ملتا ہے  یہاں تک غیرمسلم ہندو ،زرتشتی،مسیحی بھی کربلا ہی سے درس لے کر اپنے اہداف کو پہنچے ہیں ،گاندی اپنے انقلاب کو حسین ابن علی علیہ السلام کی مرہون منت سمجھتا ہے یہ سب اس لئے کہ حسین ابن علی علیہ السلام  نے کربلا کے ریگستان میں حق اور حقانیت کو مقام محمود تک پہنچایا اور قیامت تک ظلم اور ظالم کو رسوا کر دیا اگرچہ مادی اور ظاہری آنکھوں  کے سامنے حسین ابن علی علیہ السلام کو کربلا میں شکست ہوئی لیکن حقیقت میں اور آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹ جانے والوں کی نظر میں حسین ابن علی علیہ السلام کامیاب و سرفراز رہے ۔کربلا  کے ریگستان میں جب مردوں نے اپنےوظیفے پر عمل کیا تو وہاں  آخری باری علی ابن ابی طالب علیہ السلام  کی شیر دل بیٹیوں کی آئیں اس لئے کہ واقعہ کربلا کو دنیا تک پہنچانا زینب و ام کلثوم علیہما السلام کی ذمہ داری تھی  علی علیہ السلام  کی شیردل بیٹی زینب سلام اللہ علیہا  نے اپنے آنکھوں سےبھائی کے سر قلم ہوتے دیکھا لیکن ذرہ برابر بھی اپنے وظیفہ میں کوتاہی نہیں  کی ،اسی لئے کربلا ، کربلا کےمیدان تک محدود نہیں رہے بلکہ قصر ظالم میں پہلی مرتبہ زینب کبری علیہا السلام نے ظالم کوشکست دی اور لوگوں تک اپنے   خطبوں  کے ذریعے پیغام کربلا کو پہنچایا اور کربلا  قیامت تک سرخرو ہو گئے شاعرکہتا ہے:
حدیث عشق دوباب است کربلا و دمشق
یکی حسین رقم کرد  و  دیگری  زینب

عشق حقیقی کے یہ کردار دوافراد نے انجام دیے ایک حسین ابن علی علیہ السلام  نے دوسرا علی علیہ السلام  کی بہادور بیٹی زینب کبری  علیہا السلام نے اگر کربلا میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا  کا کردار نہیں ہوتا تو عشق حقیقی کا ایک باب تکمیل تک نہیں پہنچ پاتا اور کربلا کربلا ہی میں دفن ہو جاتی۔عصر عاشور جب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے دیکھا کہ امام حسین علیہ ا لسلام خاک کربلا پر گرے ہوئے ہیں اور دشمنان دین نے آپ کے جسم مجروح کو گھیرے میں لیا ہوا اور آپ کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں تو آپ خیمے سے باہر آئیں اور ابن سعد سے مخاطب ہوکر فرمایا:{يابن سَعد! أَیُقتَلُ اَبُو عبد اللہ ِ وَأَنتَ تَنظُرُ اِلَيہِ؟۔ (ترجمہ: اے سعد کا بیٹا! کیا ابو عبد اللہ (امام حسین(علیہ السلام)) کو قتل کیا جارہا ہے اور تو تماشا دیکھ رہا ہے!)۔1۔ ابن سعد خاموش رہا اور زینب کبری سلام اللہ علیہا   نے بآواز بلند پکار کر کہا: "وا اَخاہُ وا سَیِّداہُ وا اہْلِ بَیْتاہْ ، لَیْتَ السَّماءُ اِنْطَبَقَتْ عَلَی الْاَرضِ وَ لَیْتَ الْجِبالُ تَدَکْدَکَتْ عَلَی السَّہْل} (: آہ میرے بھائی! آہ میرے سید و سرور! آہ اے خاندان پیغمبر(ص)! کاش آسمان زمین پر گرتا اور کا پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر صحراؤں پر گرجاتے)۔2حضرت زینب سلام اللہ علیہا   نے یہ جملے ادا کرکے تحریک کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا۔ آپ اپنے بھائی کی بالین پر پہنچیں اور آسمان کی طرف دیکھ کر بارگاہ رب متعال میں عرض گزار ہوئیں: خدایا! یہ قربانی ہم سے قبول فرما!3۔ آپ نے اس کے بعد صحرا میں شہداء کی شام غریبان کو دل سوز الفاظ اور جملات اور عزیزوں کی عزاداری اور یتیموں کی تیمارداری نیز نماز شب اور بارگاہ پروردگار میں راز و نیاز و مناجات کے ساتھ، بپا کردی اور اس غم بھری رات کو صبح تک پہنچایا۔عصر عاشور بڑا حساس اور نہایت سخت وقت تھا عصر عاشور کے بعد تین  بنیادی ذمہ داریاں  زینب سلام اللہ علیہا کے ذمے تھیں ۔

1۔وقت کے امام کی حفاظت
2۔عورتوں اور یتیم بچوں کی حفاظت اور نظارت کاروان حسینی
3۔پیغا  م حسینی کو پہنچانا اور اسکی دفاع کرنا ۔

1۔امام وقت کی حفاظت:
آپؑ نے کئی مواقع پر امام سجاد علیہ السلام کی جان بچائی اور دشمنوں کے شر سے اس آفتاب امامت کو غروب ہونے سے بچایا ۔جب امام حسین علیہ السلام نے شہادت سے قبل صدائے استغاثہ بلند کیا تو سید سجاد علیہ السلام بستر بیمار سے اٹھے اور ہاتھ میں تلوار لے کر عصا کے سہارے بابا کی مدد کے لئے خیمے سے نکلے تو امام حسین علیہ السلام  نے بہن سے خطاب ہو کر فرمایا :بہن  میرے عزیز کو سنبھالو کہیں دنیا نسل محمدی سے خالی نہ ہو جائے ۔حمید ابن مسلم روایت کرتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ جب  شمر نے سید سجاد علیہ السلام کو قتل کرنا چاہا تو زینب بنت علی بیمار کربلا پر گر گئیں  اور کہا خدا کی قسم جب تک میں قتل نہ ہو جاوں میں اسے قتل ہونے نہیں دوں گی۔جب اسیروں کا قافلہ ابن زیاد کے دربار میں داخل ہو ا تو امام سجاد علیہ السلام اور ابن زیاد کے درمیان گفتگو ہوئی تو اس بدبخت نے امام سجاد علیہ السلام کو قتل کرنا چاہا تو علی کی شیر دل بیٹی نے سید سجاد علیہ السلام  کو اپنے حلقے میں لیا اور اس سے مخاطب ہو کر فرمایا :اے ابن زیاد بس کر جتنے خون تم نے بہایا ہے کیا وہ کافی نہیں ہے ؟خدا کی قسم میں ان کو قتل ہونے نہیں دوں گی یہاں تک تومجھے قتل نہ کرے ۔

2۔ اسیروں کی سرپرستی :
جب دشمنوں نے خیام اہل بیت علیہم السلام  پر حملہ کیا یہاں تک کہ فاطمہ بنت حسین سلام اللہ علیہا کے کانوں کے گوشوارے بھی چھین لئے گئے اور اس بچی پر خوف سے غش طاری ہوئی زینب کبری سلام اللہ علیہا نے بچی کے سر کو گود میں رکھ کر ہوش میں لائی اس وقت بچی نے پوچھا کوئی چادر نہیں تا کہ سر کو چھپا لوں تو زینب سلام اللہ علیہا نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا تیری پھوپھی کے سرپر بھی چادر نہیں رہی ہے ۔اسی طرح کوفہ و شام کے سفرمیں اسیروں کو کھانا بہت کم دیتے تھے تو زینب کبری سلام اللہ علیہا اپنے حصے کو محفوظ رکھ دیتی اور جب بچے بھوک کی شکایت کرتے تو ان کو دیتی تھیں اسی وجہ سے بعض اوقات کھڑے ہو کر نماز بھی نہیں پڑھ سکتی تھیں۔

3۔پیغام عاشورا کی تبلیغ اور دفاع:
آپ ؑمناسب مواقع پر عاشورا کے پیغام کو پہنچاتیں رہیں اور مردہ ضمیروں کو جنجوڑتی رہی اور سب کو حقیقت سے آگاہ کرتیں رہیں۔  اس حوالے سے آپ نے تین کام انجام دئیے:الف۔اہل بیت علیہم السلام کا تعارف ۔ب۔دشمنان اہل البیت علیہم السلام کی تذلیل ۔ج۔کوفہ والوں کی بےوفائی اور خیانتوں کی مذمت، ان تین کاموں کو آپ نے تین وسیلوں کے ذریعے انجام دئیے 1۔خطبات کے ذریعے 2۔ شک و شبھات کو رفع کرتے ہوئے 3 ۔بحث و مباحثہ کے ذریعے۔

جب قافلہ اسراء کو فہ پہنچا تو تماشائی جمع تھے راوی نقل کرتا ہےکہ میں نے دیکھا کہ زینب کبری سلام اللہ علیہا اس طرح خطبے دے رہی تھی گویا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کوفے میں خطبہ دے رہا ہے ۔آپ خطبہ دیتی جارہی تھی اور فرماتی تھیں : وائے ہو تم  پر آیا تم لوگ جانتے ہو کہ تم نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جگر گوشوں کو کس طرح شہید کیا؟کونسا عہد تم لوگوں نے توڑاا اور کن خواتین کو تم لوگ بازاروں میں لے آئے ہو ؟کس حرمت کو تم نے توڑ دیا ہے ؟نزدیک ہے کہ آسمان لوگوں کے قدموں سے پھٹ جائے اور زمین میں شگاف پڑ جائے پہاڑ ریزہ ریزی ہوجائےاور زمین بکھر جائے تمھیں جو مہلت ملی ہے اس سے مغرور نہ ہو چونکہ خدا کو سزا دینے میں جلدی نہیں انتقام کا وقت آجائے گا۔آپ ؑنے ایسا دندان شکن تاریخی خطبے دئے کہ روای کہتا ہے : لوگ حیرانی اور پریشانی کے عالم میں ہاتھوں کو دانتوں سے کاٹ رہے تھے گویا حشر کا سماں ہو روای کہتا ہے : ایک بوڑھا ہاتھوں کو آسمانوں کی طرف بلند کرتے ہوئے یہ کہ رہا تھا آپ کے بزرگان بہترین بزرگان اور عورتیں بہترین عورتین ہیں اور جوان بہترین جوان ہیں آپ کا فضل بہت عظیم ہے ۔ اسی طرح ابن زیاد کے دربار میں اپنا تعارف کراتے ہوئے سیدۃ زینب سلام اللہ علیہا فرماتی ہے:تمام تعریفیں خداوند متعال کے لئے جس نے ہمیں اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے شرافت ووکرامت سے نوازا اور  ہمیں ہر طرح کے رجس سے پاک رکھا تم فاسق اور رسوا ہو اور فاسق جھوٹ بولتا ہے ۔جب ابن زیاد نے پوچھا :آپ اپنے بھائی کے بارے میں خدا کے برتاو کو کیسے پایا ؟علی کی شیر دل بیٹی نے فرمایا :{ما رائیت الا جمیلا}  میں نے جو بھی دیکھا اچھا دیکھا ،قیامت کے دن دیکھ لینا کہ کون کامیاب و سرفراز ہو گا اور کون ناکام و بد بخت۔

بُشربن خُزیم اسدی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے خطبے کے بارے میں کہتا ہے:اس دن میں زینب بنت علی سلام اللہ علیہا کو دیکھ رہا تھا؛ خدا کی قسم میں نے کسی کو خطابت میں ان کی طرح باصلاحیت نہیں دیکھا؛ گویا امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کی زبان سے بول رہی تھیں۔ آپ ؑ نے لوگوں کو جھاڑا اور فرمایا: "خاموش ہوجاؤ"، تو نہ صرف لوگوں کا وہ ہجوم خاموش ہوا بلکہ اونٹوں کی گھنٹیوں کی آواز آنا بھی بند ہوگئی۔4۔حضرت زینب کا خطاب اختتام پذیر ہوا مگر اس خطاب نے کوفہ جوش و جذبے کی کیفیت سے دوچار کردیا تھا اور لوگوں کی نفسیاتی کیفیت بدل گئی تھی۔ راوی کہتا ہے: کہ علی علیہ السلام کی بیٹی کے خطبے نے کوفیوں کو حیرت زدہ کردیا تھا اور لوگ حیرت سے انگشت بدندان تھے۔خطبے کے بعد شہر میں [یزیدی] حکومت کے خلاف عوام بغاوت محسوس ہونے لگی چنانچہ لشکر کے سپہ سالار نے ظالمین کے خلاف انقلاب کا سد باب کرنے کے لئے روانہ کیا۔5۔حضرت زینب سلام اللہ علیہا دیگر اسیروں کے ہمراہ دارالامارہ میں داخل ہوئیں اور وہاں کوفہ کے [یزیدی حکمران] عبید اللہ بن زياد کے ساتھ مناظرہ کیا۔6۔حضرت زینب(س) کی تقریر نے عوام پر گہرے اثرات مرتب کئے اور خاندان اموی کو رسوا کردیا۔حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے یزید بن معاویہ سے مخاطب ہوکر فرمایا: تو جو بھی مکر و حیلہ کرسکتا ہے کرلے، اور [خاندان رسول(ص)] کے خلاف جو بھی سازشین کرسکتا ہے کرلے لیکن یاد رکھنا تو ہمارے ساتھ اپنا روا رکھے ہوئے برتاؤ کا بدنما داغ کبھی بھی تیرے نام سے مٹ نہ سکے گا، اور تعریفیں تمام تر اس اللہ کے لئے ہیں جس نے جوانان جنت کے سرداروں کو انجام بخیر کردیا ہے اور جنت کو ان پر واجب کیا ہے؛ خداوند متعال سے التجا کرتی ہوں کہ ان کی قدر و منزلت کے ستونوں کور رفیع تر کردے اور اپنا فضل کثیر انہيں عطا فرمائے؛ کیونکہ وہی صاحب قدرت مددگار ہے۔7 ۔ یزید نے ایک مجلس ترتیب دی جس میں اشراف اور عسکری و ملکی حکام شریک تھے۔8۔ اس نے اسیروں کی موجودگی میں [وحی، قرآن، رسالت و نبوت کے انکار پر مبنی] کفریہ اشعار کہے اور اپنی فتح کے گن گائے اور قرآنی آیات کی اپنے حق میں تاویل کی۔ آپ کی نظر قصر یزید میں بھائی کے سر پر پڑی تو آپ نے بھائی حسین(علیہ السلام) کو پکارا ہی نہیں بلکہ حاضرین سے آپ کا تعارف بھی کرایا؛ فرمایا:۔ ترجمہ: اے حسین! اے رسول اللہ(ص) کے پیارے! اے مکہ و منی کے بیٹے! اے فاطمہ زہراء سیدۃ نساء کے بیٹے، اے مصطفی کی بیٹی کے نور چشم!، [راوی کہتا ہے] پس خدا کی قسم! آپ نے رلایا ہر اس شخص کو جو مجلس میں موجود تھا؛ اور یزید خاموش بیٹھا تھا۔9۔ یزید نے اپنے ہاتھ میں ایک چھڑی سے فرزند رسول(ص) کے سر مبارک کی بےحرمتی کی۔ اور پیغمبر خدا(ص) کی نسبت اپنی عداوت اور دشمنی کو آشکار کردیا۔ صحابی رسول(ص) ابو برزہ اسلمی نے  یزید کو جھڑکتے ہوئے کہا: تو یہ چھڑی فاطمہ سلام اللہ علیہا   ) کے فرزند کے دانتوں پر مار رہا ہے! ميں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حسین اور ان کے بھائی حسن کے ہونٹوں اور دانتوں کے بوسے لیتے ہوئے دیکھا ہے اور یہ کہ ان دو بھائیوں سے مخاطب ہوکر فرماتے تھے: تم دونوں جوانان جنت کے سردار ہو ، جو تمہیں قتل کرے، خدا اس کو قتل کرے اور اس پر لعنت کرے اور اس کے لئے جہنم کا ٹھکانا آمادہ کرے اور کیا برا ٹھکانا ہے جہنم کو آمادہ کرے اور وہ بہت خراب جگہ ہے۔ 10۔ اس کے کہے ہوئے اشعار کا مضمون و مفہوم یہ تھا:کاش میرے قبیلے کے سردار جو بدر میں مارے گئے، آج زندہ ہوتے اور دیکھ لیتے کہ خزرج کا قبیلہ کس طرح ہماری شمشیروں سے بےچین ہوکر آہ و نالہ پر اترے آیا؛ تا کہ وہ خوشی کے مارے چیخ اٹھتے اور کہتے اے یزید تیرے ہاتھ شلّ نہ ہوں! ہم نے بنو ہاشم کے بزرگوں کو قتل کیا اور اس کو جنگ بدر کے کھاتے میں ڈال دیا اور [ان کی] اِس فتح کو اُس شکست کا بدلہ قرار دیا۔ ہاشم حکومت سے کھیلا ورنہ نہ آسمان سے کوئی خبر آئی تھی اور نہ اس وحی نازل ہوئی تھی!۔ میں خُندُف کی نسل نہ ہونگا اگر احمد کے فرزندوں سے انتقام نہ لوں۔

اچانک سیدہ زینب(سلام اللہ علیہا   ) مجلس کے گوشے سے یزید کی گستاخیوں کا جواب دینے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئیں اور بلیغ انداز سے خطبہ دیا اور اس خطبے نے یزید کے قصر خضرا میں امام حسین(علیہ السلام)) کی حقانیت اور یزیدی اعمال کے بطلان کو واضح و آشکار کردیا۔سیدہ زينب(س) نے حمد و ثنائے الہی و رسول و آل رسول پر درود وسلام کے بعد فرمایا:اما بعد ! بالاخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنا دامن برائیوں سے داغدار کیا، اپنے رب کی آیتوں کو جھٹلایا اور ان کا مذاق اڑایا۔ اے یزید کیا تو سمجھتا ہے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے لیپٹ سمیٹ کرکے ہمارے لئے تنگ کردیئے ہیں؛ اور آل رسول(ص) کو زنجیر و رسن میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو درگاہ رب میں سرفراز ہوا ہے اور ہم رسوا ہوچکے ہیں؟ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کرکے تو نے خدا کے ہاں شان ومنزلت پائی ہے؟ تو آج اپنی ظاہری فتح کے نشے میں بدمستیاں کررہا ہے، اپنے فتح کی خوشی میں جش منا رہا ہے اور خودنمایی کررہا ہے؛ اور امامت و رہبری کے مسئلے میں ہمارا حقّ مسلّم غصب کرکے خوشیاں منارہا ہے؛ تیری غلط سوچ کہیں تجھے مغرور نہ کرے، ہوش کے ناخن لے کیا تو اللہ کا یہ ارشاد بھول گیا ہے کہ: "بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟۔ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے ، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے ۔ اور زمامداری[خلافت] کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے ۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور هوش کی سانس لے ۔ کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ "{وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ کَفَرُواْ أَنَّمَا نُمْلِي لَہُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِہِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لہُمْ لِيَزْدَادُواْ إِثْماً وَلَہْمُ عَذَابٌ مُّہِينٌ"}: اورخبردار یہ کفار یہ نہ سمجھیں کہ ہم جس قدر راحت و آرام دے رہے ہیں وہ ان کے حق میں کوئی بھلائی ہے ۔ہم تو صرف اس لئے دےرہے ہیں کہ جتنا گناہ کر سکیں کر لیں ورنہ ان کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔11۔12۔اس کے بعد فرمایا :  ترجمہ: اے طلقاء (آزاد کردہ غلاموں) کے بیٹے  کیا یہ انصاف ہے کہ تو اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کو پردے میں بٹھا رکھا ہوا ہے اور رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کی۔ تیرے حکم پر اشقیاءنے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایا ۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا، اہل بیت رسول(ص) کی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے۔  اے یزید! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ "آج اگر میرے اجداد موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں! اے یزید ! کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین ابن علی(علیہ السلام)) کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی شان میں بے ادبی کر رہا ہے! ۔ تو سمجھتا ہے کہ وہ تیری آواز سن رہے ہیں؟ ! (جلدی نہ کر) 13۔عنقریب تو بھی اپنے ان کافر بزرگوں سے جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے باز رہتا۔اس کے بعد آسمان کی طرف رخ کرکے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا: اے ہمارے پروردگار، تو ہمارا حق اور ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے؛ اے پرودگار! تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے۔ اور اے خدا! تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کیا۔14۔ اے یزید ! (خدا کی قسم) تو نے جو ظلم کیا ہے یہ تو نے اپنے اوپر کیا ہے؛ تو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کر دی ہے؛ اور تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی گوشت کاٹ رکھا ہے۔ تو رسولِ خدا کے سامنے ایک مجرم کی صورت میں لایا جائے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناونے جرم کی باز پرس ہو گی کہ تو نے اولادِ رسول کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو کیوں دربدر پھرایا۔ نیز رسول کے جگر پاروں کے ساتھ ظلم کیوں روا رکھا!؟15۔

مجلس یزید میں حضرت زينب سلام اللہ علیہا کا منطقی اور نہایت بلیغ اور معقول خطبہ اگرچہ تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لئے ثبت ہوا تاہم دربار یزید میں اس کے فوری اثرات بھی دیدنی تھے؛ حاضرین بہت زيادہ متاثر ہوئے یہاں تک کہ یزید اسیروں کو کچھ مراعات دینے پر مجبور ہوا اور رد عمل کے خوف سے کسی قسم کا سخت جواب دینے سے پرہیز کیا۔16۔یہاں تک کہ اس وقت تک استبدادیت کے ساتھ آل رسول(ص) کے ساتھ بدترین سلوک کرنے والے] یزید نے اپنے حاشیہ برداروں سے اسیروں کے بارے میں صلاح مشورے شروع کئے۔ گوکہ بعض امویوں نے کہا کہ "ان سب کو یہیں قتل کردو" لیکن نعمان بن بشیر نے مشورہ دیا کہ "ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرو"۔17۔حضرت زینب  سلام اللہ علیہا   نیز امام سجادعلیہ السلام کے حقائق سے بھرپور خطبے کے بعد یزید نے مجبور ہوکر اپنے تمام جرائم کی ذمہ داری اپنے گورنر ابن زیاد پر ڈال دی اور اس پر لعنت و نفرین کردی؛۔18۔ لیکن مشہور سنی مؤرخ کی روایت کے مطابق ان واقعات کے بعد يعني ابن زیاد کو اپنے پاس بلایا اور اس کا رتبہ بڑھایا اور اس کو اموال کثیر عطا کئے اور بیش بہاء تحائف سے نوازآ اور اس کو قرب منزلت دیا اور اپنی عورتوں کے پاس بٹھایا اور اس کے ساتھ بیٹھ شراب نوشی میں مصروف رہا۔19۔بہرحال یزید نے مجبوری میں  اہل بیت(علیہم السلام) کو شام میں اپنے شہیدوں کے لئے عزاداری کی اجازت دی۔ آل ابی سفیان کی عورتیں منجملہ یزید کی زوجہ ہند بنت عبد اللہ (بن عامر) خرابہ میں اہل بیت(علیہم السلام) کے ہاں حاضر ہوئیں۔ وہ اہل بیت(ع) کی خواتین کے پاؤں کے بوسے لے رہی تھیں اور گریہ و زاری کررہی تھیں اور تین دن تک عزاداری میں مصروف رہیں۔20-21۔ مختصرایہ وہ خطبات تھے جن کے ذریعے زینب کبری سلام اللہ علیہا نے دشمن کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قصر دشمن میں ہی  دشمن کو شکست دی۔ثانی زہراءسلام اللہ علیہا  کے خطبات کا اثر اتنا جلدی ہوا کہ یزید نے شام میں مجلس برپا کرنے کی اجازت دے دی۔ بنابرین خواتین کی اسیری اور ثانی زہرا ءسلام اللہ علیہا کے خطبات نے حادثہ کربلا میں روح پھونک دی اور بنی امیہ کے مظالم اور امام حسین علیہ السلام کی فدا کاری کو واضح کر دیا اور اگر یہ اسیری نہ ہوتی تو آل محمد کے دشمن کربلا کے مظالم پر پردہ ڈال کر لوگوں کو اس سے بے خبر رکھتے ۔غرض یہ وحشتناک ظلم و ستم اور عظیم فدا کاری تاریخ کے صفحات سے مٹ جاتی لیکن ثانی زہرا سلام اللہ علیہا نے ہمیشہ کے لئے صفحہ قرطاس پر اسے ثبت کر دیا ،یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ زینب کبری سلام اللہ علیہا کی اسیری اسلام کی نئی حیات کی ضامن بنی۔زینب بنت علی سلام اللہ علیہا نے ایسا کردار اداکیا کہ عام انسانوں کے لئے کبھی بھی ایسا کردار ادا کرنا ممکن نہیں ہے اور وہ بھی ایسے کھٹن مواقع میں جب عزیز ترین افراد کو آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا اور تمام جہات سے لوگ آپ کو اذیتیں پہنچا رہے ہو،انہیں حالات میں آپ نے دلیری و شجاعت کے ساتھ اس کردار کو پایہ تکمیل تک پہنچایا  جس کردار کو عام انسان نہیں اپنا سکتے  اور اس کردار کو ادا کرنے سے قاصر ہیں اسی لئے شاعر کہتاہے  :
کربلا در کربلا می مانند اگر زینب نبود  
  نینوا در نینوا می مانند اگر زینب نبود

اگر زینب  بنت علی سلام اللہ علیہا نہ ہوتیں توکربلا،کربلا کے ریگستان میں ہی دفن ہو جاتا ،یہ زینب بنت علی سلام اللہ علیہا کا کردار تھا کہ کربلا کو رہتی دنیا  تک زندہ کر دیا اور ظلم اور ظالم کومختصر عرصے میں ہی شکست دی اور دنیا کو ان فاسق و فاجر افراد کا اصلی چہرہ دکھا دیا ۔


حوالہ جات:
1۔ سیدبن طاووس وہی ماخذ، ص 159و161 / سید عبدالرزاق موسوی، مقتل مقرم، ترجمہ عزیز الہی كرمانی، ص 192.
2۔ علینقی فیض الاسلام، ، ص 185.
3۔ احمد صادقی اردستانی، ص 246۔
4۔ا بومخنف، وہی ماخذ، ص 299و 300/ شیخ مفید، الارشاد، قم، المؤتمر للشیخ مفید، 1413، ص 353 / محمّدباقر مجلسی، ج 45، ص 117۔
5۔ ابن طيفور، بلاغات النساء ،ص23؛ أحمد زکي صفوت، جمہرۃ خطب العرب في عصور العربيہ الزاہرۃ، ج 2 ص 126-129، عمر رضا كکحالہ، اعلام النساء ج 2 ص 95-97۔
6۔ اجوبۃ المسائل الدینیہ المجلد الثالث عشر، رجب 1389 - الجزء 8. معنی عسلان الفلوات صص 262 تا 264۔
7۔ محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج45 ص135۔ السيدۃ مريم نورالدين فضل الله، المرأۃ في ظلّ الاسلام ج1 ص305 259۔
8۔ سید عبدالکریم هاشمی نژاد، ، ص 330۔
9۔ محمّد محمّدی اشتہاردی، ، ص 248.
10۔محمد باقر مجلسی، بحار الانوار ج45 ص132۔
11۔ حسن الہی، ، ص 208۔
12۔ محمد باقر مجلسی، وہی ماخذ، ص133۔
13۔ ابومخنف، ، ص 306و307/ سیدبن طاووس، ، ص 213۔
14۔ (بحوالہ الزرکلی، الاعلام، ج3 ص823)۔
15۔ آل عمران (3) آیت 178۔
16۔ مجلسی، وہی ماخذ ص133۔
17۔ آل عمران (3) آیت 169 ترجمہ سید علی نقی نقوی(نقن)۔
18۔ کہف ،آیت 50۔
19۔ مریم ، 75 ۔
20۔ محمّدباقر مجلسی،، ج 45، ص 135 / سیدبن طاووس، ص 221.
21۔ شیخ مفید، الارشاد،ص358/حسن الہی، ص 244۔


تحریر:محمدلطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز(آرٹیکل) ریاست کے اندر ریاست کا واویلا، بڑے عرصے سے سنائی دے رہا ہے، جس ملک میں سیاست کے سائے میں گلو بٹ پلیں، لوگ قتل اور لاپتہ ہوجائیں لیکن کہیں ایف آئی آر درج نہ ہو ، وہاں عوام  کو نہ ریاست پر بھروسہ رہتا ہے اور نہ سیاست پر!؟

لوگ نعرے لگاتے ہیں ، ووٹ دیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ جمہوری حکومت آئے گی تو ان کے دن پھر جائیں گے لیکن  جمہوری لیڈروں کی پروٹوکول کی گاڑیاں عوام کی لاشوں کو روند کر گزر جاتی ہیں اور  خاک نشینوں کا خون رزقِ خاک بن جاتا ہے۔

ہمارے ہاں کا عام آدمی اس حقیقت کا گواہ ہے کہ  کہ ہمارے ہاں جس کو بھی موقع ملتا ہے  وہی  ریاست کے اندر ریاست بنا لیتا ہے۔

اس وقت ہمارے ہاں مجموعی طور پر تین ریاستیں  موجود ہیں:۔

۱۔ طالبان اور ان کے سہولت کاروں کی ریاست

۲۔ سیاست دان اور ان کے آلہ کاروں کی ریاست

۳۔ فوج پولیس اور رینجرز کی ریاست

یہ تینوں ریاستیں اپنی اپنی رٹ قائم کرنے اور اپنی اپنی طاقت کا لوہا منوانے  میں مصروف ہیں۔متاثرین کے مطابق ان  تینوں ریاستوں کا طریقہ واردات بھی ایک سا ہے،سیاستدان بھی جس سے خطرہ محسوس کرتے ہیں ،اسے سانحہ ماڈل ٹاون کی طرح مروا دیتے ہیں یا لاپتہ کردیتے ہیں،  طالبان بھی یہی کرتے ہیں اور بدقسمتی سے فوج، پولیس اور رینجر سے بھی لوگوں کو یہی شکایات ہیں۔

جہاں تک قانون کی بات ہے تو لوگوں کے مطابق ان تینوں ریاستوں کے پاس اپنا اپنا قانون ہے،  یہ تینوں ریاستیں اپنے اپنے قانون کی بات کرتی ہیں۔یہ خود ہی آئین ساز ہیں اور خود ہی مقتدرِ اعلیٰ ہیں۔خود ہی اپنے مجرم ڈھونڈتی ہیں، خود ہی  سزا سناتی ہیں اور خود ہی سزا دیتی ہیں۔

سابق وزیراعظم نوازشریف کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر چشمِ فلک نے کیا منظر دیکھا!؟

اناًفاناً رینجرز آئے ، انھوں نے صحافیوں کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا ، یہی نہیں بلکہ وفاقی وزراء خصوصاً وزیر داخلہ احسن اقبال اور وزیر مملکت طلال چوہدری  کو بھی  اندر نہیں جانے دیا، وزیر داخلہ  صاحب رینجرز کے انچارج بریگیڈیئرآصف کو پکارتے رہے لیکن ایک ریاست کے بادشاہ نے دوسری ریاست کے بادشاہ کی آواز پر کوئی توجہ نہیں دی، یہانتک کہ  وزیر داخلہ کو بخوبی احساس ہوا کہ میں ایک کٹھ پتلی وزیر داخلہ ہوں۔ یعنی یہ ریاست کسی اور کی ہے اور یہاں کسی اور کا حکم چلتا ہے۔

اسی طرح  مسنگ پرسنز کے حوالے سے لواحقین احتجاج کر کر کے تھک چکے ہیں، وزارتِ داخلہ کہتی ہے کہ ہمیں نہیں پتہ،طالبان کہتے ہیں کہ ہم تو مفت میں بدنام ہیں، فوج رینجرز اور پولیس کا کہنا ہے کہ ہم اور یہ کام۔۔۔!

اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ غریب ، بے کس اور لاچار لوگ کیا کریں، کچھ لوگوں کو تو   لاپتہ ہوئے کئی کئی سال ہو چکے ہیں۔ ایسے میں مسنگ پرسنز کے لواحقین نے  اپنے پیاروں کا سراغ لگانے کے لئے ان دنوں جیلیں بھرو تحریک کا اعلان کیا ہے۔

ظاہر ہے جہاں، کوئی قانون نہیں، کوئی عدالتی کارروائی نہیں، کوئی شنوائی نہیں وہاں  اپنے لاپتہ ہوجانے والے بیٹے کے انتظار میں بیٹھی ہوئی بوڑھی ماں، سسکتے ہوئے مجبور باپ اور لاوارث بچوں کے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا راہِ حل ہے بھی نہیں۔

مسنگ پرسنز کے حوالے سے اس ملک کے پڑھے لکھے، سمجھ دار اور باشعور لوگوں کی اتنی ذمہ داری تو بنتی ہے کہ وہ مسنگ پرسنز کی تلاش کی تحریک کو ایک شعوری تحریک میں تبدیل کر کے ریاست کے اندر قائم کی جانے والی نام نہاد ریاستوں کو بےنقاب کریں۔

ہم بحیثیت پاکستانی ، ریاست پاکستان کے مقتدر حلقوں کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ اگر ریاستی ادارے آئینِ پاکستانی کی بالادستی کو تسلیم کرلیں  تو اس سے عوام بھی سکھ کا سانس لیں گے اور ریاستی اداروں کی عزت و وقار میں بھی اضافہ ہوگا۔ عوام کا اداروں پر اعتماد بڑھے گا اور عوام کے ساتھ خواہ مخواہ کی کشیدگی اور تناو بھی ختم ہوجائے گا۔

ہماری ارباب اقتدار سے دردمندانہ اپیل ہے کہ ریاست کے اندر آئین پاکستان کی رٹ قائم کی جائے ، لاپتہ لوگوں کو عدالتوں میں پیش کیا جائے ، اور لوگوں کو ماورائے عدالت لاپتہ کرنے والوں کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جائے۔

ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ خوشحال عوام سے ہی خوشحال پاکستان تشکیل پائے گا۔


تحریر۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree