وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) رمضان المبارک کے آخری عشرے کے آخری جمعہ ، جمعۃ الوداع کو پوری مسلم امہ امام خمینیؒ کے فرمان کے مطابق یوم القدس کے طور پر مناتی ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کو پنجہ یہود سے آزاد کروانا ہے تا کہ شعائر اللہ کا تحفظ ہو سکے ۔ اس دن کی مناسبت سے پوری دنیا کے غیور مسلمان نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد مظلوم فلسطینی عوام کی حمایت اور قبلہ اول کی اازادی کے لیے آواز حق بلند کرتے ہیں، اس دن کو منانے کا مقصد بھی یہ ہے کہ ناجائز اسرائیل کے وجود کو صفحہ ہستی سے ختم کیا جائے تا کہ مسلمان سکھ و چین سے زندگیاں گزار سکیں۔
صہیونی حکومت نے گزشتہ سالوں میں مظلوم فلسطینی بالخصوص غزہ کی عوام کے خلاف اپنی ظالمانہ کاروائیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے ، قدس شہر کو اسرائیل کا دارالحکومت بھی قرار دے دیا ہے ، جس کے بعد فلسطینیوں سمیت دنیا بھر کے غیرت مند اور حریت پسند اسکے خلاف ردعمل ظاہر کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں، کیوں کہ وہ اس بات پر ذور دیتے ہیں کہ بیت المقدس فلسطین کا ابدی دارالحکومت ہے۔
فلسطین کے سابق نتحب وزیراعظم اسماعیل حنیہ نے گزشتہ سالوں میں عرب ممالک کے دورے کیے اور انہوں نے عرب ممالک کے سربراہوں کے ساتھ ہونیوالی ملاقاتوں میں بیت المقدس اور مسجد الاقصیٰ کے خلاف صہیونی حکومت کے اقدامات کی معرفت کی ہے اور مسلمانوں کو قدس کی نصرت کی دعوت بھی دی ، بیت المقدس اس وقت حقیقی خطرے میں ہے ، اور قابض صہیونی حکومت مسجد الاقصیٰ کا تشخص بدلنے اور ہزاروں فلسطینیوں کے گھروں کو منہدم کرنے کے درپے ہے، فلسطین کے صدر محمود عباس کا کہنا ہے کہ قابض صہیونی حکومت قدس شہر کے اسلامی تشخص کو تبدیل کرنے کے لیئے اپنے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے، اس لیے اسلامی و عرب ممالک کاان غلیظ اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان عمل میں اتر پڑیں۔
صہیونی حکومت نے 1948 ء میں اپنے قیام کے بعد ہی اس مقدس سر زمین خاص کر قدس شہر کے اسلامی تشخص کو مٹانے کے درپے ہے ، صہیونی حکومت بیت المقدس کو یہودی رنگ دینے کے لیے اس شہر میں یہودیوں کے لیے ہزاروں مکانات تمیر کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔اور کافی حد تک عمل درآمد کروایا جا چکا ہے۔ جبکہ دوسری طرف قدس شہر میں موجود مساجد اور فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم امہ بالخصوص عرب کے سوئے ہوئے حکمران میدان عمل میں اتریں اور اس مقدس سرزمین کو پنجہ یہود سے آزاد کروا لیں۔ تا کہ بیت المقدس کی آزادی کا راستہ ہموار ہوسکے۔
فلسطین کی نہتی عوام سال ہا سال سے صہیونی حکومت کی بربریت کا نشانہ بن رہی ہے، اور آج غزہ کی موجودہ صورتحال اسی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ صہیونی حکومت فلسطینی عوام سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین رہی ہے ، غزہ میں حالیہ اسرائیلی بربریت نے کہ ثابت کر دیا ہے کہ یہود صرف اپنے آپ کو اللہ کی مقدس مخلوق تصور کرتے ہیں ، ان کے نزدیک دیگر مذاہب کے افراد کو زندہ رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔
غزہ پر ہونے والی حالیہ اسرائیلی جارحیت میں جس طرح فلسطینی عوام پر آگ برسائی گئی ہے ، اس کی مثال نہیں ملتی ، معصوم بچوں ، سکولوں اور ہسپتالوں کو بموں کا نشانہ بنا کر انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ دوسری طرف یورپی ممالک اسرائیل کے ہم نوالہ بن کر اس بربریت کو اسرائیلی دفاع قرار دے کر جائز کہہ رہے ہیں۔
غزہ کی نہتی عوام پر پہلے فضائی حملے کر کے اب صہیونی حکومت نے باقاعدہ زمینی جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ اسرائیل بظاہر یہ حملے فلسطینی مزحمتی تنظیم حماس کو ختم کرنے کے لیے کر رہا ہے ۔ لیکن اس کے پس پردہ مقاصد میں گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو فروغ دینا شامل ہے۔ دوسری طرف غزہ کا محاصرہ کئی سالوں سے جاری ہے ۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق غزہ میں جان بچانے والی ادویات اور غزائی اجناس کی شدید قلت ہو چکی ہے، جسکی وجہ سے وہاں کی مظلوم عوام انتہائی کسم پرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کی آمریت ختم ہونے کے بعد اخوان المسلمین کی حکومت کے قیام سے اس بات کے قوی امکانات تھے کہ مصر مطلوم غزہ کے عوام کے لیئے رفاہ کراسنگ کھول دے گا لیکن تھوڑے عرصہ بعد ہی اسرائیل نے مصری عوام کے مینڈیٹ کو وہاں کی آرمی کے ذریعے دبا دیا اور یوں غزہ کے عوام کی یہ امید بھی دم توڑ گئی۔
مسئلہ فلسطین اور بالخصوص قبلہ اول پر قابض صہیونی حکومت کو دوام دینے میں عرب حکمرانوں کا بڑا کردار شامل ہے۔ صہیونی حکومت نے بھی عرب حکمرانوں کو نشے کی دوا دیکر اتنا مست کیا ہے کہ ان کو اپنے حالات کی بھی خبر نہیں چہ جائیکہ وہ مسلم امہ کے مسائل کے حل کرنیکی بات کریں۔ صورتحال اس حد تک چلی گئی ہے کہ جہاں بھی مسلمانوں کے خلاف یہود و نصاریٰ اعلان جنگ کرتے ہیں تو عرب حکمران ان کے ہم پیالہ و ہم نوالہ بن جاتے ہیں ۔ اور بعض اوقات تابعداری اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ عرب حکمران کھل کر یہ اعلان کرتے ہیں کہ آپ شام پر حملہ کریں جنگ کے تمام اخراجات ہم برداشت کریں گے ، عرب حکمرانوں کا جو اتحاد و اتفاق امریکہ و اسرائیل کے ساتھ ہے اگر وہ مسلم امہ کے ساتھ ہوتا تو فلسطین ، شام اور عراق کی نہتی عوام آج اس مسئلہ سے دوچار نہ ہوتی ۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں کہ ’’جسطرح عرب حکمرانوں نے شام کے خلاف اتحاد کا مظاہرہ کیا اگر وہ یہ اتحاد اسرائیل کے خلاف کرتے تو آج اسرائل کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہوتا۔
اس بات میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کی تمام تر مشکلات کا ذمہ دار امریکہ و اسرائیل اور ان کے دیگر اتحادی ہیں ، جن میں عرب حکمرانوں نے مخلص ہونے کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔
ہمارا قبلہ اول اس وقت پنجہ یہود میں ہے، اور ہم مسلمان ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کے درپے ہیں اور مسلم ممالک کے حکمران اپنی حکومتوں کو دوام دینے کے لیئے یہود و نصاریٰ کی خدمتگاری میں مصروف عمل ہیں ، اسلام دشمن قوتیں مسلمانوں کے اندر انتشار اور تفرقہ پھیلا کر اپنے گھناؤنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں ۔وقت کا تقاضہ ہے کہ تمام مسلمان یہود و نصاریٰ کی سازشوں کو بھانپیں اور اتحاد و یگانگت کے ساتھ ان کی سازشوں کا مقابلہ کریں۔ اگر ایسانہ ہوا تو شاید قبلہ اول کیطرح خانہ کعبہ بھی مسلمانوں کے ساتھ نکل جائے۔ حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے مسلم امہ کے جو نسخہ تجویز کیا تھا آج بھی وہ کار آمد ہے۔
اک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر
)تحریر : سید سجاد حسین)