وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ نے برطانیہ، کینیڈا، اور ایران کے ساتھ ملکر پاکستان میں انتشار پھیلایا، اس سازش کو آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ناکام بنا دیا۔ ان کے اس دعوے پر بات کرنے سے پہلے ان کے ماضی پر تھوڑی روشنی ڈالتے ہیں، تاکہ معاملے کو سمجھنے میں آسانی ہو جائے۔
مرزا اسلم بیگ وہ شخص ہیں جنہوں نے ضیاءالحق کی موت کے بعد آرمی چیف کا چارج سنبھالا، انہوں نے ملک میں مارشل لا نافذ نہیں کیا تھا کیونکہ گیارہ سالہ فوجی اقتدار کے بعد دوبارہ مارشل لا لگانا کسی بھی آرمی چیف کیلئے خاصا مشکل کام تھا۔ دوسری جانب اپنے بابا کی شہادت کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو نے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا تو انہیں بیحد پذیرائی ملنا شروع ہوگئی۔ عوامی سطح پر محترمہ بینظیر بھٹو کی پذیرائی سے ظاہر ہوتا تھا کہ پیپلز پارٹی انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کر لے گی، اسی "خطرے" کا مقابلہ کرنے کے لیے جناب مرزا صاحب نے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹینٹ جنرل حمید گل کے ساتھ ملکر دائیں بازو کی تمام جماعتوں بشمول جماعت اسلامی، جمیعت علماء اسلام فضل الرحمان اور مسلم لیگ سمیت دیگر چھے جماعتوں پر مشتمل اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) تشکیل دیا، جس کا مقصد ضیاءالحق کے روحانی بیٹے نواز شریف کیلئے راستہ ہموار کرنا تھا۔ اس اتحاد نے 1988ء کے الیکشن میں کل 53 نشستیں حاصل کیں تھیں جبکہ محترمہ بینظیر بھٹو 93 نشستیں حاصل کرسکی تھیں، یوں پنجاب میں ایک بزنس مین کو اکثریت دلا کر وزیراعلٰی بنوا دیا گیا۔
مرزا صاحب کے اس کے اقدام سے اسلامی جمہوری اتحاد مزید پھلا پھولا اور 1990ء الیکشن میں دوبارہ بےنظیر بھٹو کا راستہ روکنے کیلئے سیاستدانوں میں بڑے پیمانے پر رقوم تقسیم کرائی گئیں، پیسے نے کام دکھایا، جس کے نتیجے میں یہ اتحاد 153 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا، یوں نواز شریف کو ملک کا وزیراعظم بنا دیا گیا۔ اٹھارہ سال قبل ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان نے رقوم کی تقسیم سے متعلق سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی، جس پر سپریم کورٹ نے دو سال قبل اپنا فیصلہ سنایا تھا۔ عدالت عظمٰی نے فیصلہ سناتے ہوئے سیاستدانوں کو رقم دینے کے الزام میں پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر) اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد دارنی کے خلاف قانونی کارروائی کی ہدایت کی تھی۔ تاہم مقدس گائے یعنی مقدس ادارے سے تعلق ہونے کی وجہ سے آج تک دونوں کیخلاف کوئی کارروائی نہ ہوسکی۔ عدالت نے یہ رقوم لینے والے افراد کے بارے میں تحقیقات کرنے اور ان سے یہ رقوم واپس لینے کا بھی حکم دیا تھا۔ رقوم لینے والے افراد میں مخدوم جاوید ہاشمی بھی شامل تھے۔
اب جبکہ ضیاءالحق کے روحانی بیٹے نواز شریف کی بدترین دھاندلی کے نتیجے یہ تیسری بار بادشاہت قائم ہوئی ہے، جس کیخلاف پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف نے عوامی جدوجہد شروع کی ہے تو موصوف نے ایک بار پھر کسی سکرپٹ کے تحت پسندیدہ چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اس سارے عمل کی ذمہ داری امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور ایران پر ڈال دی ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ ایران کے برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کیسے ہیں، جبکہ امریکہ اور برطانیہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ مارشل نافذ کیا گیا تو پاکستان پر پابندیاں عائد کریں گے، یعنی وہ سعودی عرب کی خواہش پر بننے والی حکومت کو کسی صورت گرنے نہیں دینا چاہتے۔
جیو نیوز کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں مرزا صاحب نے کہا کہ یہاں سے قادری صاحب کو ایران کا دورہ کرایا گیا اور قم میں سینئیر مجتہدین سے ملاقاتیں کرائی گئیں۔ ان صاحب سے کوئی پوچھے کہ جناب کیا یہ ملاقاتیں خفیہ تھیں؟، اس کی تصویریں اور ان ملاقاتوں کا احوال تو میڈیا کو بھی دیا گیا اور خود منہاج القرآن کی ویب سائیٹ پر بھی تمام تصاویر اور ملاقاتوں کا احوال موجود ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ کیا ڈاکٹر صاحب پہلی بار ایران گئے تھے۔؟ دوسری اہم بات یہ کہ اگر ان کی اس بات میں کوئی صداقت ہے بھی تو پھر ہم یہ سوال کرنے کا بھی حق رکھتے ہیں کہ جناب یہ بھی بتائیں کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کیخلاف ہونے والے دھرنے کے پیچھے کون تھا۔؟ اس وقت آپ نے لب کشائی کیوں نہ کی۔ تیسری بات یہ کہ مرزا صاحب آپ نے قادری صاحب کے بارے میں تو بتا دیا ہے لیکن یہ بھی تو بتائیں کہ عمران خان کی تحریک کے پیچھے کون ہے۔؟
درج ذیل سوالات بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
1۔ آیا ماڈل ٹاون لاہور میں خواتین سمیت 14 افراد کو گولیاں مار کے شہید کر دینا اور 90 افراد کو زخمی کر دینا، کیا اس عمل میں بھی مذکورہ ممالک ملوث تھے۔؟
2۔ کیا مقتولین کی ایف آئی آر تک درج نہ ہونے میں ایک ماہ تک رکاوٹ بننا اور ملزمان کی عدم گرفتاری میں بھی یہ ممالک رکاوٹ ہیں۔؟
3۔ کیا عمران خان کے ڈیڑھ سال سے تسلسل کے ساتھ کئے جانے والے چار حلقے کھلوانے کے مطالبے پر عمل درآمد نہ کرانے میں بھی یہ ممالک حائل ہیں۔؟
مرزا صاحب آپکا اصل مسئلہ یہ ہے کہ 1988ء کی طرح ایک بار پھر آپ عوامی جدوجہد کو ناکام بنانا چاہتے ہیں اور اپنے تیار کردہ شخص کا اقتدار بچانا چاہتے ہیں، لیکن یاد رکھیں کہ اب عوام باشعور ہوگئے ہیں، وہ ہر ساز شازش کو سمجھتے ہیں۔
تحریر: این اے بلوچ