The Latest

وحدت نیوز (گلگت) قلیل عرصے میں تین بار مکمل پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال حکومتی پالیسیوں کے خلاف عوامی ریفرنڈم ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام نواز لیگ کے کھوکھلے نعروں سے عاجز آگئے ہیں اور اپنے مطالبات منوانے کیلئے سڑکو ں پر آچکے ہیں۔

مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکریٹری امور سیاسیات غلام عباس نے کہا کہ حکومت کی غلط پالیسیوں نے جی بی کے عوام کو سڑکوں پر آنے کیلئے مجبور کردیا ہے۔حکومت کی یقین دہانیاں اور جھوٹے وعدوں کو گلگت بلتستان کے عوام نے مسترد کرتے ہوئے اپنے مطالبات کے حق میں مکمل پہیہ جام اور شٹر ڈاؤں ہڑتال کرکے حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے۔حکومت حق حکمرانی کھوچکی ہے اور عوام دشمن پالیسیوں کا نتیجہ انتہائی بھیانک ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ نوازلیگ اقتدار کی بھوکی جماعت ہے جس کے سامنے بیروزگاری، کرپشن اور بھوک و افلاس کوئی معنی نہیں رکھتی ،علاقے کی ترقی و خوشحالی کیلئے ان کے پاس کوئی پروگرام نہیں اور نہ ہی موجودہ حکومت میں وفاقی حکومت سے اپنے حقوق مانگنے کی جرات پائی جاتی ہے۔آئینی حقوق کے حوالے سے کئی مہینے عوام کو دھوکے میں رکھا گیا اور اب اس غبارے سے بھی ہوا نکل چکی ہے۔گلگت سکردو روڈ کے حوالے سے اراکین اسمبلی کا اجلاس سے واک آؤٹ کرنا اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ حکومت کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں۔ترقیاتی منصوبوں اور بیروزگاری کے خاتمے کے تمام تر اعلانات ہوا پر ہیں اور کرپشن ، پروٹوکول اور سیر وسیاحت میں حکومتی اراکین نے سابقہ حکومت کو بھی لات ماردی ہے۔پاک چائنا اقتصادی راہداری کے حوالے سے موجودہ حکومت وفاق سے اپنا حق مانگنے کی بھی پوزیشن میں نہیں،سی پیک کے حوالے سے گلگت بلتستان کے عوام کی خواہشات وفاق تک پہنچان حکومت کی ذمہ داری ہے جبکہ ابھی تک گلگت بلتستان کے عوام کی ترجمانی کیلئے کوئی پیپر ورک نہ ہونا لمحہ فکر یہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کے تمام تر دعوے ہوائی فائرنگ ثابت ہوچکے ہیں جبکہ عملی طور پر کسی بڑے منصوبے پر کسی قسم کی پیش رفت نہیں
کی گئی ہے۔لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 18 گھنٹے سے تجاوز کرگیا اور پورے علاقے میں گندم کا بحران پیدا ہوچکا ہے۔

تنظیمیں۔۔۔حسد،حرکت اور تربیت

وحدت نیوز(آرٹیکل) حاسد کو زندہ سمجھنا خود زندگی کے ساتھ مذاق ہے،حاسد کیا کرتا ہے؟! وہ پہلے مرحلے میں مدّمقابل جیسا بننے کی کوشش کرتا ہے، جب نہیں بن پاتا تو پھر مدّمقابل کو گرانے کی سعی کرتا ہے، جب اس میں بھی ناکام ہو جاتا ہے تو پھر مدّمقابل کو مختلف حیلوں اور مفید مشوروں کے ساتھ میدان سے ہٹانے کی جدوجہد کرتا ہے، جب اس تگ و دو میں بھی ناکام ہوجائے تو پھر مدّمقابل کی غیبت اور کردار کشی پر اتر آتا ہے۔ جب کھل کر غیبت اور کردار کشی بھی نہ کرسکے تو پھر اشارے کنائے میں ہی غیبت پر گزارہ کرتا ہے۔ اگر اس سے بھی اس کے حسد کی آگ نہ ٹھنڈی ہو تو پھر وہ اس انداز سے تعریف کرتا ہے کہ جس سے اس کے ارد گرد کے لوگ غیبت کرنے میں اس کی ہمنوائی کریں۔اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود بھی حاسد خود اپنی ہی نظروں میں شکست خوردہ اور مرا ہوا ہوتا ہے۔

 جس طرح ایک شخص کو دوسرے سے حسد ہو جاتا ہے، اسی طرح ایک قوم اور ایک تنظیم کو بھی بعض اوقات دوسری سے حسد ہو جاتا ہے۔
 قومی اور تنظیمی حاسد بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔

 اربابِ دانش بخوبی جانتے ہیں کہ اقوام افراد سے اور تنظیمیں ممبران سے تشکیل پاتی ہیں۔ اقوام میں افراد کی شمولیّت کسی حد تک اجباری اور کسی حد تک اختیاری ہوتی ہے، جبکہ تنظیموں میں شمولیّت فقط اختیاری ہوتی ہے۔

اقوام میں اجباری شمولیّت کی مثال یہ ہے کہ جو شخص بھی یہودی خاندان میں متولد ہوتا ہے، وہ بہر صورت یہودی قوم کا فرد ہی متصور ہوگا۔ اب اقوام میں اختیاری شمولیت کی مثال یہ ہے کہ ایک یہودی کلمہ طیّبہ پڑھ کر اپنی سابقہ یہودی قومیّت سے دستبردار ہو جاتا ہے اور اختیاری طور پر ملت اسلامیہ کا فرد بن جاتا ہے۔

سیاسی نظریات کے مطابق تنظیمی ممبر شپ کے لئے ایسا نہیں ہوتا کہ ہر شخص جس خاندان میں پیدا ہو وہ موروثی طور پر اپنے ابا و اجداد کی پارٹی کاممبر بھی ہو۔ پارٹی کا ممبر بننے کے لئے اسے فارم پُر کرنے پڑتے ہیں اور مختلف تربیتی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ جس طرح ایک وقت میں ایک قوم کے اندر مختلف تنظیمیں ہوسکتی ہیں، اسی طرح ایک تنظیم کے اندر بھی مختلف اقوام کے لوگ بھی ہوسکتے ہیں۔ جس طرح اقوام کی تشکیل رنگ، نسل، مذہب، علاقے، خاندان یا دین پر ہوتی ہے، اسی طرح تنظیموں کا انحصار بھی مذکورہ عناصر میں سے کسی ایک پر ہوتا ہے۔

 عام طور پر اقوام اپنی مشکلات کے حل کے لئے تنظیموں کو وجود میں لاتی ہیں۔ اس حقیقت سے کسی طور بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جس طرح افراد زندگی اور موت کے عمل سے گزرتے ہیں، اسی طرح اقوام اور تنظیموں کو بھی زندگی اور موت سے واسطہ پڑتا ہے۔

 قرآن مجید کی نگاہ میں بہت سارے لوگ بظاہر کھانے پینے، حرکت اور افزائش نسل کرنے کے باوجود مردہ ہیں، اسی طرح بہت سارے لوگ بظاہر جن کا کھانا پینا، حرکت کرنا اور افزائش نسل کا سلسلہ متوقف ہو جاتا ہے وہ زندہ ہیں اور قرآن مجید انہیں شہید کے لقب سے یاد کرتا ہے۔

 افراد کی مانند اقوام اور تنظیمیں بھی دو طرح کی ہیں، کچھ زندہ ہیں اور کچھ مردہ۔ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں جس طرح افراد کی ظاہری حرکت زندگی کا معیار نہیں ہے، اسی طرح اقوام اور تنظیموں کی ظاہری حرکت اور فعالیت بھی زندگی کی غماض نہیں ہے۔ حرکت کے ساتھ ساتھ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ حرکت کی سمت کیا ہے، چونکہ یہ ممکن ہے کہ ایک شخص زندگی کی آغوش میں بیٹھا ہوا ہو، لیکن موت کی طرف حرکت کر رہا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی شخص موت کے سائے میں جی رہا ہو، لیکن زندگی کی طرف گامزن ہو۔

عبداللہ ابن ابیّ جیسے بہت سارے لوگ بظاہر پیغمبر اسلام (ص) کے پرچمِ حیات کے زیرِ سایہ زندگی گزار رہے تھے، لیکن ان کی حرکت کی سمت ہلاکت و بدبختی تھی۔ اسی طرح سلمان و ابوذر جیسے لوگ ظہورِ اسلام سے پہلے ہلاکت و بد بختی کے سائے میں جی رہے تھے، لیکن ان کی حرکت کا رخ حقیقی زندگی کی طرف تھا۔ بظاہر دونوں طرف حرکت تھی، اسی حرکت نے عبداللہ ابن ابیّ کو ہلاکت تک پہنچا دیا اور اسی حرکت نے سلمان (ر) و ابوذر (ر) کو حیاتِ ابدی سے ہمکنار کیا۔ اسی طرح تنظیموں کی زندگی میں بھی فقط ظاہری حرکت اور فعالیّت معیار نہیں ہے، بلکہ حرکت کی سمت کو دیکھنا ضروری ہے۔ یہ ہمارے دور کی بات ہے کہ طالبان نے بہت زیادہ فعالیت کی، لیکن اس کے باوجود طالبان مرگئے، اس لئے کہ ان کی حرکت کی سمت غلط تھی، لیکن حزب اللہ سربلند ہے، اس لئے کہ حزب اللہ کی حرکت کی سمت نظریات کی طرف ہے۔ طالبان کے نظریات سعودی عرب اور امریکہ سے درآمد شدہ تھے، چنانچہ ریاض وواشنگٹن کی پالیسی بدلتے  ہی ان کی نظریاتی موت بھی واقع ہوگئی۔

 یاد رکھئے! جھوٹ، ظلم و تشدد اور دھونس دھاندلی سے تنظیموں کو کبھی بھی زندہ نہیں رکھا جاسکتا۔ اب طالبان کی محبت کا دم بھرنے والے دھڑوں کو یہ نوشتہ دیوار ضرور پڑھ لینا چاہیے کہ حاسد کی مانند مردہ تنظیمیں بھی اپنے ہی ممبران کی نظروں میں مری ہوئی ہوتی ہیں۔ جہاں پر تنظیموں کی نظریاتی موت واقع ہوجائے، وہاں پر ان کے تابوت اٹھانے سے وہ زندہ نہیں ہو جایا کرتیں۔

 ہمیں یہ کبھی بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ملت اسلامیہ کے افراد اور تنظیموں کی اساس ان کے عقائد اور نظریات پر قائم ہے۔ اسلامی تنظیموں کی زندگی میں ان کے نظریات اس قطب نما کی مانند ہیں، جس سے سمت معلوم کی جاتی ہے۔ اگر کسی ملی تنظیم کی سمت مشخص نہ ہو اور حرکت نظر آئے تو اس کے ناخداوں کو چاہیے کہ وہ پہلے اپنی سمت درست معیّن کریں اور پھر حرکت کریں۔ بصورتِ دیگر وہ جتنی حرکت کرتے جائیں گے، اتنے ہی منزل سے دور ہوتے جائیں گے۔

جو طاقت تنظیم کی حرکت کو کنٹرول کرتی ہے اور تنظیم کو نظریات کی سمت پر کاربند رکھتی ہے، وہ اس کے تربیّت یافتہ ممبران ہوتے ہیں۔ اگر کسی تنظیم میں تربیّت کا عمل رک جائے یا کھوکھلا ہوجائے تو وہ بھنور میں گھومنے والی اس کشتی کی مانند ہوتی ہے، جو جتنی تیزی سے حرکت کرتی ہے، اتنی ہی ہلاکت سے قریب ہوتی جاتی ہے۔

 کسی بھی تنظیم کے ممبران کس حد تک تربیّت یافتہ ہیں، اس کا اندازہ ان کی جلوتوں سے یعنی نعروں اور سیمیناروں سے نہیں ہوسکتا، بلکہ اس کا پتہ ان کی خلوتوں سے چلتا ہے۔ جس تنظیم کے ممبران کی خلوتیں نظریات سے عاری ہوں، ان کی جلوتیں بھی عارضی اور کھوکھلی ہوتی ہیں۔ جب کسی تنظیم کے پرچم کو تھامنے والے افراد کی خلوتوں میں رشک کی جگہ حسد، حوصلہ افزائی کی جگہ حوصلہ شکنی، تعریف کی جگہ تمسخر، تکمیل کی جگہ تنقید، تدبر کی جگہ تمسخر، خلوص کی جگہ ریا اور محنت کی جگہ ہنسی مذاق لے لے تو اس تنظیم کی فعالیّت اور حرکت کو زندگی کی علامت سمجھنا یہ خود زندگی کے ساتھ بہت بڑا مذاق ہے۔

 ہماری ملّی تنظیموں کو ہر موڑ پر اس حقیقت کو مدّنظر رکھنا چاہیے کہ نظریات پر سمجھوتے کا نتیجہ تنظیموں کی موت کی صورت میں نکلا کرتا ہے۔ تنظیمیں نعروں سے نہیں بلکہ نظریات سے زندہ رہا کرتی ہیں اور نظریات کی پاسداری صرف اور صرف تربیّت شدہ ممبران ہی کرتے ہیں۔ جہاں پر تنظیموں میں ممبران کی نظریاتی تربیّت کا عمل رک جائے، وہاں پر تنظیموں کو مرنے اور کھوکھلا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ غیر تربیّت یافتہ افراد تنظیموں کو دیمک کی طرح چاٹتے ہیں اور پھندے کی مانند تنظیموں کے گلے میں اٹک جاتے ہیں۔

تنظیموں میں تربیّت کا عمل کسی صورت بھی نہیں رکنا چاہیے چونکہ تربیّت ایسی کیمیا ہے جو زندگی کی لکیر اور خون کی تاثیر کو بھی بدل دیتی ہے۔

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ تبلیغات کے مرکزی سیکریٹری علامہ اعجاز بہشتی نے اپنے ایک بیان میں روضہ حضرت زینب ؑ کے قریب ہونے والے بم دھماکوں کی مذمت کی اور شام کے صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شام میں جنگ بندی مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو ختم کرنے کے لئے نہایت مثبت قدم ہے جو شامی صدر بشار السد کی کامیابی اور دہشت گرد اور انکے اتحادیوں کی شکست ہے ۔ حضرت زینب سلام علیہا کی روضہ مبارک کے پاس بم دھماکہ اور بے گناہ لوگوں کی شہادت کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ، بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے والے یہ دہشت گرد در حقیقت امریکہ، اسرائیل کے ایجنٹ ہیں ۔ لیکن مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ دفاع حرمین کا نعرہ لگا نے والے نواسی رسول حضرت زینب ؑ کے روضہ کی دفاع کے موقع پر خاموش ہیں، جن دہشت گرد گروں کی جانب سے نواسی رسول حضرت زینب ؑ کی روضہ کو خطرہ ہے انہی دہشت گردوں سے مکہ و مدینہ اور سول اکرم ؐ کے روضہ کو بھی خطرہ ہے اور ان کی شر سے کوئی مسلمان محفو ظ نہیں ہے ۔لہذا ہمیں اس وقت اسلام کے اصل چہرہ کو دہشت گردوں اور عالمی سازشوں سے بچا نا ہے اور دشمنان اسلام کو بے نقاب کرنا ہے تاکہ ساری دنیا پر حقیقت اسلام اور محبت دین محمدی ؐ واضح ہو۔ اسلام کو بچا نے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر اتحاد اور شعور کی فضاء کو قائم کریں اور دشمنان اسلام کی ہر سازش سے ہوشیار رہے تاکہ ہم دشمن کی ہر سازش کا بر وقت مقابلہ کر سکیں۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے رہنماء اور بلوچستان اسمبلی کے رکن آغا رضا رضوی نے علمدار روڈ میں جاری اپنے ترقیاتی کاموں کا جائزہ لیا۔انکا کہنا تھا کہ عوام کی خدمت میرا فرض ہے۔ جس کام کیلئے منتخب ہوا ہوں وہی کام کر رہاہوں ،افواہوں سے ہماری حوصلہ شکنی کی ناکام کوشش ہمارے سیاسی مخالفین کی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے اور وہ جھوٹے پروپیگینڈوں سے ہمارا نام خراب کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ ایم پی اے آغا رضا نے علمدار روڈ محلہ بیت الاحزان کے نو تعمیر شدہ کمیونٹی ہال کا دورہ کیا،ان کے ہمراہ ایم ڈبلیو ایم کوئٹہ ڈویڑن کے سیکریٹری جنرل جناب عباس علی، کونسلر کربلائی رجب علی، پولیٹیکل کونسل کے ارکان حاجی کریم، کاظم علی، آفس سیکریٹری حاجی ناصر علی ، سیکریٹری فلاح و بہبود امان اللہ سمیت علاقے کے معتبرین بھی موجود تھے۔ علاقے کے عوام نے ایم پی اے آغا رضا کے خدمت کو سراہا اور کہا کہ انہیں چند اور مسائل در پیش ہیں ۔ علاقے کے لوگوں نے ایم ڈبلیو ایم کے نمائندوں پر پورے عزم اور بھروسے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے مسائل دریافت کرنے اورہماری خدمت کیلئے ایم پی اے آغا رضا کے شکر گزار ہے ۔ایسی عوامی نمائندگی کی مثال اس سے پہلے دور حکومت میں کبھی پیش نہیں کی گئی تھی۔ محلہ بیت الاحزان میں تعمیر کردہ یہ کمیونٹی ہال تین منزلہ عمارت پر مشتمل ہے، کمیونٹی ہال بنانے کا مقصد علاقے کے عوام کے مسائل کم کرنا ہے اور اسے عوام کے سہولیات کو مد نظر رکھتے ہوئے شادی بیاہ ، فاتحہ خوانی اور دیگر فلاحی کاموں ، درس قرآن، کمپیوٹر کلاسز،ٹیوشن سینٹرز ، خواتین کی سلائی کڑھائی اور دیگر مثبت سرگرمیوں کیلئے بنایا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیاکہ یہ کمیونٹی ہال کارگل کے ایک شہید فدا حسین کے نام سے منسوب کیا گیا ہے ، یہ کمیونٹی ہال اپنے تکمیل کے آخری مراحل تک پہنچ چکا ہے اور اسے جلد مکمل کرکے علاقے کے عوام کیلئے کھول دیا جائے گا، اور جلد ہی عوام کو اضافی خرچوں سے چھٹکارا مل جائے گا۔ بیان کے آخر میں کہا گیا کہ یہ علاقہ خاصہ دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہے اور علاقے کے لوگوں کی اکثریت غریب و مزدور طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔اسی لئے یہ کمیونٹی ہال علاقے کے سماجی مسائل یعنی شادی بیاہ اور فاتحہ خوانی وغیرہ کے اخراجات میں کمی کو مد نظر رکھتے ہوئے تعمیر کیا گیا ہے، اور عوام کیلئے مزید سہولیات کے منصوبے بھی جلد تکمیل پذیر ہونگے۔

وحدت نیوز (گلگت) گلگت سکردو روڈ کی تعمیر میں حکومتی خلوص نظر نہیں آرہا ہے جس طرح پیپلز پارٹی کی حکومت پورے پانچ سال تک عوام کو بیوقوف بناتی رہی اسی طرح نواز لیگی حکومت بھی محض اخباری بیانات کے ذریعے ٹرخانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔سکردو کے کہ عوام جب تک حکمرانوں کا جینا دوبھر نہیں کرینگے تب تلک گلگت سکردو روڈ کی تعمیر ممکن نہیں۔

مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے کہا ہے کہ گلگت سکردو روڈ انتہائی خستہ حالی کا شکار ہے اور اس روڈ پر سفر انتہائی خطرناک ہوچکا ہے کئی دلخراش حادثات رونما ہونے کے باوجود اس روڈ کی تعمیر کو مختلف حیلے بہانوں سے روڑے اٹکانے کی حکومتی پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے۔ایک طرف حکومت سیاحت کے فروغ کیلئے بلند بانگ دعوے کررہی ہے اور دوسری طرف دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کو سرکرنے کی غرض سے آنے والے غیر ملکی سیاحوں کو کن دشوار گزار راستوں سے گزرنا پڑتا ہے اس کا حکومت کو کئی احساس ہی نہیں۔سیاحت کے علاوہ دفاعی طور پر بھی اس روڈ کی انتہائی اہمیت ہے دنیا کے بلند ترین محاذ جنگ سیاچن میں دشمن کو ناکوں چنے چبوانے پر مجبور کرنے والے پاک فوج کے جوانوں کو بھی اسی روڈ سے گزرنا پڑ رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے بھی آج کل کے بہانے تراشتے ہوئے اپنا وقت گزار دیا اور اب موجودہ حکومت بھی انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے غیر ضروری تاخیرے حربوں سے کام لے رہی ہے۔ملک کے دو وزرائے اعظم جناب یوسف رضا گیلانی اور جناب نواز شریف نے عوام سے گلگت سکردو روڈ کی تعمیر کے وعدے کئے لیکن آج تک گلگت بلتستان کے عوام سے کئے گئے وعدے وفا نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی حلقوں میں اخلاص ہو تو ہر رکاوٹ دور ہوسکتی ہے لیکن اگر حکومت مخلص نہ ہو تو بہانے تو تراش لئے جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس اہم ترین روڈ کی تعمیر میں تاخیری حربوں سے ایک طرف علاقے کی معیشت پر کاری ضرب لگ جاتی ہے تو دوسری طرف قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع سے ناقابل تلافی نقصان ہورہا ہے اور اب مزید تاخیر ناقابل برداشت ہے اور عوام کو سڑکوں پر آنا ہی پڑے گا وعدوں پر یقین کرنے کا دور ختم ہوگیا ہے۔

وحدت نیوز (جیکب آباد) وارثان شھداء اور زخمیوں کے ایک وفد نے مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنماء و چئیرمین شھداء کمیٹی، علامہ مقصود علی ڈومکی کی قیادت میں sspجیکب آباد ساجد حسین کھوکھر سے ملاقات کی ، اس موقع پر ایس ایس پی نے دھشت گردوں کے نیٹ ورک اور ان کی سرگرمیوں نیز پولیس کی جانب سے کئے گئے اقدامات سے وفد کو آگاہ کیا۔ وفد نے انہیں سانحہ شب عاشور میں ملوث دہشت گردوں کی گرفتاری اور دہشت گردی کا نیٹ ورک بے نقاب کرنے پر مبارکباد پیش کی۔ اس موقعہ پر سید فضل عباس ،وسیم لطیف مہر و دیگر بھی موجود تھے۔

اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ سانحہ جیکب آباد کی پلاننگ کوئٹہ کے مدرسوں میں ہوئی لہٰذا ان مدارس کو سیل کیا گیا افسوسناک بات یہ ہے کہ دھشت گردی میں ملوث مدارس کی حمایت میں مولانا فضل الرحمٰن صاحب میدان میں آگئے ہیں ، دھشت گردی کے ان اڈوں کی حمایت سے وارثان شہداء کی دل آزاری ہوئی ہے۔ سانحہ کی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ دھشت گردی کیلئے کروڑوں روپے ،ڈالر اور ریال خرچ ہورہے ہیں، دھشت گردوں کے مالی سہولت کاروں کے خلاف بھرپور اقدا،ات کی ضرورت ہے،سانحہ جیکب آباد کی فنڈنگ کرنے والے مولوی رمضان مینگل اور رفیق مینگل کے خلاف بھر پور کاروائی کرتے ہوئے ان کا نیٹ ورک توڑا جائے۔ جیکب آباد میں سینکڑوں لوگوں کو لشکرجھنگوی اور کالعدم سپاہ صحابہ دھشت گردی کیلئے تیار کیا جارہاہے ۔SSPجیکب آباد کے جرئت مندانہ اقدامات کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے ۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) گلگت و بلتستان اسلامی تہذیب و تمدن سے مالا مال ہے ۔ اس  وقت یہاں کی اسلامی تہذیب و تمدن  کو مغربی تہذیبی  یلغار کا سامنا ہے ۔ لبرل اور ماڈرن فکر رکھنے والے نام نہاد دانشمند  لوگ اس معاشرے میں موجود اسلامی آداب و رسوم  کے پابند افراد کو پتھر کے زمانے کے لوگوں سے تشبیہ دیتے ہیں   اور پرانے ذہن کے لوگ سمجھتے ہیں ۔

 یہی وجہ ہے کہ اس معاشرے میں موجود نوجوانوں اور جوانوں کو آداب اسلامی سے بیگانہ کر کے مغربی کلچر کو یہاں رائج کرنے کی خاطر طر ح طرح کے حربے استعمال کئے جارہے ہیں ۔ ان میں سے ایک اہم ترین حربہ منشیات کا عام کرنا ہے۔گلگت بلتستان کا وہ معاشرہ جہاں کچھ سالوں  پہلے سگریٹ نوشی  تک کو  باعث نفرت سمجھاجاتا تھا اور اس کے عادی افراد چھپ چھپا کےسگریٹ نوشی کرتے تھے آج اسی معاشرے میں بے شمار افراد چرس،افیون،شراب اور نشہ آور انجکشن  استعمال کرتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتے ۔

ان دنوں یہاں کی نوجوان نسل ماڈرن سوسائٹی کے نام پر بری سوسائٹی کی شکار  ہے۔اگرچہ بظاہرتعلیم عام ہو گئی ہے مگر  احترامِ انسانیت مٹتا جارہاہے،دولت آگئی ہے مگر ہمدردی اور میل جول پیارو محبت کا خاتمہ نمود و نمائش کے ساتھ ساتھ تکبر،غرور، بے حیائی اورفیشن میں اضافہ ہو گیا ہے ۔

نفسا نفسی کا یہ عالم ہے  کہ ہمدردی تو دور کی بات ہمدردی کے دو بول بولنے اور دلاسہ دینے یا نصیحت کرنے کا احساس تک  ختم ہو چکا ہے ۔بڑھتی ہوئی منشیات کی وجہ سے معاشرے میں اور بہت سی برائیاں جنم لے رہی ہیں جن میں چوری، ڈکیتی، فراڈ اور زنا  جیسے جرائم قابل ذکر ہیں۔

یاد رہے کہ جہاں نوجوانوں کو معاشرتی برائیوں سے دوررکھنا والدین، اساتذہ  اور علمائے کرام کی ذمہ داری ہے وہیں سب سے بڑی ذمہ داری حکومت وقت کی ہے جو منشیات جیسی معاشرتی برائیوں کی خرید وفروخت پرپابندی کے ساتھ ساتھ منشیات کی ان علاقوں  میں اسمگلنگ کو مکمل بند کرنے پراپنی سنجیدگی کا اظہار کرے۔

 کسی بزرگ کے بقول اب منشیات کے عادی افراد گلگت بلتستان میں اس قدر منظم ہوچکے ہیں کہ یہ لوگ آپس میں میٹنگز کر کے اپنی نشے کی ضروریات  کو پورا کرنے ، بر وقت ترسیل کو آسان بنانے اور نشہ آور چیزوں کی خرید و فروخت کے مد میں خرچ کیے جانے والے پیسوں کو بھی اپنے کمیونٹی میں رکھنے کے لیے صلاح و مشورے کرتے ہیں ۔یوں گلگت بلتستان کا معاشرہ تیزی کے ساتھ تباہی اور بربادی کی جانب رواں دواں ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ منشیات کے دھندے کو پھیلانے میں کون کون سے عناصر ملوث ہے اور کون کونسی شخصیات  منشیات کے اس گھناونے کاروبار میں ملوث عناصر کی پشت پناہی کررہی ہے ؟

یقینی امر ہے کہ جب تک بڑے بڑوں کا اس جرم میں ہاتھ نہ ہو یہ کاروبار نہیں چل سکتا ۔اس کاروبار کا نیٹ ورک جس انداز میں پھیل رہا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اعلی سطح کے افراد بھی ملوث ہیں ۔شاید یہی وجہ ہوگی کہ مقامی پولیس بھی ان کے خلاف سخت کاروائی کرنے سے کتراتی ہےوگرنہ ایسے افراد کو سلاخوں کے پیچھے بند کرنے میں ذرا بھر دیر نہیں کرنی چاہیے۔

کس قدر مضحکہ خیزامر ہے کہ  یہاں کے سیاستدان ویسے تومنشیات کو لعنت سمجھتے  ہیں لیکن نہ اس کی  صنعت کو روکتے ہیں  اور نہ ہی اس کی خریدوفروخت کے حوالے سے کسی قسم کی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ۔ ایک سروے کے مطابق اگر  اس  کےتدارک کے لیے کوئی  سنجیدہ  قدم نہ اٹھایا  گیا تو یہ  لعنت اب نہ صرف لڑکوں تک محدود رہے گی بلکہ اس کا دائرہ کار صنف نازک تک پھیل جائے گا۔ یاد رہے کہ یہاں  منشیات کے استعمال کی  ایک بنیادی وجہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اورروزافزوں مہنگائی بھی ہے، لیکن سب سے افسوس سناک امریہ ہے کہ اس وقت منشیات کے استعمال  کی روک تھام کے لیے قابل قدر اقدامات نہیں اٹھائے جارہے ہیں ۔

یہ ایک روشن حقیقت ہے  کہ جب تک منشیات کے استعمال کے رواج اور بڑھا وا دینے والے اسباب کا خاتمہ نہیں کیا جاتا ہے اس وقت تک اس مسئلے کو کنڑول نہیں کیا جا سکتا اور اسی طرح حکومت کی طرف سے  بھی  اس سلسلے میں ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

تمام شعبہ ہائے زندگی خصوصامیڈیا ،اساتیداور علمائے کرام کی طرف سے منشیات کی روک تھام کے لیے سنجیدہ اور عملی کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔


تحریر ۔۔۔۔۔۔۔سید قمر عباس حسینی

اے مسلمانو! ۔۔۔مقام تعجب یہ نہیں وہ ہے

وحدت نیوز (آرٹیکل) شاید آپ کو تعجب ہوگا،یہ واقعتا تعجب کی بات ہے ،بعض ملکوں میں ایسا بھی ہے کہ والدین  اپنے  بچوں سے زیادہ اپنے ”کتے “ ”بلی“ سے پیار کرتے ہیں اور بعض اسلامی ملکوں میں بھی آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہاں  پر کس قدر جانوروں سے پیار کیاجاتاہے،دینِ اسلام نے بھی جانوروں کے حقوق پر روشنی ڈالی ہے  ،حتی کہ  یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب بھی آپ گوشت کھائیں تو تھوڑا سا گوشت ہڈی کے ساتھ رہنے دیں کیونکہ یہ جانوروں کا حق ہے ۔لیکن دوسری طرف دنیا میں  اسلام کے نام پر بے گناہ انسانوں کا قتلِ عام کیا جارہاہے۔

البتہ تعجب کی بات یہ ہے کہ ہم لوگ بالکل یہ نہیں سوچتے کہ کون یہ کررہا ہے اور کیوں ؟!
 کون ہے جو پاکستانی حکمرانوں کو چند ڈالرز دے کر دہشت گردی کے مراکز کو تحفظ دلواتاہے؟
کون ہے جو ہمارے سیاستدانوں کوفرقہ واریت کی راہ پر چلنے پر مجبور کرتا ہے؟
کون ہے  جو جس لسٹ میں چہتا ہے بغیر پوچھے ہمارے ملک کانام دے دیتا ہے؟
کون ہے جو دینی مدارس اور مجاہدین کے نام پر ہمارے ملک میں دہشت گردی کو فروغ دے رہاہے؟
اور کون ہے جو شام،عراق،لبنان سمیت  ساری دنیا کے اسلامی ممالک میں دہشت گردی کے نیٹ ورکس کو متحرک رکھے ہوئے ہے؟
آپ فقط اسی سال میں دیکھیں یمن میں انسانیت سوز جرائم انجام دیئے  گئے، آل سعود نے اہلِ یمن پر مصائب کے پہاڑ تورے لیکن ملت اسلامیہ خاموش رہی!
عراق میں عرصہ  دراز سے سعودی لابی کشت و خون کررہی ہے لیکن مسلمان خاموش ہیں! شام میں خون کے دریا بہادئیے گئے ہیں لیکن مسلمان خاموش ہیں!
 دنیا میں وہ اقوام اور تنظیمیں جو جانوروں کے حقوق کے لئے بھی چیختی ہیں،آلِ سعود کے مظالم کی بھینٹ چڑھنے والے انسانوں کے قتلِ عام پر خاموش ہیں۔
یہ خاموشی بلا سبب نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دشمنانِ اسلام   مل جل کر آل سعود کے ذریعے بے گناہ لوگوں کو قتل کروا کر دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے نزدیک انسانوں کی قیمت جانوروں سے بھی کم ہے۔ہمیں جانوروں کے حقوق کو دیکھ کر متعجب ہونے کے بجائے آل سعود کی درندگی کو دیکھ کر اپنے تعجب کا اظہار کرنا چاہیے۔

تحریر۔۔۔۔۔۔۔ابراہیم صابری

وحدت نیوز (سرگودھا) پنجاب بوائے اسکاوٹس کی ریجنل بوائے اسکاوٹ ایسوسی ایشن سرگودہا کی سرپرستی میں مجلس وحدت مسلمین کے ذیلی شعبہ وحدت اسکاوٹ اوپن گروپ سرگودھاکے روورز درمیان دریائے چناب میں کشتی رانی کا مقابلہ کروایا گیا۔ مقابلے میں سرگودہا کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے ولے وحدت اسکاوٹس میں سے 35 اسکاوٹس نے شرکت کی۔ کشتی رانی کے مقابلے میں اسکاوٹس کے ساتھ ساتھ ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنماعلامہ غلام شبیر بخاری، ناصرشیرازی ودیگر نے بھی شرکت کی۔ وحدت اسکاوٹ اوپن گروپ کے مرکزی چیف اسکاوٹ تنصیر حیدر شہیدی نے اسکاوٹس کی رہنمائی اور نگرانی کی۔

وحدت نیوز(سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے رکن قانون ساز اسمبلی کاچو امتیاز حیدر خان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کا مطالبہ مکمل آئینی حقوق ہے، ہمیں پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح مکمل آئینی حقوق دیئے جائیں۔ یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہمارا کبھی بھی آزاد کشمیر جیسا سیٹ اپ کا مطالبہ نہیں رہا ہے، ہمارا واضح اور دوٹوک موقف ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ ہمیں مکمل آئینی صوبہ بنایا جائے، اگر فوری طور پر یہ ممکن نہیں ہے تو کرگل لداخ کو ہندوستان کے آئین میں جو حقوق حاصل ہیں وہی حقوق حکومت پاکستان اپنے آئین میں ترمیم کرکے گلگت بلتستان کو بھی دے سکتا ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام مزید کسی لولی پاپ کو قبول کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ ہمیں حکومت پاکستان کے ارباب اختیار کے ارادے کچھ نیک نظر نہیں آ رہے ہیں، ہم حکومت وقت کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے ساتھ بہت مذاق ہوچکا ہے اب ان کے ازالے کا وقت آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت اسکردو روڈ بنانے کے بلندوبانگ دعوے کرنے کے باوجود ابھی تک کوئی کام نہیں ہوا ہے، مارچ میں کام شروع ہونا تھا ابھی جون تک لے کے جارہے ہیں، حکومت ہر کام میں تاخیری حربے استعمال کررہے ہیں ہمارا مطالبہ ہے کہ گلگت اسکردو روڈ پر فی الفور کام شروع کرایا جائے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree