وحدت نیوز(آرٹیکل)2011 سے اب تک شام کی سر زمین پر ایک ملین کے قریب انسانوں کے قتل، اور پانچ ملین کے قریب انسانوں کو ملک کے اندر اور باہر ہجرت پر مجبور کرنے کے بعد کوئی بھی عقل مند شخص یہ بات قبول نہیں کر سکتا کہ "قانون قیصر " امریکی کانگریس  نے شامی عوام کی محبت اور انکے دفاع کی خاطر بنایا ہے. سیرین عوام کیسے قبول کر سکتے ہیں، کہ امریکہ انکا ہمدرد ہے، جبکہ اس نے غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کو فلسطین کی سرزمین پر مسلط کیا، اور ہمیشہ فلسطین کے علاوہ اردن ، مصر ، لبنان اور شام کی سرزمینوں پر ناجائز اسرائیلی قبضے کی مکمل پشت پناہی کی. اور حال ہی میں ٹرامپ نے اعلان کیا کہ مقبوضہ جولان بھی اسرائیل کی قانونی ملکیت ہے. تاریخ میں ایک مرتبہ بھی اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر امریکہ نے شامی عوام کے حق کی کبھی بھی حمایت نہیں کی. لاکھوں دھشتگردوں کو دنیا بھر سے لا کر تباہی وبربادی پھیلانے اور بے گناہ عوام کے قتل عام کے لئے جدید ترین اسلحہ فراہم کرنے اور ان درندوں کی ہر طرح کی مدد کرنے کے بعد امریکہ آخر میں پوری دنیا کے سامنے یہ جھوٹ بولے کہ اسے شامی عوام کی فکر وہمدردی ہے یہ ہر گز قابل قبول نہیں.  

بلکہ حقیقت یہ کہ اس قانون کا مقصد جنگ زدہ شامی عوام کی انسانی بنیادوں پر مدد کرنے کے اقوام متحدہ کے فیصلے کے سامنے رکاوٹیں حائل کرنا ہے. تاکہ شامی عوام کا مزید اقتصادی استحصال ہو. اور بنیادی ضروریات زندگی سے محروم اور کسم پرسی و شدید غربت وفقر وافلاس میں مبتلا بیگناہ عوام کو زندہ رہنے کے حق سے بھی محروم کیا جا سکے. وہ امریکہ کہ جس نے چند سالوں سے ملک شام کی  سرزمین کے ایک حصے پر ناجائز غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے اور اپنے فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں. اور اس ملک کے معدنیات اور تیل کے ذخائر کو لوٹ رہا ہے امریکی صدر ٹرامپ پوری وقاحت سے دنیا کے سامنے اعلان کرتا ہے کہ شام کے تیل کے ذخائر میرے اختیار میں ہیں. اتنے بڑے جنایتکار اور کھلے دشمن کو شامی عوام سے ہرگز ہمدردی ہو نہیں سکتی.  اور نہ ان تکفیری پراکسیز اور امریکی اتحادی ممالک کو ہمدردی ہو سکتی ہے، جو اس ملک کی تباہی اور عوام کے قتل عام میں شریک ہیں.  اور انکے میڈیا پر جھوٹا پروپیگنڈا چلتا رہتا ہے.

داعش کی شکست اور امریکی وترکی واسرائیلی خوابوں پر پانی پھر جانے اور مقاومت کے بلاک کی مسلسل کامیابیوں کے بعد بہت سے ممالک نے شام کے ساتھ دوبارہ سفارتی تعلقات بڑھانا شروع کئے. کئی سالوں سے مختلف ممالک کے بند سفارتخانے اور قنصل خانے فعال ہوئے. شام کے بارے میں امریکی سیاست کو تنہائی کا احساس ہوا. اقوام متحدہ کی تائید اور روس ، ایران ، ترکی وشام حکومت واپوزیشن کے مابین آستانہ اور سوچی شہروں میں شامی بحران  کے سیاسی حل کے لئے مذاکرات کا سلسہ شروع ہوا، اور شام میں جنگ کے خاتمے کے مرحلے کا آغاز ہوا تو امریکی تنہائی اور بڑھ گئی. امریکہ نے دیکھا کہ اربوں اور کھربوں ڈالرز خرچ کرنے بعد نہ شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور نہ ہی شام کی تعمیر نو اور مستقبل کی سیاست میں اسکا کو کردار ہو گا. اس لئے شام کے مستقبل کے مذاکرات میں شرکت کرنے اور سیاسی مفادات حاصل کرنے اور اپنا دباؤ بڑھانے کے لئے قانون قیصر کا سہارا لیا. اور شام پر مزید اقتصادی پابندیوں کی دھمکی دی. اس اندھے قانون کی شقوں کے مطابق "قانون قیصر " کی زد میں فقط شام حکومت ہی نہیں آتی، بلکہ اسکی زد میں ہر وہ ملک بھی آتا ہے جو شام کے ساتھ تجارتی و اقتصادی تعلقات بڑھائے گا. اور جو کسی قسم کی امپورٹ وایکسپورٹ کرے گا، یا شام کو ضروریات زندگی فراہم کرنے اور تعمیر نو میں اسکی مدد کرے گا. بلکہ اس کی زد میں وہ کمپنیاں ، بنک اور دیگر ادارے وافراد بھی آتے ہیں جو کسی قسم کے علمی تجربات ومعلومات ، مینجنگ اینڈ پلاننگ خدمات وغیرہ فراہم کریں گے.

لیکن جیسے ملک شام اس طولانی جنگ میں تنہا نہیں تھا.  اب بھی تنہا نہیں رہے گا. شام کے اتحادی اور دوست ممالک کل بھی شام کے ساتھ کھڑے تھے اور آج بھی شام کے ساتھ کھڑے ہیں اور آئندہ بھی کھڑے رہیں گے. اور امریکہ کا یہ حربہ بھی سابقہ حربوں کی مانند بری طرح ناکام ہوگا. اور امید تو یہی ہے کہ روس ، چین ، ایران اور دیگر دوست واتحادی ممالک اس اقتصادی جنگ میں بھی امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو شکست دیں گے. جیسے وینزویلا پر امریکی پابندیوں کو چیرتے ہوئے ایرانی تیل سے بھرے بحری جہاز کاراکاس پہنچے تھے اور اقتصادی حصار کو توڑا تھا ایسا ہی کل 13/06/2020 کو ملک شام کے وفادار و اتحادی اور بردار ملک ایران کا امدادی  سامان سے بھرا بحری بیڑہ (شہر کرد ) تمام تر امریکی پابندیوں کو روندتے ہوئے شام کے لاذقیہ شہر کے ساحل پر لنگر انداز ہوا ہے، اور اس سفر کے دوران ایرانی جنگی آبدوزیں پورا راستہ اسکی حفاظت کے لئے تیار اس کے ہمراہ رہیں.

تحریر: علامہ ڈاکٹر شفقت شیرازی

وحدت نیوز (آرٹیکل) آج جب پوری دنیا کورونا وائرس جیسی موذی وباء میں مبتلا ہے. اس نے ہر رنگ ونسل ، قوم و ملک اور ہر طبقے کے ملینز افراد کو متاثر کیا، اور اب تک لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں. دنیا بھر کے افراد ہوں یا فلاحی انجمنیں وتنظیمیں یا حکومتی وغیر حکومتی ادارے، وہ سب ملکر انسانیت کو بچانے کے لئے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں. اور اس وباء کے پھیلاو سے پیدا ہونے والے چیلنجز کا مقابلہ کر رہے ہیں. حتی کہ انسانی ہمدردی ، خیر سگالی کے جذے کے تحت بین الاقوامی سطح پر بھی مختلف ممالک مثلا روس ، چین ، ایران ، کوبا ودوسرے ممالک کو اس مشکل وقت میں طبی الات وسہولیات وتجربات فراہم کرنے کی فقط پیش کش ہی نہیں کی بلکہ انسانی جانوں کو بچانے کے لئے عملی اقدامات بھی کئے ہیں.  

لیکن دوسری طرف انسانیت کا قاتل اور دشمن ملک امریکہ ہے کہ جو کورونا وائرس کے پھیلاو کے ساتھ ساتھ  داخلی طور پر نسل پرستی کی آگ میں جل رہا ہے. اسکی فورسسز کا وحشیانہ رویہ اور  انسانی حقوق کی برسرعام بین الاقوامی میڈیا کے سامنے پامالی آج پوری دنیا دیکھ رہی ہے. حقوق بشر ، حقوق نسواں اور جمہوریت  کے کھوکھلے نعروں کی حقیقت آج پوری دنیا کے سامنے عیاں ہو چکی ہے . یہ فرعونی سرمایہ دارانہ نظام  نہ اسکے نزدیک انسانی اقدار کی قدرو منزلت اور نہ ہی بین الاقوامی قوانین وضوابط اور معاہدوں کی پاسداری کی کوئی اہمیت ہے. پوری دنیا کے امن وامان کو گذشتہ تقریبا دو صدیوں سے پامال کر رہا ہے.  اور دوسری اقوام وممالک کے وسائل کو لوٹنا، انکے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرنا، انہیں غلامی کی راہ اختیار کرنے پر مجبور کرنا اور انکار کرنے یا مقاومت کرنے والوں کے خلاف بے دریغ طاقت کا استعمال کرنا، تباہی وبربادی پھیلانا اسکا وطیرہ بن چکا ہے.  

اس استبدادی، استکباری اور چنگیزی سیاست کے چند آثار ملاحظہ ہوں۔

1- اس وقت امریکہ داخلی طور پر مکافات عمل کا شکار ہو چکا ہے.

2- بین الاقوامی سطح پر اسکی آزاد وخود مختار ممالک واقوام کے خلاف جارحانہ پالیسیاں جاری وساری ہیں.  

3- چین کے ساتھ سرد جنگ میں اس قدر شدت آ چکی ہے جو کسی نئے بڑے عالمی بحران کو جنم دے سکتی ہے .

4- ایک لمبے عرصے سے مقاومت اور عزت کی راہ اختیار کرنے والے ممالک کے عوام کو سزا دینے اور ارادوں کو توڑنے کے لئے شدید ترین اقتصادی دباو اور انکا زمینی وفضائی محاصرہ کر رکھا ہے.

5- یمن پر لاکھوں ٹن بارود اسی کے ایماء اور پشت پناہی سے آل سعود وآل زید نے گرایا ہے، اور وہاں بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا ہے اور فقر وفاقہ اور وباء امراض کو پھیلایا ہے. مجبور وبیگناہ انسانیت اس ترقی یافتہ دور میں سسکیاں لے رہی ہے لیکن دنیا بھر کے آزاد میڈیا کی زبانوں پر تالے لگے ہوئے ہیں اور سب اندھے اور بہرے دکھائی دیتے ہیں.  

5- ملک شام گذشتہ دس سال سے اسرائیل وامریکا کی جلائی ہوئی آگ کی لپیٹ میں ہے. جنوب سے اسرائیلی جارحیت ، مشرق سے امریکی فوجی اڈے ،اور مسلسل فضائی حملے اور شمال اور شمال مغرب سے ترکی فورسسز کی جارحیت وزمینی وفضائی حملے تباہی وبربادی پھیلا رہے ہیں.  

7- 2011 کی ابتداء میں یہ جنگ ان شام دشمن ممالک نے اپنی تیار کردہ تکفیری پراکسیز سے شروع کی . یہ مسلط کردہ جنگ داعش ، جبھۃ النصرہ ، جیش الحر ، احرار الشام ، قسد وغیرہ سیکڑوں دہشتگرد مسلح گروہوں کے ذریعے  امریکی واسرائیلی منصوبہ بندی اور سعودیہ وقطر وبحرین وامارات جیسے ممالک کی مالی امداد اور ترکی و اردن ولبنان کی لوجسٹک خدمات سے شروع کی گئی.  اور دنیا بھر کے 90 سے زیادہ ممالک سے تکفیری وھابی فکر کے حامل دھشتگرد لاکھوں کی تعداد میں ملک شام وارد کئے گئے. جنکو شامی حکومت نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے بری طرح شکست دی.

8- اقوام متحدہ اور بین الاقوامی فورمز پر امریکہ اور اسکے اتحادیوں کا مقابلہ چائنا و روس کے متعدد بار ڈبل ویٹو سے کیا گیا.اور امریکیوں کو رسوائی اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑا. اور میدان جنگ میں امریکہ اور اسکے سب اتحادیوں  کا مقابلہ مقاومت کے بلاک یعنی شامی آرمی نے اپنی رضا کار فورسسز ،  ایران وروس وحزب اللہ ودیگر اتحادیوں کی عسکری مدد سے امریکی واسرائیلی پراکسیز کو شکست فاش دی اور تکفیری گروہوں کی کمر توڑ دی.

9- پراکسیز کی شکست کے بعد شام کے اصلی دشمنوں امریکہ اسرائیل اور ترکی نے ملکر چاروں طرف سے حملے شروع کئے جنکا شامی فورسز اور اسکے اتحادیوں نے منہ توڑ جواب دیا اور حلب شہر کو مکمل آزاد کروایا اور دمشق ودرعا ، وحلب وادلب ، دیرالزور ، الرقہ والحسکہ کے سینکڑوں علاقے آزاد ہوئے.  

عسکری میدان میں ناکامیوں کے بعد گذشتہ چند سالوں سے اس ملک کو اقتصادی طور پر تباہ کرنے کے لئے اسکا شدید ترین محاصرہ کیا گیا ہے.   اور اقوام متحدہ سے الگ یک طرفہ امریکی ظالمانہ اقتصادی پابندیوں میں روز بروز اضافہ کیا جا رہا ہے. جسکی ایک مثال امریکی کانگرس کا ملک شام کے خلاف " قانون قیصر " یا " قانون سیزر " ہے جسے ابھی نافذ کیا جا رہا ہے.  

یہ قانون قیصر کیا ہے؟
اسے قانون قیصر کیوں کہتے؟
اسے نافذ کرنے کے بعد شام پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
 اس کی تفصیلات جاننے کے لئے کے ہمارے  اگلے کالم کا انتظار کریں.

تحریر: ڈاکٹر علامہ سید شفقت حسین شیرازی

وحدت نیوز(آرٹیکل) 2011 کے دورہ مصر کے موقع پر اردوان نے اپنے خطاب میں کہا کہ ترکی ایک سیکولر ریاست ہے. اور مصر والوں کو بھی سیکولر ریاست بنانے کی تاکید کی.  26 اپریل 2016 کو جب ترکی پارلیمنٹ کے سربراہ اسماعیل کھرمان نے آئین میں تبدیلی کے وقت سیکولرزم کو تبدیل کرنے کی طرف اشارہ کیا تو اردوان نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں سیکولر نظام ہی قبول ہے. اور ریاست کی نگاہ میں سب ادیان برابر ہیں.  ترکی کے آئین مملکت کے سربراہ یا کسی اعلی عہدیدار کا مسلمان ہونا کوئی کسی قسم کا ذکر نہیں.   اسلامی شریعت کے مطابق احوال شخصی وغیرہ کا بھی ذکر نہیں۔

1- ترکی سیٹلائٹ پر آدھے سے زیادہ چینل فحش فلموں اور ڈراموں کے چلتے ہیں. ترک فلم انڈسٹری میں کسی بھی شرعی قانون کی کوئی رعایت نہیں ہوتی. اور اس کا مشاہدہ کرنا تو آجکل کے انٹرنیٹ اور سیٹلائٹس کے دور میں بہت آسان ہے.

2- ترکی میں چکلے (prostitution) کو قانونی حیثیت حاصل ہے.  آرٹیکل 5537 کی شق نمبر 227 کے مطابق یہ کاروبار جائز اور قانونی ہے.  تقریبا 15000 رجسٹرڈ چکلے ہیں.  جس سے ترکی کو 4 بلین ڈالرز کی آمدن وصول ہوتی ہے.  انسانی حقوق اور صحت کے ادارے کے سربراہ کمال اورداک کا کہنا ہے کہ پچھلے دس سال میں اس کاروبار میں تین گنا اضافہ ہوا ہے. ترکی جس سیاحت پر فخر کرتا ہے اس میں بھی اہم کردار اسی کاروبار کا ہے.

3- دنیا میں شراب بنانے کا  بڑا  کارخانه رجسٹرڈ برانڈ Tekel ( Turkish tobacco and alcoholic beverages company)  ترکی میں ہے .جسکی مالیت 292 ملین ڈالرز ہے.  جس کی گوگل سرچ سے تصدیق کی جا سکتی ہے. 4 جون 2019 کے کالم بعنوان " ترکیا المثلیۃ جنسیا وسیاسیا ج1 " میں فادی عید وھیب  نے لکھا ہے کہ ترکی میں ایک اعداد وشمار کے مطابق 2009 کو 2 کروڑ 9 لاکھ 6 ھزار 762 لٹر شراب پی گئی.  

4- البانیا کے بعد ترکی دوسرا ملک ہے جہاں ھم جنس پرستوں کے حقوق کا اعتراف کیا جاتا ہے. اردوان کے دور حکومت میں 2014 پہلی ہم جنس پرستوں کی رسمی شادی ہوئی اور ہم جنس پرستوں کے عالمی لیڈر بولنٹ ذا دیوا کے اعزاز میں  اردوان نے خود ایک بڑی تقریب کا اہتمام کیا. اور ہم جنس پرستوں کو مبارک باد پیش کی. یہ کوئی خفیہ تقریب نہیں بلکہ باقاعدہ میڈیا پر دکھائی گئی. 2015 کو ایک ھفتے کے مسلسل ہم جنس پرستوں کے مختلف پروگرام اور ان کا الفخر مارچ بھی انقرہ واستنبول اور دیگر شہروں میں منعقد ہوئے.

تحریر : ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی

وحدت نیوز(آرٹیکل) معنی گناہ
لغت میں گناہ مختلف ناموں جیسے (اثم. جرم. معصیت) سے پہچانا جاتا ہےاصطلاح میں گناہ یعنی حرام یا ناپسند کام کا مرتکب ہونا یا ایک واجب عمل کو ترک کر دینا. یا ہر وہ کام کہ جس کے ذریعے انسان حدود الھی کو پامال کر دے.قرآن کریم نے گناہ کو مختلف الفاظ جیسے (ذنب؛معصیت؛ اثم؛ سیئه ؛ جرم؛ خطیئه، فسق، فجور، فساد، منکر، فاحشه، شر؛ لمم، وزر،) سے تعبیر کیا ہے.

اسباب گناہ

یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ہر معلول کے پیچھے ایک علت دخیل ہوتی ہے. جس طرح معلول بغیر علت کے نہیں ہو سکتا اسی طرح گناہ بھی بغیر اسباب کے نہیں ہو سکتے  جو موجب بنتے ہیں کہ انسان گناہ کا ارتکاب کرے اور خداوند متعال کی حدود سے تجاوز کرےلہذا ہمارے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم پہلے گناہوں کے اسباب سے آگاہ ہوں. تاکہ ہم ان اسباب کا صدباب کریں اور معصیت سے بچیں.

1.  دین سے دوری
گناہوں کے اسباب میں سے سب سے پہلا سبب ایک انسان کی دین سے دوری ہے. جو شخص بھی دین سے دور ہوتا ہے اسکے لئے گناہ کرنا آسان ہوتا ہے. اس کے بر عکس اگر انسان دین دار ہو خداوند متعال کے قریب ہو وہ کبھی بھی گناہ نہیں کرے گا.

اس دور میں جتنے بھی فسادات ہو رہے ہیں چاہے وہ گھریلو ہوں. خاندانی ہوں. سیاسی ہوں. اجتماعی ہوں وغیرہ.. . ان سب کے جہاں پر اور بہت سے اسباب ہیں وہاں سب سے بڑا سبب خدا اور دین خدا سے دوری ہے.

لہذا جتنا انسان خدا اور دین خدا کے قریب ہو گا اس کا عقیدہ پختہ ہو گا اتنا ہی وہ انسان گناہوں سے پاک رہے گا.

ایسے انسان کہ جو بالکل دین اور خدا سے دور ہیں کسی قسم کا نیک عمل انجام نہیں دیتے خداوند متعال نے قرآن میں انہیں خاسرین سے تعبیر کیا ہے کہ یہ لوگ خدا اور دین خدا سے دور ہیں نیک اعمال انجام نہیں دیتے اور دوسروں کو حق (نیک اعمال) کی ترغیب نہیں دلاتے لہذا یہ خسارے میں ہیں.  وَ الْعَصْرِ

إِنَّ الْإِنْسانَ لَفی خُسْرٍ إِلَّا الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ وَ تَواصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَواصَوْا بِالصَّبْر (سورہ عصر) کہ قسم ہے زمانے کی انسان خسارے میں ہے مگر وہ لوگ خسارے سے بچ جائیں گے جو نیک اعمال انجام دیتے رہے اور ایک دوسرے کو حق بات کی تلقین کرتے رہے۔(سورہ عصر)

لہذا ایمان. عمل صالح اور قرب خدا ایسی طاقتیں ہیں کہ جو انسان کو گناہوں سے روکتی ہیں

ایک مقام پر امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :  المؤمِنُ لایَغْلِبُهُ فَرْجُهُ وَ لا یَفْضَحُهُ بَطْنُهُ. کہ مومن پر اس کی شرمگاہ (یعنی شهوت جنسی) غلبہ نہیں کرتی اور اسکا شکم اسے رسوا نہیں کرتا

اب یہاں پر معصوم نے جس چیز کو گناہ سے ڈھال قرار دیا ہے وہ ایک انسان مومن کا ایمان ہے اسکا عمل صالح ہے اسکا خدا اور دین خدا کے قریب ہونا ہے. (بحارالأنوار. ج67. ص310)

ایک اور مقام پر امام باقر علیہ السلام نے فرمایا :انّما الْمُؤمِنُ الّذی اذا رَضِیَ لَمْ یُدْخِلْهُ رِضاهُ فی اثْمٍ وَ لا باطِلٍ.مومن وہ ہے کہ جب وہ خوش ہوتا ہے تو اس کی یہ خوشی اسے گناہ کی طرف نہیں لے جاتی.( اصول کافی. ج3. ص330)

2. نادانی

جہالت و نادانی ہر برے کام کی جڑ ہوتی ہے. جہالت ہی کی وجہ سے انسان ہر برے کام کو انجام دے دیتا ہے. ایسے افراد جو بغیر سوچے سمجھے گناہ کرتے ہیں انکو خداوند متعال نے قرآن میں جہالت سے تعبیر کیا ہے :أَ إِنَّکُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجالَ شَهْوَةً مِنْ دُونِ النِّساءِ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُون(نمل: 55)

آیا آپ شھوت کی وجہ سے بجای عورتوں کے مردوں کے قریب آئیں گے بلکہ آپ قوم جاھل ہیں.

یہاں اس آیت سے واضح ہو جاتا ہے کہ جہالت بھی ایک ایسا سبب ہے جو انسان کو گناہ کی طرف لے جاتا ہے

آیت اللہ جوادی آملی حفظہ اللہ اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں فرماتے ہیں: اگر کسی کی معرفت والی مشکل حل ہو جائے وہ کبھی بھی گناہ نہیں کرے گا. اکثر موارد میں گناہ وہاں ہوتا ہے جہاں گنہگار نہیں جانتا کہ کس کے دسترخوان پر بیٹھا ہے یعنی معرفت نہیں رکھتا ہو جاہل ہوتا ہے جس کی وجہ سے گناہ کرتا ہے. (درس خارج. 1375.8.30)

حضرت یوسف علیہ السلام نے بھی اپنے بھائیوں کے گناہ کو نادانی کے ساتھ تعبیر کیا ہے:قَالَ هَلْ عَلِمْتُمْ مَا فَعَلْتُمْ بِيُوسُفَ وَأَخِيهِ إِذْ أَنْتُمْ جَاهِلُونَ ﴿یوسف ٨٩﴾حضرت یوسف نے کہا آیا آپ جانتے ہیں کہ جو کچھ آپ نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا اس وقت آپ جاھل تھے.

اگر روایات کا مطالعہ کیا جائے تو وہاں بھی جہالت اور نادانی کو گناہوں کا سبب کہا گیا ہے.

امیرالمومنین علی علیہ السلام نے جو عہدنامہ مالک اشتر کو دیا اس میں فرمایا :لایَجْتَرِئُ عَلَی اللهِ إِلَّا جَاهِلٌ شَقِیٌ.

کوئی بھی خداوند متعال کی نافرمانی پر جرأت پیدا نہیں کرے گا مگر شقی اور جاھلیعنی یہاں پر معلوم ہوا کہ جہالت ایسی چیز ہے جو انسان کو سرکشی پر مجبور کرتی ہے.(نہج البلاغه. خط53)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : الْجَهْلُ مَعْدِنُ الشَّرِّ، الْجَهْلُ أَصْلُ کُلِّ شَرٍّ، الْجَهْلُ یُفْسِدُ الْمَعَادَ. جہالت شر کا مرکز ہے جہالت ہر شر کی جڑ ہے جہالت انسان کی آخرت کو تباہ کرنے کا موجب بنتی ہے. (گناہ شناسی محسن قرائتی ص70)3.  فقر (تنگ دستی) اور مال و دولت

تنگ دستی اور مال و دولت دو ایسی چیزیں ہیں جو گناہ کا سبب بنتے ہیں.جس طرح ایک انسان تنگ دست اپنی غربت کو ختم کرنے کی خاطر اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات پورا کرنے کی خاطر حدود الھی کو پامال کرتا ہے.اسی طرح ایک مالدار انسان اپنی دولت کی بنیاد پر اپنے غرور و تکبر کی بنیاد پر حدود الھی کو پامال کرتا ہے.

یعنی ہر دو انسان کو گناہ کی طرف لے جانے کا سبب بنتی ہیں.لہذا خداوند متعال نے قرآن میں فرمایا :کَلَّا إِنَّ الْإِنْسانَ لَیَطْغی.ہرگز نہیں. انسان تو یقیناً سر کشی کرتا ہے. أَنْ رَآهُ اسْتَغْنی. اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز خیال کرتا ہے (علق: 6 و 7)

اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس کی شاھد ہے. بطور مثال. ثعلبه نے خداوند سے یہ عہد کیا تھا کہ اگر وہ مالدار ہو گیا تو ضرورت مندوں کو صدقہ دے گا. لیکن جب خدا نے اسے بہت ساری دولت عطا فرمائی تو اس نے بخل کیا اور ذکات ادا نہ کی. اسی لیے اس کے بارے میں آیات نازل ہوئیں. وَمِنْهُمْ مَنْ عَاهَدَ اللَّهَ لَئِنْ آتَانَا مِنْ فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَکُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِینَ  اور ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کر رکھا تھا کہ اگر اللہ نے ہمیں فضل سے نوازا تو ہم ضرور خیرات کیا کریں گے اور ضرور نیک لوگوں میں سے ہو جائیں گے     ﴿توبہ ٧٥﴾    فَلَمَّا آتَاهُمْ مِنْ فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَتَوَلَّوْا وَهُمْ مُعْرِضُونَ. لیکن جب اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نوازا تو وہ اس میں بخل کرنے لگے اور (عھد) روگردانی کرتے ہوئے پھر گئے ﴿توبہ ٧٦﴾

ایسی دولت جو غرور کا سبب بنے خداوند متعال نے اسے گناہوں کا سبب قرار دیا ہے. وَ کَمْ أَهْلَکْنا مِنْ قَرْیَةٍ بَطِرَتْ مَعیشَتَها فَتِلْکَ مَساکِنُهُمْ لَمْ تُسْکَنْ مِنْ بَعْدِهِمْ إِلَّا قَلیلا. اور کتنی ہی ایسی بستیوں کو ہم نے تباہ کر دیا جن کے باشندے اپنی معیشت پر نازاں تھے؟ ان کے بعد ان کے مکانات آباد ہی نہیں ہوئے مگر بہت کم اور ہم ہی تو وارث تھے (قصص: 58)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :أَلْهاکُمُ التَّکاثُر. ایک دوسرے پر فخر نے تمہیں غافل کر دیا ہے (تکاثر: 1)

رسول خدا صلی نے اس آیت کے بارے میں ارشاد فرمایا : التَکَاثُرُ [فِی] الأَمْوَالِ جَمْعُهَا مِنْ غَیْرِ حَقِّهَا وَ مَنْعُهَا مِنْ حَقِّهَا وَ سَدُّهَا فِی الأَوْعِیَةِ. تکاثر سے مراد مال کو ناجائز طریقے سے جمع کرنا اس میں سے حقدار کو نہ دینا اور صندوق میں بند کر کے رکھنا ہے. (تفسیر نورالثقلین. ج5. ص662)

اور تنگ دستی ایسی مصیبت ہے جو انسان کو گمراہی اور گناہ کی طرف کھینچتی ہے.امیرالمومنین علی علیہ السلام نے اپنی بیٹے محمد حنفیہ کو فرمایا :يَا بُنَيَّ، إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكَ الْفَقْرَ، فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنْهُ؛ فَإِنَّ الْفَقْرَ مَنْقَصَةٌ لِلدِّينِ، مَدْهَشَةٌ لِلْعَقْلِ، دَاعِيَةٌ لِلْمَقْتِ. میں فقر کے بارے میں آپ سے ڈرتا ہوں. فقر سے خدا کی پناہ مانگو کیونکہ فقر کو ناقص. عقل اور فکر کو مضطرب. اور لوگوں اور اسکی نسبت اور اس کو لوگوں کی نسبت بد ظن کرتا ہے (نھج البلاغه حکمت 319)

ایک اور مقام پر رسول اللہ نے فقر کے متعلق یوں دعا کی :اللَّهُمَّ بَارِکْ لَنا فِی الْخُبْزِ وَ لا تُفَرِّقْ بَیْنَنا وَ بَیْنَهُ فَلَوْلا الْخُبْزُ ما صَلَّیْنا وَ لا صُمْنا وَ لا أَدَّیْنا فَرَائِضَ رَبِّنا. اے خدایا. ہماری روٹی میں برکت عطا فرما. ہماری روٹی کو ہم سے جدا نہ کر. اگر روٹی نہیں ہو گی نماز نہیں پڑھیں گے روزہ نہیں رکھیں گے اور واجبات کو ادا نہیں کریں گے (فروع کافی. ج5. ص73.)

روایات میں آیا ہے کہ زیادہ دولت  انسان کو غافل کر دیتی ہےرسول خدا صلی. ایک چرواہا جو مسلمانوں کو دودھ دینے میں بخل کرتا تھا اس کے لیے یوں دعا کی« خدا آپ کو بہت زیادہ مال دے »

ایک دوسرا چرواہا جو مسلمانوں کو دودھ دیتا تھا اس کے لیے دعا کی کہ« خدایا جو ہر روز کے لئے کفایت کرے اسے اتنی روزی عطا فرما» ایک شخص نے تعجب سے سوال کیا کہ اس کے وہ دعا اور اس کے لیے یہ دعا

رسول اللہ نے فرمایا :إِنَّ مَا قَلَّ وَ کَفَی خَیْرٌ مِمَّا کَثُرَ وَ أَلْهَی. وہ روزی کہ کم ہو اور کفایت کرے اس سے بہتر ہے اس روزی سے جو زیادہ ہو لیکن دل کو غافل کر دے. (اصول کافی. ج2. ص506.)

ان تمام آیات اور روایات کے مطالعہ کے بعد معلوم یہ ہوا کہ تنگ دستی اور دولت یہ دونوں گناہوں کے اسباب میں سے ہیں.

4.  برے لوگوں کے ساتھ دوستی

برے دوست گناہوں کے اسباب میں سے ایک سبب ہیں . برا دوست انسان کو آلودگی اور برائی کی طرف لے جاتا ہے. انسان کی دوستی ایک ایسی چیز ہے یا انسان کو سیدھے راستے پر لاتی ہے یا پھر سر چشمہ گمراہی ہوتی ہے. اگر دوست دیندار ہو مطیع پرودگار ہو تو انسان کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے اور اگر دوست خدا اور دین خدا سے دور ہو تو یہ انسان کی گمراہی کا سبب بنتا ہے. لہٰذا ایک انسان کے اچھا یا برا ہونے میں دوستی اور محفل بہت دخیل ہوتی ہے.

بطور نمونہ

حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کو دوستی ہی گمراہی کی طرف لے گئی اور عذاب الھی میں گرفتار ہوا.

رسول اللہ نے فرمایا :قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ اَلْمَرْءُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ وَ قَرِينِهِ .ہر انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے. (وسائل الشیعة. ج11. ص506)

امیرالمومنین علی علیہ السلام نے حارث ھمدانی کو جو خط لکھا تھا اس میں یوں ارشاد فرمایا :وَاحْذَرْ صَحابَةَ مَنْ یَضِلُّ رَأْیُهُ و یُنْکَرُ عَمَلُهُ فَانَّ الصّاحِبَ مُعْتَبَرٌ بِصاحِبِه. اے حارث جن لوگوں کی فکر سالم نہ ہو اور جن کا عمل برا ہو ان سے دوستی نہ رکھو کیوں انسان کی شناخت اور پہچان اس کے دوست سے ہوتی ہے (خط نمبر 69)

اسلام اور معصومین علیهم السلام نے برے لوگوں کے ساتھ روابط نہ رکھنے کی بہت تاکید کی ہے. کیونکہ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی برے لوگوں روابط کی وجہ سے گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے

خداوند متعال نے دوست کے انتخاب کے متعلق قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :یا وَیْلَتی لَیْتَنی لَمْ أَتَّخِذْ فُلاناً خَلیلا؛ اے کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا. (سورہ فرقان 28)

برے انسان سے دوستی انسان کی روح پر اثر انداز ہوتی ہے اور انسان کے اندر نیکی اور بدی کی تشخیص کو کمزور کر دیتی ہے. اور برے کاموں کی اہمیت انسان کے اندر ختم کر دیتی ہے یعنی انسان کے لیے برائی کرنا کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا

امام محمد تقی علیہ السلام نے فرمایا : ایّاکَ وَ مُصاحَبَةَ الشَّرِیرِ فَانَّهُ کالسیَّفْ الْمَسْلُولِ یَحْسُنُ مَنْظَرُهُ و یَقْبُحُ أَثَرُهُ. برے دوست سے بچو کیونکہ یہ ایسی ننگی تلوار کی طرح ہوتا ہے جس کا ظاہر بہت خوب صورت ہوتا ہے اور زخم بہت برا ہوتا ہے (بحارالانوار. ج74. ص198.)

امیرالمومنین علی علیہ السلام نے فرمایا :مُجالَسَةُ اهْلِ الْهَوی مَنْسَأَةٌ لِلإیمانِ وَ مَحْضَرَةٌ للِشَّیطانِ. دنیا پرستوں کے ساتھ دوستی انسان کو ایمان سے دور کرتی ہے اور شیطان کے قریب کرتی ہے (میزان الحکمۃ. ج2. ص63.)

دین اسلام نے انسان کو اچھی دوست انتخاب اور برے دوستوں سے اجتناب کی تلقین کی ہے. ایسے افراد انسان کو برائی سے روکتے ہیں اور نیکی کی طرف راہنمائی کرتے ہیں

رسول اللہ نے فرمایا :جالِسِ الأَبْرارَ فَإنّکَ إنْ فَعَلْتَ خَیْراً حَمَدوکَ وَ إنْ أَخْطَأْتَ لَمْ یُعَنِّفوک. نیک لوگوں کے ساتھ روابط رکھیں چونکہ اگر اچھا کام کرو گے تو یہ شاباش دیں گے اور اگر برا کام کرو گے تو آپ پر سختی نہیں کریں گے.

ان تمام آیات و روایات کے مطالعہ کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ برا دوست انسان کے گناہ کرنے کے اسباب میں سے ایک سبب ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے دوست انتخاب کریں جو مطيع پرودگار ہوں جو معصومین علیهم السلام کی سیرت پر عمل پیرا ہوں تاکہ خود بھی خدا کے قریب ہوں اور ہمیں بھی خدا کے قریب کریں۔

 

تحریر:ساجد محمود جامعہ المصطفی العالمیہ قم
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس فلسطین کی تاریخ میں پندرہ مئی یوم نکبہ یعنی فلسطینی سرزمین کے صہیونیوں کے ناپاک ہاتھوں میں غصب ہونے کا دن ہے اسی طرح تیس مارچ کو فلسطینی عرب سرزمین مقدس فلسطین کا دن مناتے ہیں یعنی ’’یوم ارض فلسطین‘‘ منایا جاتا ہے۔ جہان پندرہ مئی کو یون نکبہ یعنی تباہی و بربادی کا بد ترین دن کے عنوان سے دنیا بھر میں فلسطینی و غیر فلسطینی قو میں مناتی ہیں, وہاں فلسطینی مظلوم ملت سے یکجہتی کے لئے تیس مارچ کو یوم ارض فلسطین نہ صرف مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں منایا جاتا ہے, بلکہ فلسطین سے باہر پوری دنیا میں اس دن کو فلسطینی ارض مقدس کے دن کے عنوان سے یاد رکھا جاتا ہے۔ یوں تو فلسطینی عوام پر برطانوی سامراج کی سرپرستی میں ڈھائے جانے والے صہیونیوں کے مظالم کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ان مظالم کی تاریخ ایک سو سال سے زیادہ پر محیط ہے البتہ فلسطین کی سرزمین مقدس پر صہیونیوں کی ناجائز ریاست اسرائیل کے قیام کو اب سنہ2020ء میں 72وال سال مکمل ہو جائے گا اور ان بہتر سالوں میں گزرنے والا ایک ایک دن فلسطین کی مظلوم ملت پر قیامت سے کم نہیں گزرا ہے۔

چاہے صہیونیوں کی جانب سے فلسطین پر قبضہ کے ایام ہوں یا پھر قبضہ کے بعد کے ایام ہوں ۔ تاریخ کے اوراق صہیونی ظالموں کے ظلم سے بھرے پڑے ہیں۔ جہاں ایک طرف صہیونیوں نے فلسطین پر اپنے ناجائز قبضہ کو مکمل کرنے کے لئے کسی قسم کے ظلم اور زیادتی سے گریز نہیں کیا ہے وہاں فلسطینی ملت مظلوم کی شجاعت اور استقامت میں بھی ان مظالم کے سامنے کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوئی ہے ۔ فلسطینی عربوں کی جد وجہد کی تاریخ بھی صہیونیوں کے مقابلے میں اسی وقت سے جاری ہے کہ جب سے عالمی استعماری قوتوں کی ایماء پر فلسطین پر قبضہ کی ناپاک منصوبہ بندی کی گئی تھی اور فلسطینیوں کی یہ جد وجہد آ ج بھی اسی طرح جاری و ساری ہے۔ پندرہ مئی سنہ 1948ء میں فلسطین پر صہیونیوں کی جعلی ریاست کے قیام کے وقت سے صہیونیوں نے فلسطینی عربوں کو ان کے وطن یعنی فلسطین سے نکال باہر کرنا شروع کر دیا تھا اور یہ سلسلہ کئی سالوں تک جاری رہا اور نتیجہ میں دسیوں ہزار فلسطینی اور ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو فلسطین سے نکال باہر کیا گیا جو پڑوسی ممالک میں زمینی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے مہاجرین کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوئی اور آج فلسطینیوں کی تیسری نسل شام، لبنان، اردن اور مصر میں مہاجرین یعنی فلسطینی پناہ گزین کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔

فلسطین کے اندر باقی رہ جانے والے فلسطینیوں نے امید کا دامن ہاتھ سے کبھی جانے نہیں دیا ہے ۔ فلسطین کے عرب باشندوں نے ہمیشہ سے فلسطین پر صہیونی ریاست کے تصور کو جعلی قرار دیا ہے اور اس کے خلاف سینہ سپر رہے ہیں۔ یعنی خلاصہ کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ فلسطینیوں نے جد وجہد آزاد ی جاری رکھی ہے اور اس آزادی کا بنیادی ہدف جہاں فلسطین کی صہیونیوں کے شکنجہ سے آزادی ہے وہاں غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی نابودی ہے ۔ جد وجہد آزادی فلسطین کے لئے فلسطین کے عرب باشندوں نے باقاعدہ صہیونیوں کا مقابلہ کیا ہے اور اس کی مثال فلسطین میں موجود اسلامی مزاحمت کی تحریکیں حماس، جہاد اسلامی، پاپولر فرنٹ اور دیگر شامل ہیں جو مسلسل اسرائیل کے ناپاک وجود کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ دوسری طرف فلسطین سے جبری طور پر جلا وطن کئے جانے والے فلسطینی عربوں نے بھی اپنا جہاد فلسطین واپسی کے نعرے کے ساتھ شروع کر رکھا ہے اور یہ سب کے سب فلسطینی چاہتے ہیں کہ فلسطین اپنے وطن فلسطین واپس جائیں تا کہ فلسطین میں آباد ہو ں نہ کہ ان کو دیگر ممالک میں در در کی ٹھوکریں کھانی پڑیں۔

فلسطینیوں کے حق واپسی کا نعرہ یا اعلان ایک ایسا مضبوط نعرہ ہے کہ جسے عالمی استعماری نظام بالخصوص امریکہ اور اس کے حواری کسی طرح بھی دبانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں۔ فلسطینی عوام کا حق واپسی ایک ایسا بنیادی انسانی حق ہے کہ جسے نہ تو دنیا کے عالمی ادارے مسترد کر سکتے ہیں اور نہ ہی دنیا کی کوئی حکومت ا سکے خلاف جا سکتی ہے۔ امریکہ نے فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کو دبانے کی خاطر نام نہاد امن فارمولہ جسے صدی کی ڈیل کہا جا رہا ہے کو متعارف کرایا ہے لیکن یہ صدی کی ڈیل سامنے آنے سے پہلے ہی فلسطینیوں کے واپسی کے حق کے نعرے کے سامنے ماند پڑ چکی ہے اور عنقریب نابود ہونے والی ہے۔ یہ بات انتہائی قابل ذکر ہے کہ فلسطینیوں کے حق واپسی کا نعرہ سنہ 2011ء کے بعد سے شد ومد کے ساتھ بلند ہو اہے جس کی ماہرین کی نگاہ میں ایک بنیادی وجہ سنہ2011ء میں ایران کے دارلحکومت تہران میں ہونے والی بین الاقوامی حمایت فلسطین و انتفاضہ کانفرنس بعنوان ’’فلسطین ، فلسطینیوں کا وطن‘‘ ہے۔

فلسطین کے سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سنہ2011ء میں اس کانفرنس میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے مسئلہ فلسطین کا ایک ایسا منصفانہ حل پیش کیا ہے کہ جس کے بعد نہ صرف فلسطینی تحریکوں میں بلکہ فلسطینیوں کے حق واپسی کی ایک نئی تحریک نے جنم لیا ہے جو امریکہ سمیت صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے لئے مصیبت سے کم نہیں ہے۔ اس منصفانہ حل کے مطابق فلسطین فلسطینی عربوں کا وطن ہے کہ جو سنہ1948ء سے قبل اور اس وقت تک فلسطین کے باسی تھے اور ان فلسطینیوں میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائی فلسطینی اور ایسے یہودی فلسطینی شامل ہیں کہ جو فلسطین کی شناخت کے ساتھ اس سرزمین مقدس پر زندگی بسر کر رہے تھے تاہم صہیونیوں نے نہ صرفر فلسطین کے مسلمانوں کو جبری ہجرت پر بھیجا بلکہ مسیحی اور فلسطینی یہودیوں کو بھی فلسطین سے بے دخل کیا۔ تاہم فلسطینی عربوں کا حق ہے کہ وہ فلسطین واپس آئیں اور فلسطینی عوام ایک ریفرنڈم کے ذریعہ اپنے نظام حکومت کا فیصلہ کرے ۔ یعنی فلسطینی فلسطین واپس آئیں اور جو یہودی اور صہیونی دنیا کے دیگر ممالک سے لا لا کر فلسطین میں آباد کئے گئے تھے وہ اپنے اپنے وطن میں واپس جائیں یا یہ کہ اگر فلسطین کی حکومت یعنی فلسطینی کی شناخت کے ساتھ فلسطین میں زندگی بسر کرنا چاہیں تو یہ فیصلہ بھی فلسطینی عوام کو کرنا ہے اور ان کی اجازت سے ہونا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کے حق واپسی کی تحریک نے سنہ2011ء سے تیزی کے ساتھ سفر طے کرنا شروع کیا جس کے نتیجہ میں سنہ2012ء میں دنیا بھر کے تمام بر اعظموں سے تعلق رکھنے والی قوموں نے تیس مارچ یوم ارض فلسطین کے موقع پر فلسطین کی چاروں زمینی سرحدوں پر مارچ کیا اور سب کا نعرہ ایک ہی تھا کہ ’’واپسی فلسطین ‘‘یعنی ;82;eturn to ;80;alestien ۔ گذشتہ دو برس سے فلسطینیوں نے حق واپسی مارچ کا نئے انداز سے آغاز کیا ہے اور فلسطینیوں کا ایک ہی نعرہ اور مقصد ہے کہ فلسطینیوں کی فلسطین واپسی۔ اب یوم ارض فلسطین کے موقع پر اس تحریک کو مکمل دو سال ہو نے کو ہیں لیکن امریکہ اور اسرائیل سمیت استعماری قوتیں فلسطینیوں کے عزم اور ارادوں کو کمزور کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں اور اس کی سب سے بڑی دلیل امریکی صدر کے فلسطین سے متعلق یکطرفہ فیصلوں اور اعلانات کی ناکامی ہے۔ بہر حال اقوام عالم اس بات کو اچھی طرح سمجھ چکی ہیں کہ فلسطینیوں کی تقدیر کا منصفانہ حل یہی ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کا وطن قرار پائی اور صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے قائم کرنے والے صہیونی اپنے اپنے وطن اور زمینوں پر لوٹ جائیں۔ فلسطینیوں کی واپسی حق ہے اور اس امر سے دنیا کی کوئی طاقت بھی نظر چرانے کی طاقت نہیں رکھتی۔


تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاءونڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی

 

وحدت نیوز (آرٹیکل) قطر میں امریکا اور طالبان کے مابین افغان امن معاہدے پر دستخط کے بعد اسے تاریخی معاہدہ قرار دیا گیا جو افغانستان میں 19 سالہ جنگ کے خاتمے کا باعث بنے گا۔چار صفحات پر مشتمل افغان امن معاہدہ 4 مرکزی حصوں پر مشتمل ہے۔طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی ایسی تنظیم، گروہ یا انفرادی شخص کو استعمال کرنے نہیں دیں گے جس سے امریکا یا اس کے اتحادیوں کو خطرہ ہوگا۔افغانستان سے امریکی اور اس کے اتحادیوں فوجیوں کا انخلا یقینی بنایا جائیگا۔طالبان 10مارچ 2020 سے انٹرا افغان مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔انٹرا افغان مذاکرات کے بعد افغانستان میں سیاسی عمل سے متعلق لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

اس ضمن میں واضح کیا گیا کہ معاہدے کے پہلے دو حصوں کی تکمیل بنیادی طور پر اگلے دو حصوں کی کامیابی سے مشروط ہے۔معاہدے کی تفصیلات نکات کی صورت میں اس  طرح سے ہے، امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان سے اگلے 14 ماہ میں تمام غیرملکیوں بشمول عسکری، نیم عسکری، ٹھیکدار، شہری، نجی سیکیورٹی اہلکار اور مشیران کا انخلا یقینی بنائیں گے۔ امریکا اور اس کے اتحادی پہلے 135 دنوں میں 8 ہزار 600 فوجیوں کا انخلا یقینی بنائیں گے۔ تمام امریکی اور اتحادی 5 ملٹری بیس سے اپنے فوجی ہٹا دیں گے۔ امریکا اور اس کے اتحادی ساڑھے نو ماہ کے دوران ملٹری بیس سمیت افغانستان کے تمام حصوں سے باقی ماندہ فوجیوں کا انخلا یقینی بنائیں گے۔ انٹرا افغان مذاکرات کے پہلے روز یعنی 10 مارچ 2020 کو طالبان کے 5 ہزار اور طالبان کی قید میں موجود ایک ہزار قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جائیگی۔

انٹرا افغان مذاکرات کے آغاز کے ساتھ ہی امریکا، افغانستان پر عائد تمام پابندیوں سے متعلق نظر ثانی شروع کردے گا اور 27 اگست 2020 تک پابندی ختم کرنے کا پابند ہوگا۔ انٹرا افغان مذاکرات کے ساتھ ہی امریکا، اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل سے سفارتی سطح پر رابطہ قائم کرکے 29 مئی 2020 تک اس امر کو یقینی بنائے گا کہ افغانستان کے خلاف عائد تمام پابندیاں ختم کردی جائے۔ امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان کی سیاسی و ریاستی خود مختاری کے خلاف بیان بازی سے گریز رہیں گے۔ طالبان، اپنے یا کسی بھی گروہ یا انفرادی شخص بشمول القاعدہ کو افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ہو۔ طالبان واضح طور پر پیغام دیں گے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو سیکیورٹی رسک دینے والوں کے لیے افغانستان میں کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔

طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی عسکری ٹریننگ، اور جنگجوں کی بھرتی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ طالبان بین الاقوامی مائیگریشن قوانین کی پاسداری کریں گے۔ طالبان امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خطرہ سمجھے جانے والے شخص، گروہ اور تنظیم کو ویزا، پاسپورٹ، سفری اجازت یا قانونی دستاویزات فراہم نہیں کریں گے۔کیا امریکہ واقعا اس خطےسے نکلنا چاہتا ہے ؟ یا اس کا ایک پولیٹیکل سٹنڈ (سیاسی چال )ہے ۔جسٹ ٹائم گیم کرناچاہتاہےانتخابات تک اس نے کیا جب تک افغان کے تمام اسٹیک ہولڈرزجب تک آن بورڈ نہ ہوںافغانستان کی مکوئی ڈیل کامیاب ہوسکتی ہے ؟اور( شمالی اتحاد ،افغان گورنمنٹ ) افغان گورنمنٹ کے تازہ ابھی یہ اشرف غنی(صدرافغانستان) اس کا باقاعدہ بیان ہے کہ ہم طالبان کر رہا نہیں کریں گے ۔

اس کا مطلب ہے کہ ابھی سے اس پر سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں ۔ایک تو اس معاہدے کی کامیابی ہےجسے وہ ایک فتح سمجھ رہے ہیں ابھی تک وہ زیر سوال ہے ۔دوسرا اس میں جو اسٹیک ہولڈر ہیں انہیں بھی شامل نہیں کیا گیا ۔تیسرا ایران کے مسئلے پر بھی ناقابل اعتماد ثابت ہوا ہےاگریمنٹ کے اعتبار سے لہذا اس میں کو ئی گارنٹی نہیں کہ یہ معاہدہ کامیاب ثابت ہو گا کہ نہیں؟ ۔اس میں 35 ممالک کے گرنٹر کے طور پہ دستخط کیے ہیں جبکہ ایران کے معاملے پر تو اقوام متحدہ کے تمام ممبر ممالک نے دستخط کیے تھے۔ہم اسے اب بھی ایک امریکی چال ہی سمجھتے ہیں ۔اس بات کے ہم قائل ہیں کہ اگر امریکہ اس خطے سے نکلتا ہے کسی بھی سیاسی اور سفارتی عمل کے ذریعے سے تو یہ دراصل اسکے نجس وجود کا کنوئیں سے نکلنے کے مترادف ہو گا جس کے بعد کنوئیں کے پاک ہونے کی گنجائش بن سکتی ہے ۔

لہذا یہ جدوجہد کہ امریکہ کو اس خطے سے نکلنا چاہیے ہم اس کی تائید کرتے ہیں ۔ بنیادی طور یہ ڈیل پاکستان نے کرائی ہے ۔ اور پاکستان اس معاہدے کی تمام تر کامیابی کو اپنے کھاتے میں سمجھتا ہے ۔پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ اس نے اپنے ایک باڈر کو محفوظ بنالیا ہے ۔وہ سمجھتا ہے کہ اگر افغانستان میں امن آجائے گا تو ایک ایسی گورنمنٹ آجائے گی جس سے ہم بات کرسکیں گے کہ دہشت گرد ادھر کیوں آتے ہیں اور پھر وہاں کیوں بھاگ جاتے ہیں ۔پاکستان خواہش ہے کہ یہ 2000 سے زائد کیلومٹر والاباڈر پر امن ہوجائے اس پر ٹریڈ شروع جائے ۔ لیکن مشکل یہ ہے وہاں (افغانستان) میں 34 انڈین قونصلیٹ موجود ہیں انڈین کی بڑی اسٹرانگ ایکسس موجود ہے وہاں پر لہذا پاکستان اس پہ اپنی پرانی چیزیں گرنٹی تو دیں ہیں مگر یہ سب کچھ ویٹنسی پر ہے اب انہوں نے بھی کہا ہے کہ ہم بھی انتظار کرہے ہیں اور پازٹیو لے رہے ہیں کہ چلیں امن کی خاطر کچھ دیر دیکھ لیں ۔ چائنا بھی خطے کے حالات کو بغور دیک رہا اور چائنا کے بینیفٹ کے اندر بھی ہے لہذا وہ حربےاور سازشیں جو امریکہ کے اپنی موجودگی کے حوالے سے کرسکتاوہ (چائنا) اپنی پکٹس کے ذریعے سے نہیں کرسکتا ۔ وہ اس لئے کہ امریکہ جہاں جاتا ہے سرمایہ لگا کر وہاں گروہوں کو خریدتا ہے انتشارپیدا کرتا ہے ۔ امریکہ کے انخلا سے جہاں افغانستان ، پاکستان کو فائدہ ہوگا وہاں چائنا کے مفاد میں بھی ہے ۔

چائنا تو چاہتا کہ امریکہ خطے سے نکلے ۔ مگر یہاں ایک بڑی اہم بات پوشیدہ ہے کہ کیا واقعی امریکہ اس خطے سے نکلے گا ۔ بغیر گرنٹی لیئے اور کیا امریکہ کا جانا اس خطے سے اسے ہضم ہو پائے گا ۔ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے ۔ کیا وہ یہ (ہجمونک،یعنی تسلط اور اپنے غلبے کے کھونے)کو برداشت کر پائے گا۔پاکستان کی افغان پالیسی بظاہر کامیاب نظر آتی ہے مگر ناکام ہوئی ہے اسی پالیسی کی تناظر میں نتیجے پاکستان کو اس ڈیل  کی بھاری قیمت چکانا پڑی ہے ۔ اب پاکستان نے اپنی پالیسی میں اصلاح کا عمل شروع کیا ہے۔ اسی اصلاحی عمل کے نتیجے میں پاکستان کو ایک ڈیل کے ذریعے دہشت گردوں کو چھوڑنا پڑا ہے ۔ اور وہ لوگ دوبارہ افغانستان پہنچ کر دہشت گردوں حصہ بن چکے ہیں ۔ لہذا اب پاکستان یہ چاہتا ہے کہ اپنے ملک کو دیکھے اور پر امن بنائے اور افغانستان کو بھی پر امن دیکھنا چاہتا ہے ۔ پر امن افغانستان ہی پاکستان کے فائدے میں ہے ۔ لیکن اس ڈیل میں جو قیمت پاکستان نے چکائی ہے ۔ اس سے ایک تلوار پاکستان پرلٹکتی رہے گی کہ کہیں پاکستان دوبارہ دہشت گردی کا شکار نہ ہوجائے اور دہشت گرد اکٹھے ہو کر پاکستان کے خلاف کسی اقدام پر نہ اتر آئیں ۔ اب پاکستان کو یہ سارے معاملات خود دیکھنے ہوں گے ۔ پاکستان ہمیشہ امن کا خواہان رہا ہے اور بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کرنے پر زور دیتا رہا ہے ۔ اسی لئے پاکستان اس میں باقاعدہ طور پر ایک اسٹیک ہولڈر کے طور پر شریک ہے اور اسے ایک کامیابی سمجھ رہا ہے ۔پاکستان انٹرسٹ بھی ہے کہ افغانستان اپنے ملکی حالات کو دیکھے اور پاکستان اپنے ملک کی سلامتی کو محفوظ بنائے ۔ لہذا اب پاکستان اپنے اسی انٹرسٹ کے تناظر میں اس کو کامیابی جان رہا ہے ۔

اگر تو کسی بھی صورت نتیجہ امریکہ کا خطے سے انخلا ہے تو یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے ورنہ نہیں ۔ایران نے انتقام سخت سلوگن کی تفسیر بھی یہ کی ہے کہ امریکہ کا اس خطے سے انخلا ہو ۔ اور اس کے لئے انہیں پہلا محاذ چاہیے۔ اس کے لئے انہیں پہلے سٹپ کی ضرور تھی اور یہ سارے معاملات چاہیے وہ شام ہو عراق ہو لبنان ہو افغانستان کے حالات ہوں یہ سب آپس میں ملے ہوئے ہیں ۔ یہاں اصطلاح استعمال ہوتی ہے ڈمننگ انفیکٹ یعنی جب ایک گرے گا دوسرا اس پر گا تیسرا اس پر اور پھر یہ عمل نہیں رکے گا جب تک سب نہ گر جائے ۔ امریکہ کا انخلا ایک ملک سے ہو گا تو باقی جگہوں سے بھی حتمی ہے یہ ہونہیں سکتا کہ ایک تو گرے اور باقی سالم رہیں ۔ امریکہ کو اب اس خطے سے جانا ہو گا ۔ اسی میں اس کی عافیت ہے ورنہ وہ انتقام سخت کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔ امریکہ اگر شام سے نکلتا ہے تو عراق سے نکلنا اس کے مقدر میں ہے ۔

اب صرف ایک ایک اینٹ کےگرنے کی دیر ہے دیوار خود بخود گر جائے گی ۔ماہرین اس معاہدےاور خطے کے حالات کواس تناظر میں دیکھ رہے ہیںکہ جب امریکہ کےعین الاسد اور افغانستان میں امریکہ کے ہائی ویلیو ٹارگٹس ہٹ ہوئے تو یہ انتقام سخت کا آغاز ہو گیا ہے اور امریکہ اب اس کی تاب نہیں لا سکے گا ۔ اور اس نے اپنے آپ کو اس خط سے سمیٹنا شروع کردیا ہے ۔یہی معاہدہ اس کا آغاز اور شروعات ہے ۔اب افغانستان کی عوام کو چاہیے کہ اس ملک کے جتنے بھی اسٹیک ہولڈرزہیں جیسے طالبان ، گورنمنٹ ، حزب اختلاف کی جماعتیں ، پشتون ، فارسی (شمالی اتحاد) اور تاجیک یہ سب ملکر اپنے فروعی اختلافات ختم کرکے ملک و ملت کی خاطر آگے بڑھیں اور اس ملک میں جوایک عرصے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے ۔ مضبوط مخلوط حکومت تشکیل دیں اور کسی باہر ممالک سے فرمان نہ لیں بلکہ اپنے وطن کی تقدیر خود لکھیں اور نہ ہی اپنی سرزمین کو کسی ملک یا ہمسائے کے خلاف استعمال ہونے دیں ۔

طالبان کا وہ گروہ جو چاہتا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام آئے اور شدت پسند بھی نہیں وہ اس معاہدے کی پاسداری کرے گا مگر طالبان کے اندر بھی گروہ بندیاں ہیں ۔ کچھ اس کی مخالفت پر بھی اتریں گے جیسے حکومتی اشارے مل رہے ہیں کہ ہم سب طالبان کو نہیں چھوڑیں گے تو اس ے ایک انارکی پیدا ہونے کا خطرہ ہے ۔ داعش وجود بھی اس ملک میں انتشار کا باعث بن سکتا کیونکہ داعش ایک تکفیری سوچ کی حامل تنظیم ہے اور اس  کا تو منشور یہی ہے کہ اپنے مخالف کو کچلنا وہ کسی مکاتب فکر کا لحاظ کیے بغیر اس پر حملہ ور ہوتے ہیں ۔ جس گروہ کی تربیت امریکن اور اسرائیل نے کی ہو اور فنڈنگ آل سعود ہو اس  سے خیر توقع نہیں کرنی چاہیے ۔طالبان کو ضمانت دینی ہو گی کہ افغان سرزمین القاعدہ سمیت دہشت گرد تنظیموں کے زیر استعمال نہیں آنے دیں گے۔

 

تحریر: سید ناصرعباس شیرازی ایڈوکیٹ
(مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان)

Page 1 of 77

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree