وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے مختلف وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قوم و ملت کی سربلندی اور وطن کے استحکام کے لیے مجلس وحدت مسلمین کی جدوجہد بلا خوف خطر جاری رہے گی۔کوئی بھی حکمران ہمیں ہمارے اصولی موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا سکتا۔انہوں نے کہاپاکستان سمیت دنیا بھر میں بلا تخصیص مسلک و مذہب دو گروہ ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آرا ہیں۔ایک گروہ مظلومین کا اور دوسرا ظالمین کا۔ہم ہمیشہ مظلومین کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔پاکستان کے پاک وجود کو داعش سمیت کسی بھی دہشت گرد طاقت کے نجس وجود سے آلودہ نہیں ہونے دیا جائے گا۔ وطن عزیز کو اس وقت لاتعداد چینلجز کا سامنا ہے۔نفرتیں پھیلا کر قوم کو تقسیم کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے تاکہ پاکستان قوم متحد نہ ہو سکے۔ہمیں اپنے اتحاد و اخوت کے عملی اظہار سے ان ناپاک ارادوں کو خاک میں ملانا ہو گا۔حکمران عوام کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانے کی بجائے اقتدار بچانے کی فکر میں ۔ قانون انصاف کو طاقت کے زور پر پامال کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ دہشت گرد جتنا بڑا مجرم ہے اتنا ہی بڑا مجرم اس کا سہولت کار بھی ہے۔ دونوں ملک کے امن و سکون اور انسانیت کے دشمن ہیں۔وطن عزیز کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے ان مذموم عناصر کوسختی سے کچلنا ہو گا۔عالمی استکباری قوتیں پاکستان کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتیں۔ان کے حلقہ اثر سے آزادی ہی حقیقی آزادی سمجھی جائے گی۔یہ طاقتیں قائد و اقبال کے اسلامی پاکستان کو مسلکی پاکستان کی شکل دینا چاہتے ہیں تاکہ تصادم کی راہ ہموار ہوسکے ۔اس ملک میں بسنے والے سنی ، شیعہ ،عیسائی، ہندو اور دیگر تمام مکاتب فکر کو مذہب و مسلک کی بنیاد سے آزاد ہو کر برابری کے حقوق حاصل ہیں۔ملک میں موجود سیاستدانوں، فوج، بیورکریسی اور عدلیہ سمیت سب کو اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے قومی ترقی و خوشحالی کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ عوامی حقوق کے حصول کے لیے آئینی جدوجہد جاری رہے گی۔جو لوگ ریاست میں مسلح جدوجہد کے قائل ہیں وہ ملک و قوم کے غدار ہیں۔مقاصد کے حصول کے لیے آئین و قانون کی پابندی ہمارا طرہ امتیا ز رہا ہے۔پاکستان میں مہذب احتجاج کی روایت ہم نے ڈالی ہے۔پانامہ لیکس اس حقیقت کو آشکار کر چکی ہے کہ حکمران صرف کرپٹ ہی نہیں بلکہ اخلاقی قدروں سے بھی عاری ہیں۔ہم اس کرپشن کے خلاف پورے عزم اور نئے ولولے سے آگے بڑھیں گے۔

وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری آج تین روزہ دورے پر صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ ائیر پورٹ پہنچے۔ کوئٹہ پہنچنے پر انکا استقبال ایم ڈبلیو ایم کے رکن بلوچستان اسمبلی سید محمد رضا اور امام جمعہ کوئٹہ علامہ سید ہاشم موسوی سمیت دیگر افراد نے کیا۔ یاد رہے ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری تین روزہ دورے پر کوئٹہ آئے ہے۔ اپنے دورے کے دوران وہ خصوصی طور پر "عالمی حالات کے تناظر میں پاکستان اور ملت تشیع میں علماء کا کردار" کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کریں گے۔ اسکے علاوہ کوئٹہ شہر کے علماء، سیاسی اکابرین اور قبائلی عمائدین سے بھی ملاقاتیں کرینگے۔

وحدت نیوز(ڈی اسماعیل خان) مجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ناصر عباس شیرازی نے تحصیل ناظم ڈیرہ عمر امین خان گنڈہ پور سے ان کی رہائش گاہ پر ان سے طویل دورانیہ کی ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات میں صوبائی وزیر علی امین خان گنڈہ پور نے بھی پشاور سے کانفرنس کال کے ذریعے شرکت کی۔ صوبائی وزیر مال خیبر پختونخوا، تحصیل ناظم ڈی آئی خان، مجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور ان کے رفقاء کے مابین طویل دورانیہ پر مبنی اس ملاقات میں کوٹلی امام حسین (ع) کی اراضی مسئلہ سمیت دیگر اہم امور زیربحث رہے، اس موقع پر ایم ڈبلیوایم صوبہ خیبر پختونخوا کے سیکریٹری جنرل علامہ اقبال بہشتی ، صوبائی رہنما مولانا ذوالفقار علی اور دیگر بھی موجود تھے۔

اس موقع پر صوبائی حکومت کی جانب سے کوٹلی امام حسین (ع) اراضی مسئلہ کے حل کیلئے ایم ڈبلیو ایم کو ایک پیش کش بھی کی گئی۔ جس میں نصف سے بھی کم اراضی اہل تشیع کو دینے کی بات کی گئی تھی، تاہم ناصر عباس شیرازی اور ان کے وفد کے اراکین نے اس پیش کش کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مذکورہ معاملے پر کمیٹی بنائی جائے گی۔ جو کہ تمام تر پہلوؤں سے اس کا جائزہ لیکر اپنی سفارشات سے جلد آگاہ کرے گی۔ دوسری جانب اس ملاقات کے بعد مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس نے اپنی پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ کوٹلی امام حسین (ع) کی اراضی کا ایک انچ بھی نہیں دیں گے۔

وحدت نیوز(جیکب آباد) وارثان شہدائے جیکب آباداور شیعہ زعماء کا اہم اجلاس کربلا مرکزی امام بارگاہ جیکب آباد میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان سندھ کے صوبائی سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی، مجلس وحدت مسلمین کے ضلعی رہنماء مولانا حسن رضا غدیری، نثار احمد ابڑو، حبدار علی شیخ، منور علی سولنگی،وارثان شہداء کمیٹی کے ذمہ داران و دیگر شریک ہوئے۔
                     
اجلاس کے شرکاء نے سانحہ شب عاشور جیکب آباد میں ملوث دھشت گردوں کی رہائی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے حکومت اور انتظامیہ کی نااہلی قرار دیا۔ انہوں نے ایس ایس پی جیکب آباد کی جانب سے شیعہ مدارس، مساجد، امام بارگاہوں اور شخصیات سے سیکورٹی واپس لینے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ جیکب آباد اور شکارپور کے اضلاع میں آج بھی دھشت گردوں کے اڈے اور سہولت کار موجود ہیں جن کے خلاف کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں ہورہی۔ وارثان شہداء نے دھشت گردوں کی رہائی کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا فیصلہ کرتے ہوئے ، پریس کانفرنسز کرنے اور جمعہ 14جولائی کو احتجاجی مظاہرے اور پریس کلب کے سامنے دھرنے کا فیصلہ کیا۔

اس موقع پر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصودعلی ڈومکی نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان، آپریشن رد الفساد اور فوجی عدالتوں کے باوجود قاتل دھشت گرد باعزت بری ہورہے ہیں۔ جبکہ شہداء کے وارث آج بھی انصاف کے حصول کے لئے دربدر ہیں۔

وحدت نیوز(ڈیرہ اسماعیل خان) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کوٹلی امام حسین (ع) میں مہدی برحق کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ثانی زہرا (س) سے یزید وقت کے سامنے ڈٹ جانا سیکھا ہے، ہمیں خوفزدہ کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیئے کہ اگر کل کا یزید ہمیں خوفزدہ نہیں کرسکا، تو آج کا یزید بھی ہمیں نہیں ڈرا سکتا۔ مشکلات و مسائل امتحان ہیں اور ایسے ہی امتحانوں سے انبیاء کرام و اولیاء کرام نے بھی تکالیف و مسائل و مشکلات کا سامنا کیا، میدان میں دشمنوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے رہنے والا سرخرو ہوگا، ہم نے تین دن کے بھوکے پیاسے تیرہ سالہ حضرت امیر قاسم سے چالیس ہزار کے لشکر سے مقابلہ اور وقت کے یزید کے سامنے ڈٹ جانا سیکھا ہے۔ مہدی برحق کانفرنس میں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے ہمراہ ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی، صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ اقبال بہشتی سمیت کئی علماء کرام، ذاکرین نے شرکت کی جبکہ خواتین و مردوں کی بہت بڑی تعداد کانفرنس میں شریک تھی۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ پاکستان میں اہل تشیع کو کئی قسم کی آزمائشوں کا سامنا ہے، بحیثیت پاکستانی ہمیں بھی ہمیں آزمایا جا رہا ہے، ضیاء کی پالیسی کے سبب اسی ہزار جنازے پاکستان سے اٹھے ہیں۔ اسی پالیسی کا شاخسانہ ہے کہ ہمارا دشمن باہر کی جنگ کو وطن کے اندر تک لے آیا ہے۔ جنگوں میں اتنی شہادتیں نہیں ہوئیں، جتنی دہشت گردی سے ہوچکی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ضیاء کی پالیسیوں کے سبب ملک میں بیلنس آف پاور ٹوٹا اور پاکستان میں مصنوعی طور پر ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔ پاکستان علامہ اقبال اور قائداعظم کی فکر کا ثمر تھا، لیکن ضیائی پالیسی نے قائداعظم کا پاکستان ہم سے چھین لیا ہے۔ اسی پالیسی سے پاکستان کمزور ہوا، پہلے اہل تشیع کو مارا گیا، پھر اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا۔ پاک فوج اور پولیس کو ٹارگٹ کیا گیا اور یہاں تک کہ عام سنی کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ پاکستانیوں کی تقسیم شروع کی گئی، علامہ اقبال اور قائد اعظم کے بیٹوں کو کافر کہا گیا۔ مساجد، شیعہ اور سنی پر حملے کئے گئے۔ پاک فوج کے جوانوں کے گلے کاٹے گئے۔ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ہر محب وطن پاکستانی کیلئے یہ آزمائش ہے۔ جس کا ہم نے مقابلہ کرنا ہے، شیعہ اور سنی اسلام کے دو پیکر ہیں۔ ان کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، تکفیریوں نے بے پناہ کوششیں کیں ہیں۔ ہم وطن کے باوفا بیٹے ہیں، اس لئے ہمیں مارا جا رہا ہے، ہم نے وفا کا چلن مولا عباس سے لیا ہے، وطن کی خاطر ہماری لاکھوں جانیں قربان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان شیعہ و سنی نے بنایا۔ ہم نے شیعہ اور سنی کو تقسیم کرنے کی کوششوں کو ناکام بنایا اور تکفیری ایجنڈے کو ناکام بنایا۔ جب تک ہم زندہ ہیں دہشت گردوں کے مقابلے کے لئے میدان میں موجود رہیں گے اور دہشت گردوں کے سامنے سر جھکانے کی ذلت قبول کرنے کے بجائے جوانمردوں کی طرح ڈٹے رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم لبیک یاحسین کے نعرے کےساتھ میدان میں رہیں گے، ریاست ناکام ہوچکی ہے اور ہمیں بھی مایوس کرنا چاہتی ہے، ہمیں بسوں سے اتار اتار کر مارا گیا اور پسماندگان کو انصاف دینے کے بجائے ان کے جوانوں کو اٹھا لیا جاتا ہے۔ ڈیرہ کے ناصر حسین جس کے گھر کے سات شہید ہیں، لیکن وہ کئی سالوں سے غائب ہے، ہمیں بتایا جائے کہ اس کو کیوں اٹھایا گیا۔ حسنین کو اٹھایا گیا، اس کا بتایا جائے کہ وہ زندہ ہے یا مر گیا۔؟ کیوں ہماری آواز نہیں سنی جا رہی، اگر یہ لوگ کریمینل ہیں تو ہمیں بتایا جائے۔ ڈیرہ میں درجنوں شہید کئے گئے، کیا یہ کافی نہیں، ارشاد حسین، امتیاز، رجب علی، انیس الحسنین ہمیں بتایا جائے کہ یہ کہاں ہیں، ہم وطن کے بیٹے ہیں اور وطن پر مرمٹنے والے ہیں، ہمیں کم از کم ان مسنگ پرسنز کے بارے میں بتایا تو جائے۔ خدا کے لئے رحم کرو، ہمارے ساتھ یہ کھیل بند کرو۔ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ عید کی رات اعلٰی مقتدر شخصیات سے ملاقات کے بعد ہم پرامید ہیں کہ ہمارے ساتھ زیادتیوں اور دکھوں کا مداوا ہوگا۔ پاک فوج کے چیف نے پاراچنار کا دورہ کیا اور مظلوموں کی داد رسی کی، ہمیں ان سے امید ہے کہ مسنگ پرسنز کا معاملہ حل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ آرمی چیف نے جس طرح حکومتی بے حسی کے باوجود پاراچنار کے عوام کو امید دی ہے، ان شاء الله امید ہے کہ ہمارا یہ درد بھی محسوس کرتے ہوئے اس پر اقدام کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کوٹلی امام حسین کی اراضی وقف امام حسین (ع) ہے، وقف امام حسین (ع) اراضی پر کسی کو خیانت نہیں کرنے دیں گے۔ ایک انچ پر بھی کمپرومائز نہیں کرسکتے۔ کراچی میں چائنہ کٹنگ کا سنا تھا لیکن ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی چائنہ کٹنگ کا سلسلہ جاری ہے، اب تحریک انصاف جبکہ پہلے ایم ایم اے کے دور میں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ کوٹلی امام حسین (ع) کی اراضی امام (ع) کی امانت ہے، کسی صورت نہیں چھوڑ سکتے۔ انہوں نے کہا مسالک کی تقسیم سے نکل کر سب پاکستانی بنو، بہت نقصان ہوچکا ہے۔ لوٹ مار اور ناانصافی چھوڑ دو، عوام عہد کرے کہ کوٹلی امام حسین (ع) کی اراضی پر ڈٹ جاو گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پرامن لوگ ہیں، آرمی چیف کے پاراچنار دورہ کے بعد سے ہمیں امید ہو چلی ہے کہ مسائل حل ہونگے، عمران خان سے اپیل کرتا ہوں کہ کوٹلی کا مسئلہ حل کرو، غیرت مند خون ہیں، ہم جانیں دے سکتے ہیں لیکن وطن اور مذہب سے خیانت نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ٹوٹنے کی خبر سن کر میرا والد فوت ہوا، مادر وطن پر لاکھوں جانیں قربان اور ملت پر قربان کرنے کو تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دشمن مختلف طریقوں سے نقصان دے رہا ہے۔ لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ بنا کر دشمن جو کام نہیں کر سکا، اب داعش کے نام سے وہ کام کیا جا رہا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل اس کے پیچھے ہیں، پاکستان ایشیاء کا دل ہے اور اس کو مسلکی لڑائی کے ذریعے کمزور کیا جا رہا ہے، لیکن ہم شیعہ اور سنی کو اکٹھا کرکے اسرائیل، امریکہ اور آل سعود کے ایجنڈے کو ناکام بنائیں گے اور ڈٹ کر مقابلہ کریں گے، پورے پاکستان میں اہل تشیع اور اہل سنت اکٹھے ہو جائیں، شیعہ اور سنی ثابت قدم رہیں تو کوئی شک نہیں کہ وطن دشمن، اسلام دشمن اور انسانیت کے دشمنوں کے ناپاک ارادوں کو مٹی میں ملا کر رکھ دیں۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) اس وقت عرب ریاستوں میں سب سے بڑا ملک سعودی عرب ہے۔یہ جزیرہ نمائے عرب کے 80 فیصد رقبے پر مشتمل ہے ۔اس کا یہ  رقبہ  صحرا و نیم صحراہے اوریہاں کوئی بھی دریا ایسا نہیں جو پورا سال بہتا  ہوا،اسی طرح  یہاں بارشیں بھی بہت کم ہوتی ہیں لہذا  صرف 2 فیصد رقبہ قابل کاشت ہے ۔

80 فیصد سعودی باشندے نسلی طور پر عرب ہیں ۔ ایک سروے کے مطابق سعودی عرب میں  روزگار کے سلسلے میں دنیا بھر کے 70 لاکھ تارکین وطن یہاں  مقیم ہیں۔

سعودی عرب میں سب سے زیادہ فٹ بال  کو پسند کیا جاتا ہے  ۔ ماجد عبداللہ، سامي الجابر اور ياسر القحطاني  سعودی عرب میں فٹبال  کے معروف     کھلاڑی ہیں۔سعودی عرب میں مقبول ترین رقص ارضیٰ ہے  جو قدیم بدوی روایات کا حصہ ہے ، سعودی عرب میں اس رقص کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دنوں میں امریکی صدر ٹرمپ  کی ریاض  آمد کے موقع پر شاہ سلمان نے ضعیف العمری کے باوجود اسی رقص کے ساتھ خوشی کا اظہار کیا تھا۔

نئی نسل کو گمراہی اور فحاشی سے بچانے کے لئے سعودی عرب میں تھیٹر اور سینما پر پابندی عائد ہے تاہم بعض علاقوں میں ایسے مراکز موجود ہیں جہاں  فلموں اور ڈراموں کے بجائے موسیقی اور  کچھ دیگر فنون پیش کئے جاتے ہیں البتہ امریکی فلموں کی وڈیوز اور ڈی وی ڈیز  کی خریدو فروخت  کی قانونی اجازت ہے اور ہر جگہ دستیاب ہیں۔

سعودی عرب کے  بنیادی قوانین کے مطابق سعودی عرب پر ہمیشہ  پہلے بادشاہ عبدالعزیز ابن سعود کی اولادہی  حکمرانی کرے گی لہذا ملک میں کسی سیاسی جماعت کے قیام  کا کوئی تصور نہیں۔ انتظامی لحاظ سے یہ ملک تیرہ صوبوں میں تقسیم ہے۔

۱۷۵۰ عیسوی میں ایک بادیہ نشین قبیلے کے سردار  محمد بن سعود اور محمد بن عبدالوہاب نے ایک  نئی حکومت بنانے پر اتفاق کیا۔ محمد بن سعود کے پاس قبیلے کے افراد اور خون تھا جبکہ محمد ابن عبدالوہاب کے پاس امام ابن تیمیہ کے  عقائد و  افکار تھے۔ اس کے بعد دونوں کے ملاپ سے ایک  نئی حکومت کی تحریک نشیب و فراز سے گزرتی رہی۔

پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر جب برطانیہ و فرانس کو تیل کی طاقت کا ندازہ ہوا تو انہوں نے ۱۹۱۹ میں مشرق وسطی کو دو حصّوں میں تقسیم کیا۔اس تقسیم کے نتیجے میں عراق،اردن اور سعودی عرب سمیت کچھ ممالک برطانیہ کے جبکہ ایران،ترکی اور شمالی افریقہ، فرانس کے حصّے میں آئے۔

استعماری طاقتوں نے سعودی عرب میں آل سعود سے،کویت میں آل صباح سے،قطر میں آل ثانی سے،امارات میں آل نہیان سے اور بحرین میں آل خلیفہ سے یہ  معائدہ کیاکہ اگر انہیں حکومت دی جائے تو وہ خطے میں استعماری مفادات کا تحفظ کریں گئے۔

ان معاہدوں کی روشنی میں 20 مئی 1927ء کو معاہدہ جدہ کے مطابق برطانیہ نے تمام مقبوضہ علاقوں جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے ان پر عبدالعزیز ابن سعودکی حکومت کو تسلیم کرلیا۔ 1932ء میں برطانیہ کی رضامندی حاصل ہونے پر مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے مملکت سعودی عرب رکھ دیا گیا۔

اس سے پہلے۱۹۳۰ میں امریکہ نے سعودی عرب کو اپنے قابو میں کرنے کے لئے  John Fillby ایک برطانوی جاسوس ” جان فیلبی” کو اپنے ایک کارندے ارنسٹ فیشر کے ذریعے خریدلیا۔ [1]

یہ شخص ۱۹۱۷ میں برطانیہ کی وزارت خارجہ میں ملازم ہواتھا اور تقریباً ۳۵ سال تک سعودی عرب میں ابن سعود کا مشیر رہاتھا۔اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نجد میں قدم رکھنے والا یہ پہلا یورپی باشندہ ہے۔یہ اپنے زمانے کا ایک بہترین لکھاری اور مصنف بھی تھا اور اس کی کئی کتابیں بھی منظر عام پر آئی تھیں۔

اسے مشرق وسطی کے بارے میں حکومت برطانیہ کی پالیسیوں سے اختلاف تھا جب یہ اختلاف شدید ہوگیا تو ۱۹۳۰ میں اس نے برطانوی سفارت سے استعفی دے دیا۔اس کے استعفی دیتے ہی اس کی تاک میں بیٹھے امریکی کارندے نے اس گلے لگا لیا۔

اس نے ابتدائی طور پر تیل نکالنے والی ایک امریکی کمپنی میں مشاور کی حیثیت سے کام شروع کیا اور خاندان سعود سے دیرینہ تعلقات کی بنا پر سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تیل نکالنے کا ایک بڑا منصوبہ منظور کروایا جس سے برطانیہ کی بالادستی کو دھچکا لگا اور خطّے میں امریکی استعمار کی دھاک بیٹھ گئی۔

یہی وجہ ہے کہ امریکہ و سعودی عرب دونوں اپنے تعلقات کے سلسلے میں جان فیلبی کی خدمات کے معترف ہیں۔ سعودی عرب کے برطانیہ کے بجائے امریکہ سے  تعلقات جان فیلبی کے مرہون منت ہیں۔

یاد رہے کہ سعودی عرب کو  مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی وجہ سے حرمین شریفین بھی کہا جاتا ہے۔  حرمین شریفین کی وجہ سے  جہان اسلام کے اصیل اور حقیقی تاریخی آثار بھی سعودی عرب میں پائے جاتے ہیں۔ البتہ   آج سے تقریباً ٨٠ سال قبل یعنی ١٣٤٤ھ/ ١٩٢٦ء میں ۸ شوال کو  مدینہ منورہ  اور مکہ معظمہ میں پائے جانے والے مقبروں اور مزارات کو مسمار کر دیا گیا تھا۔

ان میں سے  اس وقت صرف حضور نبی اکرمﷺ کا گنبد ہی رہ گیا ہے۔ اسلامی آثار منہدم کرنے کی وجہ سے سعودی عرب کی ساکھ کو دھچکا لگا اور ہر سال آٹھ شول کو مسلمان یوم احتجاج اور یوم سوگ کے طور پر مناتے ہیں۔

سعودی عرب کے مخالفین کا کہنا ہے کہ صحابہ کرام ؓ کے گھروں اور مزارات کو مٹانے سے ان کی دل آزاری ہوئی ہے اور ان کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ جبکہ سعودی حکومت کا موقف یہ ہے کہ ان آثار کو باقی رکھنا اسلام میں جائز نہیں ہے۔

اسی طرح طالبان ، القاعدہ، داعش اور دیگر شدت پسند گروہوں کی تشکیل سے فائدہ تو امریکہ کو ہوا لیکن اس طرح کے اقدامات سے سعودی عرب کی مقبولیت پرشدید  منفی اثرات مرتب ہوئے۔

اس کے ساتھ ساتھ  سعودی حکومت کی طرف سے ہندوستانی وزیراعظم مودی کو سب سے بڑے سیویلین ایوارڈ کا دیا جانا ،مسئلہ کشمیر پرسعودی عرب کا  بھارتی پالیسی کے مطابق پاکستان پر دباو ڈالنا، پاکستان میں دہشت گردوں  کا  پاک فوج کو ناپاک فوج  کہنا ،پاکستانی فوجیوں کے سروں کے ساتھ فٹبال کھیلنا، قائداعظم کی ریذیڈنسی کو شرک کا مرکز کہہ کر تباہ کرنا، دیگرفرقوں اور مسالک کے مراکز اور پبلک مقامات کو نشانہ بنانا، اسی طرح فوج و پولیس کے ٹھکانوں نیز پشاور آرمی پبلک سکول پر حملہ  کرنا اور پاکستان کے آئین کو غیر اسلامی اور عوام کو واجب القتل کہنا اس سے  پاکستان کے اندر بھی عوام میں سعودی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر بے چینی پیدا ہوئی ہے۔

اسی طرح قطر کے ساتھ قطع روابط اور حماس و الاخوان کو دہشت گرد قرار دینے نیز اسرائیل سے دوستانہ تعلقات کے فروغ نے بھی  سعودی عوام اور دیگر ممالک کے مسلمانوں کے ذہنوں میں بھی  بہت سارے سوالات  اور شکوک و شبہات  پیدا کر دئیے ہیں۔

امریکی اداروں نے   سعودی عرب کے حکمرانوں کو یہ باور کروایا ہو ہے کہ ان پالیسیوں سے  ان کا ملک ترقی کر رہا ہے لیکن تجزیہ نگاروں کے مطابق  یہ پالیسیاں سعودی عرب کے مفاد میں نہیں ہیں۔

تاریخ شاہد ہے کہ شہنشاہ ایران کی طرح  جس نے بھی امریکہ سے دوستی کی اور اس کے ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد شروع کیا اس کا انجام بہت برا ہوا۔

دنیا میں امریکہ ایک ایسا ملک ہے جس کی  دشمنی کے بجائے اس کی دوستی نقصان دیتی ہے۔ چونکہ امریکی دوستی ایک ایسے بھنور کی مانند ہے جس  کا ظاہری حسن ،ملاح کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اس کی  اندرونی گردش  کشتی کو ڈبو دیتی ہے۔

 ہماری دعا ہے کہ خداوند عالم امریکہ کے شر سے تمام دنیا باالخصوص عالم اسلام کو نجات دے ۔ آمین


تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree