وحدت نیوز(آرٹیکل) پاکستان کی معیشت کا حجم ڈھائی سو بلین ڈالر ہے۔ اس معیشت میں پچھلے آٹھ برس سے ساڑھے چار تا چھ فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر گذشتہ انہتر برس میں اتنے نہیں تھے جتنے آج ہیں ( بائیس ارب ڈالر سے زائد )۔ڈالر کے مقابلے میں روپے نے پچھلے تین برس سے مسلسل کمر باندھ کے رکھی ہوئی ہے۔رواں برس پاکستانی اسٹاک ایکسچینج براعظم ایشیا میں سب سے بہترین پرفارمر ہے۔پاکستان میں موجودہ شرحِ سود گذشتہ بیالیس برس میں سب سے کم ہے۔ پاکستان میں افراطِ زر کی شرح تین فیصد کے آس پاس ہے جس کے سبب اشیائے زندگی کے نرخوں میں استحکام پایا جاتا ہے۔
اگلے مالی سال کے لیے جو وفاقی بجٹ پیش کیا گیا، وہ پچھلے کئی عشروں میں سب سے زیادہ زراعت و صنعت دوست کہا جا رہا ہے۔گذشتہ تین برس کے دوران قومی گرڈ میں مزید ایک ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی ڈالی گئی ہے اور حکومت کا یہ دعویٰ محض ہوائی نہیں کہ دو ہزار اٹھارہ تک لوڈ شیڈنگ پر بہت حد تک قابو پا لیا جائے گا۔موجودہ حکومت کے معاشی اعتماد کا یہ عالم ہے کہ آنے والے دونوں کے معاشی انڈیکیٹرز کے بارے میں سوچ کر آئی ایم ایف کا ساڑھے چھ ارب ڈالر سے زائد کے امدادی پروگرام کا کشکول اگلے چند ماہ کے دوران توڑ دینے کے لیے بے چین ہے۔
امن و امان کے حالات بھی پہلے سے بہت بہتر ہیں۔ ضربِ عضب کے نتائج نکلنے شروع ہوگئے ہیں۔پراپرٹی ، اسٹاکس اور صنعتی سیکٹر میں جنبش محسوس ہو سکتی ہے۔ملکی معیشت کا انجن یعنی کراچی پھر سے ہارن بجا کر اپنی موجودگی کا احساس دلانے لگا ہے۔مڈل کلاس کی جیب میں پیسہ اچھل رہا ہے تو ریسٹورنٹ اور ہوٹل انڈسٹری بھی انگڑائی لے رہی ہے۔
یہ سب اس سب کے باوجود ہے کہ کرپشن کا زور اب تک نہیں ٹوٹا ، سیاسی حکومت تین برس بعد بھی خود کو تنے ہوئے رسے پر محسوس کر رہی ہے اور حزبِ اختلاف ہو کہ اسٹیبلشمنٹ ، بدلتے علاقائی حالات سمجھنے کے لیے سرنگی بینائی ( ٹنل ویژن ) کو بصیرت سمجھنے پر بضد ہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ اتنے حوصلہ افزا اقتصادی انڈیکیٹرز کے باوجود غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کی جانب راغب ہونے سے ہچکچا رہا ہے۔گذشتہ نو ماہ کے دوران پاکستان میں لگ بھگ ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عندیہ ملا اور وہ بھی پہلے سے موجود آٹوموبیل اور فوڈ پروسیسنگ انڈسٹری وغیرہ میں۔
پاکستان کی تمام تر توجہ اس وقت پندرہ برس کے دورانئیے پر پھیلے چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور منصوبے کی طرف ہے۔اور بے یقین و مشکوک فیصلہ سازوں کو یوں لگ رہا ہے، گویا تمام ہمسائیہ ممالک اور امریکا پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کر کے اس منصوبے سے محروم کرنا چاہتے ہیں یا ہتھیانا چاہتے ہیں۔ہر طرف سازشوں کے جال تنے ہیں۔کون دوست ، کون دشمن ، کون دوست نما دشمن ؟ کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔بس جو ہو رہا ہے غلط اور خلاف ہی ہو رہا ہے۔
مزے کی بات ہے کہ دو برس پہلے جب چائنا پاک اکنامک کاریڈور کے بارے میں صرف باتیں ہو رہی تھیں تو پاکستان خود کو اتنا تنہا محسوس نہیں کر رہا تھا۔اقتداری کاریڈورز میں کچھ ایسی باتیں سننے میں آتی تھیں کہ بس عالمی پابندیاں اٹھنے کی دیر ہے، ایران پاکستان گیس پائپ لائن گیم چینجر بن جائے گی۔وسطی ایشیا سے ٹیپی ( ترکمان۔افغان۔پاک۔انڈیا ) گیس پائپ لائن آئے گی اور بجلی بھی اور جنوبی و وسطی ایشیا کی منڈی یکجائی کے خوشحال سفر پر روانہ ہو جائے گی۔
لیکن کل کے ممکنہ ساجھے دار آج کے دشمن نظر آ رہے ہیں۔پہلے صرف بھارت سے مسلح تصادم کی تاریخ تھی، اب افغانستان سے بھی مسلح جھڑپوں کی روایت پڑ گئی ہے۔جب تک یاریاں اور مفادات و امکانات تھے تب تک پاک افغان بارڈر ہو کہ پاک ایران سرحد ’’ حسابِ دوستاں در دل ’’ والا معاملہ تھا۔اب یہ ہے کہ سب سے پہلے بارڈر کنٹرول ، اس کے بعد کچھ اور۔
بارڈر کنٹرول یقیناً قائم ہونے چاہئیں تاکہ ناپسندیدہ عناصر کی آمد جامد اور غیر قانونی سرگرمیوں پر نگاہ رکھی جا سکے۔لیکن بارڈر کنٹرول احساس ِ عدم تحفظ یا معاندانہ جذبے کے زیرِ اثر قائم کرنے کا مطلب اپنے خول میں سمٹنے جیسا ہے۔طورخم گیٹ چاہ بہار سمجھوتے سے پہلے قائم ہو جاتا تو معمول کی بات ہوتی۔لیکن اس کی تعمیر میں ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد سے غیر معمولی جلدی مچانا معمول کی بات نہیں۔ایران برسوں سے کہہ رہا تھا کہ تافتان پر بارڈر کنٹرول کے لیے پاکستان بھی گیٹ قائم کرے مگر پاکستان دوستانہ لیت و لعل سے کام لیتا رہا۔اب پاکستان ازخود تافتان پر گیٹ بنا رہا ہے جس کا افتتاح چودہ اگست کو ہو جائے گا۔
حالانکہ بے چین چین کو ہونا چاہیے جو اربوں ڈالر کا سرمایہ لا رہا ہے۔مگر چین خاصا پرسکون ہے۔جو ممالک پاکستان کے خیال میں پاکستان کا گھیراؤ کر رہے ہیں، ان سب سے چین کے بہت اچھے عامل تجارتی تعلقات ہیں۔مثلاً بھارت کو چین کے مقابل کھڑا کرنے کے لیے کوشاں امریکا چین کا سب بڑا اقتصادی پارٹنر بھی ہے۔خود بھارت تمام تر جھگڑوں اور مسابقت کے ہوتے چین کا دسواں بڑا اقتصادی پارٹنر ہے۔چین کی پاکستان سے جتنی دو طرفہ تجارت ہے اس سے تین گنا تجارت ایران کے ساتھ ہے۔
پاکستان کو خوف ہے کہ امریکا افغانستان میں ایک کلیدی رول دینے کے لیے بھارت کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے اور بھارت اپنے سافٹ پاور امیج سے افغانیوں کے دل جیت رہا ہے۔ مگر چین کو افغانستان کا ہمسایہ ہونے کے باوجود ایسا کوئی خوف نہیں۔وہ افغان مسئلے کے حل کے لیے کوشاں چہار ملکی گروپ کا عامل فریق بھی ہے ، افغانستان میں سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے اور اس کے تمام افغان فریقوں سے تعلقات بھی پاکستان کی نسبت زیادہ بہتر ہیں۔
تو پھر پاکستان پر اچانک اپنے گھیراؤ کا اتنا خوف کیسے طاری ہوگیا ؟ اگر واقعی یہ خوف حقیقت پر مبنی ہے تو پھر ہر سمت ہاتھ پاؤں چلانے اور بار بار ’’ہم کسی سے کم نہیں’’ کی تکرار کیا دنیا کو سنانے کے لیے ہے یا اپنے خوف پر قابو پانے کے لیے ہے۔
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ پاکستان پہلے تو اطمینان سے بیٹھ کر پانی پئے۔پھر کچھ گہرے گہرے سانس لے کر اعصاب نارمل کرے اور پھر سوچے کہ اب تک اس سے کیا اچھا کیا برا سرزد ہوا۔اس کی خواہشات کیا ہیں اور وسائل کتنے ہیں۔کہیں اس کی خواہشات وسائل سے زیادہ تو نہیں ؟ اسے اپنی بقا کی جنگ معاشی اسلحے سے لڑنی ہے یا پھر ادھاری دساوری بندوق سے ؟ چین جو اس وقت واحد طاقتور دوست ہے ، آخر کیا وجہ ہے کہ وہ اتنی ٹینشن میں نہیں اور ہم اس کے سائے میں بیٹھنے کے باوجود اس قدر ٹینشن میں ہیں ؟ کیا چین کو ہماری طرح معاملات کی نزاکت کا ادراک نہیں یا پھر ہم نرگسیت کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں؟
یہ جائزہ معقولیت کی نگاہ سے تب ہی ممکن ہے جب پاکستان کی خود سے ملاقات کا بندوبست ہو۔کوئی بتائے گا کہ ستر برس میں پاکستان کی اپنے سے کتنی ملاقاتیں ہوئیں؟
متعصب ایف آئی اے اور پنجاب پولیس کے تکفیری افسران کے ہاتھوں لاہور ائیرپورٹ سے گرفتار ہونے والی پاکستانی شہری سیدہ مسرت بانو رہا ہوگئیں، جبکہ انکی رہائی سے ریاستی اداروں میں چھپے تکفیری افسران کی سازشیں بھی ناکام ہوگئیں ،جبکہ یوں کہا جائے وہ ذلیل و خوار ہوگئے کہ جنہوں نے آل رسول (ص) میں سے ایک سید زادی پر دہشتگردی اور فرقہ ورانہ فسادات کروانے کا بے بنیاد اور بھونڈا الزام لگایا تھا۔
تحریر۔۔۔۔۔۔وسعت اللہ خان