میرے فلسطین۔۔ تیری جنت میں آئیں گے اک دن

28 جون 2017

وحدت نیوز(آرٹیکل) مشرق و سطیٰ کے تیزی سے بدلتے حالات، شام و عراق میں خانہ جنگی، داعش کا وجود، السعود کا تحاد، اسرائیل کے عرب ریاستوں سے مضبوط تعلقات، سعودی عرب اور قطر کے بدلتے حالات، ٹرمپ کی ریاض میں بیٹھ کر ایران کو دھمکیاں، یہ سب گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر عمل در آمد ہے۔ دوسری طرف ہم اس کو شام ، عراق ،افغانستان، ایران و سعودی عرب و قطر اور فرقہ وارانہ و مسلکی جنگ سمجھتے ہیں۔ ہمارے نزدیک و ہ افغانی ہے وہ ایرانی ہے وہ سعودی ہے،یہ ان کی اپنی جنگ ہے ہمیں ان سے کیا لینا دینا۔ہمارے معاشرے میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو ان واقعات و حالات کا باری بینی سے جائزہ لیتے ہیں اور ان کے ظاہری خدو خال کو چھوڑ کر اندرونی مقاصد کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم میں یہ صلاحیت ہونی چاہئے کہ ہم کسی بھی رنگ و نسل کے اثر میں آئے بغیر صحیح کو صحیح، غلط کو غلط اور حقیقت کو حقیقت کہہ سکیں۔جب تک انسان میں صحیح و غلط کی تمیز نہیں ہوگی ہم حق و باطل اور ظالم و مظلوم میں فرق نہیں کر سکیں گے۔ آج مسلمانوں کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ بیت المقدس کی آزادی کا مسئلہ ہے، قبلہ اول کسی ایک فرقے کا نہیں تمام مسلمانوں کا ہے اور فلسطینی خواہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں وہ مظلوم بھی ہیں اور مسلمان بھی۔

جب سے اسرائیل کے ناجائز وجود کا قیام عمل آیا ہے گریٹر اینڈ سیف اسرائیل کے تصور پر مکمل منصوبہ بندی سے کام جاری ہے۔ امریکہ و اسرائیل کا پہلا مقصدمسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنا تھا فرقہ واریت کے ذریعے مسلمانوں کو آپس میں مصروف رکھنا تھا۔ دوسرا مقصد مسلمان ملکوں کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنا ہے کیوں کہ کوبھی طاقتور اسلامی ملک (اسی لئے اسرائیل کو ایٹمی اور پر امن و مستحکم پاکستان برداشت نہیں)کسی بھی وقت اسرائیل کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا سکتا ہے، چاہے مسلمان ہزار سال رستے سے بھٹکے لیکن جس دن ان کا رہنما مخلص اور با ایمان ہوگا مسلمان متحد ہونگے اور مظلوموں کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہونگے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل کے ناجائز وجود اور عربوں کی شکست کے بعد مسلمان ممالک خصوصا عرب ریاستوں نے صیہونیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ لیکن اسرائیلی اس بات سے مطمئن نہیں ہیں وہ چاہتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کا ہر ملک کمزور اور ٹکڑوں میں بٹ جائے اور تمام وسائل پر اس کا کنٹرول ہو۔

اگر ہم تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہودی شروع سے ہی مکار، چالاک اور سرکش لوگ ہیں ان کی ایک مثال ہمیں اسلام کی آمد سے پہلے سر زمین عرب میں بنو اوس و خزرج کی لڑائی میں ملتی ہے۔ قبیلہ اوس و خزرج ایک ہی جد کی اولاد تھے لیکن ان کے درمیان شروع ہونے والے فتنے نے اس قدر زور پکڑ ا کہ رہتی دنیا تک ایک مثال بن گیا، ان کے درمیان کبھی تلوار نیام میں نہیں رہتی تھی، جب ایک قتل ہوتا تھا تو مقتول کے لواحقین قسم کھاتے تھے کہ جب تک اس کا بدلہ نہیں لیں گے چین سے نہیں بیٹھیں گے اسی طرح یہ جنگ صدیوں جاری رہی۔اوس و خزرج کی لڑائی میں اہم کر دار وہاں کے یہودیوں کا تھا۔ چونکہ اس وقت یہودی ثروت مند تھے اور دیگر تمام قبیلوں کا جھکاو یہودیوں کی جانب رہتا تھا جس کا یہودی بھر پور فائدہ اٹھاتے تھے۔یہودی یہ سمجھتے تھے کہ جب تک عرب میں اوس و خزرج کی جنگ ہے، یہودی سکون میں ہیں لہذا ان کے درمیان کبھی بھی جنگ نہیں رکنی چاہئے، جس دن ان کے درمیان امن ہوگا یہ یہودیوں کے لئے جنگ کا پیغام ہے۔ یہودی لوگ، اوس و خزرج دونوں کو جنگ کے لئے مالی امداد بھی دیتے تھے اور سود بھی کئی گنا لیتے تھے، اسی طرح دونوں قبیلوں کو اپنا محتاج بنایا ہوا تھا۔ پھر ہر وقت دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف اکساتے بھی تھے جب کبھی کچھ عرصہ امن سے گزرتا تھا تو وہ یہودی اپنے غلاموں کے ذریعے امن کو خراب کرتے تھے۔

ایسا ہی حال اسرائیل کے وجود کے بعد سے مسلم ممالک کے درمیان ہے، اسرائیلیوں نے سب سے پہلے عربوں کو اپنی طاقت سے دبانے کی کشش کی جس میں ان کو توقع سے زیادہ کامیابی ملی۔ عربوں پر اسرائیل کا رعب و دبدبہ بر قرار رہا یہاں تک کہ اسرائیلیوں کو لبنان سے نکالا گیا اور حزب اللہ کے ہاتھوں عبرتناک شکست ہوئی ، یہ یہودیوں کو چونکا دینے والی شکست تھی۔ جب اسرائیل نے اپنے ارد گرد گیرا تنگ دیکھا تو عالمی طاقتوں خصوصا مغربی طاقتوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو فرقہ واریت میں دھکیلنے اور ملکوں کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے عمل پر تیزی سے کام شروع کیا جن کا پہلا حصہ طالبان و القاعدہ کی صورت میں نظر آتا ہے، جیسا کہ القاعدہ و طالبان کی پیدائش اور نشونما کا عمل سب کے سامنے ہیں۔ ورلڈ ٹریٹ سنٹر پر حملے بھی اسرائیلیوں کی پالیسی کا حصہ تھے، جس کے بہانے سے افغانستان کو تباہ کیا گیا۔ بعد ازاں اسلامی ممالک کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے کے لئے عراق و شام کا انتخاب کیا گیا۔اس کے ساتھ ہی عرب سپرنگ کی موج پر بھی اسرائیل نے خوب سواری کی، لیکن جب شام و عراق میںامریکہ و اسرائیل کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو انہوں نے داعش کے نام سے ایک نیا فتنہ کھڑا کر دیا،جس کو مالی سپورٹ سعودی عرب، قطر اور اسلحے و میڈیکل کی سہولیات اسرائیل، امریکہ و اس کے اتحادی فراہم کرتے تھے اور ہیں۔

اسی حوالے سے ڈاکٹر عبد المجید دشتی کویتی جو کہ کویتی پارلیمنٹ کے سابق ممبر ہیں اپنے آرٹیکل میں ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ ان کا ایک دوست ہے جو الجزائر کا سابق وزیر خارجہ تھا اس کا نام علی بن فلیس ہے۔ وہ وزیر خارجہ کے علاوہ کئی اہم عہدوں پر بھی فائز رہا ہے اس نے الجزائر سے دہشت گردی کے خاتمے کی تفصیل کچھ اس طرح مجھے بتایا؛علی بن فلیس کہتے ہیں کہ ۹۰ کی دہائی میں الجزائیر میں دہشت گردی عروج پر تھی جیسے ابھی شام و عراق اور دیگر دہشت گردی کے متاثرین ملکوں میں ہیں۔ ۹۰ کی دہائی میں تکفیری گروہوں نے الجزائر کے امن کو تباہ و برباد کر دیا تھا اور لوگوں کا جینا حرام ہوگیا تھا، حکومت پریشان تھی کہ کیسے اس دہشت گردی کی لہر پر قابو پایا جائے مگر ہر طرف سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ رہا تھا۔ ایک مرتبہ اس وقت کے الجزائری صدر نے مجھے یعنی علی بن فلیس کو طلب کیا اور کہا کہ آج کچھ خاص مہمان آئنگے لہذا تمھاری شرکت نہایت ضروری ہے۔علی کہتے ہیں جب وہ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ صدر کے ساتھ امریکی سفیر اور تین دیگر لوگ بیٹھے تھے جو امریکن سی آئی اے کے عہدہ دار معلوم ہوتے تھے۔ اس موقع پر امریکی سفیر نے صدر سے سوال کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے ملک سے دہشتگردی ختم ہو؟؟ صدر صاحب پہلے سے ہی اس صورت حال سے پریشان تھے ، باعث حیرانگی کہنے لگے کیا آپ ہمارے ملک سے دہشت گردی ختم کر سکتے ہیں؟ سفیر نے کہا جی بلکل مگر کچھ شرائط ہیں! صدر نے کہا قبول ہے، امریکی سفیر نے کہا: اول آپ اپنے ملک کے تیل، گیس اور دیگر قدرتی وسائل کی آمدن وغیرہ امریکی اور فرانسیسی بینکوں میں رکھیں گے۔ دوئم فلسطین کی حمایت سے ہاتھ اٹھانا ہوگا اور اسرائیلی مفادات کا خیال رکھنا ہوگا،۔سوئم ایران اور حزب اللہ سے تعلقات ختم کرنے ہونگے۔ پنجم اگر ترکی جیسی اسلامی حکومت تشکیل دینا چاہتے ہو تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا ،وغیرہ۔۔اگر ہماری شرطیں قبول کرتے ہیں تو آپکے ملک سے یہ دہشت گردی ختم کرنے کی ہم ضمانت دیتے ہیں۔ صدر نے کچھ سوچنے کے بعد مطالبات تسلیم کرنے کی حامی بھر دی تو سفیر کہنے لگا ٹھی ہے پھر ہم اپنے شرکا ء اسرائیل، فرانس اور سعودیہ سے بات کریں گے۔ صدر نے پوچھا ان ممالک کا اس سے کیا تعلق ہے امریکی سفیر نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ دہشت گردوں کو زیادہ تر اسلحہ فروخت کرنے والا ملک اسرائیل ہے، اس اسلحے کا خریدار یعنی فنڈز فراہم کرنے والا ملک سعودی عرب اور دہشت گردوں تک اسلحوں کو پہنچانے والا فرانس ہے بالاخر تمام حقائق کو صدر کے سامنے بیان کر دیے گئے ، اس کے بعد ان تین ممالک کی مدد سے دہشت گردوں کی لعنت ہمارے ملک الجزائر سے ختم ہوگئی۔

خلاصہ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ جو ظاہری دہشت گردی نظر آتے ہیں یہ ایک روبوٹ کی طرح ہے ان کے پیچھے پورا ایک سیسٹم کار فرماہے۔ اسی لئے آج تک کسی دہشت گرد تنظیم نے مسلمانوں کی اتحاد اور قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی کی بات نہیں کی اور انہوں نے اسرائیل کے آس پاس تمام ممالک میں خون کی ندیاں بہادی ہیں۔ حتیٰ کہ ریاض کانفرنس میں بھی ایک حرف تک فلسطین کی حمایت میں نہیں بولا، اس وقت امریکہ و اسرائیل کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ باشعور مسلمانوں کا وجود ہے، وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان بکریوں کی ریوڑھ کی طرح ان کی غلامی میں رہیں۔ ہمیں ریوڑھ بنے کے بجائے ایک باشعور ملت بن کر امریکہ و اسرائیل کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ ایران کے بابسیرت اور باشعور انقلابی رہنما آیت اللہ خمینی نے صحیح کہا تھا کہ اگر مسلمان متحد ہو کر ایک ایک بالٹی پانی بھی اسرائیل پر گرا دیں تو وہ صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ جی ہاں اگر ہم باشعور ہوجائیں اور امریکہ و اسرائیل کی چالوں اور چیلوں کو سمجھ لیں تو اسرائیل کو ختم کرنے کے لئے کسی ایٹم بم کی ضرورت نہیں بلکہ ایک بالٹی پانی کافی ہے۔ انشااللہ وہ دن جلد آئے گا کہ جب اسرائیل کا ناپاک وجود اس دنیا سے ختم ہوجائے گا اور سارے مسلمان بیت المقدس کی زیارت کو آزادانہ جائیں گے۔


تحریر: ناصر رینگچن



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree