وحدت نیوز(آرٹیکل) پاراچنار کرم ایجنسی کا دارلخلافہ ہے اور فاٹا کا سب سے بڑا شہر ہے جو پشاور سے جنوب کی طرف افغان صوبے پکتیا کی جانب ہے۔ یہ پاکستان سے افغان دارلحکومت کا بل تک کا نزدیک ترین علاقہ ہے، اس کی سرحدیں القاعدہ کی مشہور پناہ گاہ تورا بورا کے پہاڑوں سے بھی ملتی ہیں۔ پاراچنار اسلام آباد سے362 کلومیٹر دور تقریبا 8 سے 9 گھنٹے کا راستہ ہے۔ اَسی کی دہائی سے پہلے پاراچنار خوبصورت اور پُر امن ترین علاقہ تھا لیکن اَسی کی دہائی کے بعد سے یہاں پر آہستہ آہستہ فرقہ واریت کا بازار گرم ہونا شروع ہوگیا کیونکہ باہر سے آنے والے مہاجرین نے اپنے ایجنڈے پر کام شرع کر دیا تھا۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں ان دہشت گرد جہادیوں کی فیکٹریاں لگا دی گئی جہاں پر سادہ لوح لوگوں کو لیجایا جاتا تھا پھر یہ مجاہد بن کر نکلتے تھے ان میں ایک مشہور مدرسہ جو ہمیشہ سے مشکوک رہا ہے وہ نوشہرہ میں واقع مولاناسمیع الحق کے زیر انتظام چلنے والا دارلعلوم حقانیہ ہے جن کو طالبان کی نرسری بھی کہا جاتا ہے۔ بحر حال ان فیکٹریوں کی کہانی اور ان سے وطن عزیز کی سالمیت کو پہنچنے والے نقصانات کی لمبی فہرست موجود ہے۔
تو میں بات کر رہا تھا کرم ایجنسی کی خوبصورت وادی پاراچنار کی ، پاراچنار کے باسیوں نے اَسی کی دہائی کے بعد سے کچھ ماہ بھی امن و سکون سے نہیں گزارے، آئے روز طالبان و تکفیری دہشت گردوں کی جانب سے ظلم و بر بریت کا نئی داستان کھل جاتی، کبھی پاراچنار پر چاروں طرف سے لشکر کشی کی جاتی تو کبھی راستے میں بسوں سے اتار اتار کر شناخت کر کے قتل کر دیے جاتے، کبھی فوجی کانوائی میں بھی لوگوں کے قافلوں کو لوٹ لیا جاتا اور جوانوں کو اغوا کر کے ان کے لاشوں کی بے حرمتی کی جاتی حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آیا کہ پاراچنار پانچ سال تک غزہ بنا رہا جہاں پر پاکستان آنے والے تمام راستوں کو طالبان نے سیل کر دیا تھا۔ اس مشکل دور میں بھی پاراچنار کے غیور اور محب وطن پاکستانیوں نے اپنے بل بوتے پر ملک دشمن، را و موساد کے ایجنٹوں سے مقابلہ کیا اور ان دہشت گرد تکفیری گروہوں کے ناپاک عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ ملک دشمن عناصر کا یہ خیال تھا کہ وہ فاٹا کے دارلخلافہ سے وطن کی حفاظت کرنے والوں کا صفایا کر کے اس پورے خطے کو اپنے کنٹرول میں لیں گے لیکن ان کی راہ میں ہمیشہ سے پاراچنار کی عوام رکاوٹ بنتی تھی۔ پاراچنار کی عوام پانچ سال محسور رہی، تمام زمینی راستے پشاور سے منقطع ہونے کے باوجود وہ لوگ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہوئے افغانستان کے راستے پشاور پہنچتے تھے اور یہاں سے اشیاء خوردونوش لے کر پھر اسی راستے سے پاراچنار جاتے تھے مگر انہوں نے اس سخت ترین دور میں بھی تکفیری دہشت گردوں کے ساتھ مقابلہ جاری رکھا اور بلا آخر دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ ایک رپورٹ کے مطابق 80 کی دہائی سے اب تک تقریباں تین ہزار پاراچنار کی عوام دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکی ہے لیکن آج تک ان کی حب الوطنی میں کوئی کمی نہیں آئی، پاراچنار کی عوام کا کہنا ہے کہ اگر ہم ان دہشت گردوں کو یہاں مصروف نہیں رکھتے تو ان کے لئے فاٹا پر قبضہ کر کے پشاور اور اسلام آباد پہنچنا مشکل کام نہیں تھا۔ دوسری طرف پاراچنار کی عوام نے افغان صوبے پکتیا، قندھار اور سب سے اہم تورا بورا کی پہاڑیوں سے آنے والے طالبان و القاعدہ کے دہشت گردوں کا راستہ بھی روکا اور وطن عزیز کی سرحدوں کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کئے۔
عید الفطر سے دو دن پہلے جمعۃ الوداع کے دن وطن عزیز کے دشمنوں نے پھر سے ان محب وطن شہریوں پر عید کی خریداری کے دوران حملے کئے جس کے نتیجہ میں سے سے اوپر عام شہری شہید اور 150 کے قریب زخمی ہوئے، بعص زخمیوں کی حالت نازک ہونے کی وجہ سے روز بہ روز اموات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔لیکن ستم ظریفی دیکھیں کہ بم دھماکوں کے بعد شہدا کے لواحقین اور شہریوں نے اپنے جائز مطالبات یعنی جان و مال کے تحفظ اور دہشت گردی کے خلاف پر امن مظاہرہ کیا تو ایف سی کے اہلکاروں نے عوام کو منتشر کرنے کے لئے فائرنگ کر دی جس کی زد میں آکر مزید سات بے گناہ شہید ہوئے۔ پاراچنار کی عوام کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی کیونکہ اس سے پہلے بھی مظاہرین پر ایف سی کی فائرنگ سے کئی شہری شہید ہوچکے ہیں اور اتفاق سے ان دونوں واقعات کے دوران وہاں کی ایف سی کے ذمہ دار کرنل عمر تھے جن کے آرڈر پر یہ کاروائی ہوئی۔ اس سے بھی بڑھ کر ستم یہ ہوا کہ پانچ دن گزرنے کے باوجود وزیر اعظم میاں نواز شریف یا دیگر اعلی ذمہ داران کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ کوئی ان شہدا کے یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھنے نہیں آیا یہاں تک کہ کسی ذمہ دار نے ہمدردی کا اظہار تک نہیں کیا۔ کیا پاراچنار میں شہید ہونے والے بے گناہ پاکستانی نہیں تھے؟ کیا ان کا اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنا جرم تھا؟ سو لاشیں گرنے اور لواحقین کے دھرنے کے باوجود اس ملک کے ذمہ داروں کو کیسے سکون سے نیند آتی ہے؟ اگر ان کے گھروں میں صف ماتم بچھ جائے تو کیا وہ اسی طرح کا رویہ اپنائیں گے؟ چلو مانا کہ آپ عید کی تیاریوں میں مصروف تھے یا آپ مظلوم عوام کی فریاد نہیں سننا چاہتے تھے تو ٹھیک تھا مگر ان مظلوموں کی حمایت کرنے والوں کو ڈرانا دھمکانا کہاں کا انصاف ہے؟ایک ذمہ دار شخص ہو نے کے باوجود غیر ذمہ دارانہ اور یک طرفہ بیان دینا کہاں کا انصاف ہے؟ چوہدری صاحب کہتے ہیں " حالیہ دنوں میں پیش آنے والے واقعات کو ملک دشمن عناصر جان بوجھ کر فرقہ وارانہ رنگ دے رہے ہیں" جناب یہ حال کا واقعہ نہیں ہے یہ توعوام 38 سالوں سے بھگت رہے ہیں اور ہر دفعہ ایسے واقعات کے پیچھے غیر ملکی ایجنٹوں کا ہاتھ ہی سن رہے ہیں۔
دوسری بات جناب ان مظلوم لوگوں نے تو کبھی فرقہ وارانہ رنگ دیا ہی نہیں کیونکہ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جو بے گناہوں کا قتل عام کرتے ہیں اُس کا کسی فرقے سے تعلق ہی نہیں ہو سکتا یعنی اس کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ دین اسلام کبھی کسی بے گناہ کا خون بہانے کی اجازت نہیں دیتا اور اس بات کو ہم سب بھی تسلیم کرتے ہیں مگر پھر بھی یہ کہنا کہ" سانحہ پاراچنار کے بعد کی صورت حال پر نظر رکھی ہوئی ہے جس کو پاکستان مخالف ایجنسیاں فرقہ وارانہ اور نسلی رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہیں" سمجھ سے بالا تر ہے۔لیکن یہ بات خوش آئیند ہے کہ پاک فوج کے سربراہ نے یقین دلایا کہ "پاراچنار واقع کے ذمہ داروں کو قانون کے کٹھرے میں لایا جائے گا جبکہ متاثرین کو بلا امتیاز داد رسی کی جائے گئی" بلکل پاک افواج کے سپہ سالار نے عوام کے دلوں کی بات پانچ دن بعد ہی صحیح لیکن بات درست کی ہے اور عوام کی ترجمانی کی ہے۔ محب وطن پاکستانی بھی یہی چاہتے ہیں کہ صرف پاراچنار نہیں ملک بھر میں جہاں کہیں بھی کوئی ظلم زیادتی ہو اس کے ذمہ داروں کو قانون کے مطابق سزادی جائے اور متاثرین کے ساتھ بلا امتیاز سلوک کیا جائے، خصوصا سانحہ پاراچنار میں ملوث عناصر کے خلاف فوری کاروائی کی جائے اور چھ دن سے دھرنا دیے ہوئے مظلومین کے جائز مطالبات کو فوری تسلیم کیا جائے۔مگر وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے سانحہ پاراچنار کے شہدا کو دس دس لاکھ، زخمیوں کو پانچ پانچ لاکھ اور سانحہ بہاولپور میں ہلاک ہونے والوں کوبیس بیس لاکھ، مستحقین کو سرکاری نوکری دینے کے اعلان نے وطن عزیز میں متاثرین کی بلا امتیاز داد رسی کی رہی سہی کسرپوری کر دی ہے۔
تحریر: ناصر رینگچن