وحدت نیوز(آرٹیکل) پاکستان کو معرض وجود میں آئے ستر سال ہوگئے، اور ان شاء اللہ تا قیامت اس کا وجود اپنے جاہ و حشم سے برقرار رہے گا،آزادی ہند میں جن تحریکوں کا آغاز ہوا ان میں نمایاں گانگریس اور مسلم لیگ تھیں کہ جن کا نقطہ نظر بھی واضح تھا یعنی برطانوی استعمار سے ہندوستان کو آزاد کرانا لیکن نقطہ افتراق جو ان دونوں میں تھا وہ یہ تھا کہ مسلم لیگ ایسے خطے کو آزاد کرانے کے درپے تھی جو اکثر مسلمانوں کی امنگوں کا ترجمان ہو اور وہ تھا ایسی مملکت کا قیام کہ جو فقط مسلم امہ کے لئے مخصوص ہو اور سب مسلم مسالک اس میں برابر کے شریک ہوں اور اقلیتوں کو بھی ان کے جائز حقوق تک رسائی حاصل ہو وغیرہ، کیونکہ دو قومی نظریہ یعنی ہندو اور مسلم ایک سیریس معاملہ تھا کہ جس کا تجربہ کئی دہائیوں سے حاصل تھا، یعنی ہندو اور مسلم ایک سرزمین پر ایک جھنڈے تلے رہ نہیں سکتے تھے کیونکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے پر برتری کا خواہان تھا اور اسکا نتیجہ گذشتہ اور حالیہ ہندو مسلم فسادات کی صورت میں قابل دید ہے۔
ایک فلاحی ریاست کا خواب دیکھ کر ہمارے بزرگوں نے جو کہ ہر مسلک سے وابستہ تھے سر فہرست قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال، شہید ملت، مولانا محمد علی جوہر وغیرہ، بین المسالک اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اس ملک کے حصول کے لیے کوششوں کو تیز کیا اور آخر کار وہ حاصل کر ہی لیا کہ جو ان کا اور ہندوستان کی امت مسلمہ کا خواب تھا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ آزادی کا فلسفہ جو انہوں نے اپنے اہداف میں شامل کیا وہ کیا تھا اور موجودہ پاکستان اس آزادی کے اصولوں پر کتنا کاربند ہے؟
مہم ترین اور جامع ترین آزادی کے حصول کا مقصد ایسی سرزمین کی تاسیس کہ جس میں تمام اسلامی مسالک اپنے رسومات اور عبادات کو آزادانہ طور پر انجام دے سکیں اور مشترکات میں ایک پلیٹ فارم پر اس وطن کی فلاح و بہبود کے لئے باہم مل کر کام کرسکیں اور اسی طرح اقلیتوں کے حقوق کا احترام کریں اور ان کو بھی محترم شہری کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اس وطن کی ترقی میں ہاتھ بٹانے کا موقعہ دیں۔
تبھی تو بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے آزادی پاکستان کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کہا: آج سے تم آزاد ہو، جو چرچ جانا چاہے وہ جائے جو مسجد جانا چاہے وہ بھی آزادی سے جائے اسی طرح مندر وغیرہ تمہیں کوئی روک ٹوک نہیں۔
لیکن یہ سہانا خواب، خواب ہی رہ گیا، آزادی کے نام پر حاصل شدہ مملکت فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ گئی، جہاں اقلیتوں کے حقوق کو دن دھاڑے سرکاری سرکردگی ميں پامال کیا جانا روز کا معمول ہے، جس ریاست کے مکین دنیا بھر میں دہشتگردی کے نام سے مشہور ہیں، جس کے شہری بنیادی ضروریات جو کہ سب کا بنیادی حق ہے یعنی روٹی کپڑا اور مکان سے محروم، سو سو لاشین اٹھانے کے بعد بھی پاکستانی زندگی پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہوتی اور سو سو بچوں کو بے رحمی سے قتل کیا جاتا ہے، دنیا میں زر مبادلہ کے ذخائر سے مالامال ملک کے حکمران بین الاقوامی ایوانوں میں بھیک تک مانگنے سے نہیں کترا رہے، اور مساجد، عبادات، عزاداری، میلاد، ائر پورٹ، فوجی اور پولیس تنصیبات غیر محفوظ، قومیں ایک دوسرے کے خون کی پیاسی، جہاں پاکستان کے محب وطن اور مخلص شہری حکومتی اداروں کے زیر عتاب، دہشتگرد اور ان کے سہولت کار آزاد،یہ آزادی تو اس برطانوی غلامی سے بدتر ہے،ہمارے ان بزرگوں کے روح قبر میں آج اپنی ملت کے فرزندوں کی اس حالت پر خون گریاں ہونگے.
صرف چند لوگوں کے پیٹ کے مسئلے نے ملت کو دیوالیہ پن کا شکار بنادیا ہے۔
آئیے ہم عہد کریں کہ ایک بار پھر پاکستان پر قابض ان بہروپیوں سے مادر وطن کو آزاد کرا کر جشن آزادی منائیں گے۔
*تمام اہل وطن کو جشن آزادی مبارک.*
تحریر۔۔۔محمد جواد عسکری