عالمی حالات کا جامع اسٹریٹیجکل مطالعہ (حصہ دوئم)

21 دسمبر 2017

وحدت نیوز(آرٹیکل)’’ جنوبی ایشیا میں امریکی اقتصادی اور اسٹریٹجک ضروریات‘‘

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ سابقہ روس یا سوویت یونین اور مریکہ کے درمیان موجود کشمکش یعنی سرد جنگ کے خاتمے کے بعد یہ تنہاامریکہ ہی تھا جو ایک بڑی قوت کے طور پر جانا جاتا تھا ،یہاں تک کہ امریکہ کی اس تنہا قوت ہونے کو مختلف عنوانات کے ساتھ یاد کیا جانے لگا جیسے امریکی صدی، نیا عالمی نظام، (نیو ورلڈ آرڈر))یونی پولر)یا ایکبروویی دنیاوغیرہ ۔

یہاں تک کہ کچھ زیادہ وقت نہیں گذرا تھا کہ دنیا میں بہت سے گہری نگاہ رکھنے والے دانشوروں اور تجزیہ کاروں نے اپنے شکوک کا اظہار کرنا شروع کردیا کہ امریکہ تنہا عالمی طاقت ہوسکتا ہے اور بہت ہی مختصر عرصے میں یک قطبی(یونی پولر ورلڈ) نظریے کی جگہ کثیر القطبی (  ملٹی پولر ورلڈ)نظریے نے لینا شروع کردیا اور یوں دنیا آہستہ آہستہ سمجھنے لگی کہ اکیسویں صدی میںامریکہ اپنی پوزیشن برقرار نہیں رکھ پارہا ہے اور اب صرف امریکہ واحد طاقت نہیں رہا ہے ۔

خاص کرایک جانب افغانستان اور عراق جنگ میں امریکی مداخلت ،داخلی سطح پر معیشتی بحران نے رائے عامہ امریکہ کی اس پوزیشن کو مزید کمزور کردیا تو دوسری جانب اس کی حریف دو طاقتوں کی عسکری سیاسی اور اقتصادی اثرو رسوخ نے امریکہ کے بجائے بہت سوں کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی ۔

(۱)چین اور امریکہ کے تعلقات کا مختصر بیگ گرونڈ
گرچہ چین اور امریکہ میں ڈیپلومیٹک تعلقات کی تاریخ انیسویں صدی ۔(1884)میں وانگیانامی ڈیپلومیٹک معاہدے سے شروع ہوتی ہے کہ جس میںا مریکی شہریوں کو ڈیپلومیٹک اور استثنائی حیثیت دی جاتی ہے لیکن 1911میںچینی بادشاہت کے خاتمے کے بعد چین کوچیانگ کی شیک کو مقامی فوجی بغاوت سے درپیش مسائل اور پھر جاپانی قبضے سے آزادی خاص کر دوسری عالمی جنگ میں امریکی تعاون حاصل رہتا ہے ۔ لیکن اس کے بعد ماو زے تنگ کی کیمونسٹ تحریک کیخلاف بھی امریکہ  چیانگ کی شیک ہی کی حمایت جاری رکھتا ہے یہاں تک کہ1949میں ماوزے تنگ کی تحریک کامیاب ہوجاتی ہے اور امریکی حمایت یافتہ  چیانگ کی شیک تا ئیوان بھاگ جاتا ہے۔
یوں چینی باغی رہنماچیانگ کی شیک تا ئیوان میں ہی اپنی حکومت کا اعلان کرتا ہے اور ماوزے تنگ کی مخالفت کو جاری رکھتا ہے ،اسے مکمل طور پر ایک عرصے تک نہ صرف امریکی حمایت حاصل رہتی ہے بلکہ امریکہ ماوزے تنگ کی حکومت کی قانونی حیثیت سے انکار کرتے ہوئے تائیوان میں قائم باغی چینی رہنما کی حکومت کو قانونی حکومت قرار دیتا ہے یوں اس وقت سے ہی امریکہ اور کیمونسٹ چین کے تعلقات کی نوعیت میں ایک خاص قسم کی اجنبیت اور کھچاو کا آغاز ہوتا ہے ۔

شمالی اور جنوبی کوریا کے مسئلے (سن1950- 1953)میں بھی چین اورسوویت یونین جہاں شمالی کوریا کی مدد کررہے تھے تو وہیں پر امریکہ اور تا ئیوان جنوبی کوریا کے مدد گار بنے ہوئے تھے تو اسی طرح ویتنام کی جنگ میں بھی خاص کر اس جنگ میں امریکیوں کے کودنے کے بعد سن (1965- 1973)کے درمیان کیمونسٹ بلاک امریکہ کے مدمقابل کھڑا تھا یہاں تک کہ امریکہ کو انتہائی سخت قسم کی حزیمت اور شدید نقصان اٹھانے کے بعد ویتنام سے نکل جانا پڑا ۔اسی اثنا میں یعنی سن 1972میں امریکی صدر رچڑ دنکسن کے دورہ چین کے بعد طرفین میں تعلقا ت کشیدگی سے نکل کر نارمل سطح پر آجاتے ہیں۔چین میں امریکی صدر کے اس دورے کو جسے شنگھائی اعلان کا نام بھی دیا جاتا ہے کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے اقوام متحدہ میں تا ئیوان کی نمائندگی کو ہٹاکر اپنی رسمی نمایندگی کے آغاز کے ساتھ ساتھ سیکوریٹی کونسل کی دائمی ممبرشب بھی حاصل کرلیتاہے ۔اس کے بعد چینی اور امریکی تعلقات میں اگرچہ بہتری رہی ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ طرفین میں موجود اختلافی مسائل پس پشت ڈا ل دیئے گئے ہوں ۔

تا ئیوان انہی اختلافی مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے کہ جس کے بارے امریکی پالیسی جوں کی توں موجود ہے اور امریکہ تائیوان سے اقتصادی اور عسکری تعلقات برقراررکھے ہوئے ہے۔طرفین میں تا ئیوان جیسے مسائل کے باجود بہت سے مفادات کے پیش نظر تعلقات کی سطح بہتر رہی خاص کر دو کیمونسٹ قوتوں یعنی چین اور سوویت یونین کے درمیان موجود اختلافات اور سرد جنگ نے بھی امریکی اور چینی قربت کو بنائے رکھنے میں مدد فراہم کی لیکن جوں ہی سوویت یونین کا خاتمہ ہوا طرفین کے تعلقات نے بھی نارمل سطح کی جانب رخ کیا ۔

سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکی تھینک ٹینک مسلسل اس بات کو دہرارہے تھے کہ اب کسی طاقت کو اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ ہمارا ہم پلہ بن سکے ،بطور مثال نوے کی دہائی میں دفاعی پلاننگ گائیڈ لائن یا اسٹریٹیجک ڈاکیومنٹ لکھنے والے پال وولف وٹز جن کاتعلق نئے قدامت پسندوں نیو کنزرویٹیوسے ہے اور اب بھی وہ امریکی وزارت دفاع کا اہم ترین تھینک ٹینک شمار ہوتاہے، کا کہنا ہے کہ ’’ہمارا پہلا ہدف اور کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم اپنا کوئی بھی حریف پیدا ہونے ہی نہ دیں ،یہ ہماری وہ تھیوری ہے کہ جس کے نیچے ہماری بین الاقوامی دفاعی اسٹراٹیجی پوشیدہ ہے،یہ ہمیں بتلاتی ہے کہ ہم نے دنیا کے کسی بھی خطے میں ایسی کسی بھی مخالف قوت کو پنپنے ہی نہیں دینا کہ جس کے پاس اپنے وسائل ہوں،اگر ہم ایسا کرسکیں تو پھر ہمیں واحد عالمی قوت کہا جاسکتا ہے ،اور یہ علاقے ذاتی ریسورسزیا وسائل کے حامل ،مغربی یورپ ،مشرقی ایشیا،جنوب مغربی ایشیا اور سابق سوویت یونین سے جدا ہونے والی ریاستیں ہیں ‘‘

ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جس وقت جارج ڈبلیوبش کا دور شروع ہوتا ہے تو نئے قدامت پسندوں کی ہی اسی لہر سے تعلق رکھنے والے تین اہم افراد ،زلمائے خلیل زاد،فرنک کارلوسی اور رابرٹ ہنٹر ایک خط لکھ کر اسی دفاعی گائیڈلائن اسٹرٹیجک ڈاکیومنٹ کی یاد دلاتے ہیں کہ ’’امریکہ نے اپنی حریف کسی بھی قوت کو پنپنے نہیں دینا ‘‘وہ اس خط میں مزید لکھتے ہیں کہ ’’یورپی یونین ،چین اور روس وہ ابھرتی ہوئی قوتیں ہیں کہ جو مستقبل میں امریکہ کے مد مقابل کھڑ ی ہوسکتی ہیں ‘‘اس دفاعی گائیڈ لائن کے حساب سے چین کا مقابلہ کرنے کے دو مرحلے ان کے مدنظر ہیں کہ’’ نہ تو چین کے ساتھ مکمل شراکت داری رہے اور نہ ہی مکمل دوری ‘‘اس حکمت عملی کے مطابق چین کے ساتھ امریکی تجارتی اور عسکری روابط بھی رہیں گے اور دوسری جانب  چین میں اپنی من پسند ڈیمو کریسی کا فروغ اورچین کے عالمی سطح پر بڑھتے اثر ورسوخ کو روکنے کی بھی کوشش جاری رہے گی ۔

کونڈالیزا رائز سے لیکر امریکی قومی سلامتی امور کے اداروں سے تعلق رکھنے والے اہم عہدار مسلسل چین کی بڑھتی قوت کی روک تھام کے بارے میں مختلف قسم کی تھیوریز اور حکمت عملیوں کو بیان کرتے رہے کہ ’’چین موجودہ طاقت کے توازن کو بدل رہا ہے ،چین ایک سافٹ پاور بن چکا ہے ۔یہاں تک کہ بہت سے امریکی تھینک ٹینک کا کہنا ہے کہ ہمیں ان اصطلاحات کے بجائے ’’چین کی واپسی ‘‘کی اصطلاح استعمال کرنا چاہیے بعنوان مرکزی سلطنت ،واضح رہے کہ یہ اصطلاح چین کے قدیم نام اور پوزیشن سے تعلق رکھتی ہے ۔امریکی تھینک ٹینک کا یہ بھی کہنا ہے کہ چینی میڈیا اور سرکاری مشنری امریکہ کے بارے یہ خیال رکھتے ہیں کہ وہ ان کا پہلے نمبر کا دشمن ہے ،امریکی سمجھتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ چین امریکہ کے مفادات کے لئے کوئی خطرہ نہیں لیکن امریکہ کسی بھی وقت چین کیخلاف کھلی محاذ آرائی کرسکتا ہے ۔اگر ہم بغور چینی نکتہ نظر کا مطالعہ کریں تو واضح ہے کہ چین سمجھتا ہے کہ امریکہ ہی وہ واحد طاقت ہے جو چین پر کسی بھی وقت جنگ مسلط کرسکتی ہے چین کی یہ سوچ اس وقت مزید تقویت پکڑتی نظر آتی ہے کہ جب جارج بش کے دور میں چین پر امریکہ کی جانب سے کچھ پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔
 ۔
چینی حکمران جماعت کی پپلیکیشنزاور میڈیا نشریات سے واضح ہوجاتا ہے کہ چین سمجھتا ہے کہ امریکہ اس کا دشمن ملک ہے، سن 1992اور اسی طرح سن 1995میں نشر ہونے والے چینی دستاویز کے مطابق چین کا کہنا ہے کہ ’’امریکہ جب سے واحد قوت کے طور پر سامنے آیا ہے تب سے اس کی کوشش ہے کہ وہ ہم پر کنٹرول حاصل کرے ‘‘جبکہ سن 1995میں چینی صدر نے کھل کر کہا تھا کہ ’’مغربی قوتیں ہمارے ملک کو تقسیم و تباہ کرنے کے لئے ایک منٹ بھی نہیں لگائیں گی ۔اسی سال چینی وزیر خارجہ نے جنوبی ایشیا ئی ممالک کی تعاون تنظیم آسیان کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بڑے سخت لہجے میں کہا تھا کہ ’’امریکہ کو یہ تصور چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ مشرق کا نجات دہندہ ہے ،ہم ایشیا کے امن و امان میں کسی بھی قسم کے امریکی کردار کے دعووں کو نہیں مانتے ‘‘

چین کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ چین ایک عالمی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آرہا ہے لیکن کسی کو  اس چینی قوت سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ’’چین کا ایک طاقت کے طور پر ابھرنا پرامن مقاصد  لئے ہوئے ہے ‘‘۔سن 2002میں چینی حکمران جماعت کے سالانہ اجلاس میں چینی صدر جیانگ ژمن نے اسی نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ’’چین کو گذشتہ بیس سال سے یہ اسٹراٹیجیکل فرصت میسر ہے کہ داخلی ترقی پر فوکس رکھتے ہوئے عالمی سطح پر ایک معتدل اور عملیت پسند (پراگیمنٹ)  حکمت عملی کے زریعے خود کو بین الاقوامی طور پر آگے بڑھائے ‘‘طرفین میں موجود ان متصادم تھیوریز کے باوجود نوے کی دہائی کے بعد چین اور امریکہ کے تجارتی روابط میں قابل ملاحظہ اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے یہاں تک چین تجارتی اعتبار سے امریکہ کا پہلا ملک بن جاتا ہے اور پھر نائن الیون کے واقعے کے بعد طرفین میں تعلقات کو ایک نیا باب دہشتگردی کیخلاف مشترکہ کوشش کی شکل میں کھل جاتا ہے ۔

لیکن سن 2007میں شروع ہونے والا عالمی مالیاتی بحران کے سبب چین امریکی نظام اور بین الاقوامی کردارپر کڑی تنقیدکرنا شروع کرتا ہے چین کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی بحران کا ذمہ دار امریکہ ہے اور اس مالیاتی بحران کو ایجاد کرنے کا مقصد چین کے بین الاقوامی اقتصادی کردار کو متاثر کرنا ہے ۔یوں سن 2010 بحری آبی حدود کو لیکر چین کا ہمسائیوں کے ساتھ ہونے والے تنازعے پر بھی چین امریکہ پر الزام لگاتا ہے کہ وہ چین کے گرد محاصرہ بنانا چاہتا ہے ،اور اس طرح ایک بار پھر طرفین میں موجو د پہلے نمبر کے دشمن کی سوچ ابھر کے سامنے آجاتی ہے ۔

(۲)امریکہ کی ایشیا میں قدم جمانے کی کوششیں ۔
بات صرف یہ نہیں ہورہی ہے کہ امریکہ ایشیا میں قدم رکھنا چاہتا ہے بات دراصل یہ ہے کہ اب امریکہ قدم جمانا چاہتا ہے کیونکہ امریکی پہلے سے ایشیا میں موجود ہیں ۔
دنیا کے قریب 130ممالک میں 750سے زائد امریکی اڈے موجود ہیںاور بعض ممالک میں ایک زائد اڈوں کو شمار کیا جائے تو ان کی تعداد1000سے زائد بنتی ہے کہ جن میں سے 109کے قریب فوجی اڈے جاپان میں جبکہ جنوبی کوریا میں 85کے قریب فوجی اڈے موجود ہیں ان فوجی اڈوں میں تقریبا 47ہزار فوجی جاپان میں جبکہ 37ہزار کے قریب جنوبی کوریا میں موجود ہیں ۔باراک اوباما کے دور میں سن 2014میں اس کے جاپان اور جنوبی کوریا کے دورے کے وقت جنوب مشرقی ایشیا کے بارے میں امریکی نئی پالیسی کا اعلان کھلے لفظوں کردیا گیا تھا۔

اگر ہم ہیلری کلنٹن کا مضمون امیرکن پیسیفک کنٹری کو پڑھیں تو اس سلسلے میں ایشیاء کے بارے میں امریکی حکمت عملی کے خدوخال مزید واضح ہوجائینگے ۔
ہیلری آنے والے وقتوں میں ایشیا اور پیسفک یعنی بحر الکاہل کی امریکی اسٹراٹیجی میں اہمیت کو بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ایشیا اور پیسفک عالمی سیاست میں مرکزی اور حرکی اہمیت حاصل کرچکے ہیں  انڈین سب کانٹیننٹ( بر صغیر)پیسفک یا بحر الکاہل ،بحیرہ ہندسے لیکر لا طینی امریکہ کے ساحلوں تک کہ جو اپنے اندر دنیا کی نصف سے زائد آبادی کو سموئے ہوئے ہے ہمارے لئے انتہائی اسٹرٹیجیک اہمیت کا حامل علاقہ ہے ۔

ہیلری کے دوست اور سابق امریکی وزیر دفاع لیون پینٹا بھی اپنے ایک مضمون امیرکن  پیسیفک ری بیلنس میںاس بات کی تاکید کرتاہے کہ امریکہ کو ایشیا اور پیسفک یا بحرالکاہل میں طاقت کے توازن کی برقراری کے لئے اپنی قوت کا بھر پور اظہار کرنا چاہیے کہ جس میں جنوب مشرقی ایشیا اور بحرہ ہند میںفوجیوں کی تعداد میں مزید اضافہ ،اسٹریلیا کے شمالی حصے میں فضائیہ کا مزید اضافہ،سنگاپور کے ساتھ معاہد ہ تاکہ وہاں بحری بیڑوں کا پڑاو بنایا جاسکے ،اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ جنگی مشقیں ،یوں سن 2020تک امریکی بحریہ کا ساٹھ فیصد حصہ پیسفک یا بحرہ الکاہل میں موجود ہوگا ۔

امریکہ بحرہند میں بھی بڑھتی ہوئی چینی موجودگی کو روکنے کے لئے بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو اسٹرٹیجک سطح تک لے کر جارہا ہے اس خطے میں امریکہ کو چین کی سری لنکا سے لیکر پاکستان کے گوارد پورٹ اور سی پیک نامی وسیع تجارتی پلان بری طرح کھٹک رہا ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ بھارت اور افغانستان کو ایک ایسا پل بنانا چاہتا ہے جو  ان چینی منصوبوں کو روک سکے ۔پاکستان پر مسلسل بڑھتا ہوتا امریکی دباو اور نہ ختم ہونے والے الزامات اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔

جاری ہے ۔۔۔۔
 


تحریر۔۔۔حسین عابد
(ریسرچ اسکالر اور تجزیہ کار )



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree