سیرت حضرت فاطمہ زہرا ؑ میں موجود چند تربیتی نمونے

17 فروری 2018

وحدت نیوز (آرٹیکل)  مقدمہ:حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کےبارے میں کچھ لکھنا عام انسانوں کی بس کی بات نہیں آپ کے فضائل اور مناقب خدا وندمتعال،  رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلماورائمہ معصومین علیہم السلام ہی بیان کر سکتے ہیں  ۔آپؑ کائنات کی وہ بے مثال خاتون ہیں جنہیں دو اماموں کی ماں بننے کا شرف حاصل ہوا ۔آپؑ وہ ممدوحہ ہیں جس کی مدح سورۃ کوثر ،آیت تطہیر اور سورۃ دہر جیسی قرآنی آیتوں اور سوروں میں کی گئی۔آپؑ  وہ عبادت گزار ہیں جس کی نماز کے وقت زمین سے آسمان تک ایک نور کا سلسلہ قائم ہو جاتا تھا ۔آپؑ وہ  صاحب سخاوت ہیں جس نے فاقوں میں سائل کو محروم واپس نہیں جانے دیا۔آپؑ وہ باعفت خاتون ہیں جس کا پردہ تمام زندگی برقرار رہا کہ باپ کے ساتھ نابینا صحابی بھی آیا تو اس سےبھی پردہ فرمایا۔ آپؑ وہ صاحب نظر ہیں کہ جب رسول خدا ﷺکے سوال پر کہ عورت کے لئے سب سے بہتر کیا چیز ہے ؟تواس وقت آپؑ نے فرمایا: عورت کے حق میں سب سے بہتر شے یہ ہے کہ نامحرم مرد اسے نہ دیکھے اور وہ خود بھی  کسی نامحرم کو نہ دیکھے۔{خیر لہن ان لا یرین الرجال و لا یرو نہن}۱۔رسول خدا ﷺ آپ  ؑکے بارے میں فرماتے ہیں :{ان الله یغضب لغضبک و یرضی لرضاک}۲۔

بےشک خدا آپ کے غضبناک ہونے سے غصے میں آتا ہے اور آپ کی خوشنودی سےخوش ہوتا ہے ۔ انسانیت کے کمال کی معراج وہ مقام عصمت ہے جب انسان کی رضا و غضب خدا کی رضا و غضب کے تابع ہو جائے۔اگر عصمت کبری یہ ہے کہ انسان کامل اس مقام پر پہنچ جائے کہ مطلقا خدا کی رضا پر راضی ہو اور غضب الہی پر غضبناک ہو تو فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا وہ ہستی ہیں کہ خداوند متعال مطلقا آپ کی رضا پر راضی اور آپ کے غضب پر غضبناک ہوتا ہے ۔یہ وہ مقام ہے جو کامل ترین انسانوں کے لئے باعث حیرت ہے ۔ان کی ذات آسمان ولایت کے ستاروں کےانوار کا سر چشمہ ہے ،وہ کتاب ہدایت کے اسرار کے خزینہ کی حد ہیں ۔آپؑ لیلۃ مبارکۃ کی تاویل ہیں ۔ آپ ؑشب قدر ہیں ۔ آپ ؑنسائنا کی تنہا مصداق ہیں۔ آپ ؑ زمانے میں تنہا خاتون ہیں جن کی دعا کو خداوند متعال نے مباہلہ کے دن خاتم النبین کے ہم رتبہ قرار دیا ۔آپؑ کائنات میں واحد خاتون ہیں جن کے سر پر{انما نطعمکم لوجہ الله}۳۔ کا تاج مزین ہے ۔وہ ایسا گوہر یگانہ ہیں کہ خداوند متعال نے رسول خدا ﷺکی بعثت کے ذریعے مومنین پر منت رکھی اور فرمایا:{ لقد من الله علی المومنین اذ بعث فیہم رسولا من انفسہم۔۔ }۴

اور اس گوہر یگانہ کے ذریعے سرور کائنات پر منت رکھی اور فرمایا:{انا اعطیناک الکوثر فصل لربک و انحر ،ان شانئک هو الابتر}بے شک ہم نے ہی آپ کو کوثر عطا فرمایا۔لہذا آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی دیں۔یقینا آپ کا دشمن ہی بے اولاد رہے گا۔ اس مختصر مقالہ میں ہم  سیرت حضرت فاطمہ زہرا  سلام اللہ علیہا  میں موجود چند  تربیتی نمونوں کو پیش کرنے کی کوشش کریں  گے۔

لغت میں سیرۃ ،رفتار کے معنی میں آیا  ہے۔ "حسن السیرۃ؛ یعنی خوش رفتار یا اچھی رفتار۔"۵  ۔

ابن منظور کے مطابق سیرۃ سے مراد: "سنت" اور "طریقہ"ہے۔ جیسے" السیرۃ:السنۃ؛ سیرت یعنی  سنت اور  راہ  وروش کے معنی میں ہے۔سار بہم سیرۃ حسنہ"یعنی ان کے ساتھ اچھا رویہ اور سلوک کے ساتھ پیش  آیا۔اصطلاح میں سیرہ سے مراد کسی انسان کی زندگی کے مختلف مراحل اور مواقع میں چھوڑے ہوئے نقوش اور کردار کے مجموعہ کو" سیرۃ  کہا جاتا ہے جسے دوسرے  انسان  اپنے لئے نمونہ عمل بنایا جاسکے ۔۶

صاحب مفردات کے مطابق "رب" مصدری معنی ٰ کے لحاظ سے  کسی چیز کو حد کمال تک پہچانے ، پرورش  اور پروان چڑھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ۷صاحب التحقيق کا کہنا ہے اس کا اصل معنی ٰ کسی چیز کو کمال کی طرف لے جانے اور نقائص کو  تخلیہ اور تحلیہ کے ذریعےرفع کرنے کے معنی ٰ میں ہے۔  ۷۔بنابر این اگر اس کا ريشہ(اصل) "ربو" سے ہو تو اضافہ کرنا، رشد ، نمو اور موجبات رشد کو فراہم کرنے کے معنی ٰ میں ہےلیکن ا گر "ربب" سے ہو تو  نظارت ، سرپرستي و رہبري  اور کسی چیز کو کمال تک پہنچانے کے لئے پرورش کے معنی ٰ میں ہے۔

شہید مرتضی مطہری لکھتے ہیں: تربیت انسان  کی حقیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کا نام ہے۔ ایسی صلاحیتیں جو بالقوہ جانداروں ( انسان، حیوان، پودوں) میں موجود ہوں  انہیں بالفعل پروان چڑھانے کو تربیت کہتے ہیں۔ اس بناء پر تربیت صرف جانداروں سے مختص ہے۔۸
سیرہ تربیتی ہر اس رفتار کو کہا جاتا ہے جو دوسروں کی تربیت کی خاطر انجام دی جاتی ہے۔اس بناء پر انسان کا ہر وہ رفتار جو وہ دوسروں  کے  احساسات ،عواطف، یقین و اعتقاد اورشناخت پر اثرانداز  ہونے کےلیے انجام دیتا ہے ،سیرت  تربیتی کہا جاتاہے۔۹

سیرت حضرت فاطمہ زہرا  سلام اللہ علیہا  میں موجود چند  تربیتی نمونے

الف۔گھریلو اور ازدواجی نمونہ
زندگی ایک ایسا مرکز هے جس میں نشیب وفراز پائے جاتے ہیں زندگی میں کبھی انسان خوش ، کبھی غمگین ، کبھی آسائش اور کبھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا هے اگر میاں بیوی با بصیرت اشخاص هوں تو سختیوں کو آسمان اور ناہموار کو همورا بنادیتے ہیں۔ حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا  اس میدان میں ایک کامل اسوہ نمونہ ہیں آپ بچپن سے ہی سختی اور مشکل میں رہی اپنی پاک طبیعت اور روحانی طاقت سے تما م مشکلات کا سامنا کیا اورجب شوہر کے گھر میں قدم رکھا تو  ایک نئے معرکہ کا آغاز هوا اس وقت آپ کی شوہرداری اور گھریلوزندگی کے اخلاقیات کھل کر سامنے آئے ۔

ایک دن امام علیؑ جناب فاطمہؑ سے کھا نا طلب کیا تا کہ بھوک کو برطرف کرسکیں لیکن جناب فاطمہؑ نے عرض کیا میں اس خدا کی قسم کھاتی ہوں جس نے میرے والد کو نبوت اور آپ کو امامت کے لیے منتخب کیا دو دن سے گھر میں کافی مقدار میں غذا نہیں ہےاور جو کچھ غذا تھی ویہ آپ اور آپ کے بیٹے حسنؑ اور حسینؑ کو د هی ہے امام نے بڑی حسرت سے فرمایا اے فاطمہ آخرمجھ سے کیوں نہیں فرمایا میں غذا فراہم کرنے کے لیے جاتا توجناب فاطمہؑ نے عرض کیا: اے ابوالحسن میں اپنے پروردگار سےحیا ءکرتی هوں کی میں اس چیز کا سوال کروں جو آپ کے پاس   هنہ ہو۔۱۰۔

ب۔ سیاسی نمونہ
حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا ؑکے سیاسی  اخلاقیات کو درج ذیل عناوین کے تحت دیکھا جاسکتا هے جیسے امام اور حجت خدا کا دفاع، امامت اور رہبری کی کامل پیروی اور فدک کے متعلق مختلف میدانوں میں مقابلی اور جنگ وجہاد کے بندوبست میں خوشی اور دلسوزی سے حاضر رہنا ۔سب سے پہلے آپ نے غصب  شدہ حق کو گفتگو سے حل کرنے کی کوشش کی اور قرآن کریم کی آیات سے دلیلیں قائم کیں۔

حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا خلیفہ کےپاس تشریف لے گئیں اور فرمایا:۔تم کیوں مجھے میرے بابا کے میراث سے منع کر رہا ہے  اور تم کیوں میرے وکیل کو فدک سے بے دخل کردیا هہے حالا نکہ الله کے رسول نے الله کے حکم  سے اسے میری ملکیت میں دیاتھا۔"۱۱۔

اسی طرح جب خلافت کا حق چھینا گیا تو دفاع امامت میں پورا پورا ساتھ دیا  اور آپ حسن وحسین کا هاتھ پکڑکر رات کے وقت مدینہ کے بزرگوں اور نمایاں شخصیات کے گھرجاتے اور انہیں اپنی مدد کی دعوت دیتے اور پیغمبر کی وصیت یا ىد  دلواتے ۔۱۲

حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا فرماتیں ہیں اے لوگو!کیا میرے والد نے علی ؑکو خلافت کے لیے معین نہیں فرمایا تھا کہا ان کی فداکاریوں کو  فراموش کربیٹھے ه ہوکیامیرے پدر بزرگوار نے ہی نہیں فرمایاتھا کہ میں تم سے رخصت ه ہو رہا ہوں اور تمہارے درمیان دو عظیم چیزین چھوڑے جارہا هہوں اگر ان سے تمسک رہوگے توہرگز گمراہ نہیں هہوگے اور وہ چیزیں ایک الله کی کتاب اور دوسرا میری  اہل بیت ۔

ج۔  اقتصادی نمونہ
حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا اقتصادی اخلاقیات میں بھی همارے لیے اسوہ کامل ہیں سخاوت کے میدان میں آپ اپنے پدر بزرگوار کے نقش قدم پر چلتی تھیں ۔ آپ نے اپنے بابا سے سن رکھاتھا" السخی قریب من الله" سخی الله کے قریب هہوتا هہے ۔

جابر بن عبد الله انصاری کا بیان هے کہ رسو ل خدا نےہمیں ه عصر کی نماز پڑھائی جب تعقیبات سے فارغ هوگئے تومحراب میں هہماری  طرف رخ کرکے بیٹھ گئے لوگ آپ کو هر طرف سے حلقہ میں لیے هہوئے تھے کہ اچانک ایک بوڑھا شخص آیا جس نے بالکل پرانا کپڑہ پہنا هہوا تھا یہ منظر دیکھ کر رسول خدا نے اس کی خیرت پوچھی اس نے کہا:ا ے الله کے رسول میں بھوکا هہوں لہذا کچھ کو دیجئے میرے پاس کپڑا بھی نہیں ہیں مجھے لباس بھی دیں۔ رسول خدا نے فرمایا فی الحال میرے  پاس کوئی چیز نہیں هے لیکن تم اس کے گھر جاؤ جو الله اور اس کے رسول سےمحبت کرتاہے اورالله اور اس کا رسول بھی  اس سے محبت کرتے ہیں جاؤ تم فاطمہ کی طرف اور بلال سے فرمایا تم اسے فاطمہ کے گھر تک پہنچا دو۔فقیر حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کے دروازہ پررکا بلند آواز سے کہا نبوت کے گھرانے والو تم پر سلام ۔شہزادی کونین نے جواب میں کہا  تم پر بھی سلام هہو ۔تم کون ہو ه؟کیا میں بوڑھا اعرابی ہوں آپ کے پدر بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوا تھا لیکن رسول خدا نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے۔ میں فقیرہوں مجھ پر کرم فرمائے خدا آپ پر اپنیرحمت نازل فرمائے حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا نے اپنا هہار یا گردن بند جو آپ کو حضرت حمزہ کی بیٹی نےہبہ کیا تھا اتار کر دے دیا اور فرمایا امید ہے کہ خدا تم کو اس کے ذریعے بہتر چیز عنایت فرمائے ۔

 اعرابی ہارلے کر مسجد میں آیا حضور مسجد میں تشریف فرماتھے عرض کیا اے رسول خدا: فاطمہ زہرا نے یہ ہار دے کر کہا اس کو بیچ دینا حضور یہ سن کر روپڑے اس وقت  جناب عمار ىاسر کھڑے هوئے عرض کیا یارسول الله کہا مجھے اس ہا رکے خریدنے کی اجازت ہے رسول خدا نے فرمایا خرید لو جناب عمار نے عرض کی اے اعرابی یہ ہار کتنے میں فروخت کرو گے اس نے کہا اس کی قیمت یہ هہے کہ مجھے روٹی اور گوشت مل جائے اور ایک چادرمل جائے جسے اوڑھ کر میں نماز پڑھ سکوں اور اتنے دینار جس کے ذریعے میں گھر جاسکوں۔ جناب عمار اپنا وہ حصہ جو آپ کورسول خدا  نےخیبر کے مال سے غنیمت میں دیا تھا قیمت کے عنوان سے پیش کرتے  ہوئے کہا :اس ہارکے بدلے تجھےبیس دینار،دوسو درہم ٬ ایک بردیمانی ٬ ایک سواری اور اتنی مقدار میں گیہوں کی روٹیاں  اور گوشت فراہم کررہا هہوں جس سے تم بالکل سیرہوجاؤ  گے۔جب یہ سب حاصل کیا تو اعرابی رسول خدا کے پاس آیا ۔رسول خدا نے فرمایا کیا تم سیرہوگئےہو؟ اس نے کہا میں آپ پر فدا ہوجاؤں بے نیازہو گیا ہوں۔جناب عمار نے هہار کو مشک سے معطر کیا اپنے غلام کو دیا اور عرض کیا ا س ہار کو لو اور رسول خدا کی خدمت میں دو اور تم بھی  آج سے رسول خدا کو بخش دیتا ہوں۔  غلا م ہار لے کر رسول خدا کی خدمت میں آیا او رجناب عمار کی بات بتائی رسول خدا نے فرمایا یہ ہار فاطمہ کو دو اور تمہیں فاطمہ کو بخش دیتا ہوں۔ غلام هہار لی کر حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کی خدمت میں آیا اور آپ کو رسول خدا کی بات سے آگاہ کیا ۔
 
حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا نے و ہ ہار لیا اور غلام کو آزاد کردیا۔ غلام مسکرانے لگا ۔ حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا نے وجہ پوچھی تو غلام نے کہا مجھے اس ہا ر کی برکت نےمسکرانے پر مجبور کیا جس کی برکت سے بھوکا سیرہو ها اوربرھنہ کو لباس اور غلام آزادہوگیا پھر بھی  یہ ہا هر اپنے مالک کے پاس پلٹ گیا۔۱۳۔

خلاصہ یہ کہ حضرت زہراؑ منصب امامت کے لحاظ سے تو  اگرچہ پیغمبر گرامیﷺ کی جانشین نہیں تھیں لیکن وجودی کمالات  اور منصب  عصمت و طہارت  کے لحاظ سے کوئی دوسری خاتون اولین و آخرین میں سے ان جیسی نہیں ہے۔ جناب سیدہ ؑ علمی ،عملی ،اخلاقی،اور تربیتی حوالے سے نمونہ عمل ہیں۔ انسان کی دینی و دنیاوی سعادت اس بات میں مضمر ہے کہ وہ ان ہستیوں سے متمسک رہے جنہیں اللہ  نے"اسوہ حسنہ"قرار دیا ہے۔بنابرین حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا ہمارے لئے زندگی کے ہر شعبے میں نمونہ عمل اور قابل تقلید ہے ۔

{السّلام علیک أیّتہا الصدّیقۃ الشہیدۃ الممنوعۃ إرثہا، المکسور ضلعہا، المظلوم بعلہا، المقتولِ وَلَدُہا}

 

 

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

 

حوالہ جات:
۱۔حلیۃ الاولیاء ج2ص40۔
۲۔  المستدرک علی الصحیحین ، ج3 ص154
۳۔  انسان،9۔
۴۔  آل عمران،164۔
۵۔ فیروز آبادی، القاموس المحیط، بیروت، دارالکتاب العربیہ ، ۱۴۳۲ھ ،ص۴۳۹۔
۶۔ محمد بن مکرم ابن منظور،لسان العرب،بیروت: دارالفکر، ۱۴۱۴ق، ج۴ ،  ص۳۸۹؛  فخرالدین محمد طریحی ، مجمع البحرین ،  تہران:مرتضوی، ۱۳۷۵، ج۳، ص۳۴۰۔
۷۔ معجم مقاييس اللغہ، ص378؛ لسان العرب، ج2، ص1420؛ مجمع البحرین، ج2، ص63؛  محمدمرتضي حسینی زبيدي، تاج العروس من جواہر القاموس،  بیروت،دارالفکر، ۱۴۱۴ق ،چ اول ،ص459 و460.
۸۔مرتضیٰ مطہری، تعلیم و تربیت در اسلام ، تہران:  صدرا، ، ۱۳۳۷ش۔  ، ص۴۳ ۔ ۔ مرتضیٰ
۹۔محمد داؤدی، سیرہ تربیتی پیامبر و اہل بیت ، تربیت دینی ، بی تا،ج ۲، ص۲۳۔                  
۱۰۔باقر مجلسی مجلسی بحار الانوار مؤسس الوفا بیروت 1404ق ج43 ٬ص59۔
 ۱۱۔قزوینی،محمد کاظم، مترجم الطاف حسین ٬فاطمہ زہرا من المہدی الی الحد، قم قزوینی فاونڈیشن ، 1980،ص343۔
۱۲۔ابراہیم امینی، ،اسلام کی مثالی خاتون،(مترجم،اخترعباس)،دارالثقافہ اسلامیہ ،1470 ھ، ص191۔
۱۳۔ محمد باقر بحار الانوارج43 فص56و57۔



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree