وحدت نیوز (اسلام آباد) ایم ڈبلیو ایم کے سیکرٹری امور خارجہ کا اسلام ٹائمز کے ساتھ خصوصی انٹرویو کے دوران کہنا تھا کہ استعمار کا اصل مقصد مسلمان ممالک کے اندر شیعہ سنی فسادات کروانا، ان ممالک کی عسکری، اقتصادی اور ہر قسم کی طاقت کو تباہ کرنا ہے اور یہ تمام منصوبے اسرائیل کے حق میں جاتے ہیں۔ امریکہ و غرب نہیں چاہتے کہ خطے میں کوئی ایسی طاقت ابھرے جو اسرائیل کے مقابل کھڑی ہو۔ انہوں نے جب عراق پر حملہ کیا تو وہاں کی آرمی کو ختم کر دیا، اسی طرح لیبیا کو تباہ کیا گیا اور اب شام و مصر کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس تمام تر صورتحال سے اسرائیل کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بھی آرمی کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، آرمی سے غلطیاں کروائی جاتی ہیں، تاکہ اس سے قوم کا اعتماد اٹھ جائے، یہ ملک کو توڑنے کے مترادف ہے۔
سوال : سانحہ بھکر پر روشنی ڈالیں۔؟
علامہ شفقت شیرازی: بھکر کی صورتحال تسلسل ہے اس دہشتگردی کا جس کی لپیٹ میں پاکستان گذشتہ بیس پچیس سال سے ہے۔ یہ کوئی پہلا اور آخری واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی لشکر کشیاں ہوئی ہیں۔ جب ریاست اپنے فرائض انجام نہ دے اور کالعدم تنظیمیں سرعام سڑکوں پر نکلیں اور توہین مذہب کریں، قانون کے مطابق توہین مذہب کی سزا دس سال قید ہے اور اس ضمانت نہیں ہوسکتی۔ جب پولیس افسران کے سامنے توہین مذہب کا ارتکاب کیا جا رہا ہو اور وہ خاموش رہیں۔ قانون کو نافذ نہ کریں، مجرموں کو گرفتار نہ کریں، بلکہ ان کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ شیعہ علاقوں میں آگے بڑھیں، انہیں روکا نہیں جاتا اور ایک مذہب کے افراد کے جذبات کو مجروح کیا جاتا ہے۔ پھر اس سے بڑھ کر مسلحانہ ان پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ پاکستان میں خانہ جنگی ہو۔ یہ اس ملک کے قانون و نظام کے ساتھ خیانت ہے۔
شیعہ قوم گذشتہ تیس پینتیس سال سے صبر کا مظاہر ہ کر رہی ہے۔ چونکہ انہوں نے پاکستان بنایا تھا، اسی لئے انہیں پاکستان اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے۔ وہ پاکستان میں خانہ جنگی کی بجائے حکومت کی رٹ چاہتے ہیں۔ قانون کی بالادستی ہو، شیعہ یہ نہیں چاہتے کہ مختلف گروہ حکومت کو یرغمال بنالیں۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک گروہ ہے، جو جیلوں پر حملہ آور ہوتا ہے، وہاں سے لوگوں کا نکالتا ہے، لیکن ہماری حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ اس کے بعد حکومت بے بسی کا اعلان کرتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہمارے اندر طاقت و قدرت نہیں ہے۔ وزارت داخلہ اور دفاع پر پاکستان کا جو خزانہ لٹایا جا رہا ہے، آخر اس کا کیا فائدہ ہے۔ جب آپ کا ملک خطرے میں ہے تو یہ لاکھوں کی فوج اور لاکھوں کی پولیس کس کام کی ہے۔
سوال :: کیا پنجابی طالبان کے خلاف نواز لیگ کا کریک ڈاؤن شروع نہ کرنا اور انہی طاقتوں کے اشارے پر سزائے موت پر عمل درآمد میں لیت و لعل سے کام لینا، آج اس صورتحال کا باعث بنا کہ دہشتگرد گلی کوچوں میں لوگوں پر حملہ آور ہوچکے ہیں۔؟
علامہ شفقت شیرازی: وہ سیاست دان جو طالبان کے سامنے اپنی زبان نہیں کھولتے، جن میں نواز شریف اور عمران خان شامل ہیں۔ طالبان کو اینٹی اسٹیٹ قرار دینے میں عمران خان کا کوئی واضح لائحہ عمل ہمیں نظر نہیں آرہا۔ جماعت اسلامی کا کردار بھی یہی ہے۔ وہ ان سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں۔ سید منور حسن کہتے ہیں کہ انڈیا سے مذاکرات ہوسکتے ہیں تو طالبان کیوں نہیں ہوسکتے۔ انڈیا آپ کا ایک پڑوسی ملک ہے، جب وہ جارحیت کرتا ہے تو اسے بھرپور جواب دیا جاتا ہے۔ طالبان ملک کے باغی ہیں، جو اس ملک کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں۔ یہ مجرم ہیں، انہیں آئین پاکستان کے تحت قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ اگر حکومت ایسا نہیں کرے گی تو یہ بھی دہشت گردی ہوگی۔
سوال : شام کی حالیہ صورتحال پر جماعت اسلامی کے سربراہ سید منور حسن کا ایک بیان منظر عام پر آیا ہے، جس میں انہوں نے شامی باغیوں کی مذمت کی بجائے ساری صورتحال کا ذمہ دار شامی حکومت کو ٹھہراتے ہوئے کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ استعمال پر بھی شامی حکومت کی مذمت کر ڈالی ہے، اس حوالہ سے آپ کا کیا موقف ہے۔؟
علامہ شفقت شیرازی: جب انسان عاطفیت اور پارٹی بازی کی بنیاد پر بیان دیتا ہے تو ایسے کلمات صادر ہوتے ہیں۔ جب آپ تعصب کی عینک اتار کر حقائق کا مطالعہ نہیں کرتے، صرف ایک طرف کا میڈیا سنتے ہیں تو اسی طرح کی باتیں سامنے آتی ہیں۔ اگر سید منور حسن دونوں اطراف کی بات سنتے تو ان کا یہ موقف نہ ہوتا۔ شامی باغیوں کی وڈیوز آچکی ہیں، جن میں وہ اپنے جنگجوؤں کو ٹیکے لگاتے ہیں۔ روس نے اس ساری صورتحال کو بہت اچھے طریقے سے پیش کیا ہے۔ اس لئے ہمیں حقائق پسند ہونا ہوگا۔
سوال :: لبنان میں یکے بعد دیگرے ایک شیعہ اور ایک سنی علاقے پر دہشتگردانہ حملے کروائے جاتے ہیں، تاکہ سنی شیعہ فسادات بھڑک اٹھیں، کیا حزب اللہ کو شام کے محاذ پر لڑنے کی یہ قیمت ادا نہیں کرنی پڑ رہی۔؟
علامہ شفقت شیرازی: استعمار کا اصل مقصد مسلمان ممالک کے اندر شیعہ سنی فسادات کروانا، ان ممالک کی عسکری، اقتصادی اور ہر قسم کی طاقت کو تباہ کرنا ہے، اور یہ تمام منصوبے اسرائیل کے حق میں جاتے ہیں۔ امریکہ و غرب نہیں چاہتے کہ خطے میں کوئی ایسی طاقت ابھرے جو اسرائیل کے مقابل کھڑی ہو۔ انہوں نے جب عراق پر حملہ کیا تو وہاں کی آرمی کو ختم کر دیا، اسی طرح لیبیا کو تباہ کیا گیا، اور اب شام و مصر کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس تمام تر صورتحال سے اسرائیل کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بھی آرمی کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، آرمی سے غلطیاں کروائی جاتی ہیں، تاکہ اس سے قوم کا اعتماد اٹھ جائے، یہ ملک کو توڑنے کے مترادف ہے۔ اس وقت عالم اسلام کی تمام افواج خطرے میں ہیں۔ یہ دہشت گرد اپنی افواج سے لڑنے کی بجائے اسرائیل سے کیوں نہیں لڑتے، شام میں لڑنے والے دہشت گرد دو قدم آگے فلسطین جا کر کیوں نہیں لڑتے۔ فلسطین و بیت المقدس کو کیوں آزاد نہیں کرواتے۔
سوال : استعماری طاقتیں اور انکے آلہ کار شام میں بری طرح شکست کھا چکے ہیں، اسی لئے الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع کرکے شام پر بھی جنگ مسلط کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، آپ کے خیال میں کیا نیٹو اور امریکہ شام پر حملہ آور ہوں گے۔؟
علامہ شفقت شیرازی: عملی طور پر نظر یہ آرہا ہے کہ ان کا ہدف فقط شام نہیں، حزب اللہ بھی ہے۔ شام میں لڑنے والے دہشت گردوں کو صرف شامی فوج سے لڑنے کا ہدف نہیں دیا گیا بلکہ ان کو حزب اللہ سے مقابلہ کرنے کے لئے بھی کہا گیا ہے۔ شامی عوام باشعور ہیں، جو نہیں چاہتے کہ شیعہ سنی کو اس جنگ میں الجھایا جائے۔ یہ جبھہ مقاومت پر حملہ ہے، جو امریکہ و اسرائیل سرپرستی نہیں چاہتے، شام پر حملہ ان پر حملہ ہے۔ ایران، شام، فلسطینی تحریکوں اور حزب اللہ پر حملہ ایک ہی تصور کیا جائے گا۔ اب جب دشمن اتنی دور سے آیا ہے تو دفاع ان کا حق ہے۔
سوال : 8 ستمبر کو اسلام آباد میں قائد شہید کی برسی کے موقع پر دفاع پاکستان کنونشن کا انعقاد کیا جارہا ہے، کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟
علامہ شفقت شیرازی: شہید وہ شخص تھے جو پاکستان کے مسائل کو اس زمانے میں ہی درک کرچکے تھے۔ اسی لئے انہوں نے اتحاد بین المسلمین کا نعرہ بلند کیا۔ انہوں نے اہل سنت کے ساتھ اچھے تعلقات بنائے، اس زمانے میں اہل سنت ان کی قیادت میں نمازیں پڑھتے۔ قائد شہید ان کے مدارس میں جاتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان میں دین کو بدنام کیا جا رہا ہے، یہاں کوئی سنی شیعہ مسئلہ نہیں ہے۔ شہید نے دفاع پاکستان کے لئے ہمیں جو ایک فکر دی تھی۔ ہمیں آج اس کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا ملک آج خطرے میں ہے۔ پاکستان کا وجود ہوگا تو ہم یہاں رہیں گے۔ پوری قوم کو پاکستان کے دفاع کے لئے میدان میں آنا ہوگا۔ اس لئے ہم اس شہید کی فکر کے احیاء کے لئے، لاکھوں کی تعداد میں لوگ اسلام آباد میں جمع ہوں گے اور پاکستان کی سالمیت اور اس کے دفاع کا عزم کریں گے۔