نواز حکومت امریکی پالیسیوں کے سامنے پوری طرح سر تسلیم خم ہے، علامہ امین شہیدی

14 مارچ 2016

وحدت نیوز(آرٹیکل)علامہ محمد امین شہیدی کا شمار پاکستان کے جید، معتبر اور چوٹی کے علماء میں ہوتا ہے، ان کا تعلق گلگت سے ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گلگت سے حاصل کی۔ کوئٹہ سائنس کالج سے میڑک کیا اور 1984ء میں اعلٰی دینی تعلیم کے لئے ایران چلے گئے۔ ایران میں بارہ سال تک رہے، اسی دوران پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ 1995ء میں کچھ دوستوں سے مل کر پاکستان کا رخ کیا، اسلام آباد میں ایک انسٹیٹیوٹ قائم کیا اور اس کے بعد سے دینی ترویج میں سرگرم عمل ہیں، اس وقت ایک ادارہ دانش کدہ اور ایک مرکز تحقیقات علوم اسلامی کے نام سے علوم اور معارف اسلامی کی ترویج کے لئے تشکیل دیا۔ ان اداروں سے اب تک لگ بھگ 50 کے قریب اسلامی کتابیں شائع کرچکے ہیں۔ 2008ء میں ملک کو درپیش مشکلات اور مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے فرقہ واریت کو فروغ ملا تو اس سے نجات کے لئے مجلس وحدت مسلمین کی بنیاد رکھی گئی۔ 2008ء سے اب تک علامہ امین شہیدی ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال پر اسلام ٹائمز نے ان سے ایک تفصیلی اور اہم انٹرویو کیا ہے، جو اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

 

سوال: 34 ممالک کے اتحاد کے بعد چوتھی دفعہ آرمی چیف اور وزیراعظم سعودی عرب جا رہے ہیں، اُنہیں یہ کس بات کی یقین دہانی کرانا چاہتے ہیں۔؟

علامہ محمد امین شہیدی: بسم اللہ الرحمن الرحیم، آپ جب دنیا کو گلوبل ولیج کہتے ہیں تو ہر گائوں اور ویلیج کا ایک چوہدری بھی ہوتا ہے اور چوہدری کی اجازت کے ساتھ اس گائوں میں ہر کام انجام پاتا ہے، زمینوں پر ہل بھی چلتا ہے، میلے بھی لگتے ہیں، چوہدری کی اجازت کے ساتھ ادارے بنتے ہیں، چوہدری کی اجازت کے ساتھ نمازیں پڑھی جاتی ہیں، چوہدری کی دشمنی اور دوستی ہی گائوں والوں کی دوستی اور دشمنی کا معیار بن جاتی ہیں، دنیا کا اس وقت چوہدری امریکا ہے اور امریکی پالیسز کے نتیجے میں آپ مشرق وسطٰی میں لاکھوں لوگوں کا خون خرابہ دیکھ رہے ہیں، یہ اسی پالیسی کا حصہ ہے، تھڑد ورلڈ میں جتنے بھی ممالک ہیں وہ اسی پالیسی پر کاربند ہیں، اس لئے کہ اس پالیسی سے نکل کر یہ اپنی حیات کھو دیتے ہیں، ان کی مشکل یہ ہے کہ اگر یہ اس پالیسی کے دائرے سے نکلنا چاہیں تو ان کو موت نظر آتی ہے، ہمارا سسٹم اور پورا ملک اس وقت ورلڈ بنک کی زنجیر میں جکڑا ہوا ہے، آپ اس لئے ورلڈ بنک کو، اقوام متحدہ کو اور جو امریکی شرائط ہیں، ان شرائط کو سامنے رکھتے ہوئے انٹرنل اور ایکسٹرنل پالیسی بناتے ہیں۔ یہ جو 34 ممالک کی یا اس وقت 20 ممالک کی بات چیت چل رہی ہے، شروع میں جس طرح سے تنقیدیں بھی ہوئیں اور پھر اس کو بعض لوگوں نے سراہا بھی، لیکن سعودیوں نے کیا کہا۔؟ سعودیوں نے کہا کہ اگر امریکی ہماری کمان سنبھالیں گے تو پھر ہم میدان جنگ میں اتریں گے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ پہلے سے ایسا منصوبہ ہے کہ جس میں امریکہ پیٹھ پیچھے موجود ہے، سعودیوں نے انہی کے کہنے پر اسرائیلیوں کی منصوبہ بندی کے تحت یہ پروگرام شروع کیا، جس کے ویڈیو ثبوت اسرائیلی تھنک ٹینکس کے اعتراف کی صورت میں موجود ہے اور گویا امریکیوں کو یہ دعوت دی، اپنی طرف سے دی، جبکہ یہ پروگرام امریکیوں کی طرف سے ہے۔ لہٰذا جب پروگرام اور منصوبہ امریکیوں کا ہوگا تو اس سے نواز شریف صاحب مثتنیٰ نہیں ہیں۔

نواز شریف صاحب نے گذشتہ اپنے تین سال میں جو قرضے لئے ہیں، آپ اس کی مقدار دیکھ لیں، یہ مقدار زرداری کے دور اور اس سے پچھلے دور کی نسبت بہت زیادہ ہے اور اتنا سارا قرضہ ان کو کس بنیاد پر مل رہا ہے؟ اس بنیاد پر کہ یہ امریکی پالیسیوں کے سامنے پوری طرح سے سر تسلیم خم ہیں، لہٰذا کسی ایسے اتحاد میں ان کا شامل ہونا ان کی اپنی خواہش اور مرضی کے مطابق نہیں ہے بلکہ اس امریکی اور اسرائیلی پالیسی کے مطابق ہے، جس سے یہ نکل نہیں سکتے۔ اگرچہ انہوں نے اعلان تو کیا ہے کہ یہ کسی ایسی جنگ میں نہیں کودیں گے، لیکن اس وقت جو ہمارے سامنے چیزیں ہیں، اس کے مطابق لگتا یہ ہے کہ داعش کے متبادل کے طور پر ان کے زیر قبضہ علاقوں میں یہ خود جائیں گے، جن جن علاقوں میں داعش کا قبضہ تھا، ان علاقوں میں روس کے حملوں، ایرانیوں کی مقاومت، حزب اللہ، بشار الاسد، عراقی فورسز نے ملکر داعش کا صفایا کیا ہے۔ اب طاقت کا توازن اس پورے خطے کے اندر بگڑ چکا ہے، اب وہ والی صورتحال نہیں رہی جو تین سال پہلے تھی، اب جب ٹیبل پر مذاکرات کیلئے بیٹھتے ہیں تو سعودیوں کے پاس کچھ ہوتا نہیں ہے، جس کی بنیاد پر وہ سودا بازی اور بارگین کرسکیں، اس لئے کہ مسلسل جو یہ دہشت گرد قوتیں تھیں، ان کو سعودیوں اور امریکیوں نے پروموٹ کیا تھا اور اب بھی ان کو اسلحہ دے رہے ہیں، ان دہشت گردوں یعنی داعش اور النصرہ وغیرہ کے پاس اب زمین نہیں رہی، جب زمین نہیں رہی تو پھر بارگیننگ کس بات پر؟

آپ مسلسل سن رہے ہیں کہ داعش اور اس طرح کے دیگر گروپس مثلاً النصرہ وغیرہ وغیرہ ہیں، ان کے خلاف جس طرح کی کارروائیاں ہو رہی ہیں، اس کے نتیجے میں ہر روز ان کو پسپائی اختیار کرنی پڑ رہی ہے، اس پسپائی کے نتیجے میں خود امریکیوں کی اس خطے میں گرفت کمزور پڑ رہی ہے، سعودی جس ہدف کے تحت آئے تھے، ان کا وہ ہدف کمزور پڑ رہا ہے، جو گذشتہ دنوں مذاکرات ہوئے تو ان مذاکرات میں سعودیوں کے پاس بولنے کیلئے کچھ بھی نہیں تھا، جو داعش اور ان کی نمائندہ کونسل کے لوگ تھے، وہ میٹنگ سے اٹھ کر آگئے کیونکہ ان پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ لہٰذا اب یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح سے اپنی بارگیننگ پوزیشن مضبوط کرلیں، آپ نے سنا ہوگا کہ یمن میں وہ مسلسل ایک سال سے بمباری کر رہے ہیں اور ادھر انہوں نے حوثیوں سے مذکرات شروع کر دیے ہیں اور یہ مذاکرات پس پردہ ہیں، پہلے تو وہ حوثیوں کا نام سننے کو تیار نہیں تھے، لیکن انہوں نے دیکھا کہ انہوں نے ایک سال مسلسل بمباری کی، 28000 بے گناہ لوگوں کو قتل کیا، یمنی عوام کے پورے انفراسٹریکچر کو تباہ کر دیا، ہسپتالوں کو تباہ کر دیا، تعلیمی اداروں کو تباہ کر دیا، بازاروں کو تباہ کر دیا، یعنی وہ جو سوشل چیزیں ہیں جن سے عام عوام فائدہ اٹھاتے ہیں، ان کو تباہ کرکے مرد و زن، بچوں، بوڑھوں کو خون میں لت پت کر دیا، یمنی مظلوم عوام کو تباہ و برباد کرنے کے بعد آخر کار ان کے حصے میں صرف اور صرف ذلت آئی، اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ لہٰذا اب وہ مجبوراً حوثیوں سے مذکرات کرنے چلے گئے ہیں، جبکہ پہلے یہ حوثیوں کا نام سننے کو تیار نہیں تھے، یعنی مجموعی طور پر ان کی پالیسز جو اس خطے کے اندر تھیں، اس پالیسی میں ان کو عراق، شام اور یمن میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور لبنان میں تو وہ پہلے ہی شکست خوردہ ہیں۔

آپ نے دیکھا کہ انہوں نے پہلے لبنانی فوج کو اربوں ڈالر اور اسلحہ کی مدد دینے کا اعلان کیا اور اس کے بعد کہا کہ لبنانی حکومت، فوج اور لبنانی ریاست حزب اللہ کی تقویت کا باعث ہیں، اس لئے ان کو ہم مدد نہیں دیں گے، جب تک یہ حزب اللہ کو دہشت گرد ڈکلیئر نہیں کرتے۔ یعنی حزب اللہ جس نے لبنان کو بچایا ہے، وہ دہشت گرد ہیں اور داعش جن کو انہوں نے Create کیا وہ ان کے ہیروز ہیں، اس صورتحال میں انہوں نے ابھی جو جنگی مشقیں کی ہیں، اس پر جتنا پیسہ خرچ کیا، وہ بھی آپ کے سامنے ہیں، ان کی اقتصادی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ان پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ لہٰذا یہ ایک ایسے راہ حل کی تلاش میں ہیں، جس میں ان کی عزت بچ سکے اور کسی طرح سیاسی صورتحال میں وہ اس مقاومتی بلاک کے مقابلے میں ایک بارگیننگ پوزیشن حاصل کرسکیں، اس لئے یہ مذاکرات اور کانفرنسز کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو اللہ کیلئے کام ہوتا ہے وہ باقی رہتا ہے، جو ابلیس کیلئے ہوتا ہے بظاہر اس کا دب دبہ، اس کا شور شرابا نظر آتا ہے لیکن بہت کم عرصے میں اس کی ہوا نکل جاتی ہے اور سعودیوں، امریکیوں اور اسرائیلیوں کے ساتھ یہی ہوچکا ہے۔ لہٰذا آپ دیکھ لیں کہ ان کی قسمت میں مزید ذلت و رسوائی آئے گی، فائدہ ان کو نہیں ملے گا اور خطے میں ان کے جو تمام اہداف ہیں، ان میں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

سوال: انٹیلی جنس بیورو کے چیف کا ایک بیان سامنے آیا، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ بہت بڑی تعداد میں لوگ شام گئے ہیں، داعش میں شامل ہوئے، اسی طرح انٹیلی اداروں نے یہاں سے داعش کیلئے کام کرنیوالے لوگ بھی پکڑے، لیکن چوہدری نثار داعش کا وجود نہیں مانتے، بلی کو دیکھ کر کبوتر کے آنکھ بند کر لینے جیسا معاملہ تو نہیں۔؟

علامہ محمد امین شہیدی: حقیقت یہ ہے کہ انٹرنلی چوہدری نثار کو پتہ ہے، فوج کو بھی بہت اچھی طرح پتہ ہے، باقی ایجنسیوں کو بھی بہت اچھی طرح سے معلوم ہے کہ داعش پاکستان میں کہاں کہاں موجود ہے۔ داعش اگر آپ عربوں کو کہتے ہیں تو پاکستان میں عرب نہیں ہیں، داعش اگر اس فکر اور سوچ کو کہتے ہیں تو وہ فکر اور سوچ ہے، وہ لشکر جھنگوی کی صورت میں موجود ہے، سپاہ صحابہ کی صورت میں ہے، طالبان کی صورت میں ہے، القاعدہ کی صورت میں ہے، حزب التحریر کی صورت میں ہیں، ان گروپس نے بڑے بڑے دھماکے کئے ہیں اور انہی گروپوں کے لوگ ان دہشت گردوں اور گروپوں میں شامل تھے، چاہے وہ اغوا ہو، چاہے وہ خودکش حملے ہوں، چاہے وہ کار بم بلاسٹ وغیرہ ہوں، ابھی شبقدر میں دھماکہ ہوا ہے، کس نے کیا؟ طالبان نے، اور انہوں نے بیان کیا دیا؟ کہ ہم نے ممتاز قادری کا بدلہ لیا ہے، اب آپ دیکھ لیں کہ کہاں کہاں وہ مذہب کو استعمال کرتے ہیں۔ کیا ممتاز قادری کو Follow کرنے والے دہشت گرد ہیں؟ جو آپ اسی طرح کی دہشت گردی ذریعے سے بے گناہ انسانوں کو مار کر بیلنس کرنے کی کوشش کریں، ظاہر ہے کہ مقصد ایکسپلائٹ اور سوء استفادہ کرنا ہے، اس معاشرے کے اندر ایسے لوگ ابن الوقت تخریبی ذہن رکھنے والے، تفرقہ سے سوء استفادہ کرنے والے بہت موجود ہیں، آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ ہمارا پورا خطہ شدت پسندی کے خطرے میں ہے، اس لئے کہ داعش خود اسلام آباد میں موجود ہے، اگر یہ بیان غلط تھا تو بتا دیں، کیوں دیا تھا، اگر صحیح تھا تو پھر آپ انکار نہ کریں، اس وقت جو انکار ہو رہا ہے، وہ صرف اور صرف عوامی پریشر سے بچنے اور لوگوں کو تسلی دینے کیلئے ہے، کہیں کوئی پریشانی شروع نہ ہوجائے، لیکن اندرون خانہ خوفزدہ تو ہیں، کارروائیاں بھی کر رہے ہیں اور جو اس وقت تک آپریشن ہوئے ہیں، وہ کس کے خلاف ہوئے ہیں؟ انہی گروپوں کے خلاف ہوئے ہیں اور مختلف جگہوں پر آپریشن ہو رہے ہیں۔

دہشت گرد موجود ہیں تو آپریشن ہو رہے ہیں، آئے دن گرفتاریاں ہو رہی ہیں، ان کا وجود ہے تو گرفتاریاں ہو رہی ہیں، وہ لوگ جو طالبان سے منحرف ہوچکے ہیں، طالبان کو جنہوں نے چھوڑ دیا وہ داعش میں شامل ہو رہے ہیں اور ان لوکل داعشیوں کی سرپرستی کرنے والے وہ لوگ ہیں، جو پہلے طالبان اور دیگر شدت پسندوں کی سرپرستی کرتے تھے، لشکر جھنگوی والے داعش کے Right Hand کے طور پر ہیں، ریاستی اداروں نے ملک اسحاق اور اس کی پوری ٹیم کو کیوں مارا؟ اس لئے کہ اس نے اپنے ساتھوں کے ساتھ مل کر داعش کے پراجیکٹ کو پاکستان کے اندر لانچ کرنا شروع کر دیا تھا، اس لئے آپ نے اس کو مارا ہے، اس لئے کہ آپ کو داعش نظر آرہی تھی، لہٰذا انکار کرنا اور بیان بازیاں کرنا یہ ایک الگ بات ہے، زمینی حقیقت یہ ہے کہ مختلف شہروں میں وہ موجود ہیں اور ریاست ان داعشی اور لشکر والے دہشت گردوں سیے برسرِ پیکار ہے، لیکن کس حد تک سنجیدگی ہے، یہ ایک الگ سوال ہے، اس پر دو آراء ہوسکتیں ہیں، دو آراء موجود ہیں کہ سنجیدگی ہوتی تو فلاں فلاں جگہ آپ نے کیوں نہیں قدم اٹھایا، بعض جگہوں پر واقعی انہوں نے سنجیدگی سے قدم اٹھایا اور بعض جگہوں پر انہوں نے سنجیدگی سے قدم نہیں اٹھایا، یعنی اب بھی Pcik & Choose ہے، Pick & Choose کا سلسلہ ختم ہوجائے تو داعش کا وجود بھی ختم ہوجائیگا۔ لیکن اس سے مقابلے کیلئے جہاں پر فورسز کو میدان میں آنا ہے، وہیں پر امت مسلمہ کو بھی اتحاد کے ساتھ، اتفاق کے ساتھ اپنے مشترکہ دشمن کی شناخت کرتے ہوئے میدان میں آنا چاہیے، ورنہ داعش کی جو فکر اور سوچ ہے وہ نہ سنی کو چھوڑتی ہے، نہ شیعہ کو چھوڑتی ہے، وہ ہر اس قوت کے مقابلے میں کھڑے ہوجاتے ہیں، جو ان کے مفادات کی راہ میں حائل ہوں، ان کی آئیڈیالوجی ایک بحث ہے، لیکن ان کے مادی مفادات دوسری بحث ہے، جب وہ اپنے ہی لوگوں کو پنجاب میں مار کر شیعہ سنی جھگڑے کا رنگ دے سکتے ہیں، جیسے پچھلے سال ہوا اور وہ سارا گینگ پکڑا گیا تو اس کا مطلب ہے کہ دین و ایمان نام کی کوئی چیز ان میں نہیں ہے، وہ آئیڈیالوجی کو بھی اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، لہٰذا ہمیں اس حوالے سے متوجہ اور آگاہ رہنے کی ضرورت ہے۔

سوال : آپ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن بھی تھے، قوانین پر آپکی نظر ہوگی، تحفظ خواتین ایکٹ پر بہت شور شرابا مچا ہوا ہے، اسکی کونسی شقیں ہیں، جس پر اسلامی نظریاتی کونسل کو سفارشات بھیجنی چاہیں۔؟

علامہ محمد امین شہیدی: میں اس ایشو پر 7 سے 8 ٹی وی چینلز پر بات کرچکا ہوں اور بالکل واضح طور پر موقف دیا ہے کہ اس کو شرعی متنازعہ مسئلے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، اس قانون سازی کا تعلق شریعت سے کم اور سماج، سماجی رویوں، کلچر، تہذیب اور لوگوں کے رہن سہن کے طور طریقوں سے زیادہ ہے، شریعت عورت اور مرد کو مساوی حقوق دیتی ہے، شریعت نے عورت اور مرد کو شانہ بشانہ کام کرنے کی اجازت دی ہے، شریعت نے بعض مخصوص موضوعات اور حالات کے علاوہ عورت کو ایک آزاد فرد کی حیثیت سے قبول کیا اور مرد کو بھی کوئی اجازت نہیں دی کہ عورت کی اس آزادی کو صلب کرے، میاں بیوی کے رشتے میں شوہر کی اجازت اور باہمی تعلق اور رضا مندی کے نتیجے میں عورت ہر جائز اور قانونی کام کرنے میں آزاد ہے، جو اس کی حرمت، اس کی حیا اور اس کے مقام سے متصادم نہ ہو، عورت ہر وہ کام کرسکتی ہے، پاکستان میں چونکہ مخصوص کلچر کا مسئلہ ہے، یہ کلچر ہندوئوں سے متاثر ہے۔ یہاں پر عورت کو پائوں کی جوتی سمجھا جاتا ہے، شریعت کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ کے کلچر کی وجہ سے، بھارت میں اگر ایک عورت کا شوہر مر جاتا ہے اور وہ دوبارہ شادی کرنا چاہتی ہے تو طوفان اٹھ جاتا ہے، کیوں؟ وہاں کے ہندوانہ کلچر کی وجہ سے ہے، پاکستان میں بھی خواتین کو اسی طرح کے کلچرل مسائل کا سامنا ہے، ان کلچرل مسائل، ناانصافیوں اور مظالم سے عورت کو بچانا مرد کی بھی ذمہ داری ہے، عورت کی بھی ذمہ داری ہے اور ریاست کی بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے، اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ جو قانون سازی ہوئی، اس قانون سازی کو مذہب کیخلاف کیوں استعمال کیا جا رہا ہے؟ جب قانون سازی کی بات شروع ہوئی اور تو کیا کسی نے بھی یہ سوال کیا کہ یہ قانون آپ کے سماجی رویوں کے خلاف ہے۔۔۔؟

اس کے نتیجے میں سماج میں، معاشرے میں فلاں فلاں خرابیاں پیدا ہوں گی تو اس قانون سازی کے سماجی اور تہذیبی اثرات کو زیر بحث لانے کی بجائے فوراً شریعت سے متصادم قرار دیا گیا اور پھر شریعت کے خلاف ایک طوفان اٹھایا گیا، کیونکہ مذہب کو نشانہ بنانا مغرب کا ایجنڈا ہے، اس ایجنڈے کی وجہ سے پنجاب اسمبلی کی یہ قانون سازی دراصل مذہب کو نشانہ بنایا جاتا ہے، جب بھی موقع ملتا ہے، کسی بھی بہانے سے شریعت اور پاکستانیوں کی قانون سازی نہیں بلکہ مغربی استمار کے ایجنڈے کا حصہ ہے، میں یہ بات تمام چینلز پر کہہ چکا ہوں کہ یہ پاکستان کا ایجنڈا نہیں ہے، یہ ایجنڈا امریکی وزارت دفاع کا ایجنڈا ہے۔ ہنری کسینجر اور برزنسکی جمع ہوئے 9/11 کے بعد امریکن تھنک ٹینک کے 53 لوگوں کو انہوں نے جمع کیا، انہوں نے یہ منصوبہ بندی کی کہ ہمیں اسلام سے لڑنے کیلئے کن کن میدانوں میں کس طرح سے کام کرنا چاہیے، اس حوالے سے تھرڈ ورلڈ کیلئے ایک کمیٹی بنی، اس کمیٹی کا چیف ذلمے خلیل زاد ہیں، جو افغانستان میں پہلے امریکی سفیر تھا، بعد میں عراق میں امریکن سفیر بنا اور اس کی بیوی اس ٹیم کی کوآرڈینٹر ہے، اس کے ساتھ بارہ افراد کی ایک ٹیم تھی، انہوں نے بارہ پوائنٹ طے کئے، جن کے ذریعے سے اسلامی دنیا سے ان کی اسلامی حمیت اور روح کو چھینا جا سکتا ہے اور In the long term مسلمانوں کو مسلمان رکھتے ہوئے مغربی ذہن کا حامل بنایا جاسکتا ہے، اس پر انہوں نے منصوبہ بندی کی، اس میں تعلیم، نظام تعلیم، نصاب تعلیم، کلچر، میڈیا، فلاح اور رفاہ عامہ کے بڑے بڑے منصوبے شامل ہیں، جس کا ایک مظہر US AID کی صورت میں اس وقت فعال ہے، جس کا ایک مظہر ترکی سیلابی علاقوں میں امداد کی صورت میں ہے، پیسہ امریکیوں کا ہے اور چہرہ ترکیوں کا ہے۔

عراق میں جو کچھ ہوا، یہ سب اس منصوبے کا حصہ ہے، اس میں سے ایک چیز انسانی حقوق کا چہرہ ہے، اس میں سے ایک عنوان تعلیم ہے، اس میں سے ایک عنوان حقوق زن۔ اس پر انہوں نے عورت کو آزادی دلانیکے نام پر تیسری دنیا میں قانون سازی کا کام کیا، عورت کی آزادی کا اسلامی تصور اور ہے، مغربی تصور اور ہے، اسلام میں عورت کی آزادی کا تصور اس کی معاشرتی زندگی میں ولی کی رضا مندی کے ساتھ ہر کام کی مکمل آزادی سمیت عورت کی عزت و حرمت کی پاسداری ہے، اس کے حیاء کی پاسداری ہے، اس کی عزت نفس کی پاسداری ہے، اس کے لئے حدود و قیود جو اللہ نے بیان کئے ہیں، ان حدود و قیود میں اس کی تربیت بھی شامل ہے، جس کے نتیجے میں وہ ایسا کردار ادا کرسکے جو ایک عورت کا معاشرے اور گھر کے اندر ہوسکتا ہے، مغرب کی نگاہ میں عورت کی آزادی کیا ہے کہ اس کے کپڑے اتار دو، اس کو بکنے والی چیز بنا دو، اس کو نمائش کا ذریعہ بنا دو، اس کو ہر اس جگہ استعمال کرو، جہاں پر کوئی چیز نہیں بکتی عورت کے بدن کی نمائش کے طور پر اس کو بیچ دو، یہ ہے عورت کی مغربی آزادی۔ اس آزادی کو تھرڈ ورلڈ میں پروموٹ کرنے کیلئے انہوں نے جو یہ منصوبہ بنایا ہے، اس منصوبے میں ورلڈ بنک، چونکہ امریکیوں کے تابع ہے اس لئے اس کو بھی شامل کیا گیا ہے، لہٰذا اب اگر کوئی تھرڈ ورلڈ کا ملک قرض لینا چاہے، ورلڈ بنک سے تو ورلڈ بنک کی شرائط کیا ہوتی ہیں؟ پہلی شرط یہ ہوتی ہے کہ آپ تعلیم کے نظام میں فلاں فلاں تبدیلیاں لائیں گے، دوسری شرط یہ ہوتی ہے کہ آپ نصاب میں فلاں فلاں تبدیلیاں لائیں گے، تیسری شرط یہ ہوتی ہے کہ آپ انسانی حقوق کیلئے فلاں فلاں کام کریں گے، چوتھی شرط یہ ہوتی ہے کہ آپ حقوق نسواں کیلئے فلاں فلاں قانون سازیاں کریں گے۔

یہ ان شرائط میں سے ایک شرط ہے، جس پر ہماری پنجاب حکومت نے آنکھ بند کرکے عمل کیا، ان کو یہ پتہ ہی نہیں ہے کہ اس قانون سازی کے نتیجے میں مستقبل میں پاکستان کے اندر خاندانوں کی اکائی کو کس حد تک نقصان پہنچ سکتا ہے، لہٰذا اس کا براہ راست تعلق اسلام سے کم اور آپ کے کلچر اور آپ کی علاقائی تہذیب و ثقافت سے بہت زیادہ ہے، آپ کی علاقائی تہذیب اور آپ کا کلچر اس مغربی کلچر کا متحمل ہو ہی نہیں سکتا، جس میں آپ اس طرح کے قوانین پاس کرتے ہیں، اس قانون کی شقیں پڑھیں، میں ان شقوں کو چار دفعہ پڑھ چکا ہوں، یورپ کے اندر اگر بچے کو باپ ڈانٹتا ہے تو وہ ایک نمبر ملاتا ہے، پولیس آتی ہے اور باپ کو گرفتار کرکے لے جاتی ہے، کیا یہاں پر آپ اس کلچر کے متحمل ہیں؟ اس طرح کی قانون سازی کے نتیجے میں اس کلچر کو پروموٹ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، اس کا نتیجہ کیا ہوگا، بے راہ روی، فحاشی، مادر پدر آزاد معاشرہ کی تشکیل اور عورت کا آزادی کے نام پر گھر کی نسبت باہر زیادہ رہنا اور اگر بھائی، باپ، شوہر یا بیٹا اعتراض کرنا چاہے تو سیدھا جیل جائے، یہ ایک ایسا قانون ہے جس سے آپ اپنی تہذیبی روایات کا اپنے ہی ہاتھوں سے گلا گھونٹتے ہیں۔ لہٰذا اس قانون کو کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا، قانون کو معاشرے کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھتے ہوئے بنانا چاہیے، قانون ایسا ہونا چاہیے جو عورت کے تمام شرعی اور قرآنی حقوق کی حفاظت کرے، ظلم و ستم سے اسے محفوظ رکھ سکے، معاشرتی جاہلانہ روایات کی بھینٹ چڑھنے سے عورت کو مکمل طور پر بچائے، لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کی پاکدامنی، عفت، عزت و حرمت کی پاسبان بھی ہو اور عورت کو معاشرے میں قابل فروخت ’’چیز‘‘ کی بجائے باوقار اور سربلند انسان بننے میں مدد دے۔



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree