وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) پاکستان کی سرزمین پر یوں تو ایک سے بڑھ کر ایک سنگین اور وحشت ناک سانحات رونما ہوئے ہیں لیکن ایک ایسا سانحہ جس نے پوری قوم کے نا صرف جسموں بلکہ روحوں کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور جس کے اثرات طویل عرصے تک انسانی اذہان سے محو نا ہوسکے اور جو دلخراش سانحہ آج بھی ہر سال پہلے کی طرح تازہ ہوکر ہماری نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے وہ سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور ہے ۔
16دسمبر 2014 کی تاریخ اور یہ دن ہمیں ان 144 معصوم کھلتے ہوئے پھولوں اور ان کی باغبان استانیوں کی یاد دلاتاہے جنہوں نے گندی سیاست اور غلیظ مقاصد کی بھینٹ چڑھ کر اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے وطن عزیز کی سلامتی اور استحکام کی خاطر قربان کیں۔
آرمی پبلک اسکول پشاور پر ملک دشمن تکفیری وہابی دہشت گردوں نے داخلی ایجنٹوں کی مدد سے حملہ آور ہوکر نا صرف اندھادھند فائرنگ کی بلکہ خودکش دھماکے کرکےڈیڑھ سو کے قریب معصوم طلباءوطالبات اور خواتین اساتذہ کو بربریت کا نشانہ بنایا تھا۔
چشم فلک نے ایسی وحشت ناک مناظر اس سانحےمیں دیکھے کہ ہر زندہ ضمیر شخص اپنے جذبات پر قابو نا رکھ سکا اور فرط جذبات سے اس کی آنکھیں آب دیدہ ہوئیں۔
افسو س کے آج 9 برس گذرجانے کے باوجود ان 144 شہداء کے خاندان ریاست سے اپنے پیاروں کے لہوکا انصاف مانگتے نظر آرہے ہیں، ریاست سے انصاف تو کیا ملنا تھا اس سانحے کے ماسٹر مائنڈ کالعدم تحریک طالبان کے بدنام زمانہ دہشت گرد احسان اللہ احسان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بجائے ریاستی قید سے باآسانی فرار کرواکر بیرون ملک بھیج دیا گیا۔