وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے دوسری تنظیمی دور کےاختتام پر مرکزی کنونشن بعنوان پیام وحدت جامع امام صادق ؑ اسلام آباد میں منعقد ہو رہا ہے، 8 ،9 اور10اپریل کو منعقدہ اس کنونشن میں ملک بھر سے آنے والے اراکین شوریٰ مرکزی حق رائے دہی کے ذریعےآئندہ تین سال19تا2016کیلئے مرکزی سیکریٹری سیکریٹری جنرل کا انتخاب عمل میں لائیں گے، مرکزی پیام وحدت کنونشن کے چیئرمین اور ایم ڈبلیوایم کے مرکزی سیکریٹری امور روابط اقرار حسین ملک نے وحدت نیوز سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی کنونشن کی تمام تر تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں ، مرکزی انتظامی کمیٹی برائے کنونشن کے اراکین علامہ اصغر عسکری ، نثار علی فیضی اور اقرار حسین ملک نے وفدکی صورت میں شیعہ علماءکونسل کے مرکزی جنرل سیکریٹری علامہ عارف حسین واحدی ،پرنسل جامع عروۃ الوصقیٰ علامہ سید جواد نقوی، پرنسپل جامعتہ الکوثرعلامہ شیخ محسن نجفی اور دیگر اساتیذ، مرکزی صدر آئی ایس او برادر علی مہدی، مرکزی چیئرمین آئی اولعل مہدی خان ، آغا مرتضیٰ پویا، پرنسپل جامعہ محمدیہ سرگودھاسمیت مختلف قومی وملی شخصیات اور تنظیمات کو مرکزی پیام وحدت کنونشن میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ اقرارحسین ملک نے کہا کہ مرکزی کنونشن داخلی ملی وحدت کے قیام اور اہدافات کے حصول میں سنگ میل ثابت ہوگا،تین روزہ یہ کنونشن آٹھ اپریل بروز جمعہ شروع ہوکر دس اپریل بروزاتوار مرکزی سیکریٹری جنرل کے انتخاب اور اعلان پر اختتام پذیر ہو گا۔ جس میں ملک بھر سے اراکین شوریٰ مرکزی، اراکین شوریٰ عالی اور اراکین مرکزی کابینہ شرکت کررہے ہیں ۔
وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین ضلع شرقی ، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ، پیام ولایت فائونڈیشن، شیعہ علماءکونسل کے تحت جامع مسجد مصطفیٰ ﷺ عباس ٹائون میں ولادت باسعادت دختر رسول ﷺشہزادی کونین حضرت فاطمتہ الزہراس کے پر مسرت موقع پرشاندار محفل جشن منعقد کی گئی، جس میں معروف منقبت خواں اور شعراءحضرات نے بارگاہ سیدہ کونین س میں نذرانہ عقیدت پیش کیا، جبکہ مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندھ کے سیکریٹری جنرل علامہ مختارامامی اور علامہ فرقان حیدر عابدی نے شرکاءسے خطاب کیا ، جشن کے اختتام پر شرکاءمیں نیاز بھی تقسیم کی گئی۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) صحافت ایک مقدس مشن ہے۔مشن تقدس کے بغیر کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔تقدس کو بددیانتی ٹھیس پہنچاتی ہے۔آج ہی "اسلام پرستی یا فرقہ پرستی؟" کے عنوان سے ایک کالم میری نظروں سے گزرا۔ پڑھ کر نہایت دکھ ہوا ۔دکھ اس وجہ سے بھی ہوا کہ لکھنے والے سنئیر صحافی خورشید ندیم تھے۔ میں حیران رہ گیاکہ اتنے تعلیم یافتہ اور تجربہ کار صحافی کی ایران کے بارے میں معلومات اتنی کم ہیں !اور پھر دکھ اس بات کا بھی ہوا کہ موصوف نے اپنی کم علمی کا تدارک کئے بغیر ہی ایران کے بارے میں اندھا دھند کالم لکھ مارا ہے۔
موصوف نے اپنے کالم میں سب سے پہلے ایرانی صدر حسن روحانی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاہے کہ ایرانی صدر نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ " اہل تشیع کے دفاع کے لیے کسی جگہ مداخلت سے گریز نہیں کریں گے"۔
اب اسے موصوف کی کم علمی کہا جائے یا پھر موصوف کو معلومات فراہم کرنے والے گروہ کی شیطانیت ۔حقیقت یہ ہے کہ ایرانی صدر نے یہ بیان شیعوں کے حوالے سے نہیں بلکہ مقامات مقدسہ کے حوالے سے دیاتھا کہ اگر کہیں شام یا عراق میں شیعوں کے مقامات مقدسہ کو خطرہ لاحق ہوا تو ان مقامات کی حفاظت کے لیے ایران براہ راست میدان میں اترے گا ۔
یہ صرف ایرانی صدر کی بات نہیں بلکہ دنیا کا ہر مسلمان مقامات مقدسہ کی حفاظت کو اپنا اولین فریضہ سمجھتا ہے۔بات یہیں تک رہتی تو پھر بھی کوئی بات نہ تھی ،موصوف نے اس کے بعد ایران کے اسلامی انقلاب کو شیعہ سنی تقسیم کازمہ دار ٹھہرایاہے۔
یہ الزام آسمان پر تھوکنے کے مترادف ہے چونکہ یہ تو ہر باشعور پاکستانی کو پتہ ہے کہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد سے گذشتہ پینتیس سالوں میں ایران ہمیشہ دنیا بھر کے مظلوموں کا حامی رہا ہے چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں اور ایران نے ہمیشہ شیعہ سنی وحدت کی بات کی ہے۔
۶ اپریل ۱۹۹۲ ء سے ۱۴ دسمبر تک سربیا اور بوسنیا ہرزیگووینا کے درمیان جنگ میں ایران نے بوسنیا کا بھرپور ساتھ دیا، حالانکہ وہاں کوئی مسلک کی بات نہیں تھی، کیونکہ بوسنیا کے لوگ مسلکی حوالے سے شیعہ نہیں تھے۔ فلسطینی سرزمینوں پر ۱۹۴۸ء سے قابض اسرائیل کے مقابلے میں ایران نے ہمیشہ حماس جیسی حریت پسند تنظیموں کی مالی اور دفاعی مدد کی ہے، حالانکہ فلسطین میں اکثریت سنی مسلمانوں کی ہی ہے اور دوسری جانب انکے اپنے ہم مسلک عرب حکمران اپنی عیاشیوں میں مست ان مظالم پر ٹس سے مس نہیں ہو ئے اور انہی عرب حکمرانوں نے طالبان، القاعدہ اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کی بنیاد رکھ کر دنیا بھر میں مسلمانوں کو بدنام کر دیا ہے اور پاکستان کے حوالے سے تو انکی وطن مخالف پالیسیاں کسی بھی محبِ وطن پاکستانی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ پاکستان میں انہی کے اشاروں پر پہلےسنی کو شیعہ سے لڑایا گیا اور اب سنیوں میں بھی رخنہ ڈال کر دیوبندیوں کو بریلویوں سے لڑایا جا رہا ہے۔
موصوف نے یہاں تک لکھا ہے کہ "تہران میں دو میلین سنی بستے ہیں لیکن انہیں مسجد بنانے کی اجازت نہیں" لگتا ہے جناب عصرِ حجر میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کیونکہ تہران میں سنی دو میلین نہیں بلکہ انکی تعداد انتہائی محدود ہے جو کاروبار کے سلسلے میں یہاں مقیم ہیں۔ رہی یہ بات کہ انہیں مسجد بنانے کی بھی اجازت نہیں ہے تو انکے اطلاع کے لیے میں کالم کے آخر میں تہران میں سنیوں کے چند اہم مساجد اور مراکز کا اڈریس دیتا ہوں تاکہ دوبارہ ایسے غیر عاقلانہ الزامات لگانے سے پرہیز کریں۔
موصوف کو اس قدر تاریکی میں رکھا گیاہے کہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ ایران میں سنیوں کوشیعوں کے مساوی حقوق حاصل ہیں، یہاں تک کہ ایران کے سپریم لیڈر کو منتخب کرنے والی کمیٹی (شوریٰ خبرگان) میں بھی سنی علماء موجود ہیں اور حال ہی میں عام انتخابات کے ذریعہ سے صوبہ سیستان و بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سنی حنفی مسلک عالم دین مولوی نذیر احمد سلامی اس کمیٹی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں جنہوں نے دینی تعلیم کراچی میں حاصل کی ہے اور ان کا شمار مفتی محمد شفیع کے خاص شاگروں میں ہوتا ہے۔
موصوف نے اپنے کالم میں اصلاح پسند مسلم رہنماؤں کی لمبی فہرست بنائی ہے میں اس کے جواب میں صرف اتنا کہوں گا کہ پہلے آپ لاعلمی اور تعصب کی تاریکی سے نکلیں اور پھر اصلاح پسندی کی بات کریں۔آپ کے پاس تو ابھی تک ایران کے بارے میں ابتدائی معلومات بھی نہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ محترم خورشید ندیم صاحب دور سے ایران کو نشانہ بنا رہا ہے، اس کی مثال دوسرے سنئیر صحافی جاوید چودھری کی سی ہے جو دو ماہ قبل پاکستانی وزیر اعظم کے ہمراہ وفد میں سعودی عرب سے ایران آئے تھے۔ اس نے پہلے کالم میں ایران کے خلاف لکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن تہران میں چند گھنٹوں کی سکو نت کے بعد جب انہوں نے نزدیک سے ایران کو دیکھا تو "تہران، پہلی محبت کی نظر میں" کے عنوان سے الگے کالم میں ایرانیوں کے گن گانے لگا تھا۔
جناب خورشید ندیم! کبھی فرصت ہو تو مطالعے کے لئے کچھ وقت نکالئے اور اگر آپ کے بس میں ہو تو معلومات فراہم کرنے والے لوگوں اور ذرائع کو بدل کر دیکھئے !یقین جانئے دنیا اس سے مختلف ہے جیسی آپ کو دکھائی گئی ہے۔
تحریر۔۔۔۔ ساجد مطہری
وحدت نیوز (آرٹیکل) ہمیں ایک مسلمان ہونے کے ناتے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پیغمبر اسلام ﷺ اپنی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے احترام میں کھڑے ہوجاتے تھے۔ ان کے لئے چادر بچھا دیا کرتے تھے۔ ان کے حقوق کا پورا خیال رکھتے تھے۔ان کو خاص اہمیت دیتے تھے، ان سے مشورہ فرماتے ، ان کی رائے کو خاص اہمیت دیتے، غرضیکہ عزت، حمیت، عصمت اور حقوق جیسے سارے الفاظ دین اسلام نے عورت کے لئے مخصوص کر دئیے ہیں، جو بد قسمتی سے ہمارے ہاں نا پید ہو تے جارہے ہیں ۔بقدرِ ضرورت دینی تعلیمات سے بُعد اور مغربی تعلیمات سے قرب نے مسلمان خواتین کو امورِ خانہ داری انجام دینے کے بجائے، آفس، ہوٹلوں اور ہسپتالوں میں (Reception) رسپشن کی زینت بنادیا ہے، دینی تعلیمات سے صرفِ نظرنے پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی کے بدلے، لڑائی جھگڑے کے طور طریقے سکھلادیے۔ الغرض اسلامی زندگی کے جس موڑ پر آپ اسلامی روح کو تڑپتے ہوئے دیکھیں گے، اس کا نتیجہ دینی تعلیمات کا زندگی میں، نہ ہونا پائیں گے،خواتین کو بازاروں ، دفتروں اور ہوٹلوں کی زینت بنا کر ان کا جائز اور فطری حق چھین لیا گیاہے ۔
تعلیمات اسلامی کے مطابق ان کی دو ذمہ داریاں ہیں: ایک اپنےشوہر کی تابع داری اور دوسری اپنے بچوں کی پرورش۔ لیکن ان اسلامی اصولوں پر پابندی کا موقع آئے تو کہتے ہیں سلب آزادی ۔
اسلام نے عورت کو شہزادی کی حیثیت دی ہے پورا معاشرہ باپ ،بیٹا ،شوہر ، بھائی اور دیگر احباب اسکی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے دنیا کی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں ،موسم کا بدلاؤ، دنیا کی تلخ وسخت باتیں اور بہت کچھ برداشت کرتے ہیں تاکہ اپنی شہزادی کی خواہشات کو پورا کر سکیں اور اسکو دنیا کی تلخی کا اندازہ بھی نہ ہو۔ لیکن کتنا بڑا المیہ ہے! کہ آج کی عورت چاہتی ہے کہ نوکر بن کر کام کرنے لگے اور جو مشکلات مرد اٹھاتا ہے وہ وہ اٹھانے لگے اور اسی کو آزادی کہتی ہے ۔
ایک بیٹی، رحمت اسی وقت بن سکتی ہے، جب کہ اس کا قلب اسلامی تعلیمات کی روشنی سے منور ہو، وہ فاطمی کردار و گفتار کا پیکر ہو، ایک عورت، مرد کے لیے شریکِ حیات کی شکل میں، روحِ حیات اور تسکینِ خاطر کا سبب اسی وقت بن سکتی ہے، جب کہ اس کا دل سیرتِ خدیجہ سے سرشار ہو، وہ ایک مشفق اور ہر درد کادرماں، مصائب کی گرم ہواؤں میں، نسیم صبح کی صورت میں ”ماں“ اسی وقت ثابت ہوسکتی ہے؛ جب کہ اس کی گود بچے کے لیے پہلا اسلامی مکتب ثابت ہو۔
مغربی تہذیب و تمدن کی تقلید نے پورے معاشرے کو بے حیا بنا دیا ہے اور بےحیائی عورت سےعزت اور مرد سےغیرت چھین لیتی ہے،جب غیرت نہ رہے توقوم تباہ ہوجاتی ہےمغربی طاقتیں پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان پرہر طرف سے تہذیبی ،تمدنی ،معاشرتی ، سیاسی اور معاشی حملے کر رہے ہیں اور ہمارے دانشمند اسے Modern Age کے تقاضے سمجھ کر چشم پوشی فرما رہے ہیں ۔آج بے حیائی نے ہمارے بچوں کے دلوں سے ادب و احترام کا جذبہ ختم کر دیا ہے۔آج بچے اپنے والدین کا احترام نہیں کرتے تو کہاں کسی بزرگ کا احترام کرے گا ۔ یورپ اور مغربی کلچر کا یہ بھوت اور ناسور ہمارے معاشرے کے اندر اتنی تیزی کے ساتھ سرایت کر رہاہے کہ اس پر قد غن لگانا نا ممکن تو نہیں پر مشکل ضرور ہے۔
آج گلگت بلتستان کے معاشرے میں بھی مغرب کی طرح ہماری بیٹیوں کا لباس، ان کی مخلوط تعلیم، ان کا آزادانہ پارکوں کی سیر کرنا، موبائل فون اور نیٹ کا غلط استعمال، نیم عریاں لباس زیب تن کرنا ، بازاروں اور دوکانوں میں آزادانہ گھومنا عام ہوچکا ہے۔
آج دینی تعلیم کی ضرورت جتنی مردوں کو ہے، اس سے کہیں زیادہ عورتوں کو ہے، عورت کا قلب اگر دینی تعلیمات سے منور ہو، تو اس چراغ سے کئی چراغ روشن ہوسکتے ہیں، وہ دیندار بیوی ثابت ہوسکتی ہے، وہ ہر دل عزیز بہو بن سکتی ہے اور نیک اور شفیق ساس ہوسکتی ہے، وہ اپنے بچوں کی معلم اوّل ہوسکتی ہے، وہ خاندانی نظام کو مربوط رکھ سکتی ہے، معاشی تنگی کو خوش حالی سے بدل کر معاشی نظام مضبوط کرسکتی ہے، وہ شوہر کے مرجھائے اور افسردہ چہرے پر گل افشانی کرسکتی ہے، میخانے کو مسجد اور بت خانے کو عبادت خانہ بناسکتی ہے، اولاد کو دولت ایمان سے سرشار کرسکتی ہے۔
اگرچہ دنیا بھر کی طرح گلگت بلتستان اسمبلی میں بھی 18 فیصد سیٹیں خواتین کے ساتھ مختص ہیں ۔لیکن المیہ یہ ہے کہ حقوق نسواں کے نام پر اسمبلی نشستوں پر براجمان خواتین کو معاشرے میں عورتوں کے ساتھ ہونے والے استحصال کا کوئی علم نہیں ہے ۔خواتین کے حقوق کے سلسلے میں بلند و بانگ نعرے لگانے والے جا کر حلقہ نسوان میں ان کے ساتھ ہونے والے بد سلوکیوں کا کم از کم جائزہ تو لیں تا کہ انہیں معلوم ہو کہ ایوانوں میں نشستیں مختص کرنے سے عام عورتوں کو کوئی فائدہ نہیں ملتا ۔
سب سے بڑا ظلم یہی ہے کہ انہیں آزادی کے نام پر گھروں سے بے گھر کر دیا گیاہے۔عورتوں کے ذہن میں بٹھا دیا گیاہے کہ نوکری کرنا زندگی کا اعلی معیار ہونے کی دلیل ہے اور یوں عورت نام نہاد آزادی کی حصول کے لیے سرگردان ہوچکی ہے۔
اس سلسلے کی ابتدا ۱۷۶۰ء میں برطانیہ کے صنعتی انقلاب سے ہوئی ۔جب برطانیہ کا صنعتی انقلاب اپنےعروج پر پہنچا تو انہیں جس بہت بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑا وہ تھی افرادی قوت کی کمی۔اب ان کے پاس مشینیں بھی بےحساب تھی اور وسائل بھی مگر انکو چلانے اور ان وسائل کو بروئےکار لانے کے لئے لوگ موجود نہ تھے۔انہوں نے اپنی پیدا وار کی طلب کو پورا کرنے کے لئے گھروں میں بیٹھی اولاد کی تربیت میں مصروف خواتین کو آزادی نسواں کے نام پر گھروں سے باہر لا کر فیکڑیوں میں کام پے لگا دیا۔
مغرب اپنی خواتین کو گھروں سے نکال کر جنسی حیوان بنا چکا ہے اور ااج ہم بھی مغرب کی تقلید میں اسی راہ پر چل پڑے ہیں۔ابھی بھی وقت ہے کہ ہم واپس پلٹ جائیں۔بصورت دیگر شاید آئندہ نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔
تحریر۔۔۔۔۔قمر عباس حسینی
وحدت نیوز(علی پور) مجلس وحدت مسلمین ضلع علی پور پنجاب کے فلاحی شعبے خیر العمل فاونڈیشن کی جانب سے سیدہ کو نین حضرت فاطمہ زہرا (س) کی ولادت باسعادت کے بابرکت موقع پر مدینہ گارڈن میں 2010 تا2014کے سیلاب متاثرہ 10جوڑوں کی اجتماعی شادی کی پروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا ، تقریب میں مجلس وحدت مسلمین کہ مرکزی سیکریٹری امورتبلیغات علامہ شیخ اعجاز بہشتی ، مرکزی چیئرمین وحدت یوتھ پاکستان ، صدر بار ایسوسی ایشن علی پور،ایڈووکیٹ ہائیکورٹ سید فضل عباس نقوی ، سیکریٹری جنرل ایم ڈبلیوایم پنجاب علامہ عبد الخالق اسدی مولانا قلب عباس،ضلعی سیکریٹری جنرل اعجاز حسین زیدی ،محمد حسن زیدی،رضوان کاظمی، ایس ایچ او سٹی تھانہ علی پورلیاقت علی سمیت علاقے کہ معززین اور شخصیات نے بھی بڑی تعداد میں شرکت تھی، ایم ڈبلیوایم کی جانب سے تمام نوبیہاتہ جوڑوں میں قرآن مجید کے نسخے اور جہیز بھی تقسیم کیا گیا ، جب کے دولہادلہن کے معززمہمانان گرامی کی خدمت میں ظہرانے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے علامہ عبد الخالق اسدی نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین خد اکے فضل وکرم سے سیاسی وفلاحی دونوں میدانوں میں عوام کی خدمت میں شب وروز مصروف عمل ہے، دن بدن پھیلتے فلاحی منصوبے عوام کے ایم ڈبلیوایم پر بھر پور اعتماد کا اظہار ہیں، انہوں نے کہا کہ ایم ڈبلیوایم کا فلاحی شعبہ خیر العمل فائونڈیشن ملک کے طول وعرض میں بلاتفریق انسانیت کی خدمت میں کوشاں ہےجس کے تحت اب تک سینکڑوں مساجد، امام بارگاہ، ڈسپنسریز، اسکول، ووکیشنل سینٹرز، منصوبہ فراہمی آب پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں ، علامہ اعجاز بہشتی اور فضل عباس نقوی نے نوبیہاتہ جوڑوں کو ولادت جناب فاطمتہ الزہرا س کے پر مسرت موقع پر رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے پر مبارک باد پیش کی اور تمام دولہا اور دلہن کو سیرت جناب امیر المومنین ؑ اور سیدہ کونین س کی عملی اتباءکی تلقین کی۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے دیامر،ہنزہ،چلاس سمیت گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں طوفانی بارشوں کے نتیجہ میں ہونے والی انسانی جانوں کے ضیاع پر گہرے افسوس کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مزید نقصانات سے بچنے کے لیے حکومت کو قبل از وقت حفاظتی اقدامات کرنا ہوں گے۔سینکڑوں مکانات منہدم ہونے سے جو لوگ بے گھر ہو گے ہیں ان کو کھلے آسمان تلے بے یارومددگار نہ چھوڑا جائے بلکہ ان کے لیے عارضی رہائشوں کا فوری بندوست کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ لینڈ سلائینڈنگ کی وجہ سے جن علاقوں سے رابطہ منقطع ہے وہاں غذائی قلت کی بھی اطلاعات آ رہی ہیں۔ اس کے علاوہ سینکڑوں مسافر جن میں بچے اورخواتین بھی شامل ہیں راستوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اشیائے ضروریہ کی قلت کو دور کرنے کے لیے فضائی وسائل کو بروئے کا ر لایا جائے۔سڑکوں کی بحالی کے لیے جدید مشینری کا ااستعمال بلاتاخیرشروع کیا جانا چاہیے تاکہ زمینی رابطہ فوری بحال کیا جا سکے۔مالی نقصانات کا تخمینہ لگانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں اور متاثرین کو معاوضوں کی ادائیگی کی جائے ۔انہوں نے کہا کہ اس مشکل گھڑی میں سیاسی ضرورتوں سے بالاتر ہو کر انسانی ہمدردی کے تقاضوں کو مقدم رکھنا ہو گا۔عوامی کی داد رسی میں تاخیر قطعی ناقابل قبول ہے۔علامہ ناصر عباس نے مجلس وحدت مسلمین کے پلیٹ فارم سے منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی کو خصوصی ہدایات کی ہیں کہ وہ متاثرین کی بحالی کے لیے اپنی کوششوں کا بھرپور استعمال کریں ۔