وحدت نیوز(آرٹیکل)علامہ محمد امین شہیدی کا شمار پاکستان کے جید، معتبر اور چوٹی کے علماء میں ہوتا ہے، ان کا تعلق گلگت سے ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گلگت سے حاصل کی۔ کوئٹہ سائنس کالج سے میڑک کیا اور 1984ء میں اعلٰی دینی تعلیم کے لئے ایران چلے گئے۔ ایران میں بارہ سال تک رہے، اسی دوران پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ 1995ء میں کچھ دوستوں سے مل کر پاکستان کا رخ کیا، اسلام آباد میں ایک انسٹیٹیوٹ قائم کیا اور اس کے بعد سے دینی ترویج میں سرگرم عمل ہیں، اس وقت ایک ادارہ دانش کدہ اور ایک مرکز تحقیقات علوم اسلامی کے نام سے علوم اور معارف اسلامی کی ترویج کے لئے تشکیل دیا۔ ان اداروں سے اب تک لگ بھگ 50 کے قریب اسلامی کتابیں شائع کرچکے ہیں۔ 2008ء میں ملک کو درپیش مشکلات اور مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے فرقہ واریت کو فروغ ملا تو اس سے نجات کے لئے مجلس وحدت مسلمین کی بنیاد رکھی گئی۔ 2008ء سے اب تک علامہ امین شہیدی ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال پر اسلام ٹائمز نے ان سے ایک تفصیلی اور اہم انٹرویو کیا ہے، جو اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)
سوال: 34 ممالک کے اتحاد کے بعد چوتھی دفعہ آرمی چیف اور وزیراعظم سعودی عرب جا رہے ہیں، اُنہیں یہ کس بات کی یقین دہانی کرانا چاہتے ہیں۔؟
علامہ محمد امین شہیدی: بسم اللہ الرحمن الرحیم، آپ جب دنیا کو گلوبل ولیج کہتے ہیں تو ہر گائوں اور ویلیج کا ایک چوہدری بھی ہوتا ہے اور چوہدری کی اجازت کے ساتھ اس گائوں میں ہر کام انجام پاتا ہے، زمینوں پر ہل بھی چلتا ہے، میلے بھی لگتے ہیں، چوہدری کی اجازت کے ساتھ ادارے بنتے ہیں، چوہدری کی اجازت کے ساتھ نمازیں پڑھی جاتی ہیں، چوہدری کی دشمنی اور دوستی ہی گائوں والوں کی دوستی اور دشمنی کا معیار بن جاتی ہیں، دنیا کا اس وقت چوہدری امریکا ہے اور امریکی پالیسز کے نتیجے میں آپ مشرق وسطٰی میں لاکھوں لوگوں کا خون خرابہ دیکھ رہے ہیں، یہ اسی پالیسی کا حصہ ہے، تھڑد ورلڈ میں جتنے بھی ممالک ہیں وہ اسی پالیسی پر کاربند ہیں، اس لئے کہ اس پالیسی سے نکل کر یہ اپنی حیات کھو دیتے ہیں، ان کی مشکل یہ ہے کہ اگر یہ اس پالیسی کے دائرے سے نکلنا چاہیں تو ان کو موت نظر آتی ہے، ہمارا سسٹم اور پورا ملک اس وقت ورلڈ بنک کی زنجیر میں جکڑا ہوا ہے، آپ اس لئے ورلڈ بنک کو، اقوام متحدہ کو اور جو امریکی شرائط ہیں، ان شرائط کو سامنے رکھتے ہوئے انٹرنل اور ایکسٹرنل پالیسی بناتے ہیں۔ یہ جو 34 ممالک کی یا اس وقت 20 ممالک کی بات چیت چل رہی ہے، شروع میں جس طرح سے تنقیدیں بھی ہوئیں اور پھر اس کو بعض لوگوں نے سراہا بھی، لیکن سعودیوں نے کیا کہا۔؟ سعودیوں نے کہا کہ اگر امریکی ہماری کمان سنبھالیں گے تو پھر ہم میدان جنگ میں اتریں گے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ پہلے سے ایسا منصوبہ ہے کہ جس میں امریکہ پیٹھ پیچھے موجود ہے، سعودیوں نے انہی کے کہنے پر اسرائیلیوں کی منصوبہ بندی کے تحت یہ پروگرام شروع کیا، جس کے ویڈیو ثبوت اسرائیلی تھنک ٹینکس کے اعتراف کی صورت میں موجود ہے اور گویا امریکیوں کو یہ دعوت دی، اپنی طرف سے دی، جبکہ یہ پروگرام امریکیوں کی طرف سے ہے۔ لہٰذا جب پروگرام اور منصوبہ امریکیوں کا ہوگا تو اس سے نواز شریف صاحب مثتنیٰ نہیں ہیں۔
نواز شریف صاحب نے گذشتہ اپنے تین سال میں جو قرضے لئے ہیں، آپ اس کی مقدار دیکھ لیں، یہ مقدار زرداری کے دور اور اس سے پچھلے دور کی نسبت بہت زیادہ ہے اور اتنا سارا قرضہ ان کو کس بنیاد پر مل رہا ہے؟ اس بنیاد پر کہ یہ امریکی پالیسیوں کے سامنے پوری طرح سے سر تسلیم خم ہیں، لہٰذا کسی ایسے اتحاد میں ان کا شامل ہونا ان کی اپنی خواہش اور مرضی کے مطابق نہیں ہے بلکہ اس امریکی اور اسرائیلی پالیسی کے مطابق ہے، جس سے یہ نکل نہیں سکتے۔ اگرچہ انہوں نے اعلان تو کیا ہے کہ یہ کسی ایسی جنگ میں نہیں کودیں گے، لیکن اس وقت جو ہمارے سامنے چیزیں ہیں، اس کے مطابق لگتا یہ ہے کہ داعش کے متبادل کے طور پر ان کے زیر قبضہ علاقوں میں یہ خود جائیں گے، جن جن علاقوں میں داعش کا قبضہ تھا، ان علاقوں میں روس کے حملوں، ایرانیوں کی مقاومت، حزب اللہ، بشار الاسد، عراقی فورسز نے ملکر داعش کا صفایا کیا ہے۔ اب طاقت کا توازن اس پورے خطے کے اندر بگڑ چکا ہے، اب وہ والی صورتحال نہیں رہی جو تین سال پہلے تھی، اب جب ٹیبل پر مذاکرات کیلئے بیٹھتے ہیں تو سعودیوں کے پاس کچھ ہوتا نہیں ہے، جس کی بنیاد پر وہ سودا بازی اور بارگین کرسکیں، اس لئے کہ مسلسل جو یہ دہشت گرد قوتیں تھیں، ان کو سعودیوں اور امریکیوں نے پروموٹ کیا تھا اور اب بھی ان کو اسلحہ دے رہے ہیں، ان دہشت گردوں یعنی داعش اور النصرہ وغیرہ کے پاس اب زمین نہیں رہی، جب زمین نہیں رہی تو پھر بارگیننگ کس بات پر؟
آپ مسلسل سن رہے ہیں کہ داعش اور اس طرح کے دیگر گروپس مثلاً النصرہ وغیرہ وغیرہ ہیں، ان کے خلاف جس طرح کی کارروائیاں ہو رہی ہیں، اس کے نتیجے میں ہر روز ان کو پسپائی اختیار کرنی پڑ رہی ہے، اس پسپائی کے نتیجے میں خود امریکیوں کی اس خطے میں گرفت کمزور پڑ رہی ہے، سعودی جس ہدف کے تحت آئے تھے، ان کا وہ ہدف کمزور پڑ رہا ہے، جو گذشتہ دنوں مذاکرات ہوئے تو ان مذاکرات میں سعودیوں کے پاس بولنے کیلئے کچھ بھی نہیں تھا، جو داعش اور ان کی نمائندہ کونسل کے لوگ تھے، وہ میٹنگ سے اٹھ کر آگئے کیونکہ ان پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ لہٰذا اب یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح سے اپنی بارگیننگ پوزیشن مضبوط کرلیں، آپ نے سنا ہوگا کہ یمن میں وہ مسلسل ایک سال سے بمباری کر رہے ہیں اور ادھر انہوں نے حوثیوں سے مذکرات شروع کر دیے ہیں اور یہ مذاکرات پس پردہ ہیں، پہلے تو وہ حوثیوں کا نام سننے کو تیار نہیں تھے، لیکن انہوں نے دیکھا کہ انہوں نے ایک سال مسلسل بمباری کی، 28000 بے گناہ لوگوں کو قتل کیا، یمنی عوام کے پورے انفراسٹریکچر کو تباہ کر دیا، ہسپتالوں کو تباہ کر دیا، تعلیمی اداروں کو تباہ کر دیا، بازاروں کو تباہ کر دیا، یعنی وہ جو سوشل چیزیں ہیں جن سے عام عوام فائدہ اٹھاتے ہیں، ان کو تباہ کرکے مرد و زن، بچوں، بوڑھوں کو خون میں لت پت کر دیا، یمنی مظلوم عوام کو تباہ و برباد کرنے کے بعد آخر کار ان کے حصے میں صرف اور صرف ذلت آئی، اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ لہٰذا اب وہ مجبوراً حوثیوں سے مذکرات کرنے چلے گئے ہیں، جبکہ پہلے یہ حوثیوں کا نام سننے کو تیار نہیں تھے، یعنی مجموعی طور پر ان کی پالیسز جو اس خطے کے اندر تھیں، اس پالیسی میں ان کو عراق، شام اور یمن میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور لبنان میں تو وہ پہلے ہی شکست خوردہ ہیں۔
آپ نے دیکھا کہ انہوں نے پہلے لبنانی فوج کو اربوں ڈالر اور اسلحہ کی مدد دینے کا اعلان کیا اور اس کے بعد کہا کہ لبنانی حکومت، فوج اور لبنانی ریاست حزب اللہ کی تقویت کا باعث ہیں، اس لئے ان کو ہم مدد نہیں دیں گے، جب تک یہ حزب اللہ کو دہشت گرد ڈکلیئر نہیں کرتے۔ یعنی حزب اللہ جس نے لبنان کو بچایا ہے، وہ دہشت گرد ہیں اور داعش جن کو انہوں نے Create کیا وہ ان کے ہیروز ہیں، اس صورتحال میں انہوں نے ابھی جو جنگی مشقیں کی ہیں، اس پر جتنا پیسہ خرچ کیا، وہ بھی آپ کے سامنے ہیں، ان کی اقتصادی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ان پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ لہٰذا یہ ایک ایسے راہ حل کی تلاش میں ہیں، جس میں ان کی عزت بچ سکے اور کسی طرح سیاسی صورتحال میں وہ اس مقاومتی بلاک کے مقابلے میں ایک بارگیننگ پوزیشن حاصل کرسکیں، اس لئے یہ مذاکرات اور کانفرنسز کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو اللہ کیلئے کام ہوتا ہے وہ باقی رہتا ہے، جو ابلیس کیلئے ہوتا ہے بظاہر اس کا دب دبہ، اس کا شور شرابا نظر آتا ہے لیکن بہت کم عرصے میں اس کی ہوا نکل جاتی ہے اور سعودیوں، امریکیوں اور اسرائیلیوں کے ساتھ یہی ہوچکا ہے۔ لہٰذا آپ دیکھ لیں کہ ان کی قسمت میں مزید ذلت و رسوائی آئے گی، فائدہ ان کو نہیں ملے گا اور خطے میں ان کے جو تمام اہداف ہیں، ان میں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سوال: انٹیلی جنس بیورو کے چیف کا ایک بیان سامنے آیا، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ بہت بڑی تعداد میں لوگ شام گئے ہیں، داعش میں شامل ہوئے، اسی طرح انٹیلی اداروں نے یہاں سے داعش کیلئے کام کرنیوالے لوگ بھی پکڑے، لیکن چوہدری نثار داعش کا وجود نہیں مانتے، بلی کو دیکھ کر کبوتر کے آنکھ بند کر لینے جیسا معاملہ تو نہیں۔؟
علامہ محمد امین شہیدی: حقیقت یہ ہے کہ انٹرنلی چوہدری نثار کو پتہ ہے، فوج کو بھی بہت اچھی طرح پتہ ہے، باقی ایجنسیوں کو بھی بہت اچھی طرح سے معلوم ہے کہ داعش پاکستان میں کہاں کہاں موجود ہے۔ داعش اگر آپ عربوں کو کہتے ہیں تو پاکستان میں عرب نہیں ہیں، داعش اگر اس فکر اور سوچ کو کہتے ہیں تو وہ فکر اور سوچ ہے، وہ لشکر جھنگوی کی صورت میں موجود ہے، سپاہ صحابہ کی صورت میں ہے، طالبان کی صورت میں ہے، القاعدہ کی صورت میں ہے، حزب التحریر کی صورت میں ہیں، ان گروپس نے بڑے بڑے دھماکے کئے ہیں اور انہی گروپوں کے لوگ ان دہشت گردوں اور گروپوں میں شامل تھے، چاہے وہ اغوا ہو، چاہے وہ خودکش حملے ہوں، چاہے وہ کار بم بلاسٹ وغیرہ ہوں، ابھی شبقدر میں دھماکہ ہوا ہے، کس نے کیا؟ طالبان نے، اور انہوں نے بیان کیا دیا؟ کہ ہم نے ممتاز قادری کا بدلہ لیا ہے، اب آپ دیکھ لیں کہ کہاں کہاں وہ مذہب کو استعمال کرتے ہیں۔ کیا ممتاز قادری کو Follow کرنے والے دہشت گرد ہیں؟ جو آپ اسی طرح کی دہشت گردی ذریعے سے بے گناہ انسانوں کو مار کر بیلنس کرنے کی کوشش کریں، ظاہر ہے کہ مقصد ایکسپلائٹ اور سوء استفادہ کرنا ہے، اس معاشرے کے اندر ایسے لوگ ابن الوقت تخریبی ذہن رکھنے والے، تفرقہ سے سوء استفادہ کرنے والے بہت موجود ہیں، آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ ہمارا پورا خطہ شدت پسندی کے خطرے میں ہے، اس لئے کہ داعش خود اسلام آباد میں موجود ہے، اگر یہ بیان غلط تھا تو بتا دیں، کیوں دیا تھا، اگر صحیح تھا تو پھر آپ انکار نہ کریں، اس وقت جو انکار ہو رہا ہے، وہ صرف اور صرف عوامی پریشر سے بچنے اور لوگوں کو تسلی دینے کیلئے ہے، کہیں کوئی پریشانی شروع نہ ہوجائے، لیکن اندرون خانہ خوفزدہ تو ہیں، کارروائیاں بھی کر رہے ہیں اور جو اس وقت تک آپریشن ہوئے ہیں، وہ کس کے خلاف ہوئے ہیں؟ انہی گروپوں کے خلاف ہوئے ہیں اور مختلف جگہوں پر آپریشن ہو رہے ہیں۔
دہشت گرد موجود ہیں تو آپریشن ہو رہے ہیں، آئے دن گرفتاریاں ہو رہی ہیں، ان کا وجود ہے تو گرفتاریاں ہو رہی ہیں، وہ لوگ جو طالبان سے منحرف ہوچکے ہیں، طالبان کو جنہوں نے چھوڑ دیا وہ داعش میں شامل ہو رہے ہیں اور ان لوکل داعشیوں کی سرپرستی کرنے والے وہ لوگ ہیں، جو پہلے طالبان اور دیگر شدت پسندوں کی سرپرستی کرتے تھے، لشکر جھنگوی والے داعش کے Right Hand کے طور پر ہیں، ریاستی اداروں نے ملک اسحاق اور اس کی پوری ٹیم کو کیوں مارا؟ اس لئے کہ اس نے اپنے ساتھوں کے ساتھ مل کر داعش کے پراجیکٹ کو پاکستان کے اندر لانچ کرنا شروع کر دیا تھا، اس لئے آپ نے اس کو مارا ہے، اس لئے کہ آپ کو داعش نظر آرہی تھی، لہٰذا انکار کرنا اور بیان بازیاں کرنا یہ ایک الگ بات ہے، زمینی حقیقت یہ ہے کہ مختلف شہروں میں وہ موجود ہیں اور ریاست ان داعشی اور لشکر والے دہشت گردوں سیے برسرِ پیکار ہے، لیکن کس حد تک سنجیدگی ہے، یہ ایک الگ سوال ہے، اس پر دو آراء ہوسکتیں ہیں، دو آراء موجود ہیں کہ سنجیدگی ہوتی تو فلاں فلاں جگہ آپ نے کیوں نہیں قدم اٹھایا، بعض جگہوں پر واقعی انہوں نے سنجیدگی سے قدم اٹھایا اور بعض جگہوں پر انہوں نے سنجیدگی سے قدم نہیں اٹھایا، یعنی اب بھی Pcik & Choose ہے، Pick & Choose کا سلسلہ ختم ہوجائے تو داعش کا وجود بھی ختم ہوجائیگا۔ لیکن اس سے مقابلے کیلئے جہاں پر فورسز کو میدان میں آنا ہے، وہیں پر امت مسلمہ کو بھی اتحاد کے ساتھ، اتفاق کے ساتھ اپنے مشترکہ دشمن کی شناخت کرتے ہوئے میدان میں آنا چاہیے، ورنہ داعش کی جو فکر اور سوچ ہے وہ نہ سنی کو چھوڑتی ہے، نہ شیعہ کو چھوڑتی ہے، وہ ہر اس قوت کے مقابلے میں کھڑے ہوجاتے ہیں، جو ان کے مفادات کی راہ میں حائل ہوں، ان کی آئیڈیالوجی ایک بحث ہے، لیکن ان کے مادی مفادات دوسری بحث ہے، جب وہ اپنے ہی لوگوں کو پنجاب میں مار کر شیعہ سنی جھگڑے کا رنگ دے سکتے ہیں، جیسے پچھلے سال ہوا اور وہ سارا گینگ پکڑا گیا تو اس کا مطلب ہے کہ دین و ایمان نام کی کوئی چیز ان میں نہیں ہے، وہ آئیڈیالوجی کو بھی اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، لہٰذا ہمیں اس حوالے سے متوجہ اور آگاہ رہنے کی ضرورت ہے۔
سوال : آپ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن بھی تھے، قوانین پر آپکی نظر ہوگی، تحفظ خواتین ایکٹ پر بہت شور شرابا مچا ہوا ہے، اسکی کونسی شقیں ہیں، جس پر اسلامی نظریاتی کونسل کو سفارشات بھیجنی چاہیں۔؟
علامہ محمد امین شہیدی: میں اس ایشو پر 7 سے 8 ٹی وی چینلز پر بات کرچکا ہوں اور بالکل واضح طور پر موقف دیا ہے کہ اس کو شرعی متنازعہ مسئلے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، اس قانون سازی کا تعلق شریعت سے کم اور سماج، سماجی رویوں، کلچر، تہذیب اور لوگوں کے رہن سہن کے طور طریقوں سے زیادہ ہے، شریعت عورت اور مرد کو مساوی حقوق دیتی ہے، شریعت نے عورت اور مرد کو شانہ بشانہ کام کرنے کی اجازت دی ہے، شریعت نے بعض مخصوص موضوعات اور حالات کے علاوہ عورت کو ایک آزاد فرد کی حیثیت سے قبول کیا اور مرد کو بھی کوئی اجازت نہیں دی کہ عورت کی اس آزادی کو صلب کرے، میاں بیوی کے رشتے میں شوہر کی اجازت اور باہمی تعلق اور رضا مندی کے نتیجے میں عورت ہر جائز اور قانونی کام کرنے میں آزاد ہے، جو اس کی حرمت، اس کی حیا اور اس کے مقام سے متصادم نہ ہو، عورت ہر وہ کام کرسکتی ہے، پاکستان میں چونکہ مخصوص کلچر کا مسئلہ ہے، یہ کلچر ہندوئوں سے متاثر ہے۔ یہاں پر عورت کو پائوں کی جوتی سمجھا جاتا ہے، شریعت کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ کے کلچر کی وجہ سے، بھارت میں اگر ایک عورت کا شوہر مر جاتا ہے اور وہ دوبارہ شادی کرنا چاہتی ہے تو طوفان اٹھ جاتا ہے، کیوں؟ وہاں کے ہندوانہ کلچر کی وجہ سے ہے، پاکستان میں بھی خواتین کو اسی طرح کے کلچرل مسائل کا سامنا ہے، ان کلچرل مسائل، ناانصافیوں اور مظالم سے عورت کو بچانا مرد کی بھی ذمہ داری ہے، عورت کی بھی ذمہ داری ہے اور ریاست کی بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے، اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ جو قانون سازی ہوئی، اس قانون سازی کو مذہب کیخلاف کیوں استعمال کیا جا رہا ہے؟ جب قانون سازی کی بات شروع ہوئی اور تو کیا کسی نے بھی یہ سوال کیا کہ یہ قانون آپ کے سماجی رویوں کے خلاف ہے۔۔۔؟
اس کے نتیجے میں سماج میں، معاشرے میں فلاں فلاں خرابیاں پیدا ہوں گی تو اس قانون سازی کے سماجی اور تہذیبی اثرات کو زیر بحث لانے کی بجائے فوراً شریعت سے متصادم قرار دیا گیا اور پھر شریعت کے خلاف ایک طوفان اٹھایا گیا، کیونکہ مذہب کو نشانہ بنانا مغرب کا ایجنڈا ہے، اس ایجنڈے کی وجہ سے پنجاب اسمبلی کی یہ قانون سازی دراصل مذہب کو نشانہ بنایا جاتا ہے، جب بھی موقع ملتا ہے، کسی بھی بہانے سے شریعت اور پاکستانیوں کی قانون سازی نہیں بلکہ مغربی استمار کے ایجنڈے کا حصہ ہے، میں یہ بات تمام چینلز پر کہہ چکا ہوں کہ یہ پاکستان کا ایجنڈا نہیں ہے، یہ ایجنڈا امریکی وزارت دفاع کا ایجنڈا ہے۔ ہنری کسینجر اور برزنسکی جمع ہوئے 9/11 کے بعد امریکن تھنک ٹینک کے 53 لوگوں کو انہوں نے جمع کیا، انہوں نے یہ منصوبہ بندی کی کہ ہمیں اسلام سے لڑنے کیلئے کن کن میدانوں میں کس طرح سے کام کرنا چاہیے، اس حوالے سے تھرڈ ورلڈ کیلئے ایک کمیٹی بنی، اس کمیٹی کا چیف ذلمے خلیل زاد ہیں، جو افغانستان میں پہلے امریکی سفیر تھا، بعد میں عراق میں امریکن سفیر بنا اور اس کی بیوی اس ٹیم کی کوآرڈینٹر ہے، اس کے ساتھ بارہ افراد کی ایک ٹیم تھی، انہوں نے بارہ پوائنٹ طے کئے، جن کے ذریعے سے اسلامی دنیا سے ان کی اسلامی حمیت اور روح کو چھینا جا سکتا ہے اور In the long term مسلمانوں کو مسلمان رکھتے ہوئے مغربی ذہن کا حامل بنایا جاسکتا ہے، اس پر انہوں نے منصوبہ بندی کی، اس میں تعلیم، نظام تعلیم، نصاب تعلیم، کلچر، میڈیا، فلاح اور رفاہ عامہ کے بڑے بڑے منصوبے شامل ہیں، جس کا ایک مظہر US AID کی صورت میں اس وقت فعال ہے، جس کا ایک مظہر ترکی سیلابی علاقوں میں امداد کی صورت میں ہے، پیسہ امریکیوں کا ہے اور چہرہ ترکیوں کا ہے۔
عراق میں جو کچھ ہوا، یہ سب اس منصوبے کا حصہ ہے، اس میں سے ایک چیز انسانی حقوق کا چہرہ ہے، اس میں سے ایک عنوان تعلیم ہے، اس میں سے ایک عنوان حقوق زن۔ اس پر انہوں نے عورت کو آزادی دلانیکے نام پر تیسری دنیا میں قانون سازی کا کام کیا، عورت کی آزادی کا اسلامی تصور اور ہے، مغربی تصور اور ہے، اسلام میں عورت کی آزادی کا تصور اس کی معاشرتی زندگی میں ولی کی رضا مندی کے ساتھ ہر کام کی مکمل آزادی سمیت عورت کی عزت و حرمت کی پاسداری ہے، اس کے حیاء کی پاسداری ہے، اس کی عزت نفس کی پاسداری ہے، اس کے لئے حدود و قیود جو اللہ نے بیان کئے ہیں، ان حدود و قیود میں اس کی تربیت بھی شامل ہے، جس کے نتیجے میں وہ ایسا کردار ادا کرسکے جو ایک عورت کا معاشرے اور گھر کے اندر ہوسکتا ہے، مغرب کی نگاہ میں عورت کی آزادی کیا ہے کہ اس کے کپڑے اتار دو، اس کو بکنے والی چیز بنا دو، اس کو نمائش کا ذریعہ بنا دو، اس کو ہر اس جگہ استعمال کرو، جہاں پر کوئی چیز نہیں بکتی عورت کے بدن کی نمائش کے طور پر اس کو بیچ دو، یہ ہے عورت کی مغربی آزادی۔ اس آزادی کو تھرڈ ورلڈ میں پروموٹ کرنے کیلئے انہوں نے جو یہ منصوبہ بنایا ہے، اس منصوبے میں ورلڈ بنک، چونکہ امریکیوں کے تابع ہے اس لئے اس کو بھی شامل کیا گیا ہے، لہٰذا اب اگر کوئی تھرڈ ورلڈ کا ملک قرض لینا چاہے، ورلڈ بنک سے تو ورلڈ بنک کی شرائط کیا ہوتی ہیں؟ پہلی شرط یہ ہوتی ہے کہ آپ تعلیم کے نظام میں فلاں فلاں تبدیلیاں لائیں گے، دوسری شرط یہ ہوتی ہے کہ آپ نصاب میں فلاں فلاں تبدیلیاں لائیں گے، تیسری شرط یہ ہوتی ہے کہ آپ انسانی حقوق کیلئے فلاں فلاں کام کریں گے، چوتھی شرط یہ ہوتی ہے کہ آپ حقوق نسواں کیلئے فلاں فلاں قانون سازیاں کریں گے۔
یہ ان شرائط میں سے ایک شرط ہے، جس پر ہماری پنجاب حکومت نے آنکھ بند کرکے عمل کیا، ان کو یہ پتہ ہی نہیں ہے کہ اس قانون سازی کے نتیجے میں مستقبل میں پاکستان کے اندر خاندانوں کی اکائی کو کس حد تک نقصان پہنچ سکتا ہے، لہٰذا اس کا براہ راست تعلق اسلام سے کم اور آپ کے کلچر اور آپ کی علاقائی تہذیب و ثقافت سے بہت زیادہ ہے، آپ کی علاقائی تہذیب اور آپ کا کلچر اس مغربی کلچر کا متحمل ہو ہی نہیں سکتا، جس میں آپ اس طرح کے قوانین پاس کرتے ہیں، اس قانون کی شقیں پڑھیں، میں ان شقوں کو چار دفعہ پڑھ چکا ہوں، یورپ کے اندر اگر بچے کو باپ ڈانٹتا ہے تو وہ ایک نمبر ملاتا ہے، پولیس آتی ہے اور باپ کو گرفتار کرکے لے جاتی ہے، کیا یہاں پر آپ اس کلچر کے متحمل ہیں؟ اس طرح کی قانون سازی کے نتیجے میں اس کلچر کو پروموٹ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، اس کا نتیجہ کیا ہوگا، بے راہ روی، فحاشی، مادر پدر آزاد معاشرہ کی تشکیل اور عورت کا آزادی کے نام پر گھر کی نسبت باہر زیادہ رہنا اور اگر بھائی، باپ، شوہر یا بیٹا اعتراض کرنا چاہے تو سیدھا جیل جائے، یہ ایک ایسا قانون ہے جس سے آپ اپنی تہذیبی روایات کا اپنے ہی ہاتھوں سے گلا گھونٹتے ہیں۔ لہٰذا اس قانون کو کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا، قانون کو معاشرے کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھتے ہوئے بنانا چاہیے، قانون ایسا ہونا چاہیے جو عورت کے تمام شرعی اور قرآنی حقوق کی حفاظت کرے، ظلم و ستم سے اسے محفوظ رکھ سکے، معاشرتی جاہلانہ روایات کی بھینٹ چڑھنے سے عورت کو مکمل طور پر بچائے، لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کی پاکدامنی، عفت، عزت و حرمت کی پاسبان بھی ہو اور عورت کو معاشرے میں قابل فروخت ’’چیز‘‘ کی بجائے باوقار اور سربلند انسان بننے میں مدد دے۔
وحدت نیوز (قصور) مجلس وحدت مسلمین پتوکی ضلع قصورصوبہ پنجاب کے تحت " ایک روزہ ضلعی تربیتی ورکشاپ " منعقد کی گئی جس میں سیکرٹری تربیت پنجاب مولانا ڈاکٹر محمد یونس و مولانا صفدر علی نے شرکت کی اورمجلس وحدت مسلمین (ماضی، حال، مستقبل)اور ولایت فقیہ کے عنوان پر خطاب کیا،ورکشاپ میں ضلعی کابینہ و یونٹس کابینہ سمیت دیگر مومنین نے شرکت۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے یوم شہادت حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہاکے موقعہ پر اپنے ایک پیٖغام میں کہا کہ خاتون جنت سلام اللہ علیہا کی حقیقی معرفت اور طرز زندگی پر عمل امت مسلمہ کو تفرقہ بازی سے نجات دلا سکتا ہے۔ استکبارکے عزائم خاک میں ملانے کے لیے عزم استقامت کااسی گھرانے سے ملتا ہے۔جب تک تعلیمات اہلیبت علیہم السلام کا حقیقی درک اور مفہوم سے آشنائی نہیں ہوتی تب تک امت مسلمہ اسی طرح منتشر اور دست و گریبان رہے گی۔حق فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی شناخت حاصل کر کے ذلت و اضطراب کی زندگی سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ثقافتی یلغار کے ہتھیار سے مسلم معاشرے کو اسلامی اقدار سے دور کیا جا رہا ہے۔اخلاقی تنزلی پوری قوت سے سر اٹھا رہی ہے۔اسلامی تہذیب و تمدن کو دانستہ فراموش کیا جا رہا ہے ۔جس کا بنیادی سبب اسلامی تعلیمات سے دوری ہے۔معاشرے کی تربیت کے لیے مستورات کو اپنی ذمہ داریاں اورکردار ادا کرنا ہو گا۔جناب سیدہ کی پوری زندگی خواتین کے لیے ہر میدان میں مشعل راہ ہے۔بیٹی، بیوی اور ماں ہر حیثیت سے خاتون جنت ؑ کے طرز عمل سے رہنمائی لی جائے۔اگر ماں فاطمہ زہراؑ ہوں تو بیٹے حسن ؑ و حسینؑ ہوتے ہیں۔یزید جیسے جابر و فاسق حکمران سے حق کی خاطر نبرد آزما ہونے کا درس امام عالی مقام علیہ السلام نے نبی زادی کی آغوش سے حاصل کیا۔ دورحاضر کی یزیدیت کا مقابلہ کرنے کے لیے مخدومہ کونین حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تعلیمات پر عمل کرنا واجب ہے بصورت دیگر ہم حسینی ہونے کے دعوے دار تو ہو سکتے ہیں لیکن حق دار نہیں۔
وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ مختار امامی نے وحدت سیکرٹریٹ میں جنرل ورکرر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کودرپیش تمام مسائل کا حل تعلیمات قرآن و اہلبیت ؑ میں مضمر ہے ، انشاء اللہ 27 مارچ کوبھٹ شاہ میں منعقد ہونے والی بیداری امت واستحکام پاکستان کانفرنس 18کروڑ مفلوک الحال عوام کے لیے روشنی کی کرن ثابت ہو گی ، اس روزہزاروں فرزندان توحید سرزمین وطن پر ہونے والی دہشت گردی ، لاقانونیت ، ٹارگٹ کلنگ ، بیرونی مداخلت اور حکومت کی خاموش پالیسوں کے خلاف جدو جہد کا اعلان کریں گے ،اس موقع پر عالم کربلائی ،مولانا نشان حیدر ساجدی علامہ عبداللہ مطہری ،آصف صفوی ،شفقت لنگا ،ناصر حسین اور حیدر زیدی بھی موجود تھے ۔
علامہ مختار امامی کا کہنا تھا کہ آج امریکی و سعودی نفوذ کی بدولت سرزمین پا ک بے گناہ انسانوں کے خون سے رنگین ہے ،اور کربلا کا منظر پیش کررہی ہے، یہاں ہر روز بے گناہوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ اس لیے ہر باضمیر، غیرت مند، شجاع اور وطن سے محبت کرنے والے فرد پر فرض ہے کہ وہ پاک سرزمین کی حفاظت کے میدان عمل میں اترے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں بڑھتی ہوتی دہشتگردی لاقانونیت اور بد امنی امریکی غلامی کا نتیجہ ہے انشاء اللہ پاکستان سے محبت، حق کی شناخت اور طاغوت کی غلامی سے انکار کرنے والے پیروان قرآن و اہلبیت ؑ 27مارچ کو ثابت کر دیں گے کہ اب ملک میں امریکی وسعودی مداخلت کو مزید برداشت نہیں کیا جائے گااوروطن عزیزکو دہشت گردی کی لعنت سے پاک کرنے کی پاک فوج کی تمام کوششوں کو مکمل سپورٹ کیا جائے گا، ہم ملک دشمن عناصرکی ہیخ کنی کیلئے آپریشن ضرب عضب کی حمایت جاری رکھیں گے۔
وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان صوبہ سندھ کے سیکرٹری جنرل علامہ مختارامامی نے صوبائی شوری ٰکے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایم ڈبلیوایم 27مارچ کو بھٹ شاہ میں عظیم الشان بیداری امت کانفرنس منعقد کرے گی سندھ بھر سے ہزاروں عاشقان محمد ﷺ شریک ہوں گے، بیداری امت کانفرنس ‘‘ میں سندھ بھرسے علماء، ماتمی انجمنوں، ذاکرین ، خطباء ، نوحہ خوانوں، منقبت خوانوں سمیت ملت جعفریہ کے تمام اہم اداروں اور عوام کی شرکت کو یقینی بنایا جائے گا۔جبکہ کانفرنس کے انتظامات کو حتمی شکل دینے کے لئے مرکزی ، صوبائی اور ضلعی اراکین پر مشتمل چھ رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے،اس سلسلے میں مختلف ذیلی کمیٹیاں بھی تشکیل دی جائیں گی جو جلسہ کے کامیاب انعقاد میں اپنا کردار ادا کریں گی اور اس حوالے سے بہت جلد دوسرا اجلاس صوبائی سیکرٹریت سولجربازار کراچی میں منعقد کیا جائے گا اجلاس میں ڈپٹی سیکرٹری جنرل عالم کربلائی ،مولانا نشان حیدر ،شفقت لنگا،حیدر زیدی ،آصف صفوی ناصر حسینی اور امتاز شاہ بھی موجد تھے ان کا مزید کہنا تھا کہ بیداری امت کانفرنس ملک خداداد پاکستان کے استحکام میں سنگ میل ثابت ہوگی، جس میں مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری ملکی وبین الاقوامی صورت حال کے پیش نظر جماعت کی پالیسی بیان کریں گے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل)سلیمان کتانی(Solomon Katani) کا نام تو آپ سب سے سنا ہوگا۔ یہ ایک مسیحی محقق ہیں۔ ان کی پیدائش امریکہ میں ہوئی اور دو سال کی عمر میں والدین سمیت لبنان آئے۔ بیس سال تک مختلف یونیورسٹیز اور مدارس میں تدریس سے منسلک رہے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں حضرت محمدؐ پر ۹ جلدکتابیں تحریر کیں اور ان کی صاحبزادی پر ایک مستقل کتاب لکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے علم کے وارثو ں میں سے حضرت علی ؑ سے لیکر امام موسیٰ کاظم ؑ تک ہر امام پر کتاب تحریرکی۔ موصوف نے "فاطمة الزہرا، وتر فی غمد" میں پیغمبر خاتم (ص)کی لخت جگر کی مختلف خصوصیات پر قلم فرسائی کی۔﴿۱﴾
فاطمہ ؑ وہ باعظمت خاتون ہیں جو حس لطیف، پاک معدن، دریا دل اور نورانیت سے سرشار اور عقل﴿کامل﴾ کی حامل ہیں۔ مناسب یہی ہے کہ ایسی شخصیت کے بارے میں کتاب لکھی جائے اور ان سے نمونہ اخذ کیا جائے۔ عرب دنیا ﴿دوسرے تمام تر مسائل و مشکلات کے ساتھ ساتھ﴾ اپنے گھریلو سسٹم کو بافضیلت بنانے کی طرف محتاج ہیں تاکہ اپنے معاشرے کی ساخت کو مضبوط بنا کر اپنی باشرافت تاریخ کو جاری و ساری رکھ سکیں۔ آپ ہی کے ذریعے وہ اپنے ان تمام اجتماعی مسائل کا حل نکال سکتے ہیں۔﴿۲﴾
مسیحی دانشور سلیمان کتانی اپنی کتاب کی ابتدا میں لکھتے ہیں، حضرت فاطمة الزہراؑ کا مقام و رتبہ اس سے کہیں زیادہ بلند و برتر ہے کہ جس کی طرف تاریخ و روایات اشارہ کرتی ہیں اور ان کی عزت و وقار اس سے کہیں زیادہ ہے جن کی طرف ان کے زندگی نامہ لکھنے والوں نے قلم فرسائی کی ہے۔ حضرت زہراؑ کی مرکزیت کو بیان کرنے کے لیے یہی کافی ہے کہ آپ کے والد گرامی محمدؐ، شوہر گرامی علیؑ اور آپ کے صاحبزادے حسنؑ و حسینؑ ہیں۔ آپ ساری کائنات کی خواتین کی پیشوا ہیں۔ اپنی کتاب کے آخر میں راقم یوں رقمطراز ہے، اے دختر مصطفٰی فاطمہ! اے وہ ذات جس نے زمین کو اپنے شانوں پر بلند کردیا۔ اپنی پوری زندگی میں صرف دو مرتبہ آپ نے تبسم کیا۔ پہلی مرتبہ جب آپ بستر بیماری پر پڑی تھی تو جونہی ﴿آپ کے والد گرامی نے﴾ آپ کو یہ خوش خبری سنائی کہ مجھ سے سب سے پہلے آپ کی ملاقات ہوگی۔ دوسری مرتبہ اس وقت آپ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی جب آپ اپنی جان کو جان آفرین کے حوالے کر رہی تھی۔ آپ نے ہمیشہ پاکیزگی اور پاکدامنی کے ساتھ الفت و محبت کی زندگی گزاری۔ آپ وہ پاکیزہ ترین ماں ہیں جو دو پھولوں کو دنیا میں لائیں اور ان کی پرورش کا فریضہ بھی نبھایا۔ آپ طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اس فانی دنیا کا مذاق اڑا کر راہی ابد ہوگئیں۔ اے محمد مصطفٰی (ص) کی دختر گرامی! اے علی مرتضیٰ کی شریک حیات! اے حسنؑ و حسینؑ کی مادر گرامی! اے پوری دنیا اور ہر زمانے کے خواتین کی سرور و سالار!(۳)
وہ اس کتاب میں رقمطراز ہے، بہادری یہ نہیں کہ جسمانی طاقت یا تخت و تاج کے سہارے کسی کا مقابلہ کیا جائے بلکہ حقیقت میں بہادری یہ ہے کہ عقل و منطق اور فہم و فراست سے میدان مقابلہ میں اترے۔ ایسے میں اہداف مشخص ہو جاتے ہیں اور اس کے بارے میں پروگرامینگ بھی کی جاسکتی ہے۔ حضرت زہراؑ کی بہادری بھی اسی صورت میں نمودار ہوگئی۔ آپ نے لوگوں کی ہدایت کے ہدف کو پانے کے لیے مؤثر طریقے اپنائے جبکہ آپ کے بازو نازک و کمزور اور آپ کے پہلو ضعیف تھے۔ ﴿۴﴾
سلیمان کتانی کا کہنا ہے کہ آپ نے دو ہستیوں یعنی اپنے والد گرامی اور شوہر نامدار کے سایے میں زندگی گزاری۔ دو خوشبوؤں اور پیغمبر و امام کے دو بیٹوں حسن ؑ اور حسینؑ کو آپ نے اپنی آغوش میں پروان چڑھایا۔ دو لطافتوں یعنی لطافت جسمانی اور لطافت احساسی کو اپنے گود میں لیا۔ آپ نے دو عصروں یعنی عصرجاہلیت اور عصر بعثت کا مشاہدہ کیا۔ آپ نے اپنے والد گرامی کو دو طرح کی محبت فراہم کی یعنی بیٹی کی محبت اور ماں کی محبت۔ آپ دو طرح کی آگ میں جلتی رہیں یعنی محرومیت کی آگ اور فقدان کی آگ۔ آپ نے بہت سارے مصائب جھیلیں۔
اے فاطمہ! اے زیور عفت سے آراستہ زبان کی مالک! اے زیور کرامت سے سرشار گلوئے اطہر کی مالک! تیرا رشتہ کتنا پیارا ہے جس کی خوشبو دخت عمران تک پھیلی ہوئی ہے۔ اے مصطفٰی کی لخت جگر!
فاطمہؑ کو اللہ تعالی کے لطف و کرم سے جمال کے ساتھ ساتھ عقل کامل، باطنی پاکیزگی اور قوہ جاذبہ بھی نصیب ہوئی۔
آپ نے ایک بہت ہی باعظمت باپ اور قطب ﴿عالم امکان﴾ کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرایا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے والد گرامی کی نسل آپ ہی کے ذریعے جاری و ساری رہی۔ یہ بھی ایک ایسا ذخیرہ ہے جس سے یکے بعد دیگرے ہر دور کے انسانی نسلیں بعنوان ارث مستفید ہوتی رہیں گی۔ آپ کی نسلوں نے اتنی ترقی کی کہ مرور زمان کے ساتھ ساتھ ایک وقت میں فاطمہ کے نام سے مصر میں ایک حکومت تشکیل پائی اور انھوں نے اپنی توان کے مطابق آپ کے نام سے استفادہ کیا۔ مصر میں فاطمی حکومت اور جامعة الازہر دونوں آپ کے اسم سے متبرک ہوگئے۔ مسلمانوں نے بالخصوص شیعوں نے آپ کو اب بھی فراموش نہیں کیا ہے۔ کیونکہ آپ پیغمبر اکرمؐ کے نزدیک سب سے زیادہ پیاری ہیں۔
حضرت فاطمہ ؑ نے فدک کا تقاضا اپنی ذاتی پراپرٹی بڑھانے کے لیے نہیں کیا بلکہ آپ اس کے ذریعے اسلام کے استحکام اور پائیداری کے خواہاں تھیں۔ آپ اس کی پیداوار کو جزیرة العرب میں موجود تمام افراد تک پہنچانا چاہتی تھیں کیونکہ وہ سب فقر و تنگدستی میں مبتلا تھے۔ خصوصا فکری اور روحانی بھوک نے تو ان کو اچک ہی لیا تھا۔ یہاں پر فاطمہ ؑ نے اپنے ارث کے حصول کے لیے قیام کیا۔ آپ اس تقاضے کے ذریعے اجتماعی حس جو مردہ ہوچکی تھی کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتی تھیں۔
فرانس کے محقق لوئی ماسینیون Louis Massignon کا کہنا ہے، حضرت ابراہیم کی اولاد اور ان کی دعائیں بارہ ایسے نور کی خبر دیتی ہیں جو حضرت فاطمہ ؑ سے منشعب ہوں گے۔ حضرت موسیٰ ؑ کی تورات حضرت محمدؐ اور ان کی دختر اور ان کے بارہ فرزندوں کی آمد کی خبر دیتی ہے۔ جیسے اسماعیل، اسحاق اور حسن و حسین علیھم السلام۔ حضرت عیسیؑ کی انجیل محمدؐ کی آمد کی خبر کے ساتھ ہی یہ بشارت بھی دیتی ہے کہ پیغمبر اکرم ؐ کے ہاں ایک بابرکت صاحبزادی پیدا ہوگی جس سے دو صاحبزادے وجود میں آئیں گے۔
ڈائنا ڈی سوزا D.Disvza ہندوستان کی ایک مسیحی محقق ہیں۔ وہ فاطمہ زہرا ؑ کے حوالے سے ایک واقعہ نقل کرکے اس پر تبصرہ کرتی ہے۔ واقعہ یوں ہے، ایک دن حضرت محمدؐ نے اپنی صاحبزادی فاطمہؑ سے فرمایا، کیا کوئی ایسی خاتون ہے جس کی دعا آسمان تک پہنچنے سے پہلے ہی مقام قبولیت تک پہنچ جائے؟ حضرت فاطمہؑ اپنے والد بزرگوار کے بیان کیے ہوئے اس معیار پر اترنے والی خاتون سے ملاقات کی آرزومند تھیں۔ ایک دن آپ ایک لکڑہارے کی بیوی سے ملاقات کی خاطر ان کے ہاں گئیں۔ جونہی ان کے گھرکے سامنے پہنچی آپ نے اندر داخل ہونے کے لیے اس سے اجازت طلب کی۔ اس خاتون نے یہ کہہ کر آپ سے معذرت خواہی کی کہ میرے شوہر ابھی یہاں نہیں ہیں اور میں نے ان سے آپ کو گھر لانے کی اجازت بھی نہیں لی ہے لہذٰا آپ واپس چلی جائیے اور کل تشریف لائیے تاکہ میں ان سے اس حوالے سے اجازت لے سکوں۔ حضرت فاطمہؑ واپس لوٹ آئیں۔ جب اس عورت کا شوہر رات کو گھر آیا تو اس نے حال چال دریافت کیا۔ اتنے میں اس خاتون نے کہا کہ اگر پیغمبر اکرم ؐ کی بیٹی حضرت فاطمہؑ ہمارے ہاں آنا چاہے تو کیا ان کے لیے اجازت ہے؟ اس نے جوابا کہا، وہ آ سکتی ہیں۔ اگلے روز حضرت فاطمہؑ حضرت امام حسینؑ کو اپنے ہمراہ لیے دوبارہ اس کے پاس آئیں اور حسب سابق ان سے اندر داخل ہونے کی اجازت مانگی۔ اس خاتون نے دوبارہ یہ کہہ کر معذرت کی کہ میں نے صرف آپ کے لیے میرے شوہر سے اجازت لی ہے لیکن آپ کے ساتھ اس وقت آپ کا صاحبزادہ بھی ہے لہذٰا میں اجازت نہیں دے سکتی ہوں۔ حضرت فاطمہ دوبارہ لوٹ آئی۔ رات کو جب اس عورت کا شوہر واپس لوٹ آیا اور حال احوال دریافت کیا تو اس کی بیوی نے پوچھا: کیا پیغمبر اکرمؐ کے گھرانے سے کوئی ہمارے ہاں آئے تو اس کے لیے اجازت ہے؟ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ اس طرح حضرت فاطمہ ؑ تیسری مرتبہ لوٹ آئیں اور اس لکڑہارے کی بیوی سے ملاقات کی۔
اس داستان کا اخلاقی پہلو یہ ہے کہ عورت کو ہر وقت اپنے شوہر کا مطیع رہنا چاہیے۔ اسی عورت کے بارے میں حضرت محمدؐ نے فرمایا یہ سب سے پہلے جنت جانے والی خاتون ہے۔ اگر ہم نے ایک قدرتمند خاتون بن کر رہنا ہے تو ہمیں شہامت، حضرت مریم ؑو حضرت فاطمہؑ سے لینا چاہیئے۔ ان کے شجاعانہ اقدامات کا احترام کرنا چاہیئے۔ ہمیں چاہیے کہ ان کی اس شہامت کو ہم اپنے بیٹے بیٹیوں، بہن بھائیوں، دوستوں اور رشتہ داروں تک منتقل کریں۔ ان کی سیرت کو ہم اپنی سیرت بنا لیں اور ہم اپنے ذریعے اپنی نسلوں تک منتقل کریں۔ صرف اسی صورت میں ہی ہم طاقتور بن کر رہ سکتے ہیں اور صرف اسی صورت میں ہی ہم نے اپنی ماؤں کا احترام بجا لایا ہے۔﴿۵﴾
حوالہ جات:
۱:پائیگاہ علمی فرہنگی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمThis email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
2: نقد و بررسی شخصیت حضرت فاطمہ زہراؑ از نگاہ مستشرقان با رویکرد قرآنی، محمد عسکری، ص ۹۹ تا ۱۱۳
۳: سلیمان کتانی، فاطمة الزہراء وتر فی غمد،ص۳۲۔۲، ناقل منزلت حضرت زہراؑ در احادیث، مکاتب علی،۱۴۸ تا ۱۵۶
۴:پائیگاہ علمی فرہنگی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.۵: نقد و بررسی شخصیت حضرت فاطمہ زہراؑ از نگاہ مستشرقان با رویکرد قرآنی، محمد عسکری، ص۱۲۱تا۱۲۲۔ ۹۹ تا ۱۱۳
تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔سید محمد علی شاہ الحسینی