وحدت نیوز (آرٹیکل) فلسطین مظلومیت اور استقامت کی علامت ہے۔فلسطین کی طرح ایک مظلوم منطقہ پاکستان میں بھی ہے۔ گلگت و بلتستان کا شمار جہاں ملک کے خوبصورت ترین علاقوں میں ہوتا ہے وہیں بدقسمت ترین مناطق میں بھی ہوتا ہے۔ قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے اور بلندترین انسانی بستیوں کی تہذیب و تمدن سے آشنا ہونے کیلئے ہر سال ہزاروں ملکی اور غیر ملکی سیاح اس علاقے کا رخ کرتے ہیں۔
گلگت بلتستان بلند و بالا پہاڑوں ، سرسبزو شاداب وادیوں اور صاف شفاف پانی کے ندی نالوں، جھیلوں اور آبشاروں کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کیلئے انتہائی پر کشش خطہ ہے۔ اسکردو کے سرد صحرا اور جھیلیں، استور کے سرسبز پہاڑ اور دیوسائی کا پھولوں سے بھرا وسیع ترین میدان کے قدرتی حسن سے لطف اندوز ہونے کیلئے سہولیات نہ ہونےکے باوجود سیاح جوق در جوق یہاں آتے ہیں۔ گلگت بلتستان صرف اپنے برف پوش پہاڑوں، وادیوں اور خوبصورت جھیلوں کی ہی وجہ سے پر کشش نہیں ہے بلکہ بلندترین انسانی تہذیب و تمدن اور ثقافتی تہواروں کی وجہ سے بھی دنیا بھر کے سیاحوں کیلئے کشش رکھتا ہے۔ ان پہاڑی بستیوں میں بسنے والے انسان صدیوں پرانی تہذیب کے امین ہے۔
یہاں کی آبادی 20 لاکھ کے قریب ہے۔ یہاں کے اکثر لوگ دیہاتوں میں زندگی گزارتے ہیں۔ جس طرح یہ خطہ قدرتی طور پر صاف و شفاف ہے آلودگی یہاں پر نہ ہونے کے برابر ہے اسی طرح اس جنت نظیر خطے میں رہنے والے لوگ بھی کردار کے غازی، دل کے صاف و شفاف، محب وطن، مہمان نواز اور اپنے دین و مذہب سے بے حد پیار کرنے والے ہیں۔ یہ لوگ بلند و بالا، آسمان کو چھونے والے برف پوش پہاڑوں کے درمیان قدرت کی بنائی ہوئی خوبصورت اور سرسبز وادیوں میں زندگی گزارتے ہیں۔ یہاں کے لوگ محب وطن ہونے کے ساتھ ساتھ محب علم ہیں۔ خطے میں سکول کالجز نہ ہونے کے برابر ہیں اگر کسی دیہات میں سکول ہے بھی تو وہ بھی پرائمری اور بعض دیہاتوں میں تو سرے سے سکول ہی نہیں چونکہ یہاں کے لوگ تعلیم سے محبت کرتے ہیں اپنے بچوں کو کسی نہ کسی طرح سکول بھیج دیتے ہیں۔ یا تو بچے کو روزانہ ایک گھنٹہ یا دو گھنٹے پیدل چل کر سکول جانا ہوتا ہے یا پھر سکول والے دیہات میں اگر کوئی رشتہ دار ہے تو اس کے ہاں تعلیم کی خاطر رہنا پڑتا ہے۔ جسکی وجہ سے بچے کو بہت ہی چھوٹی عمر میں اپنے والدین سے جدا ہونا پڑتا ہے۔
پچھلے 68 سالوں سے اس خطے کے عوام ہر قسم کے انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ جسکی وجہ سے یہاں کی آبادی کا بڑا حصہ تعلیم یافتہ بلکہ اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود زمینداری اور کشاورزی کرنے پر مجبور ہے۔ چونکہ گلگت بلتستان پہاڑی علاقہ ہے یہاں پر کاشت کرنے کےلیے ہموار زمینیں نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر ہموار میدان موجود ہیں بھی تو حکومتی اداروں کی عدم توجہ کی وجہ سے بنجر ہیں اور اگر عوام اپنی مدد آپ کے تحت ان کو آباد کرنا چاہیے تو حکومت کوئی نہ کو ایشو بنا کر اس پہ ناجائز قبضہ کر لیتی ہے جسکی زندہ مثال حراموش مقپون داس اور تھک داس دیامر ہیں۔ رات کی تاریکی میں پولیس، رینجرز اور فوج کا گلگت سکردو روڈ سیل کراکے حراموش مقپون داس میں پوری تیاری کے ساتھ آنا اور بلڈوزروں کے ذریعے مکانوں کو بڑی بے رحمی سے مسمار کرنا کہاں کی انسانیت ہے۔ بلڈوزروں سے مکانات کو تباہ و برباد کر نا یہ تو اسرائیلی فوج کا سٹائل ہے جو کہ وہ فلسطین میں کئی سالوں سے کرتا آرہا ہے۔ اسرائیل تو ایک یہودی اسٹیٹ ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کا کھلا دشمن ہے وہ تو کچھ بھی کر سکتا ہے۔ لیکن ملک خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان جسکی بنیاد لا الہ الا الله، محمد الرسول الله ہے، اس کے اندر اپنے ہی لوگوں کے مکانات کو تباہ و برباد کروانا یہ نہ فقط اسلامی اقدار کے خلاف ہے بلکہ انسانی اقدار کے خلاف ہے۔ اور قابل ذکر بات یہاں پر یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مسلمان ریاستی فورسز نے مسجد جوکہ خدا گھر اور قرآن کریم جو اللہ کی کتاب ہے غیر مسلم بھی ان کا احترام کرتا ہے، ان کی حرمت کا خیال نہیں رکھا اور گھروں سمیت مسجد کو بھی شھید کر دیا اور گھروں سے قرآن مجید گھروں کو تباہ کرنے سے پہلے نہیں اٹھایا اور ابھی تک قرآن مجید گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
گلگت بلتستان کے اخبارات میں صوبائی وزیر اطلاعات کا یہ بیان کہ گلگت بلتستان کی انتظامیہ اور خاص طور پر وزیر اعلٰی حفیظ الرحمن صاحب کو پتہ ہی نہیں ہے اور نہ ہی گھروں کو تباہ کیا گیا ہے بہت مضحکہ خیز ہے۔ جناب وزیر اطلاعات جھوٹ بولنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے اگر وزیر اعلٰی حفیظ الرحمن صاحب کو پتہ نہیں ہے تو پھر پولیس، رینجرز اور آرمی کس کے حکم پر وہاں آئی ہوئی تھی۔ اور یہ کہنا کہ گھروں کو تباہ نہیں کیا گیا، بہت عجیب ہے۔ زیادہ دیر سفید جھوٹ نہیں چھپتا اب تو سب کچھ واضح ہو چکا ہے مزید جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں۔ مقپون داس میں تباہ شدہ 120گھروں اور مسجد کے کھنڈرات اور ملبے تلے دبے ہوئے قرآن مجید چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ نواز حکومت کروا رہی ہے۔
حراموش کے غیرت مند لوگوں کو ہم سلام پیش کرتے ہیں جن کے حوصلے اتنا کچھ ہونے کے باوجود پست نہیں ہوئے ۔ان پر پتھر برسائے گئے، ان پر گولیاں چلائی گئیں ،ان پر پولیس لاٹھی چارج ہوا، ان کے گھر تباہ و برباد کر دیے گئے ان پر دہشت گردی کی دفعہ لگا کر جیل بھیج دیا گیا۔ تین دن سے بچوں اور خواتین سمیت حکومتی جارحیت اور ریاستی دہشت گردی کے خلاف دھرنا دے کر اس سردی کے موسم میں روڈ پر بیٹھے ہیں لیکن مجال ہے کہ حکومت کوئی نوٹس لے! الٹا بیانات دے رہے ہیں کہ انتظامیہ کو پتہ نہیں ہے اور کوئی گھر تباہ نہیں کئے گئے۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ یہ لوگ اپنے حق سے دستبردار ہو جائیں گے ،تھک جائیں گے، ڈر جائیں گے تو یہ اس کی بھول ہے۔ نہ یہ کسی سے ڈرتے ہیں،نہ یہ لوگ تھک جائیں گے اور نہ ہی یہ لوگ کسی صورت میں اپنے حق سے دستبردار ہو جائیں گے چونکہ یہ لوگ جانتے ہیں۔ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ اور خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔
تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عاشق حسین آئی آر
وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ صوبائی حکومت اور انتظامیہ نے رات کے اندھیرے میں مقپون داس پر قبضہ کرکے ثابت کردیا کہ انہیں قانون اور عدالت کی کوئی پروا نہیں ہے اور ماورائے عدالت کارروائی کرکے توہین عدالت کے مرتکب ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کی دوغلی پالیسی اور شرمناک عمل یہ ہے کہ ایک طرف مقپون داس پر قبضے سے لاعلمی کا اظہار کرتا ہے اور دوسری طرف حکومتی رٹ کی باتیں کررہی ہیں، وہ کیسے صوبے کا سربراہ ہوسکتا ہے جنہیں اتنے بڑے آپریشن کا علم ہی نہ ہو، اگر حکومتی موقف درست ہے تو لوگ یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ صوبائی حکومت کی حیثیت کٹھ پتلی کی سی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کی زمینوں پر انتظامیہ کا قبضہ غیرقانونی اور غیر انسانی عمل ہے۔ جو خطہ پاکستان کا حصہ ہی نہ ہو اس پر کیسے پاکستان کے ادارے قبضہ کرسکتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں عجیب قانون ہے عوام کو متنازعہ کہا جاتا ہے اور زمینوں کو غیر متنازعہ ہے۔ اگر عوام اور اس خطے کے باسی متنازعہ ہیں تو زمینیں بھی متنازعہ ہے۔ خالصہ سرکار کے نام پر قبضہ مافیا کا کردار ادا کرنا چھوڑ دے یہ خطہ ارضی کسی کی خیرات نہیں بلکہ اس عوام نے جنگ لڑکے قربانی دے کے حاصل کیا ہے اور اس خطے کی ملکیت کسی سکھ یا میاں کی نہیں، صرف اور صرف عوام کی ہے۔
آغا علی رضوی نے کہا کہ جب حقوق دینے کی بات آتی ہے تو ریاستی ادارے خاموش ہوجاتے ہیں اور جب یہاں کے وسائل پر قبضہ کی بات ہوتی ہے تو اس خطے کے عوام کیساتھ فلسطین کے مسلمانوں کا سا سلوک کیا جاتا ہے۔ رات کے اندھیرے میں جس اندھیر نگری کا مظاہرہ کیا گیا اس سے عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ریاستی ادارے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی بجائے اپنے اعمال سے ثابت کریں، یہ اسلامی ریاست ہے اور گلگت بلتستان کے باسی اور انکی ملکیتی زمینیں دشمن ملک انڈیا والوں کی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کی تاریخ انتہائی افسوسناک ہے جس خطے کے جوانوں نے انڈیا کی سرحد کے اندر جاکر جنگ لڑی اور انکی زمینون پر قبضہ کیا تو بغیر کسی وجہ بتائے واپس بلائے گئے ادھر یہ لوگ اپنی زمینوں سے بے دخل ہوئے جارہے ہیں۔ ریاستی ادارے اپنا قبلہ درست کرے اور ان اداروں کے اندر موجود خیانت کاروں کو باہر کریں۔ اب بھی ریاستی اداروں کے اداروں ملک دشمن عناصر کی بڑی تعداد موجود ہے جو کبھی نہیں چاہتے کہ جی بی کے عوام اطمینان سے زندگی گزار سکیں اور پاکستان کا آئینی حصہ بنے۔ اگر گلگت بلتستان آئینی حصہ بنتا ہے تو قبضہ مافیا اور اندھیرے میں راج کرنے والوں کی بدمعاشی ختم ہوجائے گی اور اس خطے کے وسائل کو لوٹا نہیں جاسکے گا۔ خالصہ سرکار کی وکالت کرنے والے جنگ آزادی کے منکر اور گلگت بلتستان کے غدار ہیں، عوام انکو ہر جگہ رسوا کریں۔
وحدت نیوز (کوئٹہ) اہلیان کوچہ آغائے شمس محلہ بیت الحزان کے بزرگان نے ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی سیکریڑی سیاسیات و مبر بلوچستان اسمبلی آغا رضا کو اپنے محلے میں دعوت دی. آغا رضا اپنے وفد کے ہمراہ جن میں کونسلر کربلائی عباس علی, سید یوسف آغا اور حاجی عمران شامل تھے اہل محلہ سے ملاقات کی.
بزرگان محلہ نے اپنے مسائل بیان کرتے ہوئے کہا کہ پانی کا مسئلہ اہم ہے لیکن پائپ پرانے اور بوسیدہ اور ٹوٹ چکے ہیں جن سے گھروں تک پانی پمپ کے ذریعے بھی مشکل سے پہنچتا ہے. علاوہ ازیں گیس کے پائپ بھی لیک ہے. اور گلی کی حالت خستہ ہے.
آغا رضا نے اہل محلہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسی سال آپ کے گلیوں میں پانی کے نئے پائپ بچھائے جائینگے اور گلی کو ٹف ٹائل بھی کروایا جائیگا. گیس پائپ لائن جہاں سے لیک ہے. آپ اہل محلہ درخواست لکھ مجھے دیجئیے تاکہ میں اس سلسلے میں جی ایم سے بات کرو. باقی مسائل انشاءاللہ اسی سال حل ہونگے
وحدت نیوز(گلگت) نواز لیگ عوام کی خدمت کی بجائے ان کی مرمت میں کوشاں نظر آرہی ہے،خوشحالی اورترقی کے نعرے صرف الیکشن تک محدود تھے اقتدار کے پہلے آٹھ مہینوں کی کارکردگی صفر ہے اقربا پروری اور اندرون خانہ سرکاری ملازمتوں کی بندر بانٹ کا بازار گرم ہے،منرلزو انڈسٹری ڈیپارٹمنٹ میں کنڑیکٹ بنیاد پر ایک ریٹائرڈ ملازم کو گریڈ 19 میں بھرتی کرنا اس ادارے کے ساتھ زیادتی ہے۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل عارف قنبری نے کہا کہ صوبائی حکومت کے تمام تر دعوے ہوا ہوگئے ہیں ،ترقی و خوشحالی کے خواب سجاکر نواز لیگ کو ووٹ دینے والوں کا بخار اب اترتا جارہا ہے۔اپنے ہی عوام کی ملکیتی زمینوں کوبلا معاوضہ سرکار کی تحویل میں لینا اس خطے کے عوام سے دشمنی کے مترادف ہے۔ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر سرکاری آفیسروں کے تبادلے اور سرکاری ملازمتوں پرمن پسند افراد کی بھرتیوں سے لیگی حکومت کے عزائم بے نقاب ہوچکے ہیں۔ایک نااہل ریٹائرڈ سرکاری ملازم کو گریڈ 19 میں کنٹریکٹ بنیاد پر منرلز ڈیپارٹمنٹ میں بھرتی کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا جبکہ علاقے میں ٹیکنیکل افراد کی کوئی کمی نہیں ،پورے ملک میں منرلز ڈائریکٹوریٹ کی اعلیٰ پوسٹوں پر ٹیکنیکل افراد متعین ہیں اور منرلز اور مائنز کے شعبے میں ماہر افراد ہی ایسے پوسٹوں پر تعیناتی کا حقدار ہوتے ہیں حکومت نے اقربا پروری کی بدترین مثال قائم کی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو نہ علاقے کی ترقی سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی امن و امان کے حوالے سے کوئی پیش بندی کی جارہی ہے،وزیر اطلاعات کی پریس کانفرنس کے بعد حکومتی پردہ چاک ہوا کہ حکومتی عہدوں پر براجمان لوگوں کو صرف اور صرف سیر سپاٹے کی اجازت ملی ہوئی ہے اور باقی تمام امور بیوروکریسی کے رحم و کرم پر ہیں جس کا اعتراف خود وزیر موصوف نے میڈیا پر کیا ہے۔اس نااہل اور ناکام حکومت کو مزید دیر علاقے پر حکمرانی کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) سنٹرل سیکرٹریٹ مجلس وحدت مسلمین پاکستان میں ''وحدت کنونشن'' کے حوالے سے ایک اہم میٹنگ چیئرمین کنونشن و مرکزی سیکرٹری شعبہ روابط ملک اقرار حسین کے زیر صدارت منعقد ہوئی۔ جس میں آفس مسئول علامہ محمد اصغر عسکری، سیکرٹری تعلیم نثار فیضی، مسرت کاظمی، علی شیر انصار ی، ضلع جہلم، ضلع اسلام آباد، ضلع اٹک اور ضلع راولپنڈی کے افراد نے شرکت کی۔ تمام افراد نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا تاہم اس موقع پر چیئرمین کنونشن کا کہنا تھا کہ عالم اسلام اور بالخصوص وطن عزیز پاکستان جن مسائل و مشکلات کا شکار ہے اس کا تقاضا ہے کہ ہر ذی شعور انسان اپنی ملت، اپنی قوم اور مادر وطن کی نسبت اپنی قومی و ملی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے بیداری اور تدبر کا ثبوت دے۔ لمحہ بہ لمحہ بدلتی عالمی سیاسی صورتحال، مشرق وسطیٰ سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں کی داخلی کیفیت اور عالم کفر امریکہ و اسرائیل اور ان کے آلہ کار حکمرانوں کی سازشیں اس بات کی متقاضی ہیں کہ تمام سنجیدہ و دین پسند طبقات پورے ادراک کے ساتھ باطل کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے شعوری طور پہ مشترکہ لائحہ عمل مرتب کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان اپنی تشکیل سے اب تک ملی و قومی وحدت کو اپنا جزو ایمان سمجھتی ہے اور اتحاد و وحدت کے ہدف کے حصول کے لئے عملی طور پر کوشاں ہے۔ اس وقت جب کہ پوری دنیا بلاتفریق مذہب و مسلک دو حصوں میں تقسیم ہوتی نظر آرہی ہے ایک بلاک مظلومین و مستضعفین اور مدافعین کا ہے اور دوسرا بلاک جابروں، مستکبروں اور طاغوتوں کا ہے۔ پاکستان کی انتہائی اہم جغرافیائی صورتحال اور اس وطن کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ہونے کے ناطے ملت جعفریہ کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔
ان حالات میں ''مجلس وحدت مسلمین پاکستان'' کا سالانہ یوم تاسیس کا پروگرام انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ بالخصوص اب جبکہ ہم آئندہ تین سال کے لئے نئی مرکزی قیادت کا چنائو کر رہے ہماری ملی و مکتبی ذمہ داری مزید سنگین ہوجاتی ہے۔ ہمیں اپنے ماضی اور حال کا درست جائزہ لینا ہے اور اپنے مستقبل کی راہیں متعین کرنی ہے، ہمیں اپنے نکات قوت اور نکات ضعف کا درست جائزہ لیتے ہوئے آئندہ کے لئے تیاری کرنی ہے۔ ''پیام وحدت کنونشن'' انشااللہ وسیع تر قومی و ملی اہداف کے حصول کے لئے سنگ میل ثابت ہوگا۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ اصغر عسکری نے کراچی اور حیدر آبادسمیت ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج کے دوران صحافی حضرات کو مظاہرین کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہے میڈیا کارکنوں پر اس طرح کے حملے پیشہ وارانہ صحافتی فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ پیدا کرنے کے مترادف ہے۔احتجاج ہر شخص کا بنیادی ہے لیکن اسے شر پسندی اور تشدد سے پاک ہونا چاہیے۔کسی واقعہ کی اخبار میں اشاعت یا ٹی وی پر نشر نہ ہونے کا تعلق فیلڈ میں موجود صحافیوں سے نہیں بلکہ ادارے کی پالیسی سے ہے۔اس لیے صحافیوں کو مورد الزام ٹھرانا قطعی نا انصافی ہے۔ممتاز قادری کی نماز جنازہ میں لاکھوں افراد کی شرکت ایک تاریخی واقعہ اور بڑی خبر تھی۔پیمرا کی طرف سے اس کی کوریج پر پابندی لگا کر آزادی صحافت کے منافی اقدام کیا گیا جو سراسر غلط ہے۔تاہم اس قصور کی تمام تر ذمہ داری حکومتی اداروں پر عائد ہوتی ہے نا کہ صحافتی اداروں پر۔علامہ عسکری نے میڈیا سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ہر اہم موقعہ پر میڈیا کی کارکردگی کو سراہا ہے۔