وحدت نیوز (کراچی) 61 ہجری یوم عاشورہ امام حسین ؑ کی وہ قربانی آج بھی ہمارے لئے تر و تازہ ہے، ہر سال ماہ محرم میں عزادار ایک نئے جوش و جذبے کے ساتھ امام ؑ کا غم مناتے ہیں، کیونکہ یہ امام حسینؑ کا مقدس خون ہے جو لوگوں میں ایک حرارت پیدا کرتا ہے، چودہ سو سال سے یہ ہی امام ؑ کا پاکیزہ خون انسانیت کو نجات دلاتا آیا ہے، ہر دور میں جب بھی کسی ظالم و جابر انسان نے مقدسات دین کو پامال کرنے یا معصوموں پر ظلم برپا کرنے کے لئے سر ا ٹھانے کی کوشش کی تو حسینت ؑ نے اس کا سر دبا دیا، یہی وجہ ہے کہ ہر دور کے ظالم نے عزاداری سید الشہدا پر پابندی لگانے کی کو شش کی مگر وہ کبھی اپنے اس مکروہ عزائم میں کامیاب نہیں ہوسکا، کیونکہ عزاداری امام حسین ؑ ہمیشہ اسلام کی بقاء اور دشمن اسلام کے خلاف بغاوت کرنے کے ساتھ موت سے لڑنے اور حریت کا درس دیتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے وفاقی اردو یونیورسٹی گلشن کیمپس کراچی میں آئی ایس او کی جانب منعقدہ سالانہ یوم حسین ؑسے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مقررین میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی شوریٰ عالی کے رکن علامہ امین شہیدی، آل پاکستان شیعہ ایکشن کمیٹی کے سربراہ علامہ مرزا یوسف حسین، جمعیت علماء پاکستان کے رہنما مولانا عقیل انجم اور وائس چانسلر وفاقی اردو یونیورسٹی ڈاکٹر سلیمان ڈی محمد و دیگر شامل تھے۔ یوم حسین ؑسے خطاب کرتے ہوئے علامہ امین شہیدی کا کہنا تھا کہ امام حسین ؑ کی بے مثال قربانی کا مقصد دین محمد ﷺکی بقاء اور اسلام کی سربلندی تھا، آپ ؑ نے اپنے قیام کو اپنی ایک وصیت میں یوں بیان کیا تھا کہ میرے قیام کا اصل مقصد فتنہ و فساد برپا کرنا نہیں بلکہ میں اپنے نانا حضرت محمد مصطفی ﷺکی امت کی اصلاح کرنا ہے اور اس کا واحد طریقہ امر باالمعروف و نہی عن المنکر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج پھر یزید وقت نے اپنا سر اٹھایا ہے اس نے پھر مسلمانان عالم پر ظلم و بربریت کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔
مولانا عقیل انجم نے کہا آج پھر مسلمانان عالم یزیدی قوتوں سے برسر پیکار ہیں، فلسطین، کشمیر، مصر، بحرین، شام اور پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر بے گناہ مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے اور ملتِ اسلام خاموش بیٹھی ہے۔ علامہ مرزا یوسف حسین نے کہا کہ امام حسینؑ نے باطل کی بیعت سے انکار کر کے دراصل ہر دور کے یزید سے انکار کیا تھا اگر آج ہم بھی وقت کے یزید سے انکار کر لیں تو دنیا میں آج بھی مسلمان اپنا کھویا ہوا مقام پھر حاصل کر سکتے ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی دنیا میں مسلمانوں کے خلاف کوئی بڑی سازش ہو اس سے پہلے کراچی میں فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کوشش کی جاتی ہے مگر ہمیں امام حسینؑ نے چودہ سال پہلے ہر دور کے یزید سے آگاہ کردیا تھا، اگر مسلمان آج بھی ایک انکار کردیں تو ہزار بار ذلت سے بچ سکتے ہیں، کربلا کی معرفت حاصل کرنا آج کے دور کی اولین ذمہ داری ہے، آج بھی کردار یزید موجود ہے، کردار حسین کی ضرورت ہے۔ جامعہ کے وائس چانسلر ڈاکٹر سلیمان ڈی محمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ کو اپنی تعلیم پر خصوصی توجہ دینی چاہیئے تاکہ ملک کے ساتھ ملت ِاسلامیہ کی سربلندی ہوسکے اس دور میں اگر کچھ کرنا ہے تو تعلیم لازمی ہے اور آج ملک خداداد پاکستان میں تعلیم کی اشد سے ضرورت ہے۔
وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مختار امامی نے کہا ہے کہ نواسہ رسول امام حسین (ع) کا قیام رہتی دینا کے مظلوموں کے حقوق کی جدوجہد اور ہر دور کے یزید کی ذلت و رسوائی کا سبب ہے، امام حسین (ع) کے رفقاء اور احباب کی قربانی نے خدا کے فرمان مختصر گروہ کے کثیر پر غالب آنے کی آیت کو حقیقت کا جامع پہنایا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مسجد و امام بارگاہ حیدر کرار اورنگی ٹاؤن میں عشرہ محرم الحرام کی مجالس عزا سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ علامہ مختار امامی کا کہنا تھا کہ یزید ایک شخص نہیں بلکہ ایک کردار کا نام ہے، دنیا میں حسینی کردار کے حامل افراد یزیدی کردارکے حامل افراد سے ہمیشہ برسر پیکار رہیں گے۔ علامہ مختار امامی کا کہنا تھا کہ نواسہ رسول امام حسین (ع) کی عزاداری امت مسلمہ کی مشترکہ میراث ہے، امام حسین (ع) بشریت کیلئے نجات دہندہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے امام حسین (ع) کی عزاداری کو روکنے کیلئے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے ہیں، کبھی لاؤڈ اسپیکر ایکٹ کے نام پر اور کبھی علماء و ذاکرین پر پابندی کے نام پر عزاداری محدود کرنے کی سازش کی جارہی ہے لیکن شیعہ و سنی عزاداران سید الشہداء ایسی ریاستی سازش کا منہ توڑ جواب دیں گے، تمام مسلمان حضرت امام حسین علیہ السلام کی قربانی و فکر کو سمجھ کر باطل قوتوں اور اسلام دشمنوں کو شکست دے سکتے ہیں۔ علامہ مختار امامی نے ملک بھر میں بسنے والے تمام طبقات اور مکاتب فکر سے کہا کہ وہ محرم کی مجالس اور جلوسوں میں بھر پور شرکت کر کے اس بات کو واضح کردیں کہ یہاں بسنے والے عوام متحد ہیں اور تکفیریت کے فتنے کو پاکستان سے ختم کرکے دم لیں گے۔
وحدت نیوز(سکردو) مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکرٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی نے اپنے ایک تعزیتی بیان میں کہا ہے کہ اسلامی تحریک گلگت بلتستان کے سربراہ اور معروف عالم دین علامہ آغا عباس رضوی کو انکی اہلیہ کی المناک وفات پر ہدیہ تعزیت پیش کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم لواحقین اور سوگواران سے تعزیت پیش کرتے ہیں اور مرحومہ کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لیے دعا گو ہیں۔ آغا علی رضوی نے کہا کہ آغا عباس رضوی کی اہلیہ کی وفات افسوسناک ہے اور اس موقع پر لواحقین کو صبر و شکر کی تلقین کرتے ہیں۔
وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین قائد کا پاکستان چاہتی ہے، قائد اعظم محمد علی جناح ایک ایسا پاکستان قائم کرنا چاہتے تھے جہاں بہترین عدالتی نظام ہو اور تمام معاملات زندگی میں قوم ترقی کر سکے۔مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے اور کونسلر رجب علی نے کہا ہے کہ ہمیں موجودہ دور میں بے شمار مشکلات کا سامنا ہے بعض صوبوں میں اچھی نظام زندگی موجود نہیں ہے، صوبوں میں ترقیاتی اقدامات بلا امتیاز اٹھائے جانے چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ وطن عزیز کے تمام افراد ایک قوم بن کر کام نہیں کر رہے ہیں۔ بعض حکمرانوں نے قوم کی ساری دولت ایک صوبے پر خرچ کرکے، صوبوں کے درمیان اختلافات پیدا کئے ہیں جسکی وجہ سے آج ایک صوبہ ترقی یافتہ تو دوسرا صوبہ بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔ وفاقی حکمران کرسی پر بیٹھ کر بھول جاتے ہیں کہ وہ پورے پاکستان کے حکمران ہے اور ایک مخصوص صوبے کی تعمیر و ترقی میں مصروف ہو جاتے ہیں اور دیگر صوبوں کو محرومیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ہمیں پاکستان کے اصل مقصد اور قائد کے افکار کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ قائد اعظم محمد علی جناح ایک ایسا پاکستان قائم کرنا چاہتے تھے جہاں کی عدالتی نظام اسلام کے عین مطابق ہو، ملک کے تمام افراد کو یکساں نظر سے دیکھا جائے اور تمام معاملات زندگی میں قوم ترقی کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہر کوئی اپنے مسلک یا قوم کی بالا دستی میں مصروف ہو جائے تو وطن عزیز پاکستان کو ترقی دلانے والا کوئی نہ رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ تمام صوبوں کو یکساں حقوق ملنے کے بعد ملک کے ہر فرد کو یہ موقع مل سکتا ہے کہ وہ اپنے شعبے میں آگے بڑھ کر، اس پیارے وطن کی سربلندی اور وقار کا باعث بنے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) آئین پاکستان پاکستان کے ہر شہری کو مذہبی آزادی دیتا ہے اور اس کو مذہبی رسومات ادا کرنے کی ضمانت اور تحفظ فراہم کرتا ہے جس کے مناظر ہم روز اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ، ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ اگر کسی کی شادی ہو تو وہ روڈ کے بیچوں بیچ شامیانے لگا کر شادی کی رسومات ادا کرتا ہے اور بارات کاجلوس لے کر کسی بھی روٹ پر جاسکتا ہے چاہے اس میں کتنی ہی ہائی ٹیون اسپیکر کیوں نہ لگے ہوئے ہوں ناچ گانے گاتے ہوئے جلوس آپ نے بھی بارہا دیکھے ہونگے ، اگر خدا نا خواستہ کسی کے ہاں میت ہو جائے تو وہ بھی کسی بھی جگہ صفیں بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں اور جنازہ لے کر کسی بھی روٹ یا راستے سے گذر سکتا ہے ، اور عید قرباں پر قربانی کا جانور لے کر کہیں بھی گھما سکتا ہے دوسرے مذاہب کے جلوس جس میں ہولی وغیرہ کے جلوس بھی اسی طرح نکالے جاتے ہیں اور شادی یا فوتگی میں آنے والے مہمانوں کوکسی بھی جگہ پانی پلایا جاتا ہے اور ان تمام معاملات میں کسی پرمٹ یا پیشگی اجازت کی ضرورت نہیںاور نہ ہی اس قسم کے انتظامات میں کسی کمی یا زیادتی کے لئے حکومت سے اجازت کی ضرورت ہے یہ ہر پاکستانی کو آئین حق دیتا ہے اور اس حق کے تحفظ کی ضمانت بھی آئین پاکستان دیتا ہے ۔
لیکن پاکستان مین کچھ عناصر ہیں جو پاکستانیوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں وہ کبھی سیاستدانوں کے روپ میں آتے ہیں تو کبھی عالم دین کے روپ میں آتے ہیں حالانکہ ان کا تعلق نہ دین سے ہوتا ہے نہ سیاست سے وہ فقط اپنے لالچ اور ہوس کے بندے ہوتے ہیں البتہ نہروپ دھار کر ایک لمبے عرصے تک لوگوں کو اپنے سیاستدان یا عالم دین ہونے کا دھوکہ دے چکے ہوتے ہیںاور سادہ لوگ انہیں اسی روپ میں قبول کرلیتے ہیں جبکہ وہ اپنی خواہشوں کی تکمیل کے لئے یزداں فروشی اور کشورفروشی کرتے ہوئے سادہ عوام کو دین اور سیاست کے نام پر دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں اور ایسے ایسے معاہدے کرتے ہین کہ انسانیت دنگ رہ جاتی ہے شیطانیت شرماجاتی ہے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان معاہدوں کے نتیجے میں کسی پر کوئی پابندی نہیں حتیٰ کہ کالعدم تنظیموں پر بھی پابندیاں نہیں وہ بھی نئے نئے جلو س نکالتی ہیں اور نیشنل ایکشن پلان کا منہ چڑاتی ہیں مگر آئین کی اجازت کے باوجود اگر پابندی ہے توصرف پاکستان کی اس قوم پر جو جوقیام پاکستان سے لیکر آج تک ہزاروں لاشوں کو اٹھانے کے باوجود کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایابلکہ ہمیشہ ملکی سلامتی کو پیش نظر رکھا اور ضبط کا مظاہرا کیا ملک کو بچانے کے لئے جس قوم نے نیشنل ایکشن پلان کو وجود بخشا آج اسی پلان کا سہارا لے کر اسی قوم کو مزید پابندکیا جارہا ہے۔اورصرف ایک قسم کے جلوس اورمجلس یا پانی پلانے پر حکومت کی جانب سے پابندی ہے اور وہ ہے حسین علیہ السلام کے لئے کیا جانے والا کوئی بھی پروگرام چاہے جشن کی صورت میں ہو یا غم کی صورت ہواگر لوگ زیادہ آئیں تو ان کو پانی پلانے کے لئے بھی جتنی حکومت اجازت دے اتنا پانی پلایا جائے ورنہ حکومتی رٹ کا مسئلہ ہوجاتا ہے ، اس بحث کو چھوڑکر کہ یہ ایک مکتب فکر کے ساتھ ظلم اور ناانصافی ہے اس کی وجہ پر غور کیا جائے کہ ایسا کیوں ہے ۔
تو اس کے لئے حسین ؑ کو غور سے سمجھنا پڑے گا کہ حسین ؑ نے ایسا کیا کیا تھا کہ ہر حکومت سب کو تو اجازت دے دے مگر حسین ؑ کو یا اس کی یاد منانے والوں کو ان پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے ۔ تو ہم اس تحریر میں پوری تاریخ تو نہیں لکھ سکتے مگر دیکھتے ہیں کہ حسین ؑ کا راستہ اس وقت کی حکومت نے روکا تھا اور روٹ پرجانے کی اجازت نہیں دی تھی اور فکر حسین ؑ کی آواز کو دبانے کی کوشش کی تھی پانی پینے پربھی حکومت نے پابندی لگائی تھی تو حکومت کو کیا ضد تھی حسین ؑ سے
تومجموعی طور پر ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ حکومت نااہل لوگوں کی تھی اورحکمرانوں نے دین فروش علماء ، ضمیرفروش راویوں اور لاکھوں کی تعداد میں سپاہ اپنے ساتھ رکھنے کے باوجود اس خوف سے نہیں نکل پائے تھے کہ اگر حسین ؑ پرپانبدیاں نہ لگائیں تو ہماری یہ حکومت نہیں رہے گی لہذا حسین ؑ پر پابندیاں لگائی گئیں۔تب سے لیکر آج تک کے نااہل حکمرانوں کے دل سے وہ خوف ختم نہ ہو سکااور نہ ہی یہ خوف قیامت تک ختم ہوگا یہ چاہے جتنے بھی حکومتی پروٹوکول میں رہیں یا ادوار جتنے بھی ترقی یافتہ ہوں یا آئین کیسے ہی جدید کیوں نہ بنا لیں ۔حسین ؑ اور حسینیوں پر وہی پرانی پانی ، روٹ اورحسینی آواز پر پابندیا ںلگاتے رہیں گے ان کی نااہلی ان کے دلوں میں خوف بن کر ہمیشہ رہے گی اور یہ اپنے پیش روئوں کی طرح ہر دورمیں پابندیاں لگاتے رہیں گے ۔ اور دین فروش علما ء ، ضمیر فروش راویوں اور بااثر معاشرے کے افراد کو خرید کر مختلف معاہدے کرکے حسینیوں کو پابند کرنے کی کوششیں کرتے رہیں گے ابھی تو انہوں نے صرف خیرپور اور سکھرکے ضمیر اور دین فروشوں کو خریدا ہے ابھی سندھ بھر میں اور منڈیاں لگیں گی حکمرانوں کے خوف کو دیکھ کر تھوڑا سا اندازہ ہو رہا ہے کہ حسین ؑ نے کتنا شدید حملہ کیا تھا ان ظالموں پر کہ یزید کل کا خوفزدہ حکمران تھا اور یہ آج کے خوفزدہ حکمران ہیں ۔
جوظلم پہ لعنت نہ کرے آپ لعیں ہے
جوجبر کا منکر نہیں وہ منکردیں ہے
تحریر ۔۔۔۔۔عبداللہ مطہری
وحدت نیوز(آرٹیکل) اَشْهَدُ اَنَّكَ قَدْ اَقَمْتَ الصَّلوةَ وَآتَیْتَ الزَّكوةَ وَاَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَیْتَ عَنْ الْمُنْكَرِوَاَطَعْتَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ حَتّى اَتیكَ الْیَقینُ
''میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؑنے نماز قائم کی اور زکوۃ ادا کی ،امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا، اللہ اور رسول ﷺکی یقین کی حد تک اطاعت کی'' (زیارت وارث)
بہت پیاری ہیں وہ آنکھیں جنہیں سید الشہداء پر رونے کی سعادت نصیب ہوتی ہے اور پیارے ہیں وہ لب جنہیں ذکر محمد وآل محمد ؐ کرنے کی سعادت نصیب ہوتی ہے ۔ کربلا ہماری پہچان اور اس پہچان کی بقاء عزاداری سید الشہداء ہے۔ حسینیت ۔ایک تحریک مسلسل ہے ان استحصالی قوتوں کے خلاف جو انسانیت پر صدیوں سے مسلط ہیں۔حسینیت۔ایک ایساآفاقی پیغام ہے جو کئی صدیاں گزرنے کے باوجود بھی استحصال کا شکار ہےپاک معاشرےکے قیام کی جدو جہد کرنے والے سچے لوگوں کے لیے کوشش کی وہ عظیم راہیں متعین کرتا ہے جس پر چلنے والے مسائل کی کمی کے باوجود بڑی طاقتوں پر فتح حاصل کر لیتے ہیں۔ حسینیت ایک جہدمسلسل ہے ہر اس نظام کے خلاف جونظام الٰہی کے منافی ہو۔ واقع کربلا صرف آہ وبکا کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ تعلیم و تربیت کی ایک عظیم درسگاہ ہے۔ امام حسین ؑ کی قربانی کا یہ مطلب لینا کہ اس سےمحبان حسین، ؑ ادائیگی فرض سے آزاد ہوں گے قطعاًغلط اور ناقابل قبول ہے۔ عاشورا محرم فقط مظلوم کی مظلومیت کی یاد نہیں بلکہ ہمیں حق کی پیروی کا درس دیتا ہے۔ عاشورا، انقلاب اسلامی کا اصل ستون ہے۔ عاشورا نے ہمیں سکھایا ہے کہ دین کی بقا کےلئے جان دینی چاہیے اور قرآن کے راستے میں ہر چیز کو فدا کرنا ضروری ہے ۔ عاشورا محرم میں وحدت ، یکجہتی ، ایثار ، جہاد، رسالت اور توحید ہے۔ تاریخ کربلا ایک ایسا روشن چراغ ہےجو زمانے کی تندوتیزآندھیوں سے نہیںبجھ سکا۔ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ یزیدی قوتیںہمیشہ حق کے خلاف بر سر پیکار رہی ہیں اس لیےامام حسین ؑ کی محبت جو اسلام کی بقاء کی ضمانت ہے۔ ہم سے کچھ تقاضا کر رہی ہے اور یہ تقاضا یا ابا عبداللہ الحسینؑ کے استغاثہ سے ملتا ہے۔'' ھل من ناصر ینصرنا''
امام مظلومؑ آج بھی طالب نصرت ہیں کہ کون ہےجو دین حق کا حقیقی پیغام پہچاننے میں انکی مدد کرے۔
آج ہم عصر حاضر کی کربلا میں زندہ ہیں اور اس کربلا کا تقاضا یہ ہے کہ خود کو بیدار او ر آمادہ رکھا جائے ، ہر اس نظام کے خلاف جو نظام الٰہی اور اسلام ناب محمدی کے بر خلاف ہے۔ یہ راستہ آج بھی پر خطر ہے۔ یہ مشن آج بھی ہم سے قربانیاں مانگتاہےہمیں یہ سمجھنا ہے کہ کربلا وہ درس عبرت ہے جس سے حیات ابدی حاصل ہوتی ہے ۔ شہید کربلا کی اس عظیم تحریک میں خواتین نے اعلیٰ کردار کا مظاہرہ کیا بالخصوص ثانی زہراء ،زینب کبریٰ ؑ نے مقصدحسینؑ کو کربلا کے دشت و بیاباں سے لے کر پوری کائنات میں پھیلادیا۔اگر یہ عظیم بی بی افواج حسینی میں شامل نہ ہوتیں تو آج حسینیتؑ کہیں نظر نہ آتی۔ احسان عظیم ہے اس کریمہ بی بی کا جس نے ہمیں ظلم و باطل کے اندھیروں میں بھٹکنے سے بچا لیا اورامام حسینؑ اور کے اصحاب کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں ہونے دیا۔
اگرایک لمحے کیلئےسو چا جائے تو اندازہ ہوگا کہ اس بی بی نے تو حق ادا کردیاروشنی بکھیر دی اور منزل تک کاراستہ بتا دیا، حسینیت کو زندہ کر دیا لیکن کیا آج ہم اسی راستے پر میں؟
کیا منزل کو جانے والی راہ پر ہمارے قدم بڑھ رہے ہیں۔ میدان کربلا میں خواتین کی موجودگی ہمارے اور آئندہ نسلوں کے لیے ایک پیغام ہے اور وہ پیغام یہ ہے کہ جب دین کی نصرت کرنا چاہو تو وارثان چادر تطہیر کو اپنے لیے مشعل راہ بنائو اور ان سے راہنمائی حاصل کرو۔ مشن زینبؑ کی تکمیل کیلئے ضروری ہے کہ ہمارے اندر سیدہ زینبؑ کی زندگی کا عکس ہو ۔ ضروری ہے کہ پیروان زینبؑ آج کے دور کے تقاضوں کے مطابق اپنی زندگی کو الہی اصولوں کے مطابق گزاریںجو جناب سیدہؑ نے ہمیںدیئے ہیں۔
آئیے! کربلا کو زندہ رکھیں،نام سیدالشہداء کو زندہ رکھیں انکے زندہ رہنے سے اسلام زندہ رہے گا۔امامؑ نے ہمیں درس دیا ہے کہ ہمیشہ حق کے ساتھ رہیں تو آئیےہر اس نظام کے خلاف بر سر پیکار ہو جائیں جو طاغوت کا نظام ہے اور جو نظام الٰہی اور عدل الٰہی کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتاہمیں مظلوم کربلا کی عزاداری کے ساتھ ساتھ منتقم خون شہداءکربلا حضرت حجۃابن الحسنؑ سے عہد وفا کا وسیلہ بنانا ہو گا تاکہ
یا لیتناکی عملی تعبیر پیش کرتے ہوئے ہم عصر حاضر کے سچے حسینی اور مخلص کربلائی بن سکیں۔
تحریر۔۔۔۔۔خواہرقمرالنساء