وحدت نیوز(آرٹیکل) دوسری عالمی جنگ کے بعد استعماری طاقتوں کی پشت پناہی سے جہانِ اسلام کو ہمیشہ بحرانوں میں مبتلا کرنے اور ناامن رکھنے کیلئے عالم اسلام کے دل اور براعظم ایشیا اور افریقہ کے سنگم میں اسرائیل کی بنیاد رکھی گئی، دوسری طرف خطے کے ممالک میں ملٹری اور سول ڈکٹیٹرشپس (پولیس اسٹیٹس) قائم کی گئیں۔ عراق، شام، مصر اور لیبیا وغیرہ میں ملٹری نظام جبکہ خلیجی ریاستوں (سعودیہ، امارات، قطر و غیرہ) اردن اور مراکش میں پولیسی نظام قائم کیا گیا۔ استعماری قوتوں کے لئے ملٹری نظاموں اور پولیسی نظاموں ہر دو نے استعماری منصوبوں کی تکمیل کے لئے بڑی بڑی خدمات انجام دیں۔ ان دونوں استعماری نظاموں یعنی ملٹری نظام اور پولیسی نظام میں مندرجہ ذیل چند فرق تھے۔
1۔ ملٹری کا طاقتور ہونا اسرائیل کے وجود کے لئے خطرے کی علامت تھا، جبکہ اس کے برعکس پولیسی نظام فقط اپنے عوام کو دبانے پر مامور تھے۔
2۔ ملٹری نظام نسبتاً طاقتور ہونے کی وجہ سے بآسانی کنٹرول میں نہیں آتے تھے، جبکہ کمزور پولیسی نظاموں کا کنٹرول آسان تھا۔
3۔ ملٹری نظاموں سے جنگ، مقاومت و مقابلہ، وطن کا دفاع اور سرزمین سے تعلق جیسے مفاہیم نکالنا ناممکن تھا، جبکہ ایسی ادبیات اور ایسے مفاہیم پولیسی نظاموں کے لئے ثانوی حیثیت رکھتے تھے۔
مندرجہ بالا افتراقات کی بنا پر پولیسی نظام نے ثابت کیا کہ وہ استعماری مقاصد کے لئے بہت مناسب ہے۔ اس نظام سے استعمار کو کوئی خطرہ نہیں رہتا۔ اسی پولیسی نظام کی حامل ریاستوں سعودیہ، قطر اور امارات کی خطے کے امن کی تباہی اور اسرائیل کی بقاء اور دفاع کے لئے خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس لئے وہ نظام جو کسی وقت بھی اسرائیل کے وجود اور استعماری مقاصد اور تسلط کے لئے خطرہ بن سکتے تھے، انہیں پولیسی نظاموں کی مدد سے یا تو ختم کر دیا گیا یا کمزور اور مفلوج کر دیا۔
جب خطے میں تبدیلیاں آتی ہیں تو سب ممالک متاثر ہوتے ہیں۔ اسی لئے پاکستان بھی خطے میں آنے والی تبدیلیوں سے متاثر ہوا۔ وجوہات جو بھی ہیں، لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان کا کنٹرول ہمیشہ سے ملٹری کے ہاتھوں میں رہا ہے۔ انڈیا جیسے پاکستان کے وجودی دشمن کا بارڈر پر ہونا ایک مسلسل جنگی پالیسی کا متقاضی ہے، خواہ سافٹ جنگ ہو یا کولڈ وار یا ہاٹ وار یہ پاکستان کا مقدر ہے۔ اس لئے ملٹری کا طاقتور ہونا پاکستان کی ضرورت بھی ہے۔ پاکستان ایک اسلامی مملکت ہونے اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا مقروض ہونے کے ناطے غاصب اسرائیل کو قبول نہیں کرسکتا۔ اس لئے یہاں پر ملٹری کا طاقتور ہونا استعماری طاقتوں اور خطے میں انکے ایجنٹوں کے لئے بھی ناقابل قبول ہے۔ اس لئے مشرف حکومت کے خاتمے اور آئندہ کے پاکستان کا جو نقشہ کھینچا گیا، وہ ملٹری ڈیکٹیٹرشپ کی جگہ سول ڈکٹیٹرشپ کو مضبوط کرنا ہے، پاک آرمی کو کمزور کرنا انڈیا اور اسرائیل دونوں کے مفاد میں ہے اور یقیناً اسرائیل کا پشت پناہ مغربی بلاک اور خطے میں انڈیا اور اسرائیل کے دوست اسکی حمایت کریں گے۔ مذکورہ مقصد کے حصول کے لئے اس وقت پاکستانی ملٹری کو بیرونی محاذوں کے علاوہ تین اہم داخلی محاذوں پر الجھا دیا گیا ہے۔ ملٹری کے پروردہ اور ماضی و حال کے حلیف، دشمن نے سامنے لا کھڑے کئے ہیں۔
ان تین محاذوں کو یوں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔
1۔ تسلط پسند اور خود غرض سیاستدان:
ملک کی بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی، اے این پی اور جے یو آئی جمہوری اقدار اور جمہوری نظام کی رٹ لگا کر سول ڈیکٹیٹرشپ کی راہ ہموار کر رہی ہیں۔ انہیں امریکہ و مغربی بلاک، سعودیہ و خلیج اور انڈیا کی حمایت اور پشت پناہی حاصل ہے۔ ایک طرف اربوں اور کھربوں کی کرپشن میں ملوث ہیں، دوسری طرف بااثر اور بانفوذ ہونے کی وجہ سے قانون اور عدالت سے ماوراء کی منزل تک پہنچ چکے ہیں اور انکی پوری توجہ سول فورسز کی مضبوطی، دہشتگردوں اور اسمگلروں کی سرپرستی اور اپنی اپنی بادشاہتوں کے قیام کی طرف ہے۔
2۔ وطن کی غدار طاقتیں:
ملٹری کے لئے دوسرا چیلنج وطن کے وہ غدار ہیں، جو دشمنوں کی گود میں کھیل رہے ہیں۔ برملا پاکستان دشمن قوتوں سے مدد مانگ رہے ہیں کہ پاکستان اور پاک آرمی سے جنگ میں انکا ساتھ دیں اور انکا ایجنڈا ملک کی تقسیم اور بلوچستان اور دیگر علاقوں کی علیحدگی ہے۔ الطاف حسین اور براہمداغ بگٹی اور کئی ایک دیگر غدار اسکی مثالیں ہیں۔
3۔ تکفیری و دیوبندی دہشتگرد:
یہ دہشتگرد مغربی بلاک یعنی امریکہ، یورپ اور سعودی و خلیجی ممالک کی مدد اور پشست پناہی سے بننے والے ہمارے ماضی اور حال کے اسٹریٹجک اثاثہ جات اس وقت سب سے زیادہ خطرناک بن چکے ہیں۔ انہوں نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں شہید ہونے والوں سے زیادہ تعداد میں پاکستانی عوام کو قتل کیا ہے۔ انہی کے ہاتھوں سے سپاہی سے جنرل رینک کے آفیسرز شہید ہوئے۔ انہوں نے ملک میں خانہ جنگی کروانے کے لئے کبھی مذہب اور فرقہ اور کبھی دین کے نام پر عوام پر برملا حملے کئے۔ منظم طریقے سے بے بنیاد الزامات کی بنا پر 30 سال سے ایک فرقہ کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے سڑکوں پر، جلسہ گاہوں میں کافر کافر کے نعرے لگ رہے ہیں۔ ہمارے اندھے قانون میں نہ تو نقض امن کا مسئلہ بنتا ہے اور نہ کسی شہری کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہیں اور اس تکفیری فکر نے ایٹم بم سے خطرناک لاکھوں انسانی بم پیدا کئے ہیں، جو مساجد، امام بارگاہوں، ہسپتالوں، بازاروں، تعلیمی اداروں، پولیس، آرمی کی چھاؤنیوں اور مراکز میں ملک دشمن قوتوں کے اشاروں پر پھٹتے ہیں۔
پاکستان کے تمام بحران امن و امان کے حوالے سے ہوں یا سیاسی، اقتصادی ہوں یا معاشی، اجتماعی ہوں یا ثقافتی، اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو ان سب کا اصل سبب تکفیریت اور تنگ نظری ہے۔ جس ملک میں جان و مال اور ناموس خطرے میں ہو، وہاں نہ امن ہوگا نہ سرمایہ کاری، وہاں قربتوں کی جگہ نفرتیں جنم لیں گی۔نفرتوں کے ماحول میں قومی وحدت اور اتحاد ناممکن ہے اور دشمن بھی یہی چاہتا ہے۔ انہی تکفیری گروہوں نے جہانِ اسلام کی افواج کو کمزور کیا اور یہی تکفیری گروپ ہماری آرمی سے لڑ رہے ہیں۔ ہم ضرب عضب کے ذریعے دو سال سے جن تکفیری گروہوں کو ختم نہیں کرسکے، آج اگر سعودی عرب چاہے تو جس طرح الجزائر سے امریکہ کے کہنے پر تکفیری گروہوں کو حکم دیا اور وہ چلے گئے، پاکستان سے بھی انکا خاتمہ کرسکتا ہے۔ سعودی عرب اور خلیجی اگر آج امداد ختم کرنے اور پشت پناہی نہ کرنے کی پالیسی اختیار کر لیں تو ہماری یہ جنگ ختم ہوسکتی ہے۔
ملٹری مذکورہ بالا تینوں محاذوں پر نبرد آزما ہے۔ دوسری طرف سول اسٹیبلشمنٹ استعماری منصوبے یعنی ملٹری نظام کو سول ڈکٹیٹرشپ سے تبدیل کرنے کی ریہرسل میں مشغول ہے۔ دہشت گردی کا مسئلہ اس ریہرسل کے لئے بہترین میدان فراہم کرتا ہے، دہشتگردی کے خلاف جنگ کی ناقص پالیسی استعماری منصوبہ سازوں کی مزید مدد کرتی ہے۔ پاکستان دشمن قوتیں جب چاہتی ہیں اور جہاں چاہتی ہیں کارروائی کر دیتی ہیں۔ دہشتگرد اور انکے سہولت کار ہمارے فرسودہ نظام کا حصہ ہیں۔ سیاستدان، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدالتیں انہیں مدد کرتی ہیں اور جو قانون سازی انکے خلاف ہوتی ہے، اسے انکی دہشتگردی کا نشانہ بننے والوں یا مجبوراً دفاع کرنے والوں کے خلاف نافذ کیا جاتا ہے۔ پاکستانی پولیس کی پرانی روش ہے اور بعض اندھے قوانین سے استفادہ کرتے ہوئے جب کہیں قتل ہوتا ہے تو ہماری پولیس قاتل اور مقتول خاندانوں اور ان سے تعلق رکھنے والے دونوں طرف کے افراد کو بند کر دیتی ہے اور عموما اصل قاتل گرفتار نہیں ہوتے یا مفرور ہو جاتے ہیں اور بیگناہ لوگ تھانوں میں بند کر دیئے جاتے ہیں۔ انفرادی جرائم کو روکنے والی یہی ناقص پالیسی آج اجتماعی جرائم کو کنٹرول کرنے کے لئے بھی اپنائی گئی ہے۔
سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی یا طالبان کے سربراہان اور راہنماؤں کہ جنھوں نے 80 ہزار پاکستانیوں کو قتل کیا اور ان تنظیموں نے دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کی ذمہ داری بھی قبول کی، آج انکی جب فہرستیں بنیں تو قاتل و مقتول سے مساوی رویہ اختیار کرنے والی پولیس اسٹیٹ نے اجتماعی طور پر یہی ظالمانہ پالیسی اختیار کی اور ملک میں رواداری اور وحدت کی ترویج کرنے اور بلا تفریق دین و مذہب، اجتماعی و فلاحی خدمات انجام دینے والے علماء کو بھی ان فہرستوں میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے بقول دنیا بھر کے دہشگرد عراق و شام میں تباہی کے بعد ذلیل ہو کر پاکستان و افغانستان کا رخ کر رہے ہیں اور پاکستان کے مسائل میں اضافے کا خدشہ ہے۔ انڈیا اور دوست ممالک کے رویئے بھی اسی کی تصدیق کرتے ہیں اور ھبہ اور ھدیہ میں دی گئی اربوں ڈالرز کی خطیر رقم کی واپسی کا تقاضا ہوچکا ہے، جسے حکمرانوں نے ھدیہ اور ھبہ کہہ کر اپنی مرضی سے قومی انٹرسٹ کو دیکھے بغیر خرچ کیا اور کرسی کو مضبوط کیا اور اب پاکستانی غربت میں پسی ہوئی عوام کے بجٹ اور ٹیکسوں سے ادا کیا جائے گا۔ تکفیریت اور دہشتگردی کے خلاف جنگ ہو یا ملک کے غداروں کے خلاف یا ہوس پرست اور خود غرض سیاستدانوں کی حوصلہ شکنی، یہ سب کچھ عوامی حمایت کے بغیر ممکن نھیں۔ معتدل اہل سنت اور اہل تشیع کی حمایت اور قومی وحدت سے چیلنجز کا مقابلہ ممکن ہے، لیکن اگر ایک طرف دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ اور دوسری طرف حکمران طبقہ تشیع سے دشمنی کی پالیسی پر عمل پیرا رہا تو نتائج انتہائی خطرناک ہونگے۔
تحریر۔۔۔۔ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی
وحدت نیوز(ڈیرہ اسماعیل خان) مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ سید اقتدار حسین نقوی نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں وقت کے یزید اپنی اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک بار پھر وقت کی کربلا بپا کئے ہوئے ہیں، لیکن ان یزیدی قوتوں کے مقابلے میں حسین (ع) کا سچا بیٹا سید علی خامنہ ای پورے جہاں کے مظلومین کی امیدوں کا محور ہے، اور وقت کے یزیدیوں کیخلاف ڈٹا ہوا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقہ حاجی مورہ میں شہید خدا بخش کی برسی کی مناسبت سے منعقدہ مجلس عزا سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ، بھارت اور اسرائیل آج کے یزید کا کردار ادا کرتے ہوئے بے گناہ مسلمانوں کو شہید کررہے ہیں، یمن میں آل سعود نے دہشتگردی کا بازار گرم کر رکھا ہے، ان یزیدی قوتوں کا مقابلہ کرنے کیلئے مسلمانوں کو متحد ہونا ہوگا، ہمیں شیعہ، سنی کی تفریق کو ختم کرتے ہوئے اپنے ازلی دشمنوں کا پہچاننے کی ضرورت ہے۔
وحدت نیوز(کوئٹہ) یوم عاشور ایک ایسا دن ہے جب امام حسین علیہ السلام اور آل رسولؐ کو ظالموں نے کربل کے میدان میں شہید کیا تھا اور دختر رسول ؐ و علی ؑ کو اسیری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے سیکریٹری جنرل عباس علی نے سیدہ کونین و خواہر حسین بی بی زینب سلام اللہ علیہا کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب یزیدی فوج نے امام حسین ؑ کو میدان کربلا میں شہید کیا تو وہ بی بی زینب کو اسیر بنا کر دربار یزید میں لے گئے اور بی بی سلام اللہ علیہا کو بے شمار مصائب کا سامنا کرنا پڑا تھا ، جو ظلم یزید نے کیا وہ رہتی دنیا تک ظلم کی سب سے بد ترین شکل ہے اور اس ظلم کیلئے یزید کو شدید احتجاجوں کا سامنا آج تک کرنا پڑ رہا ہے۔ عباس علی نے کہا کہ امام حسین ؑ نے ہمیں میدان کربلا میں صبر، تحمل، اصل بندگی اور حق کا ساتھ دینے کا درس تو دیامگر اس درس کو بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے دنیا کے تمام افراد تک پہنچایا اور ہمیں پیغام حسینی سے آگاہ کیا۔ اگر بی بی زینب سلام اللہ علیہا اپنے اس عظیم مقصد میں کامیاب نہ ہو پاتی تو آج یزید دینِ خدا اور دینِ حق کی ایک الگ ہی تصویر ہم تک پہنچاتا اور مسلمانوں پر عذاب الٰہی نازل ہوتی۔وہ بی بی زینب سلام اللہ ہی تھی جنہوں نے ہمیں امام حسین علیہ السلام کے مقصد سے آگاہ کیا اور پیغام حسینی کو اس قدر عام کیا کہ آج دنیا کے ہر کونے میں امام حسین ؑ کے محبین اور عشقان اپنے عقیدت کے اظہار اور یزید کے خلاف احتجاج کیلئے گھروں سے باہر سڑکوں اور روڈوں پر نکل آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم واقعہ کربلا کا جائزہ لے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یزید کو حضرت امام حسین ؑکی ذات سے نہیں بلکہ انکے فکر اور اصلاحات سے عداوت تھی۔ حضرت امام حسین ؑ کی قربانیوں نے اسلام کو جو تقویت دی وہ رہتی دنیا تک قائم رہے گی لہذا کہا جا سکتا ہے کہ حضرت ؑ کی شہادت ایک شخص یا فرد کی نہیں ایک سوچ ، فکر اور نظریے کو شہید کرنے کی سازش ہے۔ یہ لوگ دین حق کو زندہ رکھنے کے لئے ہی توآئے تھے کربلا میں اور نماز کی برپائی ہی کے لئے تو اسیری قبول کی تھی،تاریخ کا دقیق مطالعہ کرنے سے یہ تمام مشکلات حل ہو جاتی ہیں۔بیان کے آخر میں جلوس عاشورہ کے دوران انتظامیہ کی جانب سے بہترین سیکورٹی اور انتظامات پیش کرنے پر انہیں تحسین سے نوازتے ہوئے کہا گیا کہ جلوس کے دوران انتظامات بہت اچھے تھے اور ہمیں امید ہے کہ انتظامیہ آئیندہ بھی ایسے ہی اچھے کارکردگی کا مظاہرہ کرتے رہیں گے اور سب سے بہترین انتظام یوں ہوگا کہ دہشتگردوں کے خلاف کاروائی کی جائے تاکہ ہمیں مستقبل میں حساس اور خراب حالات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ ہاشم موسوی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ بیت پیغمبرؐ کی مودت کو اجر رسالت قرار دیتے ہوئے اسے تمام مسلمانوں پر واجب کیا ہے اہلِ بیت اطہار ؑ کے ایام غم کو شایان شان طریقے سے منانا مودت و محبت کے مصادیق میں سے ایک ہے۔ یوم عاشورہ وہ عظیم دن ہے، جس میں اسلام کو بچانے کی خاطر اہل بیت پیغمبر ؐ اور ان کے اصحابؓ نے لازوال قربانیاں پیش کیں جسکی وجہ سے آج نمازیں، مساجد عبادات سمیت دین مبین اسلام زندہ وجاوید ہے، لہذا یوم عاشورہ ایام اللہ میں سے ایک اہم دن ہے جسکا یاد کرنا اور دوسروں کو یاد دلانا ضروری ہے۔ اس دن نکالا جانے والا جلوس کسی خاص مسلک یا قوم سے مخصوص نہیں ہے حتیٰ اس میں غیر مسلم بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی جلوس ہے جسکا روٹ مسلمہ طور پر طے شدہ ہے اس روٹ کو محدود کرنے کی باتیں تعصب اور فرقہ وارانہ سوچ پر مبنی ہے، ہم نے کسی مسجد کو بند کرنے یا تالہ لگانے کا مطالبہ کبھی نہیں کیا بلکہ ہمیشہ سے ہر فورم پر یہی مطالبہ کیا ہے کہ مساجد میں شیعہ سنی مشترکہ نماز جماعت کا اہتمام کیا جائے جس میں تمام شیعہ سْنی مسلمان اہل سنت امام جماعت کی اقتداء میں نماز ادا کریں تو مسلمانوں میں محبت واخوت پیدا ہو کر اتحاد بین المسلمین کو فروغ ملے گا۔ اس طرح کا بیان دینے کی بجائے مولانا فضل الرحمان سمیت تمام قومی لیڈرز اور خصوصاً اہلسنت علماء جلوس عاشورہ میں شرکت کر کے مسلمانوں میں اخوت ومحبت کا عملی پیغام دیں تاکہ مسلمان بھائیوں میں نفرتوں کا مکمل خاتمہ ہو کر وطن عزیز میں امن و امان قائم ہو سکے۔ دہشت گردی سے پہلے اہل سنت عوام بڑی تعداد میں جلوس ھاے عزاء میں شرکت کرتے تھے حتیٰ کہ بازار کی دکانیں بھی کھلی رہتی تھی لیکن دشمنان اسلام نے اتحاد بین المسلمین کے خاتمے کیلئے فرقہ وارانہ دہشتگردی کا آغاز کیا اور جلوس ھاے عزاء کو محدود کرنے کا مطالبہ کیا۔ جس کو کبھی پورا نہیں ہونے دیں گے۔
وحدت نیوز(مظفرآباد) مجالس و جلوسوں کی بھرپور سیکورٹی ، انتظامیہ کے اقدامات لائق صد تحسین ہیں ۔ان خیالات کا اظہار سیکرٹری سیاسیات مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر سید محسن رضا سبزواری ایڈووکیٹ نے کیا ، انہوں نے کہا کہ چیف سیکرٹری ،آئی جی پولیس، کمشنر صاحبان ڈویژن ہا،ڈپٹی کمشنر صاحبان اور ڈیوٹی دینے والے اہلکاران و آفیسران کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ، انتظامیہ کی بھرپور سیکورٹی سے کسی قسم کا کوئی نقصان واقع نہیں ہوا ۔ مجلس وحدت مسلمین اظہار اطمینان کرتے ہوئے آئندہ بھی انہی اقدامات کی امیدکرتی ہے ۔ سید محسن رضا نے اپنے مختصر اخباری بیان میں کہا کہ الحمد للہ آزاد کشمیر میں عاشورہ محرم بخیرو آفیت گزر گیا ۔ اس پر انتظامیہ کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔ انہوں نے اپنے کام بطریق احسن انجام دیا ۔ ہم دعا گو ہیں کہ خدا وند متعال ان کی اس ڈیوٹی کو اپنے حضور عبادت شمار فرمائیں ۔
وحدت نیوز(سکردو) مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکرٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی نے نیورنگاہ سکردو میں مجلس عزا سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کربلا ظلم کے خلاف قیام اور خدا کی خوشنودی کے لیے سب کچھ قربان کرنے کا نام ہے۔ دنیا میں ظالموں کے خلاف برسر قیام تحریکیں اور حریتیں پسند تحریکیں واقعہ کربلا کا نتیجہ ہے۔ کربلا نے مظلوموں کو ظالموں خلاف قیام کرنے کی جرائت بخشی ہے۔ انہوں نے کہا کہ معرکہ کربلا اتمام حجت ہے۔ اس واقعے کے بعد کسی کے لیے بہانہ نہیں رہتا کہ ظالموں کے ساتھ سمجھوتہ کرے۔ آغا علی رضوی نے کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام کو بھی واقعہ کربلا سے درس لیتے ہوئے اسلامی اور انسانی اقدار کو محفوظ کرنے کے لیے قیام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کربلا کسی تاریخی ایام کے منانے کا نام نہیں بلکہ تجدید عہد کا نام ہے۔ہمیں چاہیے کہ واقعہ کربلا سے درس لیتے ہوئے وقت کے ظالموں اور یزیدوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور کسی بھی سطح پر دین پر آنچ آنے کی صورت میں ظالموں سے سمجھوتہ نہ کرے۔ آغا علی رضوی نے کہا کہ محرم الحرام جیسے مقد س مہینے میں ایبٹ آباد اور کراچی میں امام باگارہ کے متولیاں کی ٹارگٹ کلنگ انتہائی افسوسناک اور قومی ایکشن پلان پر سوالیہ نشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں مجالس کے اجتماعات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے سیکیورٹی ادارے ٹھوس اقدامات اٹھائیں۔ عزاداران بھی سکیورٹی اداروں کے ساتھ بھرپورتعاون کرے۔