وحدت نیوز(لاہور) ایران وعراق سے وطن واپس آنے والے زائرین کی مشکلات حوالے سے مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکریٹری امورسیاسیات اور فوکل پرسن حکومت پنجاب برائے بین المذاہب ہم آہنگی سید اسدعباس نقوی کاوزیر صحت حکومت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد سے ٹیلیفونک رابطہ ۔
ڈاکٹر یاسمین راشد نے اسدعباس نقوی سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ کرونا وائرس کے خدشے کے بعد تفتان بارڈر سے زائرین کا پہلا کانوائے پنجاب پہنچ چکا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ بعض خدشات کے پیش نظر زائرین کو ڈیرہ غازی خان میں ٹھرایاگیا ہے ۔
انہوں نے کہاکہ تمام زائرین کے دوبارہ ٹیسٹ کیئے جارہے ہیں رپورٹس آنے کے بعد زائرین کے قیام کی مدت کا فیصلہ کیا جائے گا، اسدعباس نقوی نے ڈاکٹر یاسمین راشد سے کہاکہ زائرین کو تمام تر سہولیات کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ زائرین طویل سفر اور شدید مشکلات کا سامنا کرتے ہوئےیہاں تک پہنچے ہیں ۔
اسد نقوی نے کہاکہ مجلس وحدت مسلمین وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں سے مستقل رابطے میں ہے ، ایم ڈبلیوایم اور زائرین انتظامیہ کے ساتھ مکمل تعاون کررہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ حکومت بھی اس سلسلے میں اپنا بہترین کردار ادا کرتے ہوئے زائرین کو کم سے کم آزمائش میں ڈالے گی۔
ڈاکٹر یاسمین راشد نے اسدعباس نقوی کو یقین دہانی کروائی کہ زائرین کیلئے تمام نتظامات کھانے وغیرہ کے انتہائی مناسب ہیں امید ہے کہ آپ کو کم سےکم شکایت ہو گی اسکے علاوہ ہم نے گلگت بلتستان گورنمنٹ سے بھی گزارش کی ہے کہ وہ جی بی کے زائرین کو ائر لفٹ کرے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) پنجاب بورڈ آف انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈز کے چیئرمین سردار تنویر الیاس خان نے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے اعزاز میں ظہرانہ دیا۔جس میں ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید اسد نقوی اور پنجاب کے صوبائی ترجمان مظاہر شگری بھی شریک ہوئے۔ شرکائے ظہرانہ نے ملک کی مجموعی صورتحال اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال بھی کیا۔
مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ پاکستان کو چاہیئے کہ وہ اپنی برآمدات کےدائرہ کار کو مغربی ممالک تک محدود رکھنے کی بجائے اسے مشرقی ممالک کی جانب بھی بڑھائے۔روس اور چین کے ساتھ پاکستان کے تجارتی حجم میں اضافہ نہ صرف ہماری معیشت کے استحکام کا باعث بنے گا بلکہ اس سے مغربی ممالک پر ہمارا انحصار کم سے کم ہو گا اور ہمیں مغرب کے بے جا دباؤ سے بھی نجات ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ خوش قسمتی سے پاکستان کے جغرافیائی خدو وخال ہمیں اس مقصد کے حصول کے لیے سازگار اور بہترین تجارتی ماحول فراہم کرتے ہیں۔مذہبی شدت پسندی کا خاتمہ کر کے بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان میں حوصلہ افزا مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں ۔
سردار تنویر الیاس خان نے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی آمد پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئےمعاشی اصلاحات کے لئے ان کے وژن کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے معاشی استحکام جُز اول ہے۔ معیشت کی بہتری کے لیے مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ کی تجاویز بلاشبہ عالمی حالات کے تناظر میں مدلل اور ٹھوس ہیں جن پر عملی اقدامات ہونا چاہیئے ۔
وحدت نیوز(لاڑکانہ) مجلس وحدت مسلمین ضلع لاڑکانہ کے زیراہتمام یونٹ کھوکھر اور یونٹ شاھ نواز شر میں منعقدہ جشن مولود کعبہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ مولا علی ع کی مجاھدانہ زندگی ہم سب کے لئے مشعل راہ ہے آپ ع نے 13 سال کی عمر سے جہاد فی سبیل اللہ کا آغاز کیا اور مشرکین مکہ کے ظلم و ستم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور 63 سال کی عمر میں صفین و نہروان میں باطل کے خلاف جنگ کی قیادت کی۔ آپ ع کی محبت اور دشمنی کا معیار اللہ تعالی کی ذات تھی۔ آپ ع نے ہمیشہ اپنے ذاتی دشمن کو معاف کیا مگر دشمنان خدا سے مقابلہ کیا۔
انہوں نےکہا کہ آج امریکہ اور اسرائیل نے اللہ تعالی اور اس کے دین کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے لہذا عاشقان خدا ان ظالموں کے مقابلے کے لئے بے خوف ہوکر میدان میں آئے ہیں۔ دنیا بھر میں بم دھماکے قتل و غارت اور فتنہ انگیزی کے پیچھے امریکہ اور اسرائیل کا ہاتھ ہے۔ داعش جیسی دھشت گرد تنظیم بنا امریکہ اسرائیل اور آل سعود نے یہ ثابت کردیا کہ وہ انسانیت کے دشمن ہیں۔
انہوں نےکہا کہ اس وقت سامراج دشمن انقلابی تحریک عالمی رخ اختیار کر چکی ہے جس نے عالمی استعماری طاقتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اسی لئے وہ قاسم سلیمانی اور مہندس ابومہدی کو قتل کرتے ہیں اور نائیجیریا کے ابراہیم زکزاکی کی جیل میں ڈالتے ہیں۔ عصر حاضر کے حسینی کربلا والوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وقت کی یزیدی قوتوں کے مقابل کھڑے ہیں۔ اس موقع پر مجلس وحدت مسلمین ضلع لاڑکانہ کے سیکرٹری جنرل برادر عبدالرزاق جلبانی مولانا مشہدی بھی ان کے ہمراہ تھے۔
وحدت نیوز(رحیم یارخان) مجلس وحدت مسلمین اور شیعہ علماء کونسل ضلع رحیم یار خان کے رہنماؤں کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا، جس میں دونوں جماعتوں نے قومی امور پر ایک ساتھ چلنے کے عزم کا اظہار کیا۔ اجلاس حیدری ٹرسٹ ضلع رحیم یار خان میں ہوا، جس کی میزبانی ایم ڈبلیو ایم اور صدارت ایس یو سی نے کی۔
اجلاس میں مجلس وحدت مسلمین کے ضلعی سیکریٹری جنرل سید حسنین رضا نقوی، ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید مجاہد عباس نقوی، سید قیصر عباس شیرازی، تحصیل سیکریٹری جنرل سید اختر حسین شمسی سبزواری جبکہ ضلعی صدر شیعہ علماء کونسل سید علمدار شاہ، سیکریٹری جنرل سید آصف نقوی اور غلام شبیر موجود تھے۔
اس موقع پر طے پایا کہ ضلع میں امن امان اور تمام مکتب فکر سے مل کر ملک اور قوم کی بہتری کے لیے کام کیا جائے گا، خاص کر کرونا واٸرس کی روک تمام اور ایران، عراق سے آنے والے زائرین کی نگرانی کے عمل کو آسان بنانا، حکومت کے ساتھ ملکر زاٸرین امام حسین علیہ سلام کو اپنے گھروں تک پہنچانے میں مدد کرنا، کانواۓ کے عمل کو بروقت اور آسان بنانااور ان لوگوں کا تعقب کرنا جو ملک اور قوم کے دشمن ہوں۔
پورے ضلع میں دونوں تنظیمیں مل کر ملت تشیع کی ہر طرح سے خدمت کو اپنا اپنا فرض سمجھتےہوئے قوم و ملت کے ہر مشکل وقت میں انکے ساتھ ہونگی اور انکے مساٸل کو بھی حل کرنے کی کوشش کرینگی اور بہت جلد دونوں جماعتوں کے رہنماء مل کر پورے ضلع کا دورہ کریں گے۔
سیدعلمدار شاہ نے اس موقع پر کہا کہ ہم مل کر ملک اور قوم کے دشمنوں کو بے نقاب کریں گے، جبکہ سید حسنین رضا کا کہنا تھا کہ ملک اور قوم کا دشمن جس روپ میں بھی ہو ہم اسے برداشت نہیں کرینگے اور اب وقت ہے کہ تمام شیعہ قوم کے ذمہ دارن ملکر اپنے ان دشمنوں کا مقابلہ کریں جو ہماری صفوں میں گھس کر اپنے مفادات کیلیۓ قوم و ملت کا نقصان کر رہے ہیں۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کےمرکزی سیکرٹریٹ میں پیس کونسل کے عہدیداران اور کوٹ مومن سوشل ویلفیئرکے ذمہ داران کی مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی ایڈووکیٹ سے ملاقات،باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال ۔
اس موقع پر ناصرعباس شیرازی نے پیس کونسل کے عہدیداروں کو ان کے انتخاب پر مبارکباد پیش کی اور ملی وحدت اور بین المسالک و بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے مجلس وحدت مسلمین کے تعاون کی یقین دہانی کروائی ۔وفد میں پیس کونسل فرانس کے ذمہ دار شاہد گوندل سمیت درجنوں عہدیداران شریک تھے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس فلسطین کی تاریخ میں پندرہ مئی یوم نکبہ یعنی فلسطینی سرزمین کے صہیونیوں کے ناپاک ہاتھوں میں غصب ہونے کا دن ہے اسی طرح تیس مارچ کو فلسطینی عرب سرزمین مقدس فلسطین کا دن مناتے ہیں یعنی ’’یوم ارض فلسطین‘‘ منایا جاتا ہے۔ جہان پندرہ مئی کو یون نکبہ یعنی تباہی و بربادی کا بد ترین دن کے عنوان سے دنیا بھر میں فلسطینی و غیر فلسطینی قو میں مناتی ہیں, وہاں فلسطینی مظلوم ملت سے یکجہتی کے لئے تیس مارچ کو یوم ارض فلسطین نہ صرف مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں منایا جاتا ہے, بلکہ فلسطین سے باہر پوری دنیا میں اس دن کو فلسطینی ارض مقدس کے دن کے عنوان سے یاد رکھا جاتا ہے۔ یوں تو فلسطینی عوام پر برطانوی سامراج کی سرپرستی میں ڈھائے جانے والے صہیونیوں کے مظالم کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ان مظالم کی تاریخ ایک سو سال سے زیادہ پر محیط ہے البتہ فلسطین کی سرزمین مقدس پر صہیونیوں کی ناجائز ریاست اسرائیل کے قیام کو اب سنہ2020ء میں 72وال سال مکمل ہو جائے گا اور ان بہتر سالوں میں گزرنے والا ایک ایک دن فلسطین کی مظلوم ملت پر قیامت سے کم نہیں گزرا ہے۔
چاہے صہیونیوں کی جانب سے فلسطین پر قبضہ کے ایام ہوں یا پھر قبضہ کے بعد کے ایام ہوں ۔ تاریخ کے اوراق صہیونی ظالموں کے ظلم سے بھرے پڑے ہیں۔ جہاں ایک طرف صہیونیوں نے فلسطین پر اپنے ناجائز قبضہ کو مکمل کرنے کے لئے کسی قسم کے ظلم اور زیادتی سے گریز نہیں کیا ہے وہاں فلسطینی ملت مظلوم کی شجاعت اور استقامت میں بھی ان مظالم کے سامنے کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوئی ہے ۔ فلسطینی عربوں کی جد وجہد کی تاریخ بھی صہیونیوں کے مقابلے میں اسی وقت سے جاری ہے کہ جب سے عالمی استعماری قوتوں کی ایماء پر فلسطین پر قبضہ کی ناپاک منصوبہ بندی کی گئی تھی اور فلسطینیوں کی یہ جد وجہد آ ج بھی اسی طرح جاری و ساری ہے۔ پندرہ مئی سنہ 1948ء میں فلسطین پر صہیونیوں کی جعلی ریاست کے قیام کے وقت سے صہیونیوں نے فلسطینی عربوں کو ان کے وطن یعنی فلسطین سے نکال باہر کرنا شروع کر دیا تھا اور یہ سلسلہ کئی سالوں تک جاری رہا اور نتیجہ میں دسیوں ہزار فلسطینی اور ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو فلسطین سے نکال باہر کیا گیا جو پڑوسی ممالک میں زمینی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے مہاجرین کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوئی اور آج فلسطینیوں کی تیسری نسل شام، لبنان، اردن اور مصر میں مہاجرین یعنی فلسطینی پناہ گزین کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔
فلسطین کے اندر باقی رہ جانے والے فلسطینیوں نے امید کا دامن ہاتھ سے کبھی جانے نہیں دیا ہے ۔ فلسطین کے عرب باشندوں نے ہمیشہ سے فلسطین پر صہیونی ریاست کے تصور کو جعلی قرار دیا ہے اور اس کے خلاف سینہ سپر رہے ہیں۔ یعنی خلاصہ کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ فلسطینیوں نے جد وجہد آزاد ی جاری رکھی ہے اور اس آزادی کا بنیادی ہدف جہاں فلسطین کی صہیونیوں کے شکنجہ سے آزادی ہے وہاں غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی نابودی ہے ۔ جد وجہد آزادی فلسطین کے لئے فلسطین کے عرب باشندوں نے باقاعدہ صہیونیوں کا مقابلہ کیا ہے اور اس کی مثال فلسطین میں موجود اسلامی مزاحمت کی تحریکیں حماس، جہاد اسلامی، پاپولر فرنٹ اور دیگر شامل ہیں جو مسلسل اسرائیل کے ناپاک وجود کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ دوسری طرف فلسطین سے جبری طور پر جلا وطن کئے جانے والے فلسطینی عربوں نے بھی اپنا جہاد فلسطین واپسی کے نعرے کے ساتھ شروع کر رکھا ہے اور یہ سب کے سب فلسطینی چاہتے ہیں کہ فلسطین اپنے وطن فلسطین واپس جائیں تا کہ فلسطین میں آباد ہو ں نہ کہ ان کو دیگر ممالک میں در در کی ٹھوکریں کھانی پڑیں۔
فلسطینیوں کے حق واپسی کا نعرہ یا اعلان ایک ایسا مضبوط نعرہ ہے کہ جسے عالمی استعماری نظام بالخصوص امریکہ اور اس کے حواری کسی طرح بھی دبانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں۔ فلسطینی عوام کا حق واپسی ایک ایسا بنیادی انسانی حق ہے کہ جسے نہ تو دنیا کے عالمی ادارے مسترد کر سکتے ہیں اور نہ ہی دنیا کی کوئی حکومت ا سکے خلاف جا سکتی ہے۔ امریکہ نے فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کو دبانے کی خاطر نام نہاد امن فارمولہ جسے صدی کی ڈیل کہا جا رہا ہے کو متعارف کرایا ہے لیکن یہ صدی کی ڈیل سامنے آنے سے پہلے ہی فلسطینیوں کے واپسی کے حق کے نعرے کے سامنے ماند پڑ چکی ہے اور عنقریب نابود ہونے والی ہے۔ یہ بات انتہائی قابل ذکر ہے کہ فلسطینیوں کے حق واپسی کا نعرہ سنہ 2011ء کے بعد سے شد ومد کے ساتھ بلند ہو اہے جس کی ماہرین کی نگاہ میں ایک بنیادی وجہ سنہ2011ء میں ایران کے دارلحکومت تہران میں ہونے والی بین الاقوامی حمایت فلسطین و انتفاضہ کانفرنس بعنوان ’’فلسطین ، فلسطینیوں کا وطن‘‘ ہے۔
فلسطین کے سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سنہ2011ء میں اس کانفرنس میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے مسئلہ فلسطین کا ایک ایسا منصفانہ حل پیش کیا ہے کہ جس کے بعد نہ صرف فلسطینی تحریکوں میں بلکہ فلسطینیوں کے حق واپسی کی ایک نئی تحریک نے جنم لیا ہے جو امریکہ سمیت صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے لئے مصیبت سے کم نہیں ہے۔ اس منصفانہ حل کے مطابق فلسطین فلسطینی عربوں کا وطن ہے کہ جو سنہ1948ء سے قبل اور اس وقت تک فلسطین کے باسی تھے اور ان فلسطینیوں میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائی فلسطینی اور ایسے یہودی فلسطینی شامل ہیں کہ جو فلسطین کی شناخت کے ساتھ اس سرزمین مقدس پر زندگی بسر کر رہے تھے تاہم صہیونیوں نے نہ صرفر فلسطین کے مسلمانوں کو جبری ہجرت پر بھیجا بلکہ مسیحی اور فلسطینی یہودیوں کو بھی فلسطین سے بے دخل کیا۔ تاہم فلسطینی عربوں کا حق ہے کہ وہ فلسطین واپس آئیں اور فلسطینی عوام ایک ریفرنڈم کے ذریعہ اپنے نظام حکومت کا فیصلہ کرے ۔ یعنی فلسطینی فلسطین واپس آئیں اور جو یہودی اور صہیونی دنیا کے دیگر ممالک سے لا لا کر فلسطین میں آباد کئے گئے تھے وہ اپنے اپنے وطن میں واپس جائیں یا یہ کہ اگر فلسطین کی حکومت یعنی فلسطینی کی شناخت کے ساتھ فلسطین میں زندگی بسر کرنا چاہیں تو یہ فیصلہ بھی فلسطینی عوام کو کرنا ہے اور ان کی اجازت سے ہونا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کے حق واپسی کی تحریک نے سنہ2011ء سے تیزی کے ساتھ سفر طے کرنا شروع کیا جس کے نتیجہ میں سنہ2012ء میں دنیا بھر کے تمام بر اعظموں سے تعلق رکھنے والی قوموں نے تیس مارچ یوم ارض فلسطین کے موقع پر فلسطین کی چاروں زمینی سرحدوں پر مارچ کیا اور سب کا نعرہ ایک ہی تھا کہ ’’واپسی فلسطین ‘‘یعنی ;82;eturn to ;80;alestien ۔ گذشتہ دو برس سے فلسطینیوں نے حق واپسی مارچ کا نئے انداز سے آغاز کیا ہے اور فلسطینیوں کا ایک ہی نعرہ اور مقصد ہے کہ فلسطینیوں کی فلسطین واپسی۔ اب یوم ارض فلسطین کے موقع پر اس تحریک کو مکمل دو سال ہو نے کو ہیں لیکن امریکہ اور اسرائیل سمیت استعماری قوتیں فلسطینیوں کے عزم اور ارادوں کو کمزور کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں اور اس کی سب سے بڑی دلیل امریکی صدر کے فلسطین سے متعلق یکطرفہ فیصلوں اور اعلانات کی ناکامی ہے۔ بہر حال اقوام عالم اس بات کو اچھی طرح سمجھ چکی ہیں کہ فلسطینیوں کی تقدیر کا منصفانہ حل یہی ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کا وطن قرار پائی اور صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے قائم کرنے والے صہیونی اپنے اپنے وطن اور زمینوں پر لوٹ جائیں۔ فلسطینیوں کی واپسی حق ہے اور اس امر سے دنیا کی کوئی طاقت بھی نظر چرانے کی طاقت نہیں رکھتی۔
تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاءونڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی