وحدت نیوز(ڈیرہ اللہ یار) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی اور صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ برکت علی مطہری نے ڈیرہ اللہ یار بلوچستان میں سید شبیر علی شاہ کاظمی کے فرزند کی سنت اور رضا آباد میں ظہیر حسین انڑ کی شادی تقریب میں شرکت کی۔ اس موقعہ پر ایم ڈبلیو ایم کے رہنما سید گلزار علی شاہ ،غلام حسین شیخ ،جمعہ خان ،شمن علی حیدری ،سید کامران شاہ و دیگر موجود تھے۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ نکاح سنت موکدہ اور نسل انسانی کی بقاء کا سبب ہے۔ پاکیزہ معاشرے کی تشکیل کے لئے نکاح کو آسان بنانا ہوگا۔ جہیز اور شادی کی تقریبات میں موجود فضول اور غیر شرعی رسومات کو ختم کرنا ہوگا۔

انہوں نےکہا کہ سندھ اسمبلی کی جانب سے شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ تعجب ہے کہ کچھ لوگ بچیوں کے گھروں سے بھاگ کر کورٹ میرج کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے رہے ہیں آج ایک ہندو لڑکی کے اس عمل پر معترض ہیں۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے مرکزی سیکریٹریٹ سے جاری بیان میں کہاکہ یہ خبر سن کر دلی صدمے سے دوچار ہوا ہوں کہ ٹریفک حادثہ میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ہمارے انتہائی ہردل عزیز ایم ڈبلیو ایم کے رہنما آقائے نشان حیدرکے چار بھتیجے زخمی ہوگئے جن میں سے ایک بھتیجا داعی اجل کو لبیک کہہ گیا، دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ آقائے نشان علی اور اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے اور زخمیوں کو جلد از جلد شفا کاملہ وعاجلہ عطا فرمائے(الٰہی آمین) ، مومنین و منات سے زخمیوں کی جلد صحتیابی کیلئے دعا کی اپیل ہے۔

وحدت نیوز(ٹنڈوغلام علی) مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین یونٹ ٹنڈو غلام علی کی سیکرٹری جنرل محترمہ سکینہ کی جانب سے سائیں غلام رسول شاہ کی رہائشگاہ پر جشن ولادت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کا انعقاد ھوا جس میں مقامی بچیوں نے نذرانہ عقیدت ہیش کیے اور آخر میں محترمہ فضہ نقوی نے خطاب کیا اور سیرت خاتون جنت بی بی فاطمہ پرروشنی ڈالتے ہوے کہا کہ جناب فاطمہ زھرا ؑ کی حیات اگرچہ مختصر تھی لیکن ان کے کردار کا ہر پہلو تمام عالم کی خواتین کے لیے ایک مکمل نمونہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر ہم بی بی کی حیات طیبہ کا ایک پہلو بھی اپنی زندگی میں شامل کر لیں تو ہماری زندگیاں بدل جائیں، اختتام پر بی بی سیدہ ؑ کی ولادت کا کیک کاٹا گیا۔

وحدت نیوز(جیکب آباد) سیرت علی نجات بشریت کے عنوان سے  اصغریہ آرگنائزیشن پاکستان کا ڈویژنل اجلاس اھل البیت ؑپبلک اسکول جیکب آباد میں منعقد ہوا۔ اجلاس کی درسی نشست سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے امام علی علیہ السلام کی سیاسی اور اجتماعی زندگی میں نجات بشریت کا پیغام ہے آپ نے اقتدار کی بجائے اقدار کی سیاست کی۔ امام علی ع نے اقدار اور اصولوں کی خاطر کرسی اور اقتدار کو ٹھکرادیا۔

انہوں نےکہا کہ ریاست مدینہ کے دعویداروں کو سیرت نبوی ص اور سیرت علوی سے رہنمائی لینی چاہئے۔ ریاست مدینہ کا درس یہ ہے کہ بیت المال کو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونا چاہئے حکمرانوں کی آسائش اور عیاشی پر نہیں۔انہوں نےکہا کہ وطن عزیز پاکستان قدرتی وسائل اور مختلف نعمتوں سے مالا مال ہے مگر صالح قیادت نہ ہونے کی وجہ سے ملک ترقی نہیں کر رہا ریاست مدینہ کا بنیادی اصول یہی ہے کہ منصب اور عہدے ذاتی تعلق اور رشتوں پر نہیں بلکہ اھلیت اور صلاحیتوں کی بنیاد پر ملیں گے۔ انہوں نےکہا کہ ریاست مدینہ کے دعویداروں کو ممتاز علماء اور مفکرین کی رہنمائی میں سیرت نبوی اور سیرت علوی کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ تاکہ کھوکھلے نعروں سے نکل کر ریاست مدینہ کی حقیقی تصویر قائم کی جا سکے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) ابھی تک بھی ترکی سے خیر کی توقع رکھنے والے اور فلسطین کی آزادی کے لئے اس سے امیدیں لگائے بیٹھے قارئین کے لئے چند ایک تاریخی حقائق پیش کر رہے ہیں. تاکہ وہ مخصوص میڈیا کی پروپیگنڈہ مہم اور بین الاقوامی حالات سے بے خبر رہنے والے سیاستدانوں کے دھوکے میں نہ رہیں. رجب طیب اردوان کہتا ہے کہ " وہ ہمیشہ کے لئے فلسطین کا دفاع کرے گا جیسے سلطان عبدالحمید نے دفاع کیا تھا "حالانکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے اس وقت اگر سلطان عبدالحمید یہودیوں کو فلسطین کی سرزمین کی طرف ھجرت کی اجازت نہ دیتا اور سہولت کار نہ بنتا اور مالی امداد نہ کرتا تو آج اسرائیل کا وجود ہی نہ ہوتا۔

ترکی نے فلسطین کی سرزمین پر قائم ہونے والی صیہونی ریاست اسرائیل کو قائم ہونے  کے ایک سال بعد مارچ 1949 میں ہی رسمی طور پر قبول کر لیا تھا.

1957 میں پہلا اسلامی ملک ترکی ہی تھا کہ جس نے اسرائیل کے سربراہ بن غوریون کا اپنی سرزمین پر استقبال کیا. 1958 میں اسرائیل کے وزیراعظم  ڈیوڈ بن غوریون اور ترکی وزیراعظم عدنان مندریس کے مابین انتہاء پسندی اور مشرق وسطی میں روسی نفوذ کا مقابلہ کرنے کے معاہدے پر دستخط ہوئے.


1986 میں ترکی نے اپنے سفارتکار تل ابیب ، اسرائیل میں تعینات کئے. اور 1991 میں دونوں ممالک کے مابین سفراء کی سطح کے تعلقات قائم ہوئے. اگست 1996 میں دونوں ملکوں کے مابین عسکری تعاون کے معاہدے ہوئے. جس کے تحت مشترکہ بری ، بحری  اور فضائی فوجی مشقیں اور ڈائیلاگ وغیرہ شامل ہیں.

ترکی اسرائیل ساخت اسلحہ کا خریدار بھی ہے جن میں جنگی جہاز ، ٹینک اور توپخانے شامل ہیں.

یکم جنوری 2000 میں ترکی اور اسرائیل کے مابین ڈیوٹی فری تجارت کا معاہدہ طے پایا.

اردوان کا دور حکومت اور ترک اسرائیل تعلقات

جب اردوان کی پارٹی حزب عدالت وترقی نے نومبر 2002 کو اقتدار حاصل کیا. تو اردوان نے فورا امریکہ کا سفر کیا وہاں یہودی لابی اور امریکی حکام سے ملاقاتیں کیں اور تعلقات استوار کئے اور انہیں اعتماد میں لیا. بالخصوص ان سے ملا جو اکثر یہودی تھے. کہ جن میں  بول وولویٹز ، ورچرڈ بیرل نائب وزیر دفاع شامل ہیں .

مارچ 2003 میں جب عراق پر امریکہ نے قبضہ کیا تو ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردوان  نے پوری کوشش کی کہ امریکہ کے ساتھ ملکر عراق میں مداخلت کرے لیکن ترکی پارلیمنٹ نے انکار کردیا.

جون 2004 کو مشرق وسطیٰ کے وسیع البنیاد امریکی  منصوبے کے سربراہی اجلاس میں اردوان نے شرکت کی. اور امریکہ وترکی کے باھمی تعاون سے خطے کا نیا روڈ میپ بنانے پر تعاون وہمکاری اور ترکی کی حزب عدالت وترقی کی حکومت کو ایک اسلامی ڈیموکریٹک لیبرل نظام بطور نمونہ خطے میں متعارف کروانے کی کوشش پر اتفاق ہوا.

25 جنوری 2004 امریکی یہودی کانفرنس تنظیم AJC نے اسے تمغہ شجاعت سے نوازا گیا .  اس کے بعد اردوان کے یہودی لابی کے تمام اداروں سے تعلقات بڑھنے لگے.

مئی 2005 کو اردوان نے اسرائیل کا دورہ کیا. اور اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون نے انکا بڑا پر تپاک استقبال کرتے ہوئے کہا " اسرائیل کے ابدی دارالحکومت قدس شہر میں خوش آمدید " اردوان نے جب اس بات پر کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا تو اسے اپنے سابق سربراہ نجم الدین اربکان کی سخت  تنقید کا سامنا کرنا پڑا.  " جس نے اس پر امریکہ ویہودی لابی اور عالمی صہیونیت کا ایجنٹ ہونے کا الزام بھی لگایا "

10 جون 2005 کو امریکی یہودی ادارے ADL نے بھی اردوان کو نشان شجاعت سیاسی کا تمغہ عطا کیا.  

15 فروری 2006 کو حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل نے انقرہ کا دورہ کیا. اردوان نے بذات خود امریکا اور اسرائیل کے ڈر سے اس سے ملنے سے اجتناب کیا. اس وقت کے وزیر خارجہ عبداللہ گل نے وزارت خارجہ آفس کی بجائے اپنی پارٹی کے دفتر میں اس سے ملاقات کی. اور اسے نصیحت کی کہ اسرائیل کے خلاف عسکری عمل کو ترک کر دیں.  اور یہ دور حماس کی فلسطینی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد کا تھا.

13 نومبر 2007 کو اسرائیل کے صدر پیریز کو ترکی کے دورے کی دعوت دی. اور یہ پہلا اسرائیلی صدر تھا کہ جس نے ترک پارلیمنٹ سے خطاب کیا.

اردوان نے دمشق اور تل ابیب کے مابین تعلقات قائم کرانے اور شدت کو کم کرنے کے لئے کوششیں کیں لیکن اسرائیلی وزیراعظم اولمرٹ نے اسے دھوکا دیا اور 27 دسمبر 2008 کو غزہ کے خلاف جنگ شروع کر دی.

2009 کو ترکی نے اسرائیل کی کمپنی کو شام ترکی سرحدی علاقے سے بارودی سرنگیں صاف کرنے کا ٹھیکہ دیا.

پھر 31 مئی 2010 کو اسرائیل نے اہل غزہ کی امدادی سامان لانے والے سفینہ مرمرہ پر بھی حملہ کر دیا. اور 10 ترکی باشندے بھی مارے گئے.  جس سے ترکی واسرائیل کے تعلقات خراب ہوئے.  

امریکی صدر اوباما نے 22 مارچ 2013 کے اسرائیلی دورے کے وقت اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کو راضی کیا کہ وہ اردوان کو فون کرے. اور مرمرہ سفینے پر حملے کرنے کی معذرت بھی کرے.

معذرت کے بعد دونوں اطراف نے آپس میں مل بیٹھ کر مسئلے کو رفع دفع کیا. 10 اپریل 2016 کو اسرائیل نے کہا کہ جن خاندانوں کا جانی نقصان ہوا ہم اسکی تعویض یا خون بہا نہیں بلکہ فقط 20 ملین ڈالرز مالی امداد دیں گے. جس کے مقابل میں اسرائیل کے خلاف جتنے بین الاقوامی عدالتوں میں کیسز ہیں وہ واپس لینے ہونگے.  

اسرائیل اور ترکی کا سال 2018 میں تجارتی حجم تقریبا 6 ارب ڈالرز پہنچ چکا تھا. اور اس سال تین لاکھ بیس ھزار اسرائیل باشندوں نے سیاحت کے عنوان پر ترکی کا سفر بھی کیا.

ترکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ترکی صدر کے فرزند براق اردوان کے بحری جہاز ترکی سے سامان اور عراق کرد علاقوں کا پٹرول اسرائیل منتقل کرتے ہیں.  اور اسرائیل کے زرعی بیج اور مصنوعات بھی ترکی کی منڈی میں بکتے ہیں.  

9 مئی 2018 کو انقرہ میں قائم اسرائیلی سفارتخانے میں اسرائیل کے قیام کے 70 سال پورے ہونے کا جشن منایا جس میں ترک وزیر خارجہ سمیت اعلی ترک حکام نے شرکت کی.

داعش کے سوریہ کے علاقوں سے نکالے جانے والے پٹرول کا خریدار اور بلیک مارکیٹ میں بیچنے والا بھی ترکی ہے.

جب عرب بہار کے نام پر خطے میں اسرائیل کی خاطر حالات خراب کئے گئے اور جنگیں مسلط کی گئیں. تاکہ سوریہ ، ایران اور حزب اللہ اور فلسطینی مقاومت کو کچلا جا سکے. تو امریکہ کی سرپرستی میں جو اتحاد تشکیل پائے اور اس میں فرانس ، برطانیہ سمیت یورپی ممالک اور خطے کے ممالک میں سعودی عرب ، قطر ، امارات ، اسرائیل اور سرفہرست ترکی تھا. اور خطے کی تباہی وبربادی میں اور بے گناہ  انسانوں کے قتل عام میں ترکی کا بنیادی کردار رہا ہے. اور سب سے زیادہ تکفیری دھشتگرد ترکی کے ذریعے عراق وشام میں وارد ہوئے.  اور ٹریننگ واسلحہ کی سپلائی بھی ترکی کے ذریعے ہوئی.

جاری ہے ۔۔۔۔۔


تحریر: علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

وحدت نیوز(مقدس مقدس) سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصرعباس جعفری حفظہ اللہ نے امام رضا (ع) کے روضے پر تولیت آستان قدس رضوی کے سربراہ حجت الاسلام احمد مروی کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کی۔

ایرانی کےتاریخی شہر مشہد مقدس کے دورے پر آئے ہوئے علامہ راجہ ناصرعباس جعفری حفظہ اللہ نے پیر کے روز علامہ "احمد مروی" کے ساتھ ملاقات کی۔

علامہ مروی نے اس ملاقات کے دوران کہا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی کی آرزوتھی کہ امریکہ، ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل اور رجعت پسندوں کے ذریعہ بنائی جانے والی داعش کے دہشت گردوں کا خاتمہ کرسکیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ غلط فہمی کا شکار تھا کہ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے ساتھ مزاحمت کی راہ کو بند کردے گا مگر اس واقعے کے بعد مسلمانوں کے درمیان باہمی اتحاد بڑھ گیا۔

علامہ راجہ ناصرعباس جعفری حفظہ اللہ نے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر تعزیت کا اظہار کرتے ہوئےکہا کہ شہید قاسم سلیمانی سردار لشکر اسلام تھے، ان کی شہادت نے مقاومتی محاذ کو پہلے سے زیادہ مضبوط ومستحکم کردیا ہے ۔

انہوںنے مزید کہاکہ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت نے دنیا بھر کے غیور مسلمانوں میں امریکہ کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ کردیا ہے، شہید کا پاکیزہ لہو امت مسلمہ کے درمیان اتحاد ویکجہتی کا باعث بنا ہے جس کے ثمرات ہم نے پاکستان میں بھی ملاحظہ کیئے ۔

 سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصرعباس جعفری حفظہ اللہ نے تولیت آستان قدس رضوی کی جانب سے پاکستانی زائرین کے لئے فراہم کی جانے والی سہولیات کی تعریف کی۔

Page 54 of 1478

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree