وحدت نیوز(گلگت) امریکہ ایران کشیدگی کے حوالے سے پاک فوج کا بیان متوازن ہے ۔ برادر اسلامی ملک ایران کے سپہ سالار سردار قاسم سلیمانی اور ابو مہدی مہندس کی شہادت پوری مسلم دنیا کیلئے باعث فخر وافتخار ہے ۔ رہبر معظم سید علی خامنہ ای کو سردار قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر تعزیت پیش کرتے ہیں ۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواتین کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید ہ نرگس سجاد، مرکزی سیکرٹری یوتھ خواہر سائرہ ابراہیم و دیگر رہنماؤں نے پریس کانفرنس میں بغداد میں امریکی جارحیت کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں ایران نے امریکہ کی ناک زمین پر رگڑ دی ہے اور اپنی اس خفت سے امریکی عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے سردار قاسم سلیمانی اور ابومہدی مہندس پر چھپ کروار کیا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ مسلم ممالک امریکی جرائم سے آگاہ ہوچکے ہیں اور آنے والے دنوں میں باہمی اتحاد سے امریکہ اور اسرائیل کو نابود کردینگے ۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ ایران کشیدگی کے حوالے سے پاک فوج کے موقف کی تائید کرتی ہیں اور مشرق وسطیٰ کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال میں افواج پاکستان کا بیان حوصلہ افزاہے ۔ پاکستان کی سلامتی ہماری پہلی ترجیح ہے اور پاک فوج نے دانشمندانہ فیصلہ کیاہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ دشمن نے مسلمانوں کے خلاف کوئی قدم اٹھایا تو پوری طاقت سے جواب دیا جائیگا ۔ انہوں نے گلگت بلتستان اسمبلی کے آئندہ انتخابات کے حوالے سے کہا کہ الیکشن صاف اور شفاف منعقد کروائیں جائیں اور گلگت بلتستان حکومت خواتین کے حقوق پر توجہ دے ۔ انہوں نے قراقرم یونیورسٹی میں طلباء کی فیس معافی اسکیم کو دوبارہ بحال کرنے کا بھی مطالبہ کیا ۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) ہماری نوجوان نسل اس بات سے واقف ہی نہیں کہ پاکستان کے پہلے تیس سال ایران و پاکستان ’’یک جان دو قالب‘‘ تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد جس ملک نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا، اس کا نام ایران ہے۔سب سے پہلے پاکستان کا دورہ بھی ایران کے حکمران نے کیا۔ ہم ایک دوسرے کے اتنے قریب تھے کہ یہاں تک بھی باتیں ہوئیں کہ ہم دونوں ملک خود کو ایک ملک تصور کریں۔ پاکستانیوں اور ایرانیوں کا ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا عام تھا۔ ہماری آپس میں رشتے داریاں تھیں۔ ایرانیوں کی قربت کی بڑی وجہ شاید یہ تھی کہ انگریزوں کی آمد سے پہلے برصغیر میں فارسی کا چلن عام تھا۔
پاکستان کے پہلے صدر اسکندر مرزا کی اہلیہ کا تعلق ایران سے تھا پھر پاکستان کے پہلے مقبول ترین وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اہلیہ محترمہ نصرت بھٹو کا تعلق بھی ایران ہی سے تھا۔ ایران کے کئی محکموں کے افراد کی ٹریننگ پاکستان میں ہوا کرتی تھی۔ ایرانیوں کی قربت کی بڑی وجہ شاید یہ تھی کہ انگریزوں کی آمد سے پہلے برصغیر میں فارسی کا چلن عام تھا۔برصغیر پر طویل ترین حکمرانی کرنے والے مغل حکمران فارسی بولتے تھے۔ ان کی کتابیں تزک تیموری، تزک بابری اور تزک جہانگیری فارسی ہی میں تو ہیں۔تصوف سے شناسائی رکھنے والے افراد مغل شہزادے دارا لشکوہ کی کتاب سکینۃ الاولیاء سے خوب واقف ہیں۔
پاکستانیوں اور ایرانیوں کی محبت اور بھائی چارے کا سفر جاری تھا کہ پانچ جولائی 1977ء کا وہ دن آ گیا جب پاکستان میں ایک آمر نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر جہاں پاکستان میں انسانی آزادیوں کو پابند سلاسل کیا، وہیں ہمیں ہمارے کئی پیاروں سے دور کر دیا۔یہی وہ موسم تھا جب ایرانی پاکستان سے دور ہو گئے۔ پچھلے بیالیس سال سے کئی موسم گزر گئے مگر وہ پہلے جیسی محبت قائم نہ ہو سکی۔ اس میں حالات کی سنگینی کا دخل بھی ہے اور ضیاء الحق کی روحانی اولاد کا قصور بھی۔حکومتیں کس قدر اثر انداز ہوتی ہیں، شاید اس کا اندازہ عام آدمیوں کو نہیں ہوتا ورنہ یہ کیسے ہو گیا کہ ہمارا پورا قومی ترانہ ہی فارسی میں ہے اور ہم فارسی بانوں سے اتنے دور ہو گئے۔ ہم نے ایرانیوں کو ہندوستان کی طرف دھکیلا کیونکہ ہم نے اپنے دروازے بند کر لئے تھے۔ خیر یہ ایک لمبی بحث ہے اس پر کئی کالم لکھے جا سکتے ہیں۔کبھی موقع ملا تو کئی سچائیاں آپ کے سامنے لاؤں گا فی الحال جنرل قاسم سلیمانی کی بات کرتے ہیں جن کی شہادت سے حالات نے ہچکولے کھانا شروع کر دیئے ہیں۔
قاسم سلیمان اس وقت پیدا ہوا جب پاکستان اور ایران شیر و شکر تھے۔بہار کے دنوں میں گیارہ مارچ 1957ء کو صوبہ کرمان کے ایک گاؤں میں قاسم سلیمانی ایک کسان کے ہاں پیدا ہوا، وہ بارہ سال کا تھا کہ گاؤں چھوڑ کر شہر آ گیا، گاؤں چھوڑنے کے لئے دل نہیں مانتا تھا مگر حالات دل کی کہاں مانتے ہیں سو حالات قاسم سلیمانی کو کرمان شہر میں لے آئے۔قاسم سلیمانی کچھ عرصہ ایک مستری کا شاگرد رہا پھر کرمان واٹر آرگنائزیشن میں کنٹریکٹر بن گیاوہ کچھ عرصہ ایک مستری کا شاگرد رہا پھر کرمان واٹر آرگنائزیشن میں کنٹریکٹر بن گیا۔ کام کاج سے فارغ ہوتا تو جم چلا جاتا اور راتوں کو امام خمینی ؒ کے خطابات سنتا۔
1979ء میں انقلاب ایران کے بعد قاسم سلیمانی پاسداران انقلاب کا حصہ بن گیا۔ابتدا میں اس نے شمال مغربی ایران میں کرد علیحدگی پسندوں کا صفایا کیا۔ 80کی دہائی میں عراق کے خلاف جنگ میں اس نے 41 ویں ڈویژن کی کمانڈ کی۔ انہوں نے عراقی فوج سے ایران کے کئی علاقے خالی کروائے۔ یوں پاسداران انقلاب میں وہ تیزی سے نام بنانے والے کمانڈر بن گئے۔
80کی دہائی میں قاسم سلیمانی پاکستانی جنرل اسلم بیگ سے بڑی عقیدت سے ملے۔ انہوں نے صدام حسین کو ہٹانے میں بھی کام دکھایا۔ وہ عراق اور شام میں داعش کی پسپائی کا باعث بھی بنے۔امریکی حکام جنرل قاسم سلیمانی سے بہت تنگ تھے کیونکہ وہ خطے میں بچھائی ہوئی امریکہ کی ہر بساط کو لپیٹ کر رکھ دیتے تھے۔ جنرل قاسم سلیمانی ایرانیوں میں ایک ہیرو کے طور پر جانے جاتے تھے، وہ بیرون ملک ایرانی دشمنوں سے لڑنے والے مشہور تھے۔قاسم سلیمانی نے مشرق وسطیٰ میں ایک ماہر فوجی حکمت کار کے طور پر بہت نام کمایا۔
جنوری 2011ء میں ایرانی راہبر علی خامنہ ای نے قاسم سلیمانی کو میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دیتے ہوئے انہیں زندہ شہید قرار دیا۔ جنرل قاسم سلیمانی نے مشرق وسطیٰ میں ایک ماہر فوجی حکمت کار کے طور پر بہت نام کمایا۔پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے سربراہ اکثر و بیشتر ایران سے باہر آس پاس کے ملکوں میں سفر پر رہتے تھے۔ شہادت سے پہلے تین بار 2006ء، 2012ء اور پھر 2015ء میں یہ افواہیں سامنے آئیں کہ جنرل قاسم سلیمانی کو شہید کر دیا گیا ہے۔ کم گو اور دھیمے لہجے میں گفتگو کرنے والے جنرل قاسم سلیمانی کو قدامت پسند حلقے بہت پسند کرتے تھے۔
کچھ عرصہ پہلے وہ دوستوں سے یوں مخاطب ہوئے کہ ’’میں فرزند کربلا ہوں، شہادت میری آرزو ہے‘‘۔شہادت کی آرزو کرنے والے کو جمعہ تین جنوری کی صبح شہادت مل گئی۔ وہ بیروت میں حزب اللّٰہ کے سربراہ سید حسن نصر اللّٰہ سے مل کر بائی روڈ دمشق پہنچے، دمشق سے عام پرواز پر بغداد پہنچے اور پھر بغداد ان کے لئے مقتل ثابت ہوا۔قطر کے العدید ایئر بیس سے اڑایا گیا ’’ہیل فائر ننجا میزائل‘‘ ڈرون کی صورت میں ان کی گاڑی کو لگا۔ اس منصوبے کی نگرانی امریکی ریاست نیواڈا کے ایئر بیس سے کی گئی۔قاسم سلیمانی گریٹر اسرائیل کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔
امریکیوں اور اسرائیلیوں کی کافی عرصے سے یہ خواہش تھی کہ وہ جنرل قاسم سلیمانی کو راستے سے ہٹا دیں کیونکہ قاسم سلیمانی گریٹر اسرائیل کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔طلسماتی شخصیت کے مالک، اعلیٰ فوجی حکمت کار قاسم سلیمانی نے شیعہ سنی کے جھگڑے میں پڑے بغیر عراق، شام اور فلسطین جیسی غیر شیعہ ریاستوں کا دفاع کیا، عراق، لبنان، شام، فلسطین اور یمن میں ملیشیائوں کو طاقتور بنایا، انہیں جنگی حکمت عملیاں سکھائیں۔
ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ راجہ ناصر عباس بتاتے ہیں کہ ’’پاکستانی قیادت نے جب یہ کہا کہ ایران پر حملہ ہوا تو ہم غیر جانبدار رہیں گے، اس پر جنرل قاسم سلیمانی بولا کہ اگر پاکستان پر حملہ ہوا تو ہم اپنا خون دیں گے، پاکستان کیلئے شہید ہونا میرے لئے باعثِ افتخار ہے‘‘۔ بقول اقبال
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
تحریر: مظہربرلاس
بشکریہ روزنامہ جنگ
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ایران امریکہ تنازع پروفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے پالیسی بیان پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس بزدلانہ اور قومی وقار کے منافی قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا ہے موقع پرست اور پیٹھ میں چھرا گھونپنے والے ملک امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایک مخلص دوست کو نظر انداز کرنا بصیرت و دانش سے عاری اقدام ہے۔ اس طرح کے بیانات ہمیں مخلص دوستوں سے دور اور عالمی سطح پر تنہا کر دیں گے۔
انہوں نے کہاکہ دنیا کی کوئی بھی باشعور اور مہذب قوم جنگ کی حمایت نہیں کرتی لیکن عالمی امن کو یقینی بنانے کے لیے وہ ہاتھ کاٹنے ضروری ہیں جو دوسرے کو گریبانوں تک پہنچنے میں خود کو آزاد سمجھتے ہوں۔حکومت کے خودمختاری اور بیرونی دباو¿ سے آزادی کے دعوے عوامی اجتماعات تک ہی محدود ہیں۔عالمی ایشوز پر حکومتی موقف عوامی خواہشات کی ترجمانی نہیں کرتا۔
ان کا کہناتھاکہ جنرل قاسم سلیمانی عالم اسلام کے ایک عظیم مجاہد اور برادر مسلم ملک ایران کی ایک بااثر شخصیت تھے۔ ان کی شہادت پر حکومتی سطح پر تعزیت کا اظہار اخلاقی،سفارتی اور مسلمان ہونے کے ناطے شرعی تقاضہ تھا لیکن امریکی ہیبت نے مقتدر شخصیات کی زبانوں میں لکنت پیدا کر دی جس نے ہمیں عالمی سطح پر شرمسارکیا۔
انہوں نے کہا کہ کوا لالمپور سمٹ میں پاکستان کے شرکت سے انکار کی واحد وجہ بیرونی دباؤتھا۔ ناکام خارجہ پالیسی کے سبب ہمیں اقوام عالم کے سامنے متعدد بار رسوائی اٹھانا پڑی۔وزیر خارجہ کے ماضی کے فیصلوں سے بھی یہ حقیقت عیاں ہیں کہ انہیں ملک و قوم کے وقار سے زیادہ امریکی مفادات عزیز ہیں۔وہ کسی بھی صورت امریکہ کی ناراضگی کو مول نہیں لے سکتے۔
انہوںنے کہاکہ ایک آزاد نظریاتی ریاست کے وزیر خارجہ کی یہ بے بسی ان کے منصب کے شایان شان نہیں۔اگر وزیر خارجہ عالمی ایشوز اور امت مسلمہ کو درپیش مشکلات پر ٹھوس، جرات مندانہ اور ملک و قوم کے وقار سے ہم آہنگ موقف اختیار کرنے کی پوزیشن میں نہیں تو انہیں اپنے عہدے سے الگ ہو جانا چاہیے۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی نے ہنگو کے نوجوان اعتزاز حسن بنگش کی چھٹی برسی کے موقع پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک و قوم کا دفاع کرنے والے نوجوان اس قوم کا فخر اور حقیقی ہیرو ہیں۔اعتزاز حسن نے اپنی جان پر کھیل کر دہشت گردی کی جس کاروائی کو ناکام بنایا اگر دہشت گرد اس میں کامیاب ہو جاتے تو پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ باب کا مزید اضافہ ہو جاتا۔
انہوں نے کہا کہ وطن عزیز میں دہشت گردانہ کاروائیوں کا سب سے زیادہ نقصان پاک فوج اور ملت تشیع کو اٹھانا پڑا۔ہمارے باصلاحیت نوجوانوں اور ماہرین کو چن چن کر قتل کیا گیا۔لیکن شیعہ قوم نے ہمیشہ پاکستان کی سربلندی اور استحکام کو مقدم سمجھتے ہوئے اس کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔شہید اعتزاز حسن نے اس حقیقت کو سچ کر دکھایا کہ شیعہ قوم پاکستان کا مضبوط دفاع ہے اورمادر وطن کی سلامتی کے لیے جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت امت مسلمہ کو عالمی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ دنیا کے ہر مسلم ملک کو امریکہ نے میدان جنگ بنایا ہوا ہے اور وہ سفارتی و اخلاقی آداب کی پرواہ کیے بغیر دوسروں کی خودمختاری کو پامال کرتا آگے بڑھ رہا ہے۔ایسی صورتحال میں عالم اسلام کو باوقار کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔اعتزاز حسن کی شہادت ہمارے لیے نمونہ بھی ہے اور اس عزم کا اظہار بھی کہ دشمن چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو اسے ناکام بنانے کے لیے عملی قدم اٹھانا ضروری ہے چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے
وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر افتخار حسین نقوی نے کہا ہے کہ ایران امریکہ تنازعے میں پاک فوج کا ردعمل متوازن اور حالات کے عین متقاضی ہے۔پاکستان کی زمین کو ایران کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کا عسکری اعلان نہ صرف عوامی امنگوں کا عکاس ہے بلکہ خطے کی سالمیت اور استحکام کی ضمانت بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں پاک افغان جنگ سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے۔اسی ہزار افراد امریکہ کی بھڑکائی ہوئی دہشت گردی کی آگ میں جل کر راکھ ہو گئے۔پاکستانی معیشت کو تباہی کے دھانے پر پہنچانے کی ذمہ دار وہ عالمی قوتیں ہیں جن نے پاکستان میں بدامنی پیدا کر کے یہاں بیرون سرمایہ کاری کے راستے مسدود کیے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے بھیانک کردار ادا کر رہا ہے۔ایران کے جنرل قاسم سلیمانی پر حملہ امریکی بربریت کی بدترین مثال ہے جس پر پوری دنیا سراپا احتجاج ہے۔ دنیا کے متعدد ممالک ایران کے جنرل کی شہادت کے المناک واقعہ پر دکھ کا اظہار کر چکے ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کی جمہوری حکومت اپنے پڑوسی ملک سے تعزیت کرتے ہوئے شش و پنج کا شکار ہے۔خود انحصاری اور داخلی خودمختاری کا دعوی کرنے والے وزیر اعظم عمران خان ”امریکی ڈکٹیشن“ کے تابع نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر افتخار نقوی نے کہا کہ بیرونی مداخلت سے پاک بنانے کا خواب چکنا چور ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔عوام نے تحریک انصاف کی حکومت سے جو امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں وہ ساری سمندر کے جھاگ کی طرح ماند پڑتی جا رہی ہیں۔عمران خان کے اعلانات محض زبانی دعووں تک محدود ہو کررہ گئے ہیں۔ جو حکمران اپنی مرضی سے اپنے کسی برادر اسلامی ملک سے اظہار افسوس کرنے کا بھی حق نہیں رکھتا وہ عالمی سطح پر مسلمانوں کی نمائندگی کیسے کر سکتاہے۔
ان کا مزیدکہناتھاکہ ایران کے معاملے میں سفارتی و خارجی سطح جو کردار حکومت کو ادا کرنا چاہیے تھا وہ ادا نہیں کیا گیا۔یہود و نصاری کی خوشنودی کے لیے مخلص برادر ممالک کی ناراضگی مول لینا غیر دانشمندانہ فعل ہے۔حکومت یہ بات ذہن نشین کر لے کہ بصیرت سے عاری فیصلے مقبولیت کے مینار کو زمین بوس کر دیا کرتے ہیں ۔
وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین نے حکومت پر واضح کیا ہے کہ ایران کیخلاف امریکہ کو پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے، بصورت دیگر بھر پور مخالفت کی جائیگی۔ پاکستان اس معاملے پر ایران کی مدد کرے،امریکہ نے بغداد ایئرپورٹ پر القدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی، حشد الشعبی کے کمانڈر ابومہدی المہندس سمیت دیگر 8 افراد کو شہید کرکے تاریخی غلطی کی ہے جس کا خمیازہ امریکہ کو جلد بھگتا پڑے گا۔ان خیالات کا اظہار علامہ عبدالخالق اسدی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پنجاب نے وحدت ہاؤس میں ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔اس موقع پر رائے ناصر علی، سید سجاد نقوی، شیخ عمران، نجم عباس خان، محمد خان مہدوی اور ملک مظہر حسین اعوان سمیت دیگر ذمہ داران بھی موجود تھے۔
علامہ عبدالخالق اسدی نے کہا کہ ایران اور امریکہ کی موجودہ صورتحال کے باعث جہاں علاقے میں کشیدگی بڑھ گئی ہے وہیں عالمی سطح پر بھی جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ہم اس امریکی حملے کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکی کی اس غلطی نے دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اب مشرق وسطیٰ میں صورتحال بدلنے جا رہی ہے۔ اس سے اسرائیل کا بھی صفایا ہوگا اور مشرق وسطیٰ کے ممالک سے امریکہ کو بھی بوری بستر گول کرنا پڑے گا،وطن عزیز پاکستان میں حکومت کی جانب سے کمزور خارجہ پالیسی اور اس عالمی دہشت گردی پر خاموشی نے پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا ہے،امریکی وزیر خارجہ کے مطالبات پر عسکری حکام کے دو ٹوک موقف نے عوامی امنگوں کی ترجمانی کی ہے،پاکستان کے سیاسی حکمران ہمیشہ ملکی مفادات سے زیادہ امریکی مفادات کی تحفظ کو ترجیح دیتے آئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم ایک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود کوئی آزاد خارجہ پالیسی کو نہ اپنا سکے،افغانستان جیسے کمزور ملک نے بھی اس جارحیت کی مذمت کی لیکن ہمارے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اپنے آقاؤں کے سامنے بے بس دکھائی دئیے اور پاکستانی غیور قوم کی توہین کی جس کی ہم پر زور مذمت کرتے ہیں۔
علامہ عبدالخالق اسد ی نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی نے اپنی خواہش کے مطابق شہادت کا درجہ پا لیا ہے۔ ان کی شہادت نے نہ صرف ایران اور عراق کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے بلکہ قاسم سلیمانی کی شہادت نے پوری امت کو متحد کر دیا ہے، امت جان گئی ہے کہ ہمارا دشمن مشترک ہے، دشمن شیعہ دیکھتا ہے نہ سنی، قاسم سلیمانی کے لہو سے امریکہ کے ہاتھ رنگین ہیں، اب امت مسلمہ جان چکی ہے کہ امریکہ کی دشمنی ایران سے نہیں بلکہ اسلام سے ہے۔ اور اب وقت آ گیا ہے کہ امریکہ کو اسلام دشمنی کا سبق سکھایا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بات عیاں ہے کہ پاکستان امریکہ و اسرائیل کا نشانہ ہے، سی پیک کے معاملے سے بھی امریکہ پریشان ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ایران کیساتھ پاکستان کو بھی اپنا ہدف بنائے ہوئے ہیں، بھارت کی طرف سے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی تیاریاں کئی روز سے ہم دیکھ رہے ہیں جبکہ منظر ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ انڈیا سے پاکستان پر حملہ کروایا جائیگا اور ایران پر امریکہ کی جانب سے جارحیت کی باتیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہی ہیں۔
علامہ عبدالخالق اسدی نے کہا کہ پاکستان کو کھل کر ایران کی حمایت کرنی چاہیے، جنرل قاسم سلیمانی نے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کو نکیل ڈالی ہوئی تھی اور اس کے ناپاک عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے، مگر امریکہ یاد رکھے کہ اس نے صرف ایک قاسم سلیمانی کی کو شہید کیا ہے، دنیا کے ہر ملک میں ہزاروں قاسم سلیمانی موجود ہیں جو امریکہ کے ناپاک عزائم کی تکمیل نہیں ہونے دیں گے۔ مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال میں پاکستان کو دوٹوک موقف اپنانا چاہیے اور بزدل امریکہ کی بجائے بہادر ایران کا ساتھ دینا چاہیے، ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ نے کبھی ہماری مدد نہیں۔