وحدت نیوز(ملتان) مجلس وحدت مسلمین پاکستان ملتان کے سیکرٹری جنرل علامہ سید اقتدار حسین نقوی نے کہا ہے کہ پاکستان کے ہمسایہ ملک ایران میں آنے والے انقلاب کو صرف ایران کا انقلاب نہیں بلکہ اسلامی انقلاب تھا اسی طرح امام خمینی (رح) صرف ایران کے رہنما نہیں تھے بلکہ عالمی رہنما تھے جن کی کوششوں اور کاوشوں کے نتیجے میں انقلاب رونما ہوا جس نے پاکستان سمیت پوری دنیا کی اسلامی تحریکوں میں ایک نئی جان ڈال دی، ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے خانہ فرہنگ ملتان میں انقلاب اسلامی ایران کی 35ویں سالگرہ کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ علامہ اقتدار نقوی کا مزید کہنا تھا کہ ایران کی سرزمین پر آنے والے اسلامی انقلاب نے دنیا بھر کی آزادی کی تحریکوں کو یہ پیغام دیا کہ شہنشاہیت اور ظلم دیرپا نہیں ہوتا صرف جوانمردی، ہمت اور شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے حقوق کے لیے میدان عمل میں آنے کی ضرورت ہے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) پاکستان کی عوام شروع دن سے ہی حکمرانوں کی گڈ گورننس نہ ہونے کی وجہ سے بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں اور ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تمام طبقات، گروہوں، اداروں کو ملکر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ پوری دنیا کی توجہ اس وقت پاکستان کے محروم و مظلوم عوام کی طرف ہے اور اس مستضعف ملت کو مسائل سے نکالنے کے لیے ہماری مدد و نصرت کرنا چاہتی ہے، ہمیں ان کا اعتماد کاموں میں عمدگی، شفافیت، پختگی اور بھرپور ہم آہنگی و وحدت کے ساتھ حاصل کرنا ہوگا۔ ملت کا درد رکھنے والے تمام فلاحی اداروں کو ملکر قوم کی حالت بہتر بنانے کے لیے منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے شعبہ ویلفیئر خیرالعمل فاﺅنڈیشن پاکستان کے مسئول نثار علی فیضی نے فلاح و بہبود کے ضلعی، ڈویژنل و صوبائی مسئولین کی دو روزہ تربیتی ورکشاپ کے اختتام پر منعقدہ سیمینار بعنوان ملت کی تعمیر اور فلاحی اداروں کا کردار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
سیمینار سے جابر بن حیان ٹرسٹ کے کرنل (ر) علی نقی نقوی، حسینی فاﺅنڈیشن پاکستان کے بریگیڈئر (ر) زمرد حسین، انجمن وظیفہ سادات کے علامہ ذوالفقار جعفری، جعفریہ ویلفئیر فنڈ کے مولانا فرحت عباس کاظم اور مارفعی فاﺅنڈیشن کے نمائندہ نے بھی خطاب کیا۔ مقررین نے اپنے اداروں کا تعارف کروایا اور خیرالعمل فاﺅنڈیشن پاکستان کے اس اقدام کو خوب سراہا اور مستقبل میں رفاہی کاموں کے سلسلے میں بہتر ہم آہنگی و معاونت کا اعادہ کیا۔ خیر العمل فاﺅنڈیشن پاکستان کے جانب سے اہتمام کردہ اس دو روزہ تربیتی ورکشاپ میں گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا، ریاست کشمیر اور پنجاب بھر سے فلاح بہبود کے مسئولین نے شرکت کی۔ پروگرام میں انسانیت کی خدمت اسلام کی نظر میں، اسلامی شخصیات و خدمت خلق، خیرالعمل فاﺅنڈیشن کا تعارف، کیس سٹڈی، بین الاقوامی فلاحی ادارے، لیڈر شپ، موٹیویشن، کمیونیکیشن اینڈ رپورٹ رائٹنگ، اکاونٹنگ اینڈ آڈیٹنگ اور میڈیا کے موضوع پرسربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ ناصر عباس جعفری، علامہ حسین عباس گردیزی، علامہ شیخ شفاء نجفی، علامہ سید مظاہر موسوی، علامہ احمد نوری، وقار حیدر خان، زین حسن، ارسلان زیدی، فرخ زیدی اور دیگر نے خطاب کیا۔
وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل و مرکزی ترجمان علامہ حسن ظفر نقوی نے کہا ہے کہ پاکستان تاریخ کی بدترین صورتحال سے گزر رہا ہے۔ دہشت گردی کے سائے پاراچنار سے کراچی تک منڈلا رہے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس دن بے گناہوں کا خون نہ بہایا جاتا ہو۔ بظاہر تو سب دہشت گردی کی مذمت کرتے نظر آتے ہیں لیکن جب آپریشن کی بات آتی ہے تو مختلف طریقوں سے اُنہیں محفوظ کارنر دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یعنی اس طرح کے بیانات اور گفتگو کی جاتی ہے کہ جن سے دہشت گردوں کی پشت پناہی اور حمایت نظر آتی ہے اور بعض اوقات ایسا بھی لگتا ہے کہ ان دہشتگردوں کا سیاسی چہرہ یہ لوگ ہیں اور ان دہشتگردوں کے بارے میں ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے کہ یہ ہمارے اپنے لوگ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو 70 ہزار لوگ شہید کر دیئے گئے وہ کس کے لوگ ہیں؟ اگر یہ دہشت گرد اور انتہاپسند اپنے لوگ ہیں تو کراچی میں جن کے خلاف آپریشن ہو رہا ہے وہ کس کے لوگ ہیں۔؟ جو سندھ میں علیحدگی کا نعرہ لگاتے ہیں وہ کس کے لوگ ہیں؟ اگر دہشت گردوں کو اپنے ہی لوگ کہا جائے تو سارے ہی اپنے لوگ ہیں۔؟ ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے مجلس وحدت مسلمین وحدت یوتھ کے مرکزی دفتر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر مرکزی سیکرٹری وحدت یوتھ سید فضل عباس نقوی، ضلعی سیکرٹری جنرل علامہ سید اقتدار حسین نقوی اور میڈیا کوارڈینیٹر ثقلین نقوی موجود تھے۔
علامہ حسن ظفر نقوی نے مزید کہا کہ کراچی میں آپریشن کی بات کی جاتی ہے تو ہم نے سب سے پہلے آپریشن کی حمایت کی کہ فوجی آپریشن کیا جائے اور تمام پارٹیوں نے کہا کہ وہاں بدامنی ہے آپریشن کیا جائے کیونکہ وہاں بدامنی ہے، لیکن دوسری جگہوں پر جہاں بدامنی ہے وہاں آپریشن کی بات کی جاتی ہے تو اُن کی سیاست کیوں بدل جاتی ہے؟ اُن کا رویہ کیوں بدل جاتا ہے؟ جنہیں دہشت گرد شہید نظر آتا ہے، میں چیلنج کرتا ہوں کہ اُنہوں نے ہنگو میں شہید ہونے والے اعتزاز حسن کے لیے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ جو سینکڑوں بے گناہوں کو مارے اور مرجائے وہ شہید اور جو سینکڑوں کی جان اپنی جان دے کر بچالے اُس کے لیے کچھ نہیں کہا؟ کیونکہ اُن کی نظر میں دہشت گرد تو شہید ہوسکتا ہے، لیکن وہ بچہ جس نے سینکڑوں بچوں کی جان بچائی وہ اُن کی نظر میں شہید نہیں ہے۔ جب تک یہ منافقت اور دوغلاپن ہمارے معاشرے میں موجود ہے، دہشت گردوں کو کوئی خوف نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہماری حمایت اور پشت پناہی کرنے والے موجود ہیں۔ دہشت گردوں کی حمایت میں کتنے رہنمائوں نے آکر مختلف چینلز پر گفتگو کی اور ہم مسلسل اس لعنت میں دھنستے جا رہے ہیں۔ ہمارے ہزاروں فوجی، پولیس اور رینجرز جوانوں کو شہید کیا جا رہا ہے، ان کو کون ہے مارنے والا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ اپنے لوگوں کے ہاتھوں مر رہے ہیں۔ اس کے باوجود بھی وہ لوگ کلیئر نہیں ہیں، ہم نے کب کہا کہ نہ کریں؟ مذاکرات کب ہوں گے؟ مذاکرات کس سے ہوں گے مذاکرات؟ کوئی کہتا ہے کہ 56 گروپس ہیں، کوئی کہتا ہے کہ 36 گروپس ہیں۔
علامہ حسن ظفر نقوی نے کہا کہ ابھی خود حکومت کو معلوم نہیں کہ کب اور کس سے مذاکرات کرنے ہیں۔ آپ نے کہا تھا کہ ہماری حکومت دہشت گردی ختم کر دے گی، لیکن ہمیں معلوم ہوگیا ہے کہ آپ نے بھی کوئی ہوم ورک نہیں کیا تھا۔ کبھی کوئی وسیلہ تلاش کیا جا رہا ہے کبھی کوئی؟ 19 کروڑ لوگوں کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ دہشت گرد جب چاہتے ہیں جہاں چاہتے ہیں کارروائی اور ظلم کرتے ہیں۔ بلوچستان اور کراچی میں آپریشن کے نام پر ڈرامہ ہو رہا ہے۔ اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ روزانہ ہو رہی ہے۔ اب یہ سلسلہ کراچی سے نکل کر تمام بڑے شہروں میں پہنچ چکا ہے، دہشت گرد پورے پاکستان میں دندناتے پھرتے ہیں کیونکہ اُنہیں پتہ ہے کہ ہمیں سپورٹ کرنے والے ہر شہر میں بیٹھے ہیں۔ بجائے اس کہ دہشتگردوں کے خلاف ایک جگہ جمع ہونا چاہیے تھا لیکن لگتا ایسا ہے کہ ہماری حکومت نے دہشت گردوں کے آگے گھٹنے ٹیکے ہوئے ہیں۔ بار بار مذاکرات کا موقع دیا جاتا ہے اور ہر بار وہ پہلے سے زیادہ سفاک کارروائیاں کرتے ہیں اور وہ مضبوط ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں جب بھی علمائے کرام ایک جگہ جمع ہوئے تو خفیہ ہاتھوں نے ان کے درمیان اختلافات ڈال دیئے۔ لوگوں میں فرقہ واریت کا بیج بویا جاتا ہے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اس پاکستان کو بنانے میں شیعہ سنی علماء اور رہنمائوں نے مل کر کردار ادا کیا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے۔ اسی طرح آج جب ہم یہاں اتحاد کی بات کرتے ہیں تو دشمن ہماری خلاف کارروائیاں کرتا ہے اور ہمارے اتحاد کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ ربیع الاول میں شیعہ سنیوں نے مل کر جلوس نکالے اور میلاد منائے اور اسی طرح محرم الحرام میں شیعہ سنی علمائے کرام نے مل کر بڑی بڑی سازشوں کو ناکام بنا دیا، اگر یہ سازشیں کامیاب ہو جاتیں تو ملک کا کافی نقصان ہوتا۔ جب بھی اتحاد کی ایسی فضا بنتی ہے تو خفیہ ہاتھ حرکت میں آتے ہیں اور اپنی کارروائیاں شروع کر دیتے ہیں۔ گذشتہ دو دنوں سے کراچی میں یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے، ہم یہ سمجھے تھے کہ سانحہ کوئٹہ کے بعد حکومت دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرے گی، لیکن کراچی میں ہمارے دوماہ قبل اُٹھائے گئے نوجوانوں کو میڈیا کے سامنے قاتل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ مسلسل دو دن سے میڈیا پر سازش کی جا رہی ہے، ہمارے قاتلوں کو گرفتار کرنے کی بجائے ہمارے بے گناہ نوجوانوں کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ حکومت ہمارے دھرنوں سے خوفزدہ ہوگئی ہے، ہمارے دھرنوں کی کامیابی سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی ہے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کراچی میں ہمارے بے گناہوں کو فی الفور رہا کیا جائے اور ملک بھر میں شہید ہونے والے علمائے کرام کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے۔ اُنہوں نے کہا کہ علامہ ناصر عباس آف ملتان اور علامہ دیدار حسین جلبانی کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے۔ بعد ازاں اُنہوں نے علامہ ناصر عباس کے بھائی پروفیسر شاہد عباس سے اُن کی بھائی کی شہادت پر تعزیت کی اور فاتحہ خوانی کی۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے منگل کی شام کو مستونگ کے علاقے میں زائرین کی بس پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس حملے کو طالبان دہشت گردوں کی بزدلانہ کاروائی قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف اور افواج پاکستان کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مظلوم پاکستانیوں کے دلوں کی آواز کو سنیں اور پاکستان کے دشمن اور اسلام کے دشمن طالبان دہشت گردوں کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جائے، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے پاکستان کے امن کو طالبان دہشت گردوں کے خاتمے سے مشروط کرتے ہوئے کہا کہ ملک د شمن اور اسلام دشمن طالبان دہشت گردوں کے خاتمے کے بغیر پاکستان میں امن قائم نہیں کیا جا سکتا، نواز شریف اور عمران خان جیسا بزدل حکمران پاکستان کے عوام نے ملکی تاریخ میں نہیں دیکھا ، فوج دہشت گردی کے خلاف عوام کی آخری امید ہے، مستونگ میں زائرین کی بس پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکز ی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے مستونگ میں زائرین پر حملے کے نتیجے میں شہید ہونے والے شہداء کے لواحقین اور زخمیوں کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے پوری قوم کو صبر سے کام لینے کی تلقین کی اور کہا کہ ملک دشمن اور اسلام دشمن طالبان دہشت گرد اس طرح کی بزدلانہ کاروائیوں سے پاکستانی قوم کے حوصلوں کو پست نہیں کر سکتے، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ملک بھر میں ہونے والی دہشت گردانہ کاروائیوں اور سیکورٹی فورسز پر ہونے والے حملوں سمیت کراچی میں پولیو کے قطرے پلانے والے رضاکاروں کی شہادت سمیت لاہور میں قتل کئے جانے والے معروف مصنف اصغر ندیم سید اور پشاور میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنائے جانے والے معروف عالم دین مولانا عالم شاہ موسوی کی شہادت کو ملک دشمن اور اسلام دشمن طالبان دہشت گردوں کی کاروائی قرار دیتے ہوئے طالبان کو مملکت خداداد پاکستان کے ئے سنگین خطرہ قرار دیا اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت ہوش کے ناخن لے اور طالبان دہشت گردوں سے خوفزدہ ہونے کے بجائے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے ۔
وحدت نیوز(قم المقدسہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے ایم ڈبلیو ایم قم کی جانب سے منعقدہ جشن عید میلاد النبی (ص) اور وحدت امت اسلامی کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں ایک ایسا وقت تھا جب ملت تشیع تنہائی کا شکار تھی۔ پارا چنار، ڈیرہ اسماعیل خان سمیت مختلف علاقوں میں شیعہ مسلمانوں کا قتل عام جاری تھا اور عوام سخت مایوسی کا شکار تھے، ایسے وقت میں فکر امام خمینی (رہ)کے حامل شہید علامہ عارف حسین الحسینی کے فرزند علماء نے قیام کیا اور آج ملک و ملت کا دشمن تنھائی کا شکار ہے۔
علامہ ناصر عباس جعفری نے قومی امن کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اہلسنت برادران نے اپنی بیداری کا ثبوت دیا اور دشمن کی تفرقہ انگیزی کی چال کو ناکام بنا دیا۔ اسی سال عاشور کے دن دشمن نے انتہائی منظم وار کیا اور ملک میں ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بنانے کی کوشش کی۔ ان ملک دشمن عناصر کی کوشش تھی کہ پورے ملک کو تفرقہ کی آگ میں جھونک دیا جائے، لیکن اہلسنت علماء اور عوام کی بیداری نے ان کی تمام سازشوں کو ناکام بنا دیا۔ ہم ان اہلسنت برادران کے شکرگزار ہیں جنہوں نے ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کیا کہ دہشتگر اہلسنت کا نام استعمال کرکے ملک کو بڑی جنگ میں ڈالنا چاہتے ہیں جبکہ ان تکفیری عناصر کا اہلسنت سے کوئی تعلق نہیں۔
قم المدسہ میں ہونیوالی وحدت کانفرنس میں دینی طلاب اور علماء کرام کی بڑی تعداد موجود تھی۔ پروگرام کے اختتام پر ایم ڈبلیو ایم قم شعبہ خواتین کی جانب سے حالیہ منعقد کئے گئے مضمون نویسی کے مقابلے میں نمایاں پوزیشنیں لینے والی خواہران کے درمیان تعریفی اسناد اور انعامات بھی تقسیم کئے گئے۔ پروگرام سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم قم کے سیکرٹری جنرل حجت الاسلام غلام محمد فخرالدین نے علامہ ناصر عباس جعفری کو قم کی سرزمین پر خوش آمدید کہا۔
وحدت نیوز(ہنگو) جب سے عسکریت پسندوں نے پاکستان پر جنگ مسلط کی ہے، تب سے تقریباً ہرروز ہی نئے المیے سامنے آرہے ہیں۔ اب تو ہم نے بھی خودکش دھماکوں اور دہشتگردی کی کارروائیوں کو پاکستانیوں کی تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرنا شروع کردیا ہے۔
اسی دوران پھر، ایک عام نوجوان شہری نے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں قتلِ عام کے سامنے ڈٹ کر جس بہادری کا مظاہرہ کیا وہ لائقِ تقلید مثال ہے۔ جس طرح کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف ملالہ نے مثال قائم کی، اسی طرح پیر کو نویں جماعت کے طالبعلم اعتزاز حسین نےجرائت و ہمت کی عظیم مثال قائم کرتے ہوئے جو قربانی دی، وہ مستحق ہے کہ اسے اُجاگر کیا جائے۔اطلاعات کے مطابق، ہنگو کے علاقے ابراہیم زئی اسکول کا یہ طالب علم تاخیر سے اسکول پہنچا۔ اعتزاز ابھی اسکول کی عمارت سے باہر ہی تھا کہ اس نے ایک مشکوک شخص کو اسکول کی طرف بڑھتے دیکھا۔ اعتزاز نے اسے آواز دے کر روکا لیکن وہ رکنے کے بجائے اندر داخل ہونے لگا، جس پر یہ اسے پکڑنے کو دوڑٓا۔
نوجوان طالب علم کے خدشات درست تھے۔ جیسے ہی وہ اس مشتبہ شخص کے قریب پہنچا اور اس سے گھتم گتھا ہوا، خودکش بمبار نے خود کو اڑالیا اور نوجوان طالب علم بھی اس کے ساتھ ہی اپنی جان سے گیا۔اطلاعات کے مطابق جس وقت یہ واقعہ ہوا تھا تب اسکول کے میدان میں اسمبلی ہورہی تھی اور وہاں سیکڑوں طالب علم اور اساتذہ موجود تھے۔ اگر یہ طالب علم خودکش بمبار کو نہ روکتا تو پھر اسکول کے اندر کتنے بڑے پیمانے پر جاں لیوا تباہی پھیلتی، اس کا تصور کرسکتے ہیں۔
یہاں اعتزاز کے خاندان سے متعلق معلومات کم ہی ہیں لیکن شاید وہ اس خیال سے مطمئن ہوں گے کہ ان کے بیٹے کی زندگی نے دوسرے سیکڑوں بچوں کو زندگی بخش دی ہے۔خواہ وہ شہری ہوں یا باوردی اہلکار، ہمیں اعتزاز اور اس جیسے اُن تمام لوگوں کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے جنہوں نے عسکریت پسندی کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جانوں کو قربان کردیا۔یہاں ایک نوجوان کی زندگی تو عسکریت پسندی کی بھینٹ چڑھی لیکن وہ جو اپنی مذہبی جنونیت کے دم پر لوگوں کی روحوں کو محکوم بنانا چاہتے ہیں، ان کے خلاف اس نوجوان کی قربانی مزاحمت کی علامت ہے کہ وہ ایسا کر نہ سکیں گے۔ریاست کو چاہیے کہ وہ اس نوجوان کے خاندان سے اظہار تعزیت کرے اور انہیں اپنی ہر ممکن مدد کی پیشکش کرے۔ ساتھ ہی یہ بھی یکساں اہمیت کی حامل ہے کہ وہ جو صاحبانِ اقتدار ہیں، انہیں شدت پسندی کے خلاف ڈٹ جانے کے لیے اس نوجوان طالب علم کی ہمت اور قربانی سے ایک دو چیزیں سیکھ لینی چاہئیں۔