وحدت نیوز (آرٹیکل) عزاداری یعنی امام حسین ؑ کی شہادت اور واقعہ کربلا کے بعد مشن کربلا کو زندہ رکھنے کا نام ہے۔تمام مذاہب میں مکتب تشیع کو ایک خاص اہمیت وبر تری حاصل ہے جو کسی بھی دوسرے مذہب کو حاصل نہیں ہے اور وہ ہے عزاداری، جس طرح انسان کو زندہ رہنے کے لئے آکسیجن کی ضرورت ہے اور آکسیجن کے بغیر انسان یا کوئی بھی جاندار زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح مکتب تشیع کی زندگی کا آکسیجن عزاداری امام حسین ؑ ہے۔ جب تک عزاداری امام حسین ؑ قائم ہے مکتب تشیع زندہ ہے اور کامیاب ہے۔عزاداری کو کیوں اتنی اہمیت حاصل ہے اُس کے لئے ہمیں فلسفہ عزاداری کو سمجھنا ہوگا ، مکتب تشیع میں عزاداری کے لئے محرم اور صفر کا مہینہ بہت اہمیت کا حامل ہے جس میں ہم فلسفہ قیام امام حسین اور شریعت محمد ی ؐ کا تزکرہ کرتے ہیں اور حقیقت اسلام کو، اسلام کے اصولوں کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں جس سے ہر سال ان دو مہینوں میں لوگوں کی تربیت ہوتی ہے لوگوں کو دین شناس بنادیا جاتا ہے۔
عزاداری کا مقصد و فلسفہ بہت وسیع ہے مجھ میں اتنی علم نہیں کی میں اس کو مکمل بیان کروں ،مگر جتنا میں سمجھ سکتا ہوں وہ میں آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں،عزاداری کے زریعے دین اسلام کو عام کرنا، ممبر رسول سے عزاداری کے زریعے شریعت محمدی ؐ کو عام کرنا، مقصد قتل حسین ؑ کو بیان کرنا، حلال و حرام کے احکام کو لوگوں تک پہنچا نا ہے۔
لیکن واقعہ کربلا کے بعد دشمن اسلام عزاداری سے ہمیشہ خوف زدہ رہے ، بنی عباس کا دور ہو یا بنی امیہ کا دور، غرض ہر دور میں مکتب تشیع کو دبانے کی کوشش کی گئی اور ہر طرح کے ظلم و ستم ڈالے گئے اور عاشقان ولایت امامت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی مگر چودہ سو سال گزرنے کے باوجود آج تک نہ کوئی حکمران عزاداری کو ختم کر سکا اور نہ ہی مکتب تشیع کی تشہر کو رو ک سکا بلکہ جتنا ظلم بڑھتا گیا مکتب تشیع اتنا ہی مظبوط ہوتے چلے گئے۔
لیکن دشمنان اسلام آخر عزاداری سے خوف زدہ کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ عزاداری کا نام سنتے ہی ان کی نیندیں حرام ہو جاتی ہے اور وہ اپنی تمام تر کوشش صرف کرتی ہے کہ کسی طرح عزاداری کو محدود کیا جائے، چار دیواری میں بند کیا جائے، اور عزاداروں کے درمیان خوف و ہراس کی فزاء کو قائم کیا جائے تاکہ عزادار ڈر جائے مگر پھر بھی دشمن ہمیشہ ناکام و نامراد رہ جاتا ہے اور ان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑھتا ہے۔
عزاداری کے زریعہ ہم ہر دور میں قیام امام حسین کو بیان کرتے ہیں کہ امام حسین ؑ کو آخر کربلا جانے کی نوبت کیوں پیش آئی، ہم اس وقت کے سیاسی ، سماجی اور معاشرتی مسائل کا تذکرہ کرتے ہیں ،جب ہم اُس وقت کے حالات کا تذکرہ کرتے ہیں تو زمانہ کے حکمران اور ظالموں کا تذکرہ خود بہ خود شامل ہوجاتا ہے کیونکہ امام حسین ؑ نے جب دیکھا کہ شریعت محمدی ؐ کی پامالی ہو رہی ہے اور اسلام کے روشن چہرہ کو مسخ کیا جا رہا ہے تو فریضہ حج چھوڑ کر ظلم و جابر حکمران کے خلاف قیام کیا اور اسلام کو بچانے کے لئے اپنے تمام گھر والوں کی قربانی پیش کی۔اسی طرح جب بھی عزاداری کے زریعے ہم حق باطل کی بات کرتے ہیں تو باطل طاقتوں کو زلزلہ آجاتا ہے اُن کو عاشقان حسین ؑ سے خوف طاری ہو جاتا ہے کہ کہی حق کی آواز انھیں نیست و نابود نہ کردیں، اسی لئے ہر دور کے ظالم ،جابر اور یزید عزاداری سید الشہداء ؑ سے خوف رہتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ عزاداری محدود ہو مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والوں کو سیا سی ،سماجی اور معاشرتی طور پر کمزور کیا جائے مگر ہر زمانے میں ظالموں کی یہ صرف خواہش ہی رہی اور مکتب تشیع نے ہر دور میں وقت کے یزید و فرعون سے نبرآزما رہا اور ہزاروں مصائب جھیلی مگر حق کی آواز کو دبنے نہیں دیا۔
یہی وجہ ہے کہہ آج بھی حق اور مظلومین کی آواز بلند کرنے والا اور ہر فرعون و یزید کے سامنے ڈٹ جانے والا کوئی ہے تو وہ صرف عزاداران امام حسین ؑ ہے، اس وقت دنیا کے سب سے بڑے شیطان امریکہ کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر کوئی بات کرتا ہے اور ہر موڈ پر ٹکر لیتا ہے تو وہ سید علی خامنہ یٰ ہے، اسرائیل جیسے ناجایز اولاد کو جسے تمام عرب ممالک مل کر بھی شکست نہیں دی سکا مگر فرزند زہراء ؑ سید حسن نصراللہ نے ان کا جینا حرام کر دیا ہے، اولاد یزید یعنی آل سعود کو اگر پے ددر پے شکست دے رہے ہیں تو وہ علی کے چاہنے والے یمن کے انصار اللہ کے جوان ہے جنہوں نے کم وسائل کے باوجود دہشت گردوں کے سر پرست بادشاہ کو شکست کی راہ دکھا رہا ہے، یہ ہے محبت اہلیبیت ؑ اور عزادداروں کی طاقت اور جس سے ساری دنیا خوف زدرہ ہے، یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کے حکمران بھی عزاداری کو محدود کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ تاریخ سے غافل ہے ،وہ مکتب تشیع اور عزاداری کی عظمت سے ناواقف ہے اُن کو نہیں معلوم کی عزاداری کو محدود کرنے یا روک نے سے کیا نقصان ہوگا، عزاداری کی مثال دریا کی طرح ہے، دریا کی خصوصیت ہے کہ جب بھی اُسے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ سیلاب کی صورت اختیار کر جاتا ہے اور جہاں جہاں سے گزر تا ہے تباہی پھیلا تا ہے،لیکن اگر دریا کو چلنے دیا جائے تو اپنے موجوں اور رفتار کے ساتھ اپنے منزل آخر کی طرف گامزن رہتا ہے اور اُسی وقت پُر سکون ہوتا ہے جب وہ سمندر کی سینے میں خوطہ زن ہوتا ہے، اسی طرح جس جس نے عزاداری کو روکنے کی کوشش کی اُسے تاریخ نے یزیدی کہا ہے اور جو عزادار ہے اُسے حسینی کا لقب ملا ہے، اور حسینی ؑ آج بھی زندہ و جاوید ہے اور تا امام زمانہ ؑ کی ظہور تک دریاکی طرح یہ عزاداری جاری و ساری رہے گی ور راستے میں حائل ہر رکاوٹ کو رونتے ہوئے اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہے گا۔
تحریر۔۔۔۔۔ناصررنگچن