وحدت نیوز(آرٹیکل) مسافرین گرامی! طیارہ کچھ ہی دیر بعد لینڈ کرنے والا ہے۔یہ اعلان سنتے ہی ہر مسافر خوشی سے پھول جاتا ہے، ابھی ہم اپنے ملک کے ائیر پورٹ کے گیٹ سے نکل ہی رہے ہوتے ہیں کہ ٹھگوں کا ایک ٹولہ ہماری طرف لپکتا ہے، کوئی سامان کو چمٹتا ہے، کوئی ہاتھوں کو چومتا ہے، کوئی دامن کو کھینچتا ہے اور کوئی بیگ کو پکڑتا ہے۔
آپ لاکھ شور کریں کہ بھائی میری جان چھوڑیں لیکن وہ بغیر کچھ لئے ٹلنے والے نہیں ہوتے، بہر حال ہم انہیں غریب اور فقیر سمجھ کر کچھ نہ کچھ دے کر جان چھڑوا لیتے ہیں۔
جب کچھ آگے آئیں تو ٹیکسیوں اور رکشوں والوں کے غول مسافروں پر ٹوٹ پڑتے ہیں،ہر ایک کا اپنا کرایہ اور اپنا ریٹ ہوتا ہے، ہمیں آنکھیں بند کر کے یہاں پر بھی یہی سوچنا پڑتا ہے کہ اس غربت اور مہنگائی میں یہ بے چارے بھی کیا کریں!؟
گھر آجائیں تو ہر روز گوالا بلاناغہ کیچڑ ملا کر دودھ دے کر چلا جاتا ہے۔ ہم یہاں بھی آنکھیں چرا لیتے ہیں کہ بے چارہ غریب آدمی ہے کیا کرے۔
گھر سے باہر نکلیں اور پبلک ٹراسپورٹ سے سفر کر کے دیکھیں، مسافروں کو فحش فلمیں اور گانے سنائے جارہے ہوتے ہیں ، ہم یہاں بھی یہ سوچ کر چپ کر لیتے ہیں کہ غریب ڈرائیوروں کی یہی تفریح ہے اور بے چارے اس کے علاوہ کیا کریں!
کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ مسافروں کو نصف راستے میں یہ کہہ کر اتار دیا جاتا ہے کہ گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیا ہے یا فلاں پرزہ ٹوٹ گیا ہے۔ ہم اس وقت بھی چپ سادھ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ آخر اس میں ڈرائیور بے چارے کا کیا قصور ہے اور ڈرائیور باقی کرایہ واپس کئے بغیر اگلی منزل کو روانہ ہو جاتا ہے۔
ہم اپنی سڑکوں پر ہر روز خراب اور خستہ حال مسافر گاڑیوں کو چلتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن کبھی لب نہیں ہلاتے چونکہ ہمارے نزدیک غریب لوگوں کو انہی خستہ حال گاڑیوں میں ہی سفر کرنا چاہیے اور جب ایکسیڈنٹ ہوجائے تو حکومت سے معاوضے کا مطالبہ کرکے ہلاک ہونے والوں کے ورثا کو کچھ پیسے دینے سے مسئلہ رفع دفع ہوہی جاتا ہے۔
ہم خود بھی ایسی بڑی بڑی مسافر بسوں کو دیکھتے ہیں کہ جن میں سوار ہونے کے لئے صرف ایک گیٹ ہوتا ہے۔اور اس ایک گیٹ سے بھی سوار ہونا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ اگر خدا نخواستہ گاڑی میں آگ لگ جائے تو گیٹ سے بھاگ کر نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی۔ لیکن ہم نے کبھی اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔
ایسے لگتا ہے کہ اس ملک میں عوامی مسائل کے حل کے لئے کوئی ادارہ ہے ہی نہیں اور یا پھر عوام میں کوئی ایسا ایک آدمی بھی نہیں جو جہاں مسئلے کو دیکھے وہیں کسی متعلقہ ادارے کو رپورٹ کرے۔
ہمارے ہاں پڑھے لکھے لوگ بھی ان پڑھوں کی طرح مسائل کو دیکھتے ہیں اور انہی کی طرح مسائل سے گزر جاتے ہیں۔ ہم زیادہ سے زیادہ صرف اس دن طیش میں آتے ہیں جس دن کہیں کوئی ٹارگٹ کلنگ ہوجائے اور یا پھر کوئی خود کش دھماکہ ہوجائے۔
ہم ابھی تک اس بات کو نہیں سمجھے کہ یہ جتنے بھی نوسرباز ہیں یہ سب جسد واحد کی طرح ہیں۔ ان میں سے ہر ایک مذموم اور ہر ایک قابل گرفت ہے۔ ائیر پورٹ کے گیٹ پر ملنے والے ٹھگوں اور نوسر باز ٹیکسی ڈرائیوروں اور لوگوں کو ملاوٹ شدہ دودھ اور جعلی دوائیاں فروخت کرنے والوں اور ٹارگٹ کلرز میں انسانیت دشمنی کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔
یوں نہی ہو سکتا کہ ہم بعض جگہوں پر تو جرائم سے نظریں چرائیں اور بعض جگہوں پر مجرموں کو سزا دینے کا مطالبہ کریں۔ جب تک ہم خود عوامی سطح پر نوسر بازوں، ٹھگوں اور حرام خوروں کے خلاف ایکشن نہیں لیتے تب تک کلبھوشن یادو جیسے بنئے ایسے بے ضمیر لوگوں کو خرید کر انسانی جانوں سے کھیلتے رہیں گے۔
آج دم تحریر مستونگ کے قریب دہشت گردوں نے کوئٹہ سے کراچی جانے والی گاڑی پر فائرنگ کر کے ہزارہ برادری کے چار افراد کو شہید کردیا گیاہے ۔ جبکہ حیدر آباد سے تعلق رکھنے والا ڈرائیور عبدالستار زخمی ہے۔
اب اگر بے ضمیر حملہ آور کو گرفتار کر بھی لیاجائے تو تب بھی یہ سلسلہ نہیں رک سکتا اس لئے کہ اس ملک میں ہم نے بے ضمیری ، بے حسی ، اور ظلم و شقاوت کے خلاف کبھی قلمی اور عملی احتجاج کیا ہی نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پڑھے لکھے لوگ ان پڑھ لوگوں کی طرح جینا چھوڑ دیں۔ عوام کے حقوق اور جان و مال کا دفاع کریں ، پبلک ٹرانسپورٹ سے لے کر ایوان اقتدار تک ہر بے ضمیر ، وطن فروش اور نوسر باز کو روکیں اور اس کو قانون کے کٹہرے میں لائیں۔
جب تک پڑھے لکھے اور باشعور لوگ جہالت ، نادانی اور نوسربازی کے خلاف لڑنے کا فیصلہ نہیں کر لیتے تب تک اس ملک میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ تب تک کلبھوشن جیسوں کو نت نئے نوکر اور ایجنٹ ملتے رہیں گے۔ تب تک اگر ایک احسان اللہ احسان ہتھیار ڈالےگا تو دس دیگر نوسر باز ،وطن فروشی کا کاروبار شروع کر دیں گے۔ تب تک اگر ہم ایک نوسرباز حکمران کو اقتدار سے ہٹائیں گے تو دوسرا اس سے بڑا نوسر باز نکلے گا۔ نوسر باز تبدیل کرنے سے نوسربازی اور کرپشن نہیں رک سکتی بلکہ ہمیں عوامی سطح پر اور عوامی طاقت کے ساتھ ، دہشت گردی، نوسربازی اور کرپشن کو روکنے کی ضرورت ہے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.