وحدت نیوز(آرٹیکل) ہماراسماج ایک حصار میں تبدیل ہوچکا ہے،آپ مجبور ہیں کہ اس حصار کو ہی اپنا معاشرہ سمجھیں، اس حبس کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں اور اس زندان کو ہی بہشت بریں کا لقب دیں۔
آپ کو یہاں صرف قصیدے لکھنے کی اجازت ہے لیکن سرگزشت لکھنے کی نہیں، یہاں ہر نوسر باز نے اپنے آپ کو تقدس کے خمیر سے مخلوط کیا ہوا ہے، آپ فرقہ واریت پھیلانے والے مولوی حضرات کے احتساب کی بات کریں تو گویا آپ دینی مدارس کے خلاف ہیں، آپ سیاستدانوں کی کرپشن کے خلاف بولیں تو گویا آپ جمہوریت کے خلاف ہیں، آپ ریاستی اداروں میں رشوت کے کے خلاف بات کریں تو گویا آپ ریاستی اداروں کے خلاف ہیں، آپ انٹرا پارٹی الیکشن کی بات کریں تو گویا آپ پارٹی کے استحکام کے خلاف ہیں۔آپ زرد صحافت کے خلاف بولیں تو گویا آپ آزادی صحافت کے خلاف ہیں۔
اگر آپ ایک غیر جانبدار صحافی ہیں تو آپ کے ہر طرف ایک” گویا “ہے اور ہر گویا کے پیچھے ایک نیزہ بردار کھڑا ہے۔ آپ کویہ اجازت نہیں ہے کہ آپ مسٹر ٹرمپ کے دورہ ریاض پر تنقید کریں، آپ کویہ حق نہیں ہے کہ آپ رمضان المبارک میں قطر کے مسلمانوں کے محاصرے پر لب کشائی کریں ، آپ کو یہ اختیار نہیں ہے کہ آپ یمن کے نہتے عوام پر سعودی بمباری کو رکوانے کے لئے احتجاج کریں ، آپ کو یہ اذن نہیں ہے کہ آپ سعودی فوجی اتحاد سے مسئلہ کشمیر پر ایک بیان دینے کا مطالبہ کریں، آپ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ آپ ریاض میں فلسطین کی آزادی کے لئے کانفرنس کے لئے احتجاج کریں۔
جی ہاں! ہم ایک ایسے سماج میں جینے اور سانس لینے کے عادی ہو چکے ہیں جہاں صرف بادشاہوں، حکمرانوں ، شخصیات، تنظیموں، پارٹیوں اور سیاستدانوں کے قصیدے لکھنے کے اجازت ہے۔
اگر آپ نے قصیدہ نویسی ترک کر کے کشمیر کا مسئلہ اٹھا دیا، فلسطین کے ایشو کو ہائی لائٹ کیا، دہشت گردوں کے سہولت کا روں پر لب کشائی کی، شدت پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف آپریشن کا مطالبہ کیا ،فقر، غربت اور پسماندگی کے اسباب بیان کئے تو آپ دین دشمن، ملک دشمن اور جمہوریت دشمن ہیں۔
یہ عجیب معاشرتی حصار ہے، جہاں قلم کی نوک کے ہرطرف نیزہ بردار کھڑے ہیں، اور ہرنیزہ بردار نیزے کی انّی پر اپنے تقدس کا لوہا منوانا چاہتا ہے۔
ہر طرف سے یہی کچھ سنائی دے رہا ہے کہ خبردار فلاں تنظیم کو بے نقاب نہیں کرنا، فلاں شخصیت کے بارے میں کچھ نہیں لکھنا، فلاں سیاستدان کی کتاب نہیں کھولنا، فلاں مدرسے کی سرگرمیوں پر قلم نہیں اٹھانا۔
آج فکر کے مقتل میں، عقل کے دشمن ، مقدس ماب نیزہ بردار، ہر سو کھڑے ہیں،حالت یہ ہے کہ قلم اشک بہارہا ہے، کاغذ خوں مانگ رہا ہے اور ملت سچ جاننا چاہتی ہے۔
سچ جاننا صرف ملت کا مطالبہ ہی نہیں، ہر انسان کا پیدائشی اور جمہوری حق ہے لیکن بتائیے کہ جھوٹے تقدس کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے قلم، بے لگام جمہوری گھوڑوں کے سموں سے روندے ہوئے پارہ پارہ کاغذوں پر سچ کی داستان کہاں تک لکھ سکتے ہیں۔
جب جگر کی کڑھی ہوئی روشنائی سے ،دن کے سفید کا غذ پر سچ کی تحریر کو تعصب کے کٹہرے میں قبول نہ کیا جائے، تو پھر سچ کی دستاویزات کو ہر روز کتنے کفنوں میں لپیٹ کر دفنایا جائے۔
ہر روز سچ دفنا دفنا کر ہم کتنے قبرستان بھریں گے، سچ کے قبرستانوں سے انقلاب اور تبدیلیاں نہیں آیا کرتیں، انقلاب اور تبدیلی کے لئے سچ کو سننا پڑتا ہے، ماننا پڑتا ہے ، قبول کرنا پڑتا ہے اور سچ کا ساتھ دینا پڑتا ہے۔
جب دنیائے اسلام کے مرکز سے اور حرمین شریفین کی وادی سے، اسرائیل کے لئے دوستی کے پیغامات جانے لگیں
جب جمہوری حکمران عوام کو لوٹ کر کھانے لگیں، جب کشمیر اور فلسطین کے مظلوموں کا لہو نیلام ہونے لگے تو پھر قلم کی سچائی کے دو ہی تقاضے ہیں کہ یہ قلم جھوٹے حصاروں سے ٹکرا کر ٹوٹ جائے اور یا پھر ان حصاروں کوتوڑ دے ۔ جب تک قلم ٹکراتا نہیں تب تک تبدیلی اور انقلاب ناممکن ہے۔
تحریر۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.