وحدت نیوز(آرٹیکل) پاکستان کے خلاف دشمن نظریاتی جنگ میں مصروف ہے، سادہ لوح لوگ آج کل بھی اس غلط فہمی میں مبتلانظرآتے ہیں کہ اگر کہیں پر آگ ،دھویں اور بارود کی گھن گرج سنائی دے تو وہاں جنگ لگی ہوئی ہے ورنہ امن ہی امن ہے۔ جبکہ چالاک دشمن آگ ،دھویں اور بارود کی کالک میں اپنا منہ کالا کرنے کے بجائےامن کے سندیسے بھیج کر،محبّت کے نغمے گاکر ،امن و آشتی کی فلمیں بناکراور ثقافتی سیمینارز منعقد کرواکےمورچے مسمار کرنے ، قلعے ڈھانے اور سادہ لوحوں کی عقلوں پر سوار ہونے میں مصروف ہے۔
اگرہم امن اور سکون چاہتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارا مکار دشمن وہ نہیں جو جغرافیائی سرحدوں پر ہمیں گھورتاہے بلکہ ہمارا مکاردشمن وہ ہے جو ہماری نظریاتی سرحدوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہاہے۔جو ہماری نئی نسل کو یہ کہہ رہا ہے کہ پاکستان ایک غیر اسلامی ملک ہے ، جو ہمارے نو نہالوں کو یہ سکھا رہا ہے کہ پاکستان کا آئین غیر اسلامی ہے جو ہمارے جوانوں کو یہ پڑھا رہا ہے کہ پاک فوج ناپاک فوج ہے۔
پاکستانیوں کے درمیان ایک ایسا پاکستان دشمن طبقہ موجود ہے جو پاکستانیوں کوصرف اور صرف ایک مشین کے پرزےکی مانندسمجھتاہے۔یہ طبقہ پاکستانیوں کو مختلف گروہوں اور فرقوں میں تقسیم کرکے ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتاہے۔جب پاکستانی طاقت گروہوں،فرقوں اور اکائیوں میں تقسیم ہوجاتی ہے تو یہ لوگ پاکستانی وسائل اورحکومتی اداروں پر قبضہ کرنے کے لئے فوج اور پولیس کے مراکز پر حملے کرنے شروع ہوجاتے ہیں۔
یہ پاکستان دشمنوں کی نظریاتی یلغارہی ہے جس کے باعث آج انفارمیشن ٹیکنالوجی اور علم و شعور کے دور میں بھی بے گناہ انسان خود کش حملوں میں مارے جا رہے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں کمزور اقبائل پر طاقتور قبائل کا ظلم ، سیاسی پارٹیوں کی ناانصافی اور دھونس دھاندلی اس بات کا ثبوت ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسانی وسائل تو بڑھے ہیں لیکن مسائل کم نہیں ہوئے اور انسانی وسائل پر ماضی کی طرح آج بھی فرعونوں، ظالموں اور جابروں کا قبضہ ہے۔
ہم تاریخ پاکستان کا جتنا بھی مطالعہ کریں اور معاشرتی مسائل پر جتنی بھی تحقیق کریں، کتاب تاریخ میں جہاں جہاں انسان نظر آئے گا وہاں وہاں انسانی وسائل پر قابض فرعون ،شدّاد اور نمرود بھی نظر آئیں گے۔ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نظریہ کسے کہتے ہیں۔۔۔؟
اس کی وضاحت کے لئے ہم مندرجہ ذیل دونکات کوبیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں:کسی بھی تحریک کی قوتِ متحرکہ کانام نظریہ ہے2۔ معاشرے کے اجتماعی شعور کانام نظریہ ہے،آپ معاشرے میں جیسا اجتماعی شعور پروان چڑھائیں گے ویسی ہی تحریک چلے گی۔ پس ہر تحریک کے پیچھے ایک اجتماعی شعور موجود ہوتاہے جسے نظریہ کہاجاتاہے۔
اسی طرح ہرنظریے کے پیچھے ایک خاص طبقہ سرگرمِ عمل ہوتاہے جو"دانشمند طبقہ"کہلاتاہے۔ یہ طبقہ ایک خاص قسم کے شعور کو پروان چڑھاتاہے۔جس معاشرے میں اجتماعی سطح پرمختلف قسم کے نظریات پروان چڑھ رہے ہوں وہاں پر مختلف نظریاتی طبقات جنم لیتے ہیں۔یہ نظریاتی طبقات رفتہ رفتہ عوام الناس کو اپنے اندر سمونا شروع کردیتے ہیں اور خود ایک نظریاتی طاقت کے طور پر ابھرنے لگتے ہیں۔
ابھرتے ہوئے مختلف نظریاتی طبقات کے درمیان اس وقت نظریاتی جنگ شروع ہوجاتی ہے جب ایک طبقہ کسی ایک چیز کو "دیومالائی" حیثیت دے دیتاہے اور دوسرا طبقہ اس کی سرے سے نفی کرنے لگتاہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہمارے نزدیک پاکستان ایک مقدس سر زمین ہے لیکن ہمارے مخلافین سرے سے پاکستان کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔
جب ایک معاشرے میں یہ صورتحال سامنے آجاتی ہے تو "اجتماعِ نقیضین"[1]محال ہونے کے باعث ایک نظریاتی طبقہ دوسرے نظریاتی طبقے کو ختم کرنے پر تُل جاتاہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے آج کل پاکستان کے دشمن ہمیں ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
اس نظریاتی جنگ میں جیت کے لئے افرادی قوّت درکار ہوتی ہے،جسے حاصل کرنے کے لئے دانشمند "تولید نظریات"یا" افزائش نظریات"کاکام شروع کرتاہے۔ تولید یا افزائش نظریات کے کام کے لئے اسے نظریاتی کارخانوں کی ضرورت پڑتی ہے۔
ان نظریاتی کارخانوں کی مختلف صورتیں ہیں جن میں سے چند ایک مندرجہ زیل ہیں۔
شعروسخن، تحریروتقریر، فلم و ڈرامہ، آھنگ و موسیقی، اخبارو میگزین، ریڈیو اور ٹی وی، مدارس و سکول، میڈیا ومحافل۔۔۔
ان نظریاتی کارخانوں کے ذریعےدانشمند مختلف شہکار تخلیق کرتے ہیں جن کے باعث عوام النّاس مختلف نظریات سے آشناہوتے ہیں اور انہیں اپناتے ہیں۔
ایک اچھا شہکار تخلیق کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دانشور اپنے ذوق اور استعداد کے مطابق اپنے لئےایک نظریاتی کارخانے کا انتخاب کرے اور پھر اسی نظریاتی کارخانے کے ذریعے اپنی نظریاتی مصنوعات کو معاشرتی سطح کے مطابق منظرِ عام پر لائے۔
ظاہر ہے کہ نظریاتی مصنوعات جتنی معیاری اور نفیس ہونگی لوگ اتنے ہی زیادہ ان کی طرف مائل ہونگے اور جس نظریاتی مکتب کی طرف لوگ جتنے زیادہ مائل ہونگے ، وہ مکتب بھی اتنے ہی جلدی غلبہ حاصل کرے گا اور اگر وہ مکتب مفید اور سودمند ہوا تو اس کے غلبے سے عوام النّاس کو بڑے پیمانے پر فائدہ بھی پہنچے گا۔
معیاری اور نفیس نیز ہردلعزیز نظریاتی مصنوعات تیار کرنے کے لئے ایک دانشمند کو کبھی بھی "سماجی سائنس" کے اصولوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ سماجی سائنس کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ایک دانشمند جس علم پر عبور حاصل کرے اسی میں فنّی مہارت بھی حاصل کرے اور اسی میں "افزائشِ نظریات " کاکام بھی انجام دے۔
مثلاً اگر ایک شخص علمِ جغرافیہ میں عبور حاصل کرتاہے پھر فنِ خطابت بھی سیکھتاہے اورپھر بزمِ مشاعرہ میں جاکر داد لیناچاہتاہے تو وہ نہ صرف یہ کہ بزمِ مشاعرہ کے اصولوں کی خلاف ورزی کرےگا بلکہ اس نے جو علم حاصل کیاہے وہ بھی اس کے کچھ کام نہیں آئے گا اور اس کا فن بھی اس بزم میں کوئی رنگ نہیں لائے گا۔
پس دانشمند یانظریاتی رہبرکے لئے ضروری ہے کہ وہ معاشرتی ذہن سازی کے لئے حسبِ ضرورت "علم " حاصل کرے اور اس علم کے مطابق فن حاصل کرے اور پھر اسی علم و فن سے لیس ہوکر معاشرے میں اپنی مصنوعات پیش کرے۔
معاشرے میں "نظریاتی مصنوعات" پیش کرتے ہوئے دانشمند کو اس بات کا لحظہ بہ لحظہ خیال رکھناچاہیے کہ اس کی بنیاد اس کاعلم اور ہنر ہے اور یہ دونوں یعنی علم اور ہنر کسی ایک ملک ، قوم ، مذہب یا دین کی ملکیّت نہیں ہیں۔ اسی طرح دانشمند بھی کسی ایک ملک ،قوم ،مذہب یا دین سے وابستہ تو ہوتاہے لیکن ان میں سے کسی کی ملکیّت نہیں ہوتا۔ لہذا اسے تمام تر تعصّبات سے بالاتر ہوکر اپنے نظریاتی شہکاروں کے ذریعے پورے عالم بشریت کی خدمت کرنی چاہیے ۔
اسے ایسا کرنے کے لئے ان تما م رجحانات ، نظریات اور افکار کی مخالفت مول لینی پڑے گی جو عالمِ بشریت کو مختلف اکائیوں ، فرقوں اور ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اپنے اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
کسی بھی ملت کے نظریاتی عناصر اس کے نظریاتی جغرافیئے کا تعین کرتے ہیں۔ نظریاتی عناصر سے ہماری مراد کسی بھی قوم کے بنیادی عقائد ہیں۔ مثلاً اگرایک قوم کا یہ نظریہ ہو کہ ملت مذہب سے تشکیل پاتی ہے تواس قوم کےنظریاتی عناصر اس کے مذہبی عقائد ہونگے۔
یعنی اگر ہم یہ کہیں کہ پاکستانی ایک ملت ہیں تو ملت ِ پاکستان کے مذہبی عناصر توحید و رسالت و غیرہ ہونگے۔اب جب یہ ملت اپنے نظریاتی جغرافیے کا تعیّن کرلے گی تو لازمی طور پر اسے ایک زمینی جغرافیے کی ضرورت پڑھے گی۔ جب تک اس کا نظریاتی جغرافیہ محفوظ رہے گا یہ قوم ڈوب ڈوب کر ابھرتی رہے گی لیکن اگر اس کا نظریاتی جغرافیہ کھوگیا تو اس کا زمینی جغرافیہ بھی اپناوجود کھو دے گا۔
چنانچہ سمجھدار قومیں اپنی توانائیاں زمینی جغرافیئے تبدیل کرنے کے بجائے فکریں تبدیل کرنے پر صرف کرتی ہیں۔ چونکہ جہاں پر فکریں تبدیل ہوجائیں وہاں پر منٹوں میں جغرافیے خود بخود تبدیل ہوجاتے ہیں۔ہمیں پاکستانیوں کو نظریاتی طور پر پاکستانی بنانے کی ضرورت ہے۔
نظریات میں تبدیلی لاکر جس طرح یمن کےمقداد، ایران کے سلمان، مدینے کے ایوب انصاری ، مکّے کے مہاجرین اور مدینے کے انصار کو آپس میں شیر وشکر کیا جاسکتاہے ، سب کو بھائی بھائی بنایاجاسکتاہے اسی طرح فکروں کو تبدیل کر کےخلافتِ عثمانیہ کا شیرازہ بکھیراجاسکتاہے، عظیم ہندوستان کو ناکوں چنے چبائے جاسکتے ہیں اور ایک پاکستان کے شکم سے بنگلہ دیش جنم لے سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دینِ اسلامی نے بھی نظریاتی جغرافیئے کو بہت اہمیّت دی ہے اور لوگوں پر زبردستی اپنے نظریات مسلط کرنے، ان کی جہالت سے فائدہ اٹھانے اور ان پر جبراً اپنی رائے ٹھونسنے کے بجائے انہیں تعقّل،تفکّر اور تدبّر کی طرف بلایاہے۔
دینِ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو قطعاً اس امر کی اجازت نہیں دی کہ وہ مالِ غنیمت اور کشور کشائی کے لئے پرامن اور صلح پسند اقوام پر شب خون ماریں۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اسلام محض ایک نظریہ نہیں ہے بلکہ مجموعہ ءِ نظریات ہے۔ اسلام انسان کے ہر شعبہ زندگی کے حوالے سے ایک جامع نظریہ رکھتاہے
۔مثلا اسلام کے پاس اقتصادی،سیاسی، علمی،اخلاقی، دشمن شناسی، دوست پروری الغرض ہر لحاظ سے ایک مکمل نظریہ موجود ہے۔آج امت مسلمہ کو اور خصوصا پاکستان کو ضرورت ہے کہ اس کے دانشمند ،اسلامی نظریات کی علمبرداری اور رہبری کریں۔ اسلامی نظریات کو پاکستان میں میں صحیح رہبریت اور مدیریت کی ضرورت ہے۔
بالکل ایسے ہی جیسے ظہور اسلام سے پہلے عربوں میں اور پوری دنیامیں پرستش کا نظریہ موجود تھا لیکن اس نظریے کو صحیح رہبری اور مدیریت کی ضرورت تھی۔ حضورِ اکرم نے اس نظریے کی رہبری کی۔ اسی طرح سید جمال الدین افغانی سے پہلے بھی مسلمانوں میں "اسلامی تہذیب و تمدن" کانظریہ موجود تھا لیکن اس نظریے کی رہبری سید جمال الدین افغانی نے کی ،ا سی طرح مغربی تہذیب سے بیزاری کانظریہ پہلے سے موجود تھا لیکن علامہ اقبال نے اس نظریے کی رہبریت اور علمبرداری کی۔
موجودہ دور میں پوی دنیا، خصوصا پاکستان ، غیر اسلامی نظریات کی زد پر ہے اورعالمِ بشریّت ظلم و ناانصافی اور جبر وتشدد کی چکی میں پس رہا ہے۔ایسے میں ضروری ہے کہ افرادِ معاشرہ پرتحقیق و تعلیم کے دروازے کھولے جائیں ،نیز ایسے دانشمندوں کی پرورش اور تربیّت کی جائے جوتمام تر تعصبات سے بالاتر ہوکر اسلامی تعلیمات و نظریات کی رہبری اور مدیریت کریں نیزاسلامی معارف کو پورے عالم بشریت کے سامنے بطریقِ احسن پیش کریں چونکہ مسلم دانشمندوں اور مفکرین کی نظریاتی کاوشوں کو منطرِ عام پر لائے بغیر شیطانی اور پاکستان کے دشمنوں کی نظریاتی یلغار کامقابلہ ممکن ہی نہیں۔
پاکستان کو حالیہ پاکستان دشمن نظریات کی یلغار سے نجات دلانے کے لئے ضروری ہے کہ مختلف سیمینارز، پروگراموں اور نمائشوں کے ذریعےمسلم مفکرین اور دانشمندوں کی سائنسی و علمی اور قلمی خدمات کو سراہاجائے،ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کے سائنسی ، علمی و نظریاتی کارناموں کوپاکستانیوں تک پہنچایاجائے۔
اس وقت پاکستان کے سرحدی دفاع کے ساتھ ساتھ پاکستان کا نظریاتی دفاع بہت ضروری ہے۔
تحریر۔۔نذر حافی