وحدت نیوز(آرٹیکل) گذشتہ صدی اسلام کی چودہ سو سال کی تاریخ میں سے ایک سنہری صدی ہے ٍ جس میں اسلامی تحریکیں میدان میں آ ئیں اورا اسلام ایک جامع نظام کی شکل میں روشناس کروایا گیا ٍ۔امام خمینی کی قیادت میں عظیم انقلاب اسلامی کے بعد امت مسلمہ کی بیداری کا زمانہ شروع ہواکہ جس نے نہ صرف امت مسلمہ کو بلکہ اقوام عالم کو شعور اور آگاہی سے نوازا۔
تحریک انقلاب اسلامی میںسب سے بڑا کردار خود امام ِانقلاب کا ہے ٍ جن کی عرفانی اور الٰہی شخصیت نے علم و بصیرت، جرات ومتانت اور دور رس نگاہوں نے پوری دنیا کو ایک نئی امنگ دی اور زندگی ایک نیا شعور و ولولہ عطا کیا ٍ۔امام خمینی کو اپنی تحریک کے لئے بہترین یار و انصار بھی نصیب ہوئے جن پہ انہوں نے ناز بھی کیا ہے اور فرمایا جیسے اصحاب مجھے اس زمانے میں نصیب ہوئے نہ سی نبی و رسول کو ایسے اصحاب ملے اور نہ ہی کسی امام یا ولی کو ایسے ساتھی نصیب ہوئے جو سب کے سب بابصیرت باہمت اور راہ امام پہ مکمل یقین محکم رکھنے والے اصحاب تھے ۔ان اصحاب میں ایران میں شہید مطہری،شہید بہشتی اور شہید رجائی جیسے عظیم سپوت تھے اور عراق میں شہید باقر الصدر اور ان کی ہمشیرہ شہیدہ بنت الھدی کہ شہید باقر الصدر نے فرمایا تھا ’’ایہا الناس ذوبوا فی الخمینی کما ہو یذب فی الاسلام‘‘
اے لوگو امام خمینی کی ذات میں کچھ اس طرح ضم ہو جائو جیسے وہ اسلام میں میں ضم ہو گئے ۔
لبنان میں امام خمینی کو شہید عباس موسوی اور شہید راغب حرب جیسی شخصیات نصیب ہوئیں جنہوں نے اسلامی تحریک کی اپنے پاکیزہ خون کے ساتھ آبیاری کی اور شجرہ طیبہ کو دوام بخشا جس سے یہ شجرہ ’’ توتی اکلھا کل حین‘‘ کی حقیقی شکل اختیار کر گیا ٍ۔
اصحاب امام خمینی اور تحریک اسلامی کی عظیم شخصیات میں سے ایک شخصیت پاکستان کی سر زمین پہ پروان چڑھنے والے فرزند اسلام و انقلاب شہید علامہ عارف الحسینی ہیں جنہوں نے مختصر عرصے میں اپنی ملت کی قیادت کچھ اس انداز کی کہ ان کی شخصیت پوری امت مسلمہ کے لئے نمونہ عمل بن گئی ۔
امام خمینی جیسی دقیق اور بہت ہی محتاط شخصیت جنہوں نے زندگی میں اگر کسی کو کوئی لقب دیا بھی تو بہت سوچ سمجھ کر اورپھر اپنی وصیت میں یہ تاکید بھی فرما دی کہ میں نے اگر زندگی میں کسی کو کوئی لقب یا عنوان دیا ہے تو وہ اسی وقت تک ہے جب تک وہ فرد اپنی صلاحیتوں کے ساتھ باقی رہے لیکن اگر فاقدالشرائط ہو جائے تو ان القاب یا عناوین کی کوئی حیثیت نہیں ۔امام امت نے شہید علامہ عارف الحسینی کی شہادت پہ آ یت اللہ جنتی کو ایک وفد کے ہمراہ پاکستان بھیجا اور پھر چہلم شہید علامہ عارف الحسینی کی ناسبت سے ملت پاکستان کو تعزیت اور تسلیت کے طور پر ایک مفصل پیغام بھیجا ۔اگرچہ قائد شہید کی شخصیت و خدمات کو مختلف اعتبارات سے پاکستان اور بیرون ملک روشناس کروایا گیا ٍ لیکن امام خمینی کی نگاہ میں شہید کا کیا مقام تھا اسے درک کرنا انتہائی اہم ہے تاکہ شہید کو ان کے امام اور مقتدا کی نگاہ میں دیکھا جاسکے ۔ آئیے ہم امام کے پیغام کو اپنی ملت کے لئے بغور مطالعہ کریں تاکہ یہ پیغام ہمارے مستقبل کے لئے راہ گشا بن سکے ،ااس پیغام میں پاکستان کے علماء کرام اور ملت پاکستان کو مخاطب کیا گیا تھا گویا یہ پیغام کسی مخصوص طبقے کے نام خط نہیں تھا ۔دوسرا یہ کہ یہ خط ان خطوط کے جواب میں تھا جو شہید کی شہادت کی مناسبت سے تسلیت کے لئے امام کو بھیجے گئے تھے۔
القابات شہید حسینی ؒ :
امام خمینی ؒنے کچھ مخصوص القابات کے ساتھ شہید کو یاد فرمایا ٍ :
’’وفا دار مکتب اسلام‘‘
جن میں پہلا دین اسلام کے وفادار ساتھی کا لقب ہے یعنی شہید الحسینی اسلام سے کئے گئے ہر عہد کے ساتھ وفا کرنے والے والی شخصیت کا نام ہے ۔دوسرا لقب محروموں اور مستضعفین کا دفاع کرنے والی شخصیت ہے کہ جنہوں اپنی زندگی محروموں اور ستمدیدہ قوموں کے دفاع میں بسر کردی ۔علامہ شہید نے قیادت سے پہلے اور قیادت سنبھالنے کے بعد مسلسل محروموں اور مظلوموں کا دفاع کیا ٍ۔
’’فرزند ِراستین سید و سالار ِشہیدان‘‘
اس کے بعد کا عنوان بہت ہی اہمیت کا حامل ہے اور وہ امام نے لکھا ’’فرزند راستین سید و سالار شہیدان‘‘ یعنی شہید علامہ عارف الحسینی سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کے حقیقی فرزند تھے ٍ اس جملے سے شہید بزرگوار کی عظمت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ نام کے بھی عارف حسین اور کردار و عمل میں عارف حسین بن گئے اور اگرچہ وہ سید ہونے کے ناطے صلب امام حسین علیہ السلام میں سے ہیں لیکن یہاں امام امت کی مراد صرف ان کا سید ہونا مراد نہیں بلکہ وہ حسینی جس نے خط سرخ کربلا پہ قدم رکھا اور خون کا اخری قطرہ بھی راہ کربلا میں فدا کردیا تو وہ امام حسین علیہ السلام کے حسبی اور نسبی فرزند بن گئیِ ٍ
شہادت علامہ عارف الحسینی اور امت مسلمہ پہ اس کااثر:
اگرچہ اس حادثہ نے تمام امت مسلمہ بالخصوص علماء با عمل کے قلوب کو زخمی کر دیا ہے معلوم ہوتا ہے یہ حادثہ کچھ ایسا حادثہ تھا جس نے امام امت جو گذشتہ اسلامی تاریخ میں اپنی مثال آپ تھے جیسی ہستی کو رنجیدہ خاطر کر دیا اور خمینی بت شکن سوگوار ہو گئے۔
شہادت علماء باعمل کی میراث:
امام نے فرمایا کہ علامہ عارف حسینی کی شہادت کوئی غیر متوقع مسلئہ نہیں تھا بلکہ ہمارے لئے، دیگر مظلوم اقوام عالم اور پاکستان کی مظلوم عوام جس نے استعمار کے مظالم کو برداشت کیا ہے اور اپنی جدو جہد ومبارزے کے ساتھ انہوں نے استقلال اور آزادی حاصل کی ہے یہ شہادت کوئی نئی بات نہیں تھی-
خصوصیت ملت پاکستان:
امام خمینی نے اس پیغام میں پاکستان کی قوم کو ایک عظیم ملت کہہ کر تعبیر کیا اور فرمایا اس ملت نے استعمار اور استکبار کا مقابلہ کیا اور اپنے استقلال کے لئے جہاد و شہادت کا راستہ اختیار کیا-آگے چل کے امام فرماتے ہیں پاکستان کی قوم ایک شریف، مسلمان اورواقعی ایک انقلابی اور اسلامی اقدار کے ساتھ وفادار قوم ہے - معمولا ہمارے زعما اور علما کبھی اس نقطے سے غافل ہوتے کہ ہم اپنی قوم کی قدر کو جانیں اور اس کی عظمت کو سلام کریں -پاکستان کی قوم اقوام عالم میں سے بہترین قوم ہیں لیکن اے کاش ہمارے رہنما قوم سے متعلق بد گمانی سے نکل کر خود اپنے متعلق غور کریں-امام خمینی فرماتے ہیں کہ پاکستانی قوم کے ساتھ ہمارے انقلابی 'عقیدتی اور ثقافتی روابط ہیں -
علامہ عارف الحسینی کی امتیازی خصوصیت:
علامہ عارف حسینی جیسی شخصیات کیلئے اس سے بڑھ کرسعادت اور بشارت کیا ہو گی کہ وہ محراب عبادت سے پرواز کرتے ہوئے’ ’ارجعی الیٰ ربک‘‘ کو مشاہدہ کریں اور پروردگار کی اس آواز پر کہ ’’میرے بندے تو میری طرف لوٹ کر آجا اور اے نفس مطمنہء تو اپنی رضا کو رضوان الہی پہ قربان کر کے شہادت کے جام سے سیراب ہو جا-ان کی زندگی کی سب سے بڑی تمنا شہادت تھی اور وہ اس دنیا اور ما فیہا سے راہ شہادت کے ذریعے آخرت میں وارد ہونا چاہتے تھے۔
علما ربانی اور عالم نما میں فرق:
علماء ربانی اور اپنے عہد و پیمان پہ کاربند علمااوربے عمل ملاؤں میں فرق یہ ہے کہ دشمنان اسلام اور بین الاقوامی درندوں کی گولیاں سب سے پہلے علماء حقہ اور اسلام کے ان مبارز علماء کے سینے کو چھلنی کرتے ہیں- سب سے پہلے دشمنان دین کے زہر ٓالود تیروں کا نشانہ انہی کو بنایا جاتا ہے اور دشمن کو ان جیسے مجاہد افراد کا وجود ہر گز قابل برداشت نہیں ہوتاجبکہ بے دین ملا ںہمیشہ دنیا پرستوں کی حمایتاور باطل کی ترویج میں مشغول رہتے ہیں اور ان کا کام ظالم حکمرانوں کی کاسہ لیسی اور ان کی ہمدردیاں حاصل کرنا ہے-یہ ظالم حکمرانوں کے ثنا خوان اور ان کی تائید کرنے والوں میں سے قرار پاتے ہیں-
امام فرماتے ہیں اپ کبھی کسی درباری ملا ںیا تکفیری مولوی کو ظلم و کفر و شرک کے مقابلے میں کبھی نہیں پائیں گے بلکہ ان کا کام قوموں کو آپس میں لڑانا اور تفرقہ پھیلانا ہے-یہ درباری ملاںکبھی بھی بڑی طاقتوں جیسے امریکہ یا روس وغیرہ کے مقابلے میں قیام نہیں کریں گے-
اس کے مقابلے میں اگر آپ ایک وارستہ عالم دین ، کہ جو خدا اور مخلوق خدا کی خدمت کا عاشق ہو کو غریبوں اور ستم دیدہ لوگوں کی حمایتی ہو اسے ایک لمحے کے لئے بھی آرام سے نہیں بیٹھتے نہیں دیکھیں گے اور جب تک وہ کفر و شرک کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی منزل تک نہ پہنچ جائے اسے پرسکون نہیں پائیں گے ۔
علامہ عارف الحسینی ایسے ہی انقلابی اور مجاہد شخصیات میں سے تھے-جنہوں اپنے تین سے چار سال کے عرصے میں صدیوں کا فاصلہ طے کیا ہیُ اور بہت تھوڑی مدت میں وہ پاکستان کی شیعہ قوم کے ہر دلعزیز اور محبوب قائد بن گئے-آج بھی ملک کے طول و عرض میں کسی علاقےمیں جائیں تو لوگ کہتے ہیں شہید قائد ہمارے پاس بھی آئے تھے-یہاں سے ہمارے لئے یہ سمجھنا بہت آسان ہے کہ آخر ایران میں مطہری اور بہشتی اور شہداء محراب اور دیگر علما اور عراق میں باقر الصدر اور حکیم اور لبنان میں راغب حرب اور کریم اور پاکستان میں عارف الحسینی اور دیگر دنیائے اسلام میں جو لوگ اسلام اور مسلمانوں کا درد رکھنے والے علما ہیں انہیں کیونکر سازشوں اور دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے-
شہید کی فکر کو زندہ رکھنا :
امام فرماتے ہیں کہ ملت پاکستان کو چاہیے کہ وہ فکر شہید راہ حق کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ رکھیں ایسا نہ ہو کہ شیطان کی ناپاک اولاد اسلام ناب محمدی ﷺ جو کہ اسلام کی حقیقی تصویر ہے کے رستے کو روکنے میں کامیاب ہو جائیں یعنی اگر شہید کی فکر کو بھلا دیا گیا توشیطان کے چیلے ہمیں دین حقیقی کے راستے سے ہٹانے میں کامیاب ہو جائیں گے-آج اس زمانے میں مشرقی اور مغربی استعمار عالم اسلام کے سامنے روبرو جنگ کرنے سے عاجز آ چکا ہے کہ وہ ایک طرف تو ان عظیم انقلابی شخصیات کو راستے سے ہٹاتے ہیں اور دوسری طرف امریکی اسلام کی فکر کو متبادل فکر کے طور پر رائج کرنے کی کوشش کرتے ہیں یعنی دشمن صرف علامہ عارف الحسینی جیسوں کو قتل نہیں کرتا بلکہ وہ اس کے ساتھ ساتھ اس کے متبادل اپنا من پسند اسلام بھی متعارف کرواتا ہے لیکن اگر قومیں بیدار رہیں اور اپنے شہدا کے راہ کو زندہ رکھنے کی جدوجہد کریں تو دشمن ہر گز اپنے منصوبے میں کامیاب نہیں ہو گا-
اسلام حقیقی اور اسلام امریکی میں واضح فرق:
امام خمینی کی ایجاد کردہ اصطلاحات میں سے ایک اسلام ناب محمدی یعنی حقیقی اسلام جو پیامبر گرامی اسلام پہ نازل ہوا اس اسلام میں اور ایک وہ اسلام جو حکومتوں اور حکمرانوں کے بل بوتے پہ پروان چڑھا بہت فرق ہے-اسلام حقیقی پابرہنہ اور مظلوم و مستضعف اور ستم دیدہ اقوام کا دین ہے جبکہ امریکی اسلام مقدس مابوں اور رفاہ طلب، پتھر دل، خدا سے دور سرمایہ داروں کا مذہب ہے۔ پس ان خصوصیات سے دو مکاتب کو پہچاننا ضروری ہے- جہاں پہ بھی رفاہ طلبی اور مقدس مابی اور سرمایہ داروں کی کاسہ لیسی پائی جاتی ہو ۔یہ امریکی اسلام ہے جو مظلوم اقوام کو محروم رکھ کر اسے ناباب لوگوں کے ہاتھوں میں مسلم اُمّہ کی نمائندگی دینا چاہتا ہے تاکہ شاہ فہد، آل سعود جیسے اسلام کے ٹھیکہ دار بن جائیں اور محروم اقوام کا خون چوستے رہیں-ایک مکتب میں کبھی دو متضاد فکریں باہم عمل نہیں کر سکتیں جبکہ امریکی اسلام اور حقیقی اسلام دو متضاد افکار ہیں جن کا اقوام عالم کو پہچاننا بہت ضروری ہے-اگر ان دو افکار کو ملا نے کی کوشش کی گئی تو اسلام حقیقی کا چہرا مسخ ہو کر رہ جائے گا-
مدارس دینیہ اور حوزہ ہای علمیہ کا عظیم فریضہ:
مدارس دینی کا اصلی مقصد حقیقی اسلام کی صحیح شناخت اور اسے امریکی اسلام کی آلودگی سے محفوظ رکھنے کے جدو جہد کرنا ہے اور اگر یہ تشخیص معاشرے میں زندہ ہو جائے اور مدارس دینی اپنے فرائض کو صحیح انجام دینے لگیں تو دشمن اپنے حربوں میں کبھی کامیاب نہیں ہو گا-لہذا امام خمینی نے شہید بزرگوار کی شہادت سے قبل مدارس دینیہ کی غفلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں
’’اے کاش اگر مدارس دینیہ ان دو متضاد افکار کی شناخت معاشرے کو کرواتے اور وہ اپنے فرائض صحیح طریقے سے انجام دے رہے ہوتے تو ایک قوی امکان تھا کہ شہید علامہ عارف آلحسینی ہمارے درمیان زندہ ہوتے اور دشمن کو ہر گز جرات نہ ہوتی کہ وہ انہیں ہم سے چھین لیتے لیکن جب ایک فرد تن و تنہا میدان جہاد میں دشمن کے مقابلے میں قرار پائے تو وہ دشمن کے تیروں اور گولیوں ہی کا نشانہ بنتا ہے- امام فرماتے ہیں اج بھی مدارس دینیہ کا سب سے بڑا فریضہ ان دو متضاد مکاتب کو روشناس کروانا ہے تا کہ لوگ امریکی اور فرعونی نظام کو اسلام نہ سمجھ بیٹھیں -یہ آج بھی علما اعلام کا فریضہ ہے کہ وہ دشمن کی سازشوں کو سمجھیں اور قوم کو اس سے آگاہ کریں-اور ان دو متضاد افکار کو معاشرے میں روشناس کروا کر اسلام عزیز کو مشرق و مغرب کی سازشوں سے نجات دلوائیں-آج ہمیں ہر گز غفلت سے پرہیز کرنی چاہئیے آج ہر مسلمان کے آمادہ باش رہنے اور ہر دشمن سے بیدار رہنے کا زمانہ ہے-وہ زمانہ گذر گیا جب مشرق و مغرب کی استعماری طاقتوں نے مسلمانوں کو خواب غفلت میں مبتلا کر رکھا تھا اور ان کی پشت پہ سواری کر رہے تھے اس زمانے میں دشمن طاقتیں اسلام اور قرآن کی بالقوہ صلاحیتوں کے متعلق خوف زدہ تھے اور اس سے متعلق گفتگو کرتے تھے لیکن آج یہ امریکا اور برطانیہ اور استعماری طاقتیں اسلام و انقلاب سے مسلسل شدید ترین سیاسی فوجی اور ثقافتی ضربیں کھا چکے ہیں اور دنیا کے ہر کونے میں ان کے مفادات کے خلاف خطرے کی گھنٹیاں بج چکی ہیں تو آج ہمارا فریضہ ہے کہ ہم ان کی تمام تر سازشوں کا بغور مطالعہ کریں اور ہر ان کے مقابلے کے لئیے تیار رہیں-
مسلمان اقوام کیلئے ایک سنہری اصول:امام نے اس جملے میں ایک اہم سیاسی اصول کو بیان فرمایا ہے جسے سمجھنا ہر زمانے میں ہمارے لئے واجب اور حیاتی ہے-فرماتے ہیں’’ مسلمان اقوام کو چاہئیے کہ وہ بڑی طاقتوں کو اپنا دشمن سمجھنے اور ان کے ہر کام کو فریب اور دھوکے پہ حمل کرنے کو اپنا اصول بنائیں مگر یہ کہ کسی خاص مورد کے متعلق انہیں یقین ہو جائے یا انہوں نے مشاہدہ کر لیا ہو کہ اس میں کوئی فریب یا سازش نہیں‘‘ یعنی جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ سازش درکار نہیں دشمن کے ہر عمل کو فریب اور دھوکہ سمجھا جائے-چونکہ ہم ولایت خدا و رسول اور ائمہ اطہار علیم السلام سے لو لگائی ہے اور جو کچھ بھی اللہ اور اس کے رسول کی رضایت کے خلاف ہو اس سے متنفر رہنا چاہئیے-اور اس سے بیزاری ہمارا فریضہ ہے-اور اس بیزاری کو اپنے لئے افتخار سمجھیں- کہیں ایسے نہ ہو ہمیں ان کے مکر و فریب میں ہمدردی نظر انے لگے اور ہم ان کو اپنا دوست سمجھنے لگیں-
امام خمینی نے شہید علامہ عارف الحسینی جیسے شہدائے اسلام کے خون سے متعلق فرمایا کہ
’’ یہ ان عزیزوں کا خون ہے جو راہ حق سے ہر قسم کی خس و خاشاک کو صاف کرنے اور کلمہ حق کی سر بلندی کی راہ میں ہر سازش کو ریشہ کن کرنے کا عظیم کارنامہ انجام دیتا ہے‘‘۔
آئیے اس خون کی سرخی کو زندہ رکھیں اور خون شہدا سے اور بالخصوص خون فرزند حقیقی امام حسین علیہ السلام اور فرزند امام امت امام خمینی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ رکھیں اور اس راہ سرخ حسینی کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں تاکہ امام امت کے حقیقی وارث ولی امر مسلمین امام خامنہ ای کی قیادت میں پرچم اسلام کو سر بلند کریں اور پھر ایک دن ایسا آئے کہ وارث خون شہدا عدل و انصاف کے قیام کے لئے روی زمین پر پرچم اسلام کو اپنے ہاتھوں پہ بلند کرے اور تمام رہروان راہ حق اس کے ارد گرد جمع ہو جائیں اور پھر دوبارہ نظام ولایت و امامت دنیا پہ حاکم ہو اور حکم الہی کے ساتھ جو لوگ دلوں میں تمناء ظہور لئے قبروں میں سو گئے ہیں انہیں پھر جگایا جائے اور ایک الہی نظام ولی عصر امام زمان کی امامت میں قائم ہو سکے-
تحریر۔۔۔علامہ غلام حر شبیری