جنوبی ایشیا ءکیلئے امریکی حکمت عملی

24 August 2017

وحدت نیوز(آرٹیکل)16برس تک ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود امریکہ بہادر افغانستان میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ سپر پاور ہونے کے دعویدار کیلئے اعتراف شکست نہایت مشکل کام ہے، اس لیے اپنی ناکامی کا الزام پاکستان کے سر تھونپ رہا ہے اور ہندوستان کے انتہاپسند اور ماضی میں تسلیم شدہ دہشت گرد وزیراعظم مودی کو گلے لگانے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کیخلاف سخت رویہ اپنانے کی طرف مائل دکھائی دیتا ہے۔ امریکہ کی قائم مقام نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز کا حالیہ دورہ پاکستان بھی پاکستان کو ناراضگی اور سخت پالیسی کا پیغام دینے کیلئے تھا۔ پاکستان پر افغانستان میں عدم استحکام کی ذمہ داری ڈالنا حقیقت پسندی سے نظریں چرانے کے مترادف ہے، کیونکہ افغانستان کا امن و استحکام پاکستان کے قومی مفادمیں بہت اہمیت رکھتا ہے، اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان افغانستان میں پائیدار قیام امن کا نہ صرف متمنی ہے بلکہ اس کیلئے اپنے تمام تر سفارتی و اخلاقی ذرائع بھی بروئے کار لا رہا ہے۔ ایسا ہونا بھی چاہیئے کیونکہ پاکستان کی ترقی، داخلی استحکام ا ور امن امان کیلئے افغانستان میں پائیدار امن ناگزیر ہے۔ پڑوسی ملک بھارت کو پاکستان کی اس ضرورت کا بخوبی ادراک ہے، جبھی وہ افغانستان میں قیام امن کی ہر کاوش کو نہ صرف سبوتاژ کرنے کی مذموم کوشش کرتا ہے بلکہ پاکستان کی مغربی سرحد کو بھی مصروف رکھنے کیلئے ریاستی و غیر ریاستی عناصر کے ذریعے وطن عزیز میں اندرونی مداخلت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔امریکی تائید و حمایت سے بھارت پاکستان کیخلاف افغان سرزمین استعمال کررہا ہے،جسکے ناقابل تردید شواہد پاکستان میں ہونیوالے دہشتگردی کے کئی سانحات میں سامنے آئے۔ تاہم اس کے باجود امریکہ افغانستان سمیت خطے میں بھارتی کردار اور اثررسوخ بڑھانے کا تو حامی ہے جبکہ اس میں کمی پہ بالکل آمادہ نہیں۔یہ امریکی تعاون اور آشیر باد کا ہی شاخسانہ ہے کہ بھارت بیک وقت کئی جگہوں پہ جارحانہ حکمت عملی کا مرتکب ہوکر پورے خطے کو بدامنی کی آگ میں جھونکنے پہ کمر بستہ ہے۔

بھارت ایک طرف چین کے ساتھ سرحدی تناعات کو بڑھاوا دے رہا ہے تو دوسری جانب لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزی، مشرقی سرحد پہ جنگی نقل و حمل اور پاکستان کی مغربی سرحد پہ دہشت گردوں کی سرپرستی‘ یہی نہیں بلکہ خطے کے معاشی و انرجی کوریڈور سمجھے جانےوالے پاکستان کے صوبے بلوچستان میں بھی بدامنی اور انتشار کو ہوا دینے کیلئے درجنوں تنظیموں اور تحریکوں کی باقاعدہ سرپرستی کررہا ہے۔ اسی صوبے سے بھارتی فوجی افسر کلبھوشن کی باقاعدہ گرفتاری بھی عمل میں آچکی ہے اور اسکے زیرنگرانی دہشتگردی کا پورا منصوبہ بھی بے نقاب ہوچکا ہے۔ ان سب کے باوجود بھارت اور امریکہ کے تعاون میں اضافہ ہوا نہ کہ کوئی کمی واقع ہوئی، جو کہ پاکستان کیلئے باعث تشویش ہے۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کا کلیدی کردار ہے۔ اسی جنگ میں جو ملک سب سے زیادہ متاثر ہوا، جس نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں اور جو ملک تاحال اسی جنگ کو ہر قیمت پہ جیتنے کی بنیاد پر لڑ رہا ہے،و ہ پاکستان ہی ہے جبکہ دوران جنگ اسی پہ دباؤ بھی بڑھایا جارہا ہے اور اسی کے کردار پہ شک کرکے اسکی حمایت و مدد سے بھی اجتناب کی پالیسی برتنے کی کوشش کی جاری ہے، جو کہ دشمنی کے مترادف ہے۔ پاکستان دہشتگردی کے فروغ یا پھیلاو¿ کا موجب نہیں بلکہ دہشتگردی کا شکار ہے۔ ایسی دہشت گردی کہ جس میں وہ اب تک ساٹھ ہزار سے زائد انسانی زندگیاں قربان اور سو ارب ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھا چکا ہے۔ اسکی مسلح افواج بیک وقت ضرب عضب، ردالفساد، خیبر فور جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ سرحدوں کی حفاظت بھی یقینی بنائے ہوئی ہیں۔ چنانچہ ایک ایسے موقع پر جب دہشتگردوں کے خلاف جاری فیصلہ کن آپریشن میں پاکستان کو تعاون اور حمایت کی ضرورت ہے تو امریکہ تعاون میں کمی اور دباؤ میں اضافہ کئے ہوئے ہے۔ یہ بالکل وہی پالیسی ہے جو نیٹو نے پاک افغان سرحد پہ پاکستان کیخلاف اپنائی تھی۔ ایک جانب پاک افغان سرحد کو عبور کرکے دہشتگرد آکر پاکستانی فوجی چیک پوسٹو ں پر حملے کرتے اور اگلے دن افغان ادارے دراندازی کا شور مچاتے جبکہ پاکستان اسی سرحد پہ غیر قانونی آمدورفت روکنے کیلئے جب باڑ کی تنصیب کی کوشش کرتا تو اس باڑ کی تعمیر کیخلاف بھی نیٹو اور افغان حکومت مشترکہ موقف اپناتیں۔ نتیجے میں پاکستان کو دوطرفہ مسائل کا سامنا رہتا، وہی پالیسی تاحال جاری ہے۔

امریکی کانگریس نے حال ہی میں ایک بل کی منظوری دی ہے کہ جسکے تحت پاکستان کی فوجی امداد میں کمی اور پاکستان کے ساتھ جاری تعاون کو ماضی کی طرح ڈومور پالیسی سے مشروط کیا گیا ہے۔ قبل ازیں امریکی صدر ٹرمپ کو اپنے پہلے دورہ پینٹاگان کے دوران جو بریفنگ دی گئی ، اس میں نہ صرف دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو نظرانداز کیا گیا بلکہ اس بریفنگ میں افغانستان میں امریکی شکست کا ذمہ دار بھی پاکستان کو ٹھہراتے ہوئے باقاعدہ سفارش کی گئی کہ افغانستان میں طالبان کےخلاف جنگ جیتنے کیلئے پاکستان کیخلاف کارروائی ناگزیر ہے۔اسی طرح وائٹ ہاؤس کے اجلاس میں جب افغانستان کے اندر امریکی فوج کی تعداد بڑھانے کے معاملے پہ مشاورت جاری تھی تو اس وقت بھی پاکستا ن کے تعاون اور حمایت کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے اسے مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ امریکی جریدے کی رپورٹ کے مطابق اسی اجلاس میں امریکی صدر نے افغانستان کے معدنی ذخائر میں سے ایک بڑا حصہ حاصل کرنے کی بھی بات کی ، جس کے جواب میں امریکی صدر کو بتایا گیا کہ افغانستان کے معدنی وسائل پر مکمل دسترس حاصل کرنے کیلئے افغان حکومت کا ملک پہ کنٹرول ضروری ہے، جس کی راہ میں پاکستان حائل ہے۔ اسی اجلاس میں امریکی صدر نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ پھر چینی کمپنیاں افغانستان میں کیسے کان کنی کے شعبے میں مسلسل فوائد حاصل کررہی ہیں؟علاوہ ازیں امریکی صدر کہ جنہوں نے پہلے روس کیساتھ تعلقات بہتر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، اب روس ، ایران اور شمالی کوریا پہ متعدد پابندیوں کے بل پر دستخط بھی کرچکے ہیں۔ پاکستان پہ بڑھتے ہوئے امریکی دباؤ کا اندازہ ایلس ویلز کے حالیہ دورہ پاکستان سے بھی بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ قائم مقام امریکی معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی وسط ایشیائی امور ‘ اور قائم مقام خصوصی ایلچی برائے افغانستان و پاکستان‘ ایلس ویلز جب اپنے پہلے دورے پر پاکستان آئیں تو انہوں نے بھی پاکستان کو تنبیہہ کی کہ پاکستان کی زمین کسی پڑوسی ملک کیخلاف ہرگز استعمال نہیں ہونی چاہیے جوکہ بالواسطہ پاکستان پر دہشت گردی کا الزام تھا۔

داعش اب افغانستان میں مسلسل زور پکڑ رہی ہے کہ جس نے مشرق وسطٰی کے کئی ممالک کے امن کو تہہ و بالا کیا اور جسکے متعلق دنیا کے سینکڑوں اداروں نے اپنی رپورٹس میں اسے امریکی پراڈکٹ قرار دیا ۔رپورٹس کے مطابق جنوبی ایشیا میں اس تنظیم کا میزبان بھارت ہے اور بھارتی ریاست کیرالہ سے اسے باقاعدہ آپریٹ کیا جارہا ہے۔ حال ہی میں پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کے جو اندوہناک خونی واقعات ہوئے ، ان کی ذمہ داری داعش نے قبول کی، جبکہ ماضی قریب میں ان دہشتگردوں نے داعش میں شمولیت کا اعلان کیا تھا کہ جو بھارت کے زیراثر تھے۔ اسی طرح نریندر مودی کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوال کے دورہ مشرق وسطیٰ کا کچا چٹھا بھی کئی خبررساں اداروں نے اپنی رپورٹس میں بیان کیا ۔ اس دورے کا مقصد دہشتگردوں کے الگ الگ متعدد گروہ تشکیل دیکر انہیں داعش کے ساتھ منسلک کرکے ایک لڑی میں پرونا تھا۔ اس کا اقرار افغانستان میں نیٹو فوج کے سربراہ جنرل نکلسن نے بھی بجا طور پر کیا اور اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ داعش، ایسٹ ترکمانستان موومنٹ، ازبک موومنٹ اور ٹی ٹی پی کے درمیان غیر رسمی اتحاد وجود پاچکا ہے ۔ یہ تمام وہ دہشت گرد تنظیمیں ہیں کہ جنہوں نے کبھی اور کہیں بھی نیٹو، امریکہ یا بھارتی مفادات کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ ہمیشہ ہی چین ، پاکستان اور انکے مشترکہ مفادات کو نشانہ بنایا ہے۔ دہشتگرد گروہوں کے مابین اس اتحاد سے امریکہ و بھارت کا کردار مکمل طور پر واضح ہوجاتا ہے کہ وہ خطے کے امن میں کتنے مخلص ہیں ؟ عالمی سطح پر ان خطرات کے پس منظر میں روس، ایران اورچین امن و سلامتی کیلئے آپسی تعاون بڑھا رہے ہیں تکہ امن عالم کو ہولناک جنگ سے بچایا جاسکے۔ ان حالات میں پاکستان کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ خطے اور پڑوسی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دیکر امن و اعتماد کی بحالی کیلئے جاری کوششوں کو مزید فروغ دے۔ داعش کی صورت میں خطے میں ابھرنے والے نئے فتنے سے نمٹنے کیلئے روس، چین ، ایران اور ترکی کے ساتھ ہم آہنگی ، تعاون اور ہم کاری کی پالیسی اپنائے۔ سی پیک کے ثمرات سے فقط پاکستان یا چین ہی نہیں بلکہ خطے کے تمام ممالک مستفید ہوں گے، چنانچہ اسکے خلاف جاری سازشوں سے نمٹنے کیلئے جامع اور مربوط حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ سیاسی انتشار یا عدم استحکام کسی طور پاکستان کے مفاد میں نہیں، حکومت اور اپوزیشن قوتیں قومی مفاد کو ملحوظ خاطر رکھیں اور ذاتی یا فی الوقتی مفاد پر پاکستان کے روشن مستقبل پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔ امریکہ یا بھارت سمیت کسی بھی ملک کے ساتھ پاکستان تصادم ہر گز نہیں چاہتا مگر اپنے قومی مفادات پر سمجھوتہ بھی ہرگز قابل قبول نہیں۔ عالمی سطح پر ابھرتی نئی قوتوں یعنی روس، چین، ایران اور ترکی کیساتھ ہمارے مستحکم تعلقات امریکی و بھارتی رعونت کے خاتمے کا بھی باعث بنیں گے اور انکے ساتھ ہم اپنے معاملات باعزت طریقے اور بات چیت کے ذریعے بہتر بھی بناسکیں گے، چنانچہ مقتدر سیاسی قوتیں حالات کا ادراک کرتے ہوئے امریکہ کے سامنے فدویانہ پالیسی ترک کرکے برابری کی سطح پہ بات کریں اور موثر سفارتکاری کے ذریعے خطے کو درپیش مسائل اور ان مسائل کی پشت پناہ قوتوں کو عالمی سطح پہ بے نقاب کریں تو کوئی شک نہیں کہ پاکستان ان مشکلات سے سرخروہوکر ترقی و خوشحالی کا سفر بطریق احسن طے کرے۔ انشاءاللہ!

بشکریہ :روزنامہ نوائے وقت



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree