وحدت نیوز(آرٹیکل) میں تو ابھی ابھی بیٹھنا سیکھ رہا تھا، میری چھوٹی بہن دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر مجھے گھومنا سکھاتی تھی، بابا جب کام سے تھکا ہارا گھر آتا تھا تو اگرچہ میں مٹی میں بھرا ہوتا تھا تب بھی وہ اٹھا کر مجھے کندھوں پر سوار کرتا تھا، میری امی کو کہتا تھا دیکھو میرا بیٹا بڑا ہوکر بڑا آدمی بنے گا اور امی دونوں مٹھیان بند کرکے چہرے پر گھماتے ہوئے خوشی سے باغ باغ ہوجاتی تھی، میری دنیا صرف امی ابو اور میری مجھ سے بڑی بہن ہی تھیں۔
مجھے غصے سے کسی نے دیکھا تک نہیں تھا، پیٹنا تو دور کی بات، امی کی جدائی مجھے لمحہ بھر برداشت نہیں ہوتی تھی اور ہاں میری معصوم سی بہن اگر پریشان ہوتی تھیں تو میں چیخیں مار کر روتا تھا تاکہ اسکی پریشانی ختم کر سکوں۔
پھر ایک دن ایسا بھی آیا: بابا جب گھر سے نکل کر کھیتوں پر گئے تو واپس نہیں آئے، اچانک کچھ نارنگی لباس میں ملبوس سر منڈوائے لوگ آئے اور انہوں نے گاوں جلانا شروع کیا، امی نے جلدی میں تھوڑا سامان اٹھایا اور پچھلے دروازے سے نکل کر جھاڑیوں میں چھپتے چھپتے جنگل کا راستہ لیا اور ہم تھوڑا ہی آگے نکلے تھے کہ اچانک گاوں کی مغربی سائیڈ سے ایک بڑا ہجوم نمودار ہوا کہ جن کے ہاتھ میں ڈنڈے، کلہاڑیاں، بھالے اور خنجر وغیرہ تھے ان کی نظر ہم پر پڑ گئی اور ان میں سے کچھ ہماری طرف لپکے اور کچھ ایسے چیخ رہے تھے پکڑو ان کو، ان کی بوٹیاں نوچ لو ان کو زندہ جلادو، ان کے مکروہ قہقہے میرے اندر کو چیر رہے تھے، امی کا چہرہ خوف سے زرد پڑ گیا اس نے ہم دونوں کو جھاڑی میں چھپا کر میری بہن کو میرا خیال کرنے کا کہا اور کہا کہ تم خاموش یہاں بیٹھے رہو میں ابھی واپس آتی ہو، اور ہاں شور مت کرنا اور رونا مت ورنہ یہ لوگ تمہیں دیکھ لیں گے ۔
امی جھاڑی میں ہمیں چھپا کر تھوڑا دور گئی تھی کہ اسکو ان ظالموں نے پکڑ لیا اور ہمارے دیکھتے دیکھتے انہوں نے امی کے بدن کو نوچنا شروع کیا اور کچھ لمحے بعد امی کا بے جان جسم زمین پر سیدھا ہوگیا، میرا دل پھٹ رہا تھا جب امی کو میں نے ایسی حالت میں دیکھا لیکن امی نے کہا تھا کہ تم دونوں رونا، چیخنا چلانا مت، اس لیے ہم دونوں گھٹ گھٹ کے رو رہے تھے۔
جب وہ لوگ امی کو مار چکے تو ان میں ایک نے کہا: اس کے ساتھ دو بچے بھی تھے، انہوں نے ہمیں ڈھونڈھنا شروع کیا اور جھاڑیوں کو آگ لگانا شروع کی، میری بہن نے جب آگ دیکھی تو ڈر کے مارے مجھے اٹھا کر جھاڑیوں سے نکل کر بھاگی اور ہمیں ان درندوں نے دیکھ لیا، بہن گر گئی اور اس کے ساتھ میں بھی دھڑام سے گرگیا مجھے شدید چوٹ آئی لیکن بہن کو جب انہوں نے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹنا شروع کیا تو مجھ سے اپنا درد بھول گیا اور میں نے چیختے ہوئے رونا شروع کیا انہوں نے میری آنکھوں کے سامنے میری معصوم سی بہن کو ڈنڈوں، لاتوں اور مکوں سے بے جان کردیا اور اس کے ننھے سے جنازے کو امی کے جنازے کے ساتھ رکھ کے جلادیا۔
پھر میری باری جب آئی تو ان میں سے ایک ظالم میرے اوپر چڑھ گیا، میرے چھوٹے اور معصوم چہرے پر لامحدود تھپڑ مارنے لگا، میری آنکھوں سے نور جاتا چلا اور کچھ لمحے مجھے پیٹنے کے بعد انہوں نے مجھے قریبی پانی کے تالاب میں پھینک دیا، پانی جلدی جلدی سے میرے منہ، ناک اور کانوں کے ذریعے میرے جسم میں داخل ہونے لگا اور میں ڈوبتا چلا گیا اور جب روح نے میرے جسم کا ساتھ چھوڑا تو میں نے خود کو دیکھا کہ بابا امی اور بہن بھی تالاب کے کنارے میرے انتظار میں کھڑے ہیں انکا روح بھی رو رہا تھا مجھے ایسے دیکھ کے، میرا روح ان کہ طرف لپکا، بابا نے مجھے اپنے سینے سے لگالیا، امی اور بہن نے باری باری مجھے اٹھانا شروع کیا، میرے درد ختم ہوگئے لیکن میرا مردہ جسم پانی کی سطح پر تیر کر نکل آیا، اب بھی وہ وحشی میرے ننھے بدن کو دور سے پتھروں سے مار رہے ہیں اور نشانہ لے کر میرے نصیب پر ہنس رہے ہیں.
خدایا یہ میرے ساتھ کیا ہوگیا؟
میرے اللہ میرا جلدی فیصلہ کرنا؟
میں کس جرم میں مارا گیا؟
میں نے تو ایسا سوچا بھی نہیں تھا،
میرا جرم صرف مسلمان ہونا تھا، میں برما کا مسلم ہوں اور روہنگیا کا رہنے والا۔
از: محمد جواد عسکری