تحریر: ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی
پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف کبھی ضرب عضب اور کبھی رد الفساد کے نام سے آپریشن شروع کئے جن میں کسی حد تک کامیابیاں توہوئیں لیکن دہشت گردی نہ رک سکی. سوچنے کی بات ہے کہ آخر دہشت گردی کے نہ رکنے کا بنیادی سبب کیا ہے ؟یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ ماضی میں ہمارے ملک کے اندر ریاستی سرپرستی میں جس تکفیری سوچ کو پروان چڑھایا گیا ہے آج وہی تکفیری اندرونی اور بیرونی قوتوں کے آلہ کار بن کر پاکستان کے امن کو تباہ کر رہے ہیں، اس جنگ کے نتیجہ خیز نہ ہونے کا ایک واضح سبب یہ ہے کہ حکومتی مشینری میں موجود انکے سرپرست اور سہولتکار ان عملیات کا رخ حقیقی تکفیری دہشتگردوں اور انکے سہولتکاروں سے موڑ کر اپنے سیاسی رقیبوں کی طرف پھیر دیتے ہیں۔اس طرح لسٹوں میں ایک بڑی تعداد بیگناہ لوگوں کی گرفتار کر لی جاتی ہے یا بعض بیگناہوں کو قتل کر دیا جاتا ہے اور رپورٹ تیار کر لی جاتی ہے کہ ہم نے دہشگردی کے خلاف جنگ میں اتنے ہزار لوگ گرفتار کئے اور اتنے قتل کئے. جبکہ اصل دہشتگرد محفوظ مقامات پر رہتے ہیں اور اپنی کارروائیاں جاری رکھتے ہیں۔غلط اطلاعات پر گرفتار ہونے والوں کی جب تحقیقات اور تفتیش ہوتی ہے اور گرفتار کرنے والوں کو بھی یہ یقین ہوجاتا ہے کہ یہ بے گناہ ہیں تو پھر بھی ان بے گناہوں کو رہا نہیں کیا جاتا چونکہ اوپر رپورٹ یہ بھیجی جا چکی ہوتی ہے کہ ہم نے کوئی بہت بڑا شکار پکڑ رکھا ہے۔ اسی طرح ان بے گناہوں کو- عدالتوں میں بھی پیش نہیں کیا جاتا چونکہ گرفتار کرنے والوں کے پاس ان کی گرفتاری کا جواز اور دلیل نہیں ہوتی۔
بے جا گرفتاریوں کے باعث کئی بے گناہوں کا مستقبل تباہ و رہا ہے ،مائیں در بدر بچوں کی رہائی اور ملاقات کے لئے ٹھوکریں کھاتی پھر رہی ہیں اور ان کے بچے اور بیویاں اور والدین بے سہارا ہیں. لیکن اس اندھیر نگری میں انہیں انصاف نہیں ملتا.عالمی دھشتگردی کے سرپرست امریکہ کے صدر کی دھمکی اور سارک ممالک کے بیان کے بعد ملک کے مقتدر اداروں کو اپنی روش اور پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے. تاکہ ملک کو حقیقی دہشتگردوں اور انکے سہولتکاروں سے پاک کیا جائے. اور بیگناہوں کو بھی انصاف فراہم کیا جائے.اگر وطن دشمن تکفیری کالعدم تنظیموں کے سہولتکار اور ہمدرد حکومتی اداروں میں نہ ہوتے تو یہ کیسے ممکن تھاکہ پاک فوج کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے پاکستان میں دندناتے پھرتے اور پاکستان کے آئین کے خلاف کبھی سوات اور کبھی وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں اپنا خود ساختہ آئین نافذ کرتے اور کستان کی سرزمین پر پاکستان کا قومی ترانہ پڑھنے کی ممانعت ہوتی اور پاکستانی پرچم لہرانے پر پابندی لگائی جاتی۔افسوس کا مقام ہے کہ ہزاروں پاکستانی بے گناہ عوام اور ہزاروں فوج اور پولیس کے جوانوں اور افیسرز کو بے دریغ قتل کرنے والے اور شہداء کے جسموں کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور سروں کی بے حرمتی کرنے اور انکے بچوں کو ذبح کرنے والے پاکستانی عوام میں اپنی سیاسی شناخت کے لئے تگ و دو کر رہے ہیں۔
آج پاکستان کے مختلف شہروں میں علاقائیت، فرقہ واریت اور لسانیت کو ہوا دینے والوں کے پرچم نظر آتے.اسی طرح منظم طریقے سے بر سر عام بانیان پاکستان کے فرزندان بریلوی اور شیعہ مسلک کے ماننے والوں پر شرک وکفر کے فتوے لگائے جاتے اور ان تکفیریوں کو برسر عام جلسے کرنے اور جلوس نکالنے کی اجازت دی جاتی.مملکت خداداد پاکستان میں مذہب اہل بیت علیہم السلام کے پیروکاروں کے قاتل گرفتار ہی نہیں ہوتے اور اگر کہیں ہو بھی جائیں تو عدالتوں سے باعزت طور پر بری ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کر لیتےہیں۔اعلی اداروں میں دہشت گردوں کے سہولتکاروں کے باعث تکفیریت کی تعلیم دینے اور مذہبی تعصب پھیلانے والے کئی ہزار مدرسے پاکستان کی سرزمین پر قائم ہین۔اسی طرح آج ملک دشمن بیرونی ممالک سے تعلقات قائم کرنے والے اور انکے اشاروں پر پاکستان میں دہشتگردی کرنے کا اعتراف کرنے والے سولی پر چڑھنے کے بجائے اسٹیٹ کے منظور نظر اور مراعات یافتہ ہیں۔