وحدت نیوز(آرٹیکل) ایک سبزہ زار پر تین گائیں باہم زندگی بسر کرتی تھیں، ایک کا رنگ سفید ، دوسرے کا سیاہ اور تیسری کا رنگ ذرد تھا۔ یہ تین آپس میں پیار, دوستی اور محبت سے زندگی گزارتی تھیں. ایک دن ایک ناتواں اور بھوکا شیر وہاں پہنچا اس نے ان تینوں گائیں کی محبت اور اتفاق کو دیکھ کر ایک ترکیب سوچی کہ کسی نہ کسی طرح ان کے درمیان تفرقہ پیدا کیا جائے کیونکہ تفرقہ ہی واحد حل تھا جس سے وہ ان تینوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتا اور پھر اپنی بھوک مٹاتا۔ ایک دن اس نے سیاہ اور ذرد گائیں کو سفید گائے سے الگ پایا تو جلدی سے ان دونوں کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ تم دونوں کے رنگ ایک دوسرے سے کافی ملتے جلتے ہیں لیکن یہ سفید گائیں تم دونوں سے بالکل الگ ہے لہذا اس خوبصورت سبزہ زار کا مالک صرف تم دونوں کو ہونا چاہئیے تاکہ تم دونوں آرام سے گھانس چر سکو. شیر کی باتیں ان دونوں جانوروں پر اثرکر گئیں اور انہوں نے سفید گائیں سے نفرت کا اظہار کر دیا ، نفرت کا اظہار کرنا تھا کہ شیر نے اپنا دوسرا تیر کمان سے چھوڑا اور کہنے لگا میں تم دونوں کی مدد کر سکتا ہوں، میں ایسا کرتا ہوں کہ اس سفیدگائے کو کھا جاتا ہوں تاکہ تم دونوں راحت سے یہاں زندگی گزار سکو دونوں گائیں شیر کی بات پر متفق ہو گئیں یوں شیر نے موقع پاکر سفید گائے پر حملہ کیا اور اپنی بھوک مٹائی۔ کچھ دن بعد شیر نے زرد گائے کو اکیلا پا کر پھر عیاری کی اور کہنے لگا کہ تم اس کالی گائے کے ساتھ بلکل اچھی نہیں لگتی تمہارا اور میرا رنگ ملتا جلتا ہے لہذا میں اس کالی گائے کو کھا جاتا ہوں تا کہ اس سبزہ زار کی مالک صرف تم بن سکو۔ اس طرح شیر نے موقع دیکھ کر سیاہ گائیں کو بھی کھا لیا اور کچھ دن بعد زرد گائیں کے پاس پہنچا اور کہنے لگا اب تمہاری باری ہے، میں تمہیں کھانا چاہتا ہوں اب زرد گائے کو شیر کی چالیں سمجھ آگئیں مگر اب کچھ فائدہ نہیں تھا. اختلاف نہ صر ف تفرقہ کا باعث بن سکتا ہے بلکہ ہلاکت و نابودی کا سبب بھی ہے۔
کچھ ایسے ہی مسائل سے پاکستان بھی دوچار ہے ہم آپس میں دست وگریبان ہیں، کہی پر سندھی مہاجر کا مسئلہ ہے تو کہی پر پنجابی سرائیکی کا تو کہی پر پٹھان کا غرض ہم نہ صرف لسانی فسادات میں جھگڑے ہوئے ہیں بلکہ فرقہ واریت بھی اپنی عروج پر ہے ۔ ہمیں وطن عزیز میں کوئی ایسی جگہ نظر نہیں آتی جہاں پر سب امن و بھائی چارگی سے زندگی گزار رہے ہوں اور اپنے آپ کو سچا اور محبالوطن پاکستانی سمجھتے ہوں۔ ملکی صورت حال کو اس نہج پر پہنچانے میں عوام سے زیادہ ہمارے ذمہ دار اداروں اور حکمرانوں کا ہاتھ ہے۔ قائد اعظم کے بعد ہمارے حکمرانوں اور جنریلوں نے اپنے اصل قبلہ سے منہ موڑ دیا تھا یعنی پاکستان بنانے کے مقصد کو فراموش کر دیا تھا اسی وجہ سے ایک تو ہم ابتدا ہی سے لسانی مسائل کا شکار ہو گئے اور دوسری جانب ہم نے اپنے قبلہ کو امریکہ طرف موڑ دیا۔ جس سے ہمیں جو فائدے حاصل ہوئے ہیں وہ آج کل ہم طالبان اور دہشتگردوں کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ کرپٹ اور غلام حکمران و جنریلز بھی امریکہ سے دوستی کے بل بوتے پر ہم پر مسلط رہے ہیں۔
ہمارے تمام حکمران طبقے اور پڑھے لکھے طبقے امریکہ اور یورپ سے دوستی کو اجر عظیم سمجھتے ہیں اور امریکہ کی طرف سے کوئی ہڈی بھی پہنچے تو اسے سر آنکھوں پر اٹھا لیتے ہیں۔ حکمرانوں سے زیادہ حیرت مجھے پڑھے لکھے طبقے پر ہوتی ہے جو سب کچھ جاننے کے باوجود ان کی غلامی کو افضل سمجھتے ہیں اور ان کے ہر فرمان پر سر تسلیم خم کرتے ہیں اور فریب کھا جاتے ہیں۔
ہم اگر امریکہ سے دوستی میں کیا کھویا کیا پایا اس پر غور کریں تو بخوبی اندازہ ہوگا کہ ہم نے صرف چند ڈالرز حاصل کیے ہیں اور وہ بھی حکمرانوں کے اکاونٹس میں جمع ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ عوام کو جو تحفہ ملا ہے وہ ملکی قرضے اور دہشت گردی کا ناسور ہے۔ ہم امریکہ اور اس کے حواریوں کو انسانیت کا سب سے بڑا ہمدرد سمجھتے ہیں اور پس پردہ ان کے مقاصد سے غافل ہیں۔ عالمی طاقتوں نے اپنے ناپاک عزائم کے ذریعے مسلمانوں کو بدنام کیا ہے اور ساری دنیا میں مسلمان کے نام کو ہی ایک دہشت گرد کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش کی ہے اور اس کی حمایت میں ہمارے سادہ لوح مسلمان میدان میں ہیں۔ ہمارے لیے اسے زیادہ شرم کا مقام اور کیا ہو گا کہ امریکہ کا بدمعاش اور متعصب ترین صدر سعودی عرب میں اسلامی ممالک کے سربراہان کو اسلام پر لیکچر دے اور سب سے بڑا دہشت گرد ہمارے وطن عزیز کو دہشت گرد ملک قرار دے اور ہم خاموش تماشائی بنے رہیں. ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملہ کیا دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتا؟ کچھ گروہ کے نائین الیون حملے میں ملوث ہونے پر(لیکن خود 9/11 پر حملے ابھی تک ایک معمہ ہے کہ اس کے اصل ماسٹر مائنڈ کون تھے) افغانستان کو خاک و خون میں ملا دینا دہشت گردی نہیں ہے؟ کیمیکل ویپن کی آڑ میں عراق کو تباہ کرنا دہشت گردی نہیں ہے؟ اسی طرح شام، لیبیا، پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں امریکی مداخلت بھی ایک مسئلہ ہے۔ امریکہ جو کہ اپنے آپ کو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا لیڈر مانتا ہے اگر ہم عراق، شام کی جنگ اور داعش کے وجود میں امریکہ کے کردار کو ایک جانب رکھ کر صرف افغانستان کا ہی جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ دہشت گردوں کے خلاف عالمی جنگ میں پیش پیش ہے یا دہشت گردوں کی نرسریاں لگانے میں آگے آگے ہے۔ امریکہ ۲۰۰۱ سے افغانستان میں نام نہاد شدت پسندوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہے اور اس وقت ۱۱ ہزار امریکی فوجی افغانستان میں موجود ہیں ان سب کے باوجود آئے روز بم دھماکے اور دہشت گردانہ حملے ہوتے ہیں دوسری طرف داعش اور طالبان پھر سے ابھر رہے ہیں تو میرا سوال یہ ہے کہ سولہ سترہ سالوں سے لڑنے والی دہشت گردوں کے خلاف عالمی جنگ کا کیا نتیجہ نکلا ہے؟؟
لہذا مسلمانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیے، اسلام دشمن عناصر کبھی بھی مسلمانوں کو اتفاق اور طاقت میں نہیں دیکھنا چاہتے اور نہ ہی کبھی مسلمانوں کے دوست ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہمیں مشرق وسطی کے حالات سے سبق حاصل کرنا چاہئیے کہ کس طرح امریکہ نے پہلے صدام اور قزافی سے غلامی کروائی اور جب انکی تاریخ ختم ہوئی تو کس طرح ان کو ذلیل کیا اور موت کے گھاٹ اتروایا۔ اگر ہم غور و فکر کریں تو امریکہ نے سب سے پہلے عوام کو اپنے حکمرانوں سے بے زار کرایا، ملکوں میں افرا تفری کا عالم پیدا کروایا، فرقہ واریت اور لسانی تعصب کو بڑھکایا پھر خود ہمدرد بن کر میدان میں کود پڑا، یوں اس نے سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نا ٹوٹے والی مثال پر عمل کیا۔ امریکہ اور ان کے حواریوں نے اسی طرح مشرق وسطی کے ملکوں کو تباہ کیا ہے عرب ممالک کو لوٹ رہا ہے اور اپنے اشارے پر نچا رہا ہے اب جو آخری ملک ان کی آنکھوں میں چبھ رہی ہے وہ وطن عزیز پاکستان ہے جہاں پر اترنے کے لیے وہ سالوں سے منصوبہ بندی کر رہا ہے. اول پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کر رہا ہے, دوئم کچھ خائن حکمران یا قائدین کے ذریعے نسل پرستی و لسانیات کو فروغ دے رہا ہے، سوئم فرقہ واریت و دہشت گردی کے ذریعے ملک کو کمزور کر رہا ہے تاکہ وہ موقع ملتے ہی پاکستان کو عراق اور شام کی طرح بنا سکے۔ لہذا عوام کو باخبر رہنا چاہئیے کہ کوئی بھی فرقہ و لسانی طور پر تفرقہ ڈالنے کی کوشش کرے تو وہ پاکستان کا دشمن اور امریکہ و را کا ایجنٹ ہے۔ اگر ہم اپنے پرانے رویہ پر قائم رہے تو پھر ہمارے ساتھ بھی وہی سلوک ہوگا جو شیر نے گائے کے ساتھ کیا تھا۔
تحریر: ناصر رینگچن