وحدت نیوز(آرٹیکل) اس وقت جب ہم لوگ اربعین امام حسین ؑ کے پروگرام فائنل کرنے میں مصروف ہیں ،کسی نے کربلا جانا ہے اور کسی کو اپنے ہاں مجلس ،جلوس،نیاز،ماتم داری کا اہتمام کرنا ہے،کوئی جلوسوں کو پر امن بنانے کیلئے سیکیورٹی معاملات کو آخری شکل دے رہا ہے،ہماری قوم پر ایک شدید وار پنجاب کے حکمرانوں کی طرف سے کیا گیا ہے،،گذشتہ شب یہ خبر ملی کہ مجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل جو ایک وکیل اور سابق طالبعلم رہنما کے طور پہ بھی جانے جاتے ہیں کو کالے ڈبل کیبن والی پارٹی نے زبردستی ان کے گھر کی نزدیکی مارکیٹ سے اس وقت اغوا کیا ہے جب ان کی فیملی اور گارڈ بھی ہمراہ تھے،یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح ہر سو پھیل گئی اور اس پر رد عمل آنا شروع ہوا،ظاہر ہے مجلس وحدت جو اس وقت اہل تشیع کا سب سے فعال اور مربوط قومی پلیٹ فارم ہے جس کی فعال ترین شخصیت کو بے جرم و خطا انتہائی بھونڈے ا نداز میں اٹھالیا جانا کسی بھی طور مناسب نہیں بلکہ ایسے اشتعال انگیز اقدام کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اور اس کے ذمہ داروں کو کورٹ میں لایا جانا چاہیئے، سید ناصر عباس شیرازی کوئی عام کارکن یا معمولی فرد نہیں وہ ایک تاریخ ہے جس نے زمانہ اسکول سے شیعہ قومیات میں حصہ لینا شروع کیا اور یونیورسٹی کے زمانہ میں پورے پاکستان کے طلبا کی قیادت کی،جبکہ موجودہ قومی پلیٹ فارم تشکیل دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا،حقیقت یہ ہے کہ ہمارے حکمران چاہے ان کا تعلق پنجاب سے ہو یا مرکز سے،ہماری خفیہ ایجنسیاں ان کا تعلق فیڈرل سے ہو یا صوبے یہ توقع نہیں رکھتی تھیں کہ شیعہ قوم ایک بار پھر ابھر آئے گی اور اپنے مسائل کے حل اور ایشوز منوانے کیلئے سٹریٹ پاور کی سیاست کر سکے گی،جب مجلس وحدت مسلمین کا قیام عمل میں آیا تو اس قومی پلیٹ فارم نے عوامی ترجمانی کا حق ادا کیا،اور اپنی بھرپور فعالیت سے ڈیرہ اسماعیل خان،پاراچنار،ہنگو،کوئٹہ،اور ملک کے دیگر ان علاقوں جہاں شیعیان حیدر کرار ؑ کا قتل بے دریغ اورآئے روز کی مشق بن چکا تھا ان علاقوں کے یوتھ کو فعال بنانے میں ایک کردار ادا کیا۔مجوروں اور مظلوموں کی آواز کو اسلام آباد کے ایوانوں تک پہنچایا۔بکھری ہوئی قوم کو یکجا کیا،امیدیوں کے بادلوں کو امید میں تبدیل کیا،علما ء سے فرار کر جانے والے قوم کے نوجوانوں کو ایک بار پھر علما ء پر اعتماد کی صورت میں مجتمع کیا،ملت کی دبا دی گئی آواز کو ایک طاقت می تبدیل کیا،اسی طاقت نے دینی و مکتبی اجتماعات کیساتھ سیاسی پلیٹ فارم پر بھی اپنے لوہے کو منوایا،اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں سے پہلی بار بھرپور روبط قائم ہوئے اور قومی وزن محسوس کیا جانے لگا،وہ لوگ جو اپنے علاقوں سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیئے گئے تھے ایک بار پھر اپنے آبائی علاقوں میں واپس لوٹ آئے اور ان کا ٹوٹا ہوا اعتماد بحال ہوا،قوم نے مجلس وحدت مسلمین کی شکل میں اپنے مسائل کا حل سمجھا تو قائدین کو بھی اعتماد ملااور انہیں بڑے فیصلے کرنے کی ہمت بڑھی اسی حوالے سے ہم نے دیکھا کہ مجلس وحدت مسلمین نے سولہ برس کے بعد مینار پاکستان کے سائے تلے ایک قومی اجتماع کا اعلان کیا،یہ اجتماع اگرچہ سخت گرمی میں منعقد ہوا مگر قوم اور قائدین کو داد دینا پڑے گی کہ دونوں طرف سے بھرپور ذمہ داری کا مظاہرہ کیاگیا،اور علماء ،ذاکرین،عمائدین،اور عوام نے اتنی بڑی تعداد میں شرکت کی کہ دشمن کے منہ کھلے رہ گئے،ایجنسیوں اور سازشیوں کی انگلیاں دانتوں تلے دبی ہوئی دیکھی گئیں،اور پھر ہم نے دیکھا کہ سازشیں شروع ہو گئیں،کہ کسی بھی طرح یہ قوم اکٹھی نا ہو،منظم نا ہوسکے اور پاکستان میں ایکبھرپور قومی کردار ادا نہ کر سکے،اسی دوران یمن پر سعودیہ نے حملہ کیا،عراق و شام میں دولت اسلامیہ کے نام سے عالمی دہشت گردوں کا ٹولہ سامنے آیا اور اسلام کی ایک انتہائی مکروہ شبیہ پیش کی،جسے عالمی استعمار کی مکمل سرپرستی اور حمایت حاصل رہی،پاکستان کے نوجوانوں میں بھی عراق و شام کے جہادی جذبوں کے اثرات مرتب ہوئے،مزارات آئمہ کے تحفظ کے عنوان سے مجلس وحدت مسلمین نے بھرپور تحریک چلائی اور ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے عملی آمادگی کا اظہار کیا۔
ہمارے ملک میں عجیب طریقہ رائج ہے کہ ملک کے سیکورٹی اداروں کو ناکوں چنے چبوانے والے دہشت گردوں کو تو کھلا چھوڑا جا سکتا ہے ان سے تو مزاکرات کا دور چلایا جا سکتا ہے مگر اہل تشیع پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا،یہ بعض انتہائی موثر لوگوں کی ایک ایسی پالیسی ہے جو ضیا ء کے دور سے چلی آ رہی ہے،اور اس کا خمیازہ ہم ہمیشہ بھگتتے چلے آ رہے ہیں،اسی پالیسی کے نتیجہ میں ایک بار پھر ہمیں توڑنے کی سازشیں ہوئیں،اور ایک منظم قومی پلیٹ فارم کو مختلف قسم کے الزامات کے تحت مشکلات کا سامنا کرنا پرا حتی یہ کہ اگر کسی ایریا میں ایک بندے نے ذمہ داری کا حلف اٹھایا تو دوسرے دن اسے استعفے دینا پڑا یعنی اسے اس قدر ڈرایا گیا کہ وہ بیچارہ اپنی جان بچانے کیلئے سائیڈ پہ ہو گیا،چنیوٹ،جھنگ،کوئٹہ،پشاور،اسلام آباد،فیصل آباد،خانیوال،ملتان،وہاڑی،سکردو،گلگت،راولپنڈی،اور ملک کے اکثر اضلاع میں سی ٹی ڈی کے نام پہ لوگوں کو ڈرایا گیا،انہیں تھانوں کے چکر لگوا کے زدوکوب کیا گیا،ان کے خلاف پرچے کاٹے گئے،انہیں تنگ کیا جاتا رہا،یہ سلسلہ اب بھی چل رہا ہے مگر اس سے بھی زیادہ خطرناک صورتحال اس وقت سامنے آئی جب مجلس عہدیداران اور ہمدردوں کو نشانہ بناتے ہوئے جبری طور پہ غائب کیا جانے لگا،اس وقت بھی مجلس کے کئی ذمہ دار اور ہمدرد جبری طور پہ غائب ہیں،ان میں علما کی کی بھی تعداد ہے اور کارکنان بھی شامل ہیں۔
قارئین! آپ آگاہ ہیں کہ انہی جبری غائب کردہ افراد قوم کی رہائی کیلئے کئی ہفتوں سے کراچی سے ایک تحریک اٹھی ۔جسے مجلس وحدت کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ حسن ظفر نقوی لیڈ کر رہے ہیں ،علامہ احمد اقبال رضوی اور اسیران کے ورثا بھی اس تحریک کے تحت گرفتاریاں پیش کرنے والوں میں شامل ہیں۔یہ تحریک ابھی چل رہی تھی اور دنیا کی توجہ حاصل کر رہی تھی کہ گزشتہ رات برادر ناصر عباس شیرازی کو جبری طور پہ اغوا کر کے غائب کر دیا گیاہے،یہ وقوعہ صوبائی دارالحکومت میں پیش آیا ہے جس کے گواہ برادر ناصر شیرازی کی فیملی اور سرکاری گارڈ بھی ہیں ،برادر موصوف کاا س انداز میں اٹھایا جانا موجودہ حکمرانوں کا ایک متجاوز اقدام ہے جس سے ملت تشیع کے قلوب میں نون لیگی حکومت اور اس کے متعصب قائدین کیلئے نفرت میں اضافہ ہی ہوا ہے ،نون لیگ کی متعصبانہ پالیسیوں کے نتیجہ میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ آئندہ انتخابات میں ان کرپٹ و نااہل حکمرانوں کے خلاف بھرپور کردار ادا کیا جائے گا،برادر ناصر عباس شیرازی چونکہ مرکزی سیاسی سیکرٹری بھی رہے ہیں اور ان کے روابط دیگر سیاسی جماعتوں سے بھرپور ہیں اور انہوں نے موجودہ متعصب وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ کے خلاف ہائیکورٹ میں ایک رٹ پٹیشن بھی دائر کر رکھی ہے لہذا ان کی شخصیت سے خوف زدہ یہ حکمران اپنے اختیارات اور اقتدار کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اس طرح کے بھونڈے اقدامات کرتے دکھائی دیتے ہیں،ہم سمجھتے ہیں کہ اب نون لیگی چراغوں میں روشنی باقی نہیں رہی ،یہ بجھا ہی چاہتے ہیں،عوام ان کو اس ملک اور اقتدار سے اٹھا کر باہر پھین دیں گے اور کرپشن کی سزا دینگے،رہا سوال برادر ناصر شیرازی کے جبری غائب کیئے جانے کا تو یہ سلسلہ ہمارے لیئے نیا نہیں،یہ چودہ صدیوں سے ہوتا آ رہا ہے،ہم محبت علی کا خراج ادا کرتے آ رہے ہیں اور کرتے رہینگے ،ہمیں کسی قسم کی گھبراہٹ یا پچھتاوا نہیں ہوتا،ہم اپنے ہدف کے حصول تک چراغ سے چراغ جلاتے رہینگے تاوقتیکہ حضرت حجت فرزند اباعبد الللہ الحسین ؑ پردہ غیبت سے ظاہر نہیں ہو جاتے اور مظلوموں اور مجبوروں کے ہاتھ میں اقتدار کا علم نہیں تھما دیتے،برادر ناصر عباس شیرازی کی گرفتاری اور جدوجہد اسی راہ اور راستے میں آنے والی مشکلات و مصائب کا حصہ ہیں وہ ہم سب سے زیادہ باہمت ہیں اور اس کا ادراک انہیں اٹھانے والوں کو بھی باخوبی ہو گیا ہو گا،مولا کریم ان کی حفاظت فرمائے،اور وہ ابا عبداللہ الحسین ؑ کے اربعین کیلئے انہیں سلام پیش کرنے کربلا میں نظر آئیں۔۔۔انشا اللہ
از۔۔۔۔ علی ناصر الحسینی