وحدت نیوز( آرٹیکل) خامس آل عبا امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت اور مصیبت اس قدر عظیم تھی کہ گریہ و زاری آپ کے نام سے ملی ہوئی تھی اورجس طرح حریت،شجاعت، غیرت، دفاع از دین وغیرہ، امام حسین علیہ السلام کے نام سے ملی ہوئی ہیں۔اس دلخراش حادثے نے نہ صرف اہل اسلام کو متاثر کیا بلکہ عرشیان اورساکنان آسمان کے لئے یہ حادثہ سنگین ترہوا۔[ و جلت و عظمت المصیبۃبک علینا و علی جمیع اہل السلام و جلت و عظمت المصیبۃ بک علینا و علی جمیع اہل السموات]
تاریخچہ عزاداری مظلومیت امام حسین علیہ السلام کوہم تین حصوں میں تقسیم کر کے ہر ایک پرقسم مختصرروشنی ڈالیں گے۔
1۔ امام حسین علیہ السلام کی ولادت سے قبل ان کے لئے عزاداری:
روایت میں ہے کہ انبیاء الہی امام علیہ السلام کی ولادت سے کئی ہزار سال پہلے جب ماجرائے کربلا سے باخبر ہوئے تو ان کی مظلومیت پر گریہ کیا۔روایت میں ہے کہ جب جبرئیل[ع]حضرت آدم علیہ السلام کو توبہ کرنے کے لئے کلمات کی تعلیم دے رہے تھے اور جب انہوں نے خداوند متعال کو پانچ مقدس اسماء سے پکارا،اور جب نام امام حسین علیہ السلام پر پہنچے تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور ایک خاص کیفیت ان پر طاری ہو گئی ۔
جناب آدم [ع]جبرئیل سے پوچھتے ہیں کہ میں جب پانچویں شخصیت پر پہنچاتونہیں معلوم کیوں ایک عجیب کیفیت طاری ہو گئی اور آنسو جاری ہوگئے ؟جبرئیل[ع] کہتے ہیں اس شخصیت پر ایک عظیم مصیبت آئے گی کہ تمام مشکلات و مصائب اس مصیبت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہیں ۔انہیں غریبانہ بالب تشنہ بغیریارو مدد گار شھید کر دیا جائے گا ۔جبرئیل امام حسین علیہ السلام اور انکے خاندان پرڈھائے جانے والے مصا ئب حضرت آدم علیہ السلام کو بیان کرتے ہیں یہاں تک کہ جبرئیل [ع] وآدم [ع] مثل مادر[فرزند مردہ]ان پر روتے ہیں {فبکی آدم و جبرئیل بکاء الثکلی }اور جب خداوند متعال نے حضرت موسی[ع] کے لئے امام حسین علیہ السلام کی مظلومانہ شھادت اور اہل حرم کی اسیری اور سر شھداء کا مختلف شھروں میں پھیرانے کی خبرسنائی تو حضرت موسی علیہ السلام نے بھی گریہ و زاری کیا ۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے بھی جب جبرئیل[ع] سے پانچ مقدس شخصیات کے نام سیکھ لئے اور جب امام حسین علیہ السلام کا اسم مبارک انکی زبان سے جاری ہوا تو ایک عجیب سی حالت ان پر طاری ہو گئی اور اشک جاری ہوئے۔خداوند متعال سے عرض کی خداوندا! کیوں جب ان چہار مقدس شخصیات کے نام لیتا ہوں توغم و اندوہ مجھ سے ختم ہو جاتا ہے لیکن جب حسین علیہ السلام کا نام میری زبان پر جاری ہوتا ہے تو آنسو جاری ہو جا تے ہیں؟خداوند متعال نے مصائب امام حسین علیہ السلام میں سے بعض مصائب حضرت زکریا علیہ السلام کو سنائے اور جب حضرت زکریا علیہ السلام ان مصائب سے آگاہ ہوئے تو تین دن تک مسجد سے باہر نہیں آئے اور لوگوں سے بھی ملاقات نہیں کی اور ان تمام مدت میں امام حسین علیہ السلام کی مصیبت پر گریہ و زاری کی۔
روایت میں منقول ہے کہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : جب حضرت عیسی علیہ السلام ا پنے حواریوں کے ساتھ کربلا کی سر زمین سے گزرے تو گریہ کرنا شروع کردیا ۔حواریین نے بھی حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ گریہ شروع کردیا اور جب حواریین نے حضرت عیسی علیہ السلام سے گریہ کی وجہ پوچھی تو حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا : اس سر زمین پر پیامبر اسلام [ص]اور فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیہا کا فرزند قتل کیا جائیگا۔
2۔ حضرت امام حسین علیہ السلام پر انکی ولادت کے بعد عزاداری:
امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام علی علیہ السلام اور حضرت زھراء[س] جب انکی مظلومیت سے آگاہ ہوئے تو ان کی مظلومیت پر گریہ و زاری کی ۔
رسول خدا [ص]کا گریہ:
روایت میں ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت زھراء[س]کےگھر تشریف لے گئے اور اسماء سے فرمایا: میرے بیٹے کو لے آو۔اسماء نے امام حسین علیہ السلام کو ایک سفید کپڑے میں ملبوس کر کے رسول خدا[ص]کو دیا ۔پیغمبر اکرم [ص] نے امام حسین علیہ السلام کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور انہیں آغوش میں لے کر گریہ کیا ۔ اسماءنقل کرتی ہیں جب میں نے حضرت[ص] سےپوچھا کہ میرے ماں باپ آپ[ص] پر فدا ہو جائیں آپ کیوں گریہ کر رہےہیں ؟آپ[ص] نے فرمایا: اس فرزند کی خاطر رو رہا ہوں ۔اسماء کہتی ہیں یہ فرزند تو ابھی ابھی متولد ہوا ہے اس پر آپ [ص]کو خوشحال ہونا چاہیے ۔آپ[ص] نے فرمایا [ تقتلہ الفئتہ الباغیتہ من بعدی لا انا لھم اللہ شفاعتی] میرے بعد ان کو ایک گروہ ستم کار شھید کرے گا کہ ہرگز خداوند متعال انہیں میری شفاعت نصیب نہیں کرے گا۔ اسکے بعد آپ[ص] نے فرمایا [یا اسماء لا تخبری فاطمۃ بھذا فانھا قریبتہ عھد بولادتہ]اے اسماء فاطمہ [س]کو اس سے آگاہ نہیں کرنا چونکہ وہ ابھی تازہ اس بچے کی ماں بنی ہے ۔
امام علی علیہ السلام کا امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پر گریہ:
ابن عباس نقل کرتے ہیں کہ میں اورامیر المومنین علی علیہ السلام صفین جاتے وقت ساتھ تھے اور جب نینوا کے مقام پر پہنچے تو بلند آواز میں مجھ سے فرمایا : اے ابن عباس اس مکان کو پہچانتے ہو ؟ میں نے عرض کی میں نہیں جانتا ہوں ۔فرمایا :اے ابن عباس جس طرح میں اس سر زمین کو جانتاہوں اسی طرح تم اسکے بارے میں جانتے تو حتما میری طرح گریہ کرتے ہوئے اس سر زمین سے گزرتے۔ اسکے بعد امام علیہ السلام کافی دیر تک گریہ کرتے رہے یہاں تک آنسو آپکی محاسن سے سینہ مبارک کی طرف سرازیر ہوگئے ۔میں بھی امام علیہ السلام کے ساتھ گریہ کرنے لگا امام[ع] نے اسی حالت میں فرمایا وای ،وای ابوسفیان کو مجھ سے کیا کام ؟مجھے آل حرب سے کیا کام؟یہ لوگ حزب شیطان اور اولیائے کفر ہیں ۔اے ابا عبد اللہ صبر کرو چونکہ آپکے والد کو بھی اسی گروہ سے وہی ظلم و ستم پہنچے گے جس طرح تمھیں پہنچے گے۔[اوہ اوہ مالی و لآل سفیان؟ مالی و لآل حرب حزب الشیطان؟ و اولیاء الکفر؟صبرا یا ابا عبد اللہ فقد لقی ابوک مثل الذی تلقی منھم]
گریہ حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا
جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شھادت امام حسین علیہ السلام اور انکے مصائب کی خبر اپنی بیٹی کو سنائی تو حضرت زھراء [س] نے سخت گریہ کیا اور اسکے بعد اپنے والد سے پوچھتی ہیں کہ یہ ماجرا کس زمانے میں واقع ہوگا ؟ رسول خدا [ص]نے فرمایا : یہ حادثہ اس زمانے میں رونما ہو گا جب نہ میں اس دنیا میں ہونگا اور نہ تم اور نہ علی اس دنیا میں ہو نگے ۔جب یہ سنا تو حضرت فاطمہ[س] شدید گریہ کرنے لگیں اسکے بعد رسول خدا[ص]نے انہیں امت کی طرف سے امام حسین علیہ السلام اور شھداء کربلا کے لئے عزاداری کی خبر دی اور اس گریہ و زاری کی جزاء بھی بیان فرمائی۔
3۔ امام حسین علیہ السلام پر ان کی شہادت کے بعد عزاداری:
آخر کار ابتدائے خلقت میں اولیاء الھی کو جس دلخراش و دلسوزناک واقعے کی اطلاع دی گئی تھی وہ61ہجری کو سر زمین کربلا پر واقع ہوا ۔وہ حادثہ جو واقع ہو نے سے پہلے ہی اشکوں کو جاری کر دیتا تھا دسویں محرم 61ہجری کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مومنین کے دلوں میں آگ کی طرح حرارت وجود میں لے کر آیا جو قیامت تک خاموش نہیں ہوگی۔اس قدر یہ حادثہ المناک تھا کہ روز عاشورا کو روز عزاداری و سوگواری میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تبدیل کر دیا۔آج تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور رہیگا چونکہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:[ ان القتل الحسین حرارۃ فی قلوب المومنین لا تبرد ابدا] یقینا امام حسین علیہ السلام کی شہادت نے مومنین کے دلوں میں ایسی حرارت بھر دی ہے جو کبھی بھی خاموش نہیں ہوگی ۔9
جب اہل حرم کی نظر شہداء کے جسموں پر پڑی تو فریاد کرنے لگے اس وقت زینب بنت علی[س] بھی فریاد کرنی لگی۔]وا محمداہ صلی علیک ملیک السماء ھذا حسین مرمل بالدماء مقطع الا عظاء و بناتک سبایا [اے پیغمبر ،درود خدا ہو آپ[ص] پر :یہ آپ کا فرزند حسین[ع] ہے جو اپنے خون میں غلطان ہے اور انکے جسم کو قطعہ قطعہ کیا گیا ہے اور یہ آپ[ص]کی بیٹیاں ہیں جو اسیر ہو چکی ہیں ۔ زینب بنت علی[س] نے جب گریہ شروع کیا تو منقول ہے کہ [فابکت واللہ کل عدو و صدیق]خدا کی قسم دوست و دشمن سب گریہ کرنے پر مجبور ہوئے اور سب نے گریہ کیا۔
اسیروں کے کاروان کو کوفہ و شام لے جانے کے بعد امام سجاد علیہ السلام اور حضرت زینب[س] کے خطبوں نے شہر دمشق میں ہلچل مچا دی ، یہاں تک کہ یزید کے محل میں ہی مراسم عزاداری برپا ہوئی اور اموی خاندان کی عورتوں نے بھی مراسم میں شرکت کی اور یہ برنامہ تین تک دن جاری رہا ۔[فخرجن حتی دخلن دار یزید فلم تبق من آل معاویہ امراۃ الا استقبلھن تبکی و تنوح علی الحسین فا قاموا علیہ المناحۃ ثلاثا]
امام حسین علیہ السلام کی عزاداری ائمہ علیہم السلام کے زمانے میں:
امام حسین علیہ السلام کی عزادری امام باقر علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام کےزمانے میں بھی منعقد ہوا کرتی تھی ۔کمیت اسدی امام باقر علیہ السلام کی خدمت میں شھداء کربلا پر مرثیہ سرائی کرتےیہاں تک امام علیہ السلام کے آنکھوں سے اشک جاری ہو جاتے۔امام صادق علیہ السلام ابو ہارون مکفوف سے امام حسین علیہ السلام پر مرثیہ خوانی کے لئے فرمایا: اور ابو ہارون مرثیہ خوانی شروع کی۔
امرر علی جدث الحسین
فقل لا عظمہ الزکیتہ
امام[ع] کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں آخر میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں[یا ابا ہارون من آنشد فی الحسین فابکی عشرۃ فلہ الجنۃ]اے ابا ہارون جو کوئی امام حسین علیہ السلام پر مرثیہ خوانی کرے گا اور دس افراد کو رلائے گا اس کی جزا جنت ہے ۔امام رضا علیہ السلام نے دعبل خزاعی سے فرمایا: اے دعبل ایام عاشورا ہمارے لئے بہت غمگین و اندوھناک ہیں لذا اسی مناسبت سے چند اشعار پڑھو ۔
دعبل نے مرثیہ خوانی شروع کی اور امام[ع] نے اپنے جد بزرگوار پرگریہ کیا ۔
غم امام حسین علیہ السلام میں نہ صرف انسان بلکہ فرشتے اور آسمان والوں نے بھی گریہ و زاری کیا ۔٦١ ہجری سے آج تک غم حسین علیہ السلام میں آنسو بہائے جا رہے ہیں اور ہر سال یہ مراسم پر رونق تر ہو رہیں ہیں اس لئے کہ حسین علیہ السلام نے درس بندگی اور درس آزادی دیا ۔آج جسے بھی امام حسین علیہ السلام کی ذرہ برابر معرفت ہو وہ بھی اس عظیم کاروان میں شامل ہو جاتا ہے جس کاروان کا امیر رسول خدا [ص]،علی مرتضی[ع] ،زھرامرضیہ [س]حسن مجتبی[ع] اور باقی ائمہ علیھم السلام اور بالخصوص امام زمان علیہ السلام ہیں جو فرماتے ہیں :[فلا ندبنک صباحا و مساء و لا بکین علیک بدل الدموع دما حسرۃ علیک و تا سفا و تحسرا علی ما دھاک و تلھفا حتی اموت بلوعۃ العصاب و غصۃالاکتیاب]
یعنی اے میرے جد مظلوم و غریب !اس قدر تجھ پر صبح و شام گریہ کروں گا اور اس قدر رووں گا کہ آنسووں کے بدلے آنکھوں سے خون رواں ہو گا ۔ایسا رونا جس کی بنیاد تجھ پر حسرت و افسوس ، غم و اندوہ اور جگر سوز ہے۔اس المناک اور دردناک عظیم سانحہ کی وجہ سے جو تیرے ساتھ پیش آیا۔یہاں تک کہ تیری اس جگر سوز اور اندوہناک مصائب کی وجہ سے قریب ہے کہ میری روح پرواز کر جائے۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
منابع:
١۔زیارت عاشورا
٢۔بحارالانوار،ج٤٤،ص٢٤٥
٣۔معالی السبطین،ج١ص١٨٦
٤۔احتجاج طبرسی،ج٢،ص٥٢٩
٥۔بحار الانوار،ج٤٤،ص٢٥٣
٦۔بحار الانوار،ج٤٣،ص٢٣٩
٧۔بحار الانوار،ج٤٤،ص٢٥٢
٨۔بحار الانوار،ج٤٤،ص٢٩٢
٩۔مستدرک الوسائل ،ج١٠ص ٣١٨
١٠۔بحارالانوار،ج٤٥،ص٨١کامل بن اثیر ، ج ٤ ،ص٨١
١١۔تاریخ طبری،ج٤٥ص١٤٢
١٢۔بحار الانوار،ج٤٤،ص٢٨٧
١٣۔زیارات ناحیہ۔
تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی