پاکستان امریکی دبائوکا مقابلہ روس، چین ،ایران اور ترکی کے ساتھ الائنس بناکر ہی کرسکتاہے۔علامہ راجہ ناصرعباس کا روزنامہ اوصاف کو خصوصی انٹرویو

07 November 2017

وحدت نیوز(انٹرویوبشکریہ روزنامہ اوصاف) باشعور لوگ جانتے ہیں کہ ہر وہ ملک جس میں قانون کی عمل داری نہ ہواور قوانین بھی جو بنتے ہیںان بنیادی اصول کے مطابق بنتے ہیں۔جو آئین کے اند ر ایک سوشل کنٹریکٹ کے تحت اس ملک کے تمام عوام اس کو قبول کرتے ہیں۔انہیں آرٹیکل کے تحت ہی تمام قانونی سازی کی جاتی ہے۔ادارے بنتے ہیں،سسٹمDevelop ہوتے ہیںاور دنیا میںجوایک سسٹم رائج ہے وہاںپر قوئہ مقننہ ،قوئہ عدلیہ ، قوئہ مجریہ ہوتی ہے۔ان تینوں قوئہ کا استدلال بہت اہم ہے۔کہ ایک دوسرے سے تصادم نہ کریں۔بلکہ اپنے دائرہ کارمیں رہتے ہوئے اپنے کار پر عمل کرے۔پھر انہیں کے ذیل میں بعض ایسے ریاستی ادارے بھی وجود میں آتے ہیں۔جن کا کام ملک کی سرحدوں کی حفاظت بھی ہے اور بعض انتظامی ادارے ہیں۔جن کاکام ملک کےاندر لوگوں کی جان ، مال، اور عزت کی حفاظت اور قانون کی عمل داری کرنا ہوتا ہے۔اب جب قانون کی عمل داری ہواور جتنے بھی ادارے ہیںوہ اپنے قانونی اور آئینی دائرے میں رہتے ہوئےاپنی ذمہ داریوں کو انجام دیںتو میرے خیال میں مشکلا ت وجود میں نہیںآتی مسائل وہی جنم لیتے ہیںجہاں قانون شکنی شروع ہوتی ہے اور آئین اور قانون کو پائوں تلے روند دیا جاتا ہے،افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان ان ممالک میں سے ہے جہاںکبھی آئین کو کاغذ کا ٹکڑا قرار دیا جاتا ہے۔ جہاں قانون کو بنانے والے اور نافذ کرنے والے ہی قانون کو پائوں تلے روند دیتے ہیں۔اس کی تحقیر اور مذمت کرتے ہیں۔اس کی حرمت اور تقدس کو پامال کرتے ہیںتو یہیں سے لوگوں کے اندر بھی جرأت اور حوصلہ پیدا ہوتا ہےاور پھر یہاں سے کرپشن ، فساد اور قانون شکنی کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میںامن و امان ہوں کرپشن نہ ہو،فساد نہ ہو ،ترقی ہو پیش رفت ہو۔ہم civilizedہوں ہم Culturalہو جائیں ہم مہذب ہو جائیںتو اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم قانون کی عمل داری اور آئین کی تعین کردہ حدود کے اندر رہ کر اقدامات کریں۔اگر ہم کوئی ایسا اقدام کریں گے جو آئین کی حدود سے بالاتر ہو گا جو کوئی بھی ہوگا مشکلات کو پیدا کرے گا۔مشکلا ت کو حل نہیں کرے گا۔وہ بحران کو اور زیادہ بڑھائے گا بحران کو حل نہیں کرے گا۔چاہئے وہ technocratہوں۔چاہئے کوئی بھی ہو۔ کوئی بھی عمل جو قانون اور آئین کے دائرہ کار سے باہر ہو گا۔ وہ درست نہیں ہے،وہ ہمارے ملک کے اندر نہیں ہونا چاہیے ۔ہم کئی تجربے گذشتہ  70 سال کے اندرچکے ہیں۔ ہم نے کتنی بار قانون اور آئین کو پائوں تلے روندا ہے۔ نئے جذبے اور ولولے کے ساتھ آئیں ہیں۔کہ ہم یہ کر دیں گے ، ہم سب ٹھیک کر دیں گے۔بالآخر خرابی اور بربادی کے سوا ہمیںکچھ نہیں ملا۔


پس جو بھی قد م اُٹھایا جائے وہ قانون اور آئین کے دائرے کے اندر رہتے اُٹھایا جائےقانون اور آئین کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے بحرانوں کے حل کے لئے ضروری ہے۔

    1۔  ایک ایسا الیکشن کمیشن بنایا جائے جو بااختیار ہویعنی اس کے اندر کرپٹ اشخاص نہیں ہوں،بائیومیٹرک الیکشن ہونے چاہیں،بائیو میٹرک سسٹم لانا چاہیے۔
    2۔ آئین کی عمل داری ہونی چاہئے
    
اگر ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ کا اثر رسوخ افغانستان کے اندر کم کریں اور انڈیا کوCondemn کریں تو پاکستان ،چین روس،ایران،ترکی ان پر مشتمل ایک الائنس بن جائے۔جس کے نتیجے میں افغانستان میں امریکن اثر رسوخ کم ہو جائے گا اور انڈیا Condemnہوجائے گا اور پاکستان کا چائنا پر انحصار کرنا بھی کم ہو جائے گا۔ اب دنیا unipolar worldنہیں رہی بلکہ پاور کے اعتبار سےRe-shape ہو رہی ہے۔امریکن گلف میں آئے تھے۔دنیا کو Re-shape کرنے کیلئے وہاں یہ شکست کھا گے ہیںوہاں ان سے شام نہیں ٹوٹا، اگر شام ٹوٹتاتو شام ایشیاء کی بلڈنگ کی وہ اینٹ ہےجو اگر نکل جاتی توعراق ، ترکی ، ایران ، افغانستان، چائنا اور پاکستان نے بھی ٹوٹنا تھایعنی سنٹرل ایشیا ءپورے کا پورا تباہ و برباد ہو جاتاامریکن کو Western Asia میںResistance کے بلاک روس اور چائنا نے ملکر کائونٹر کیا۔UNO میںآٹھ ویٹو ہوئے ہیں جن میں سے چھ میں روس اور چائنہ اکٹھے ہیں ،اگر روس اکیلا بھی ویٹو کرتا تو بھی کافی تھا ۔لیکن چین بھی ساتھ ویٹو کر رہا تھا۔۔۔۔کیوں؟؟؟

چین کے سوریاکے اندر Economic Interests نہیں تھے۔Strategic Interestتھے۔چین کو پتہ تھا اگر سوریا ٹوٹا تو پھر بات چائنہ تک آئی گی۔لہذا چین بھی وہاں کھڑا ہو گیا اوUNOمیں ویٹو کرنا شروع ہو گیاجس کے نتیجے میں امریکن اور اسرائیل کو شکست ہو گی۔شکست کیسے کھائی ؟؟؟ ان کا خیال تھا کہ شام کی حکومت کو گرا کر ان ممالک کو توڑیں گے،سعودی عرب کو بھی توڑیں گےاور ان تمام اسلامی ممالک کو توڑ کر چھوٹے چھوٹے قطر اور کویت بنائیں گےجن میں اپنی مرضی کے حکمران لائیں گے۔ اور ان ممالک میں آپس میں اختلافات پیدا کریں گےکیونکہ مسلم ممالک کی پاور امریکہ اور اسرائیل کیلئے ایک بہت بڑاخطر ہ ہےجیسے کہ انہوں نے روس کوتوڑا او ر وہ روس کو اور مزیدتوڑنا چاہتے تھے،اسرائیل پر پہلے ہی بہت پریشر ہے۔وہ غزہ کے اندر فلسطینیوں کو کائونٹر نہیں کرپا رہاوہ حز ب اللہ کو کنٹرول نہیں کر پا رہا۔

 امریکہ اور اسرائیل نے جو داعش بنائی تھی سوریا کیلئے وہ اب منتقل کر رہے ہیں لیبیااور افغانستان میں تا کہ لیبیامیں افریقی ممالک مصر، الجزائر ،تیونس اوریمن کوDisturb کرے اور افغانستان میں داعشوں کے ذریعے افغانستان، چین، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کوDisturbکریں۔انہی داعشوں کے ذریعے یہ سی پیک کو بھی Disturbکرنا چاہ رہے ہیں۔

    Weldonal نے اپنی تاریخ تمدن میں لکھا ہےکہ پاور ہمیشہ یورپ اور ایشیاء میںمنتقل ہوتی رہی ہےاور امریکہ میں Extention ہے یورپ کی جبکہ اب پاور ایشیاء کی طرف منتقل ہورہی ہے، ایشیاء میں جو پاور کا منتقل ہونا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ
    1۔     آبادی کے لحاظ سے بہت بڑا براعظم
    2۔    ری سورسس (ذرائع)کے لحاظ سے بہت ریچ ہے۔
    3۔     منڈی بہت بڑی ہے۔
    4۔     سکیل مین پاوردنیا کی بیسٹ پاور ہے۔
    5۔    لیبر سستی ہے۔
    6۔    دنیا کے جتنے بھی بڑے مذاہب ہیں ان کی پیدائش کی جگہ ایشیاء ہے( مسیحیت،یہودیت،اسلام،بدھ مت،ہندو مت)
        
اب امریکی یہ چاہتے ہیں کہ کائونٹر کریںایشیاء کی طرفShift of Power کو، پہلے مرحلے میں اسکو (Slow) آہستہ کریںپھر روک دیں ۔۔۔کیسے ؟؟؟ ایشیاء کو عدم استحکام کا شکار کریںایشیاHeart Point کو ڈسٹرب کیا جائے۔جس طرح انسان کے جسم میںHeart Point ہوتے ہیں یعنی دل ڈسٹرب ہوجائے تو سارا جسم ڈسٹرب ہو جاتا ہے۔ایشیاء کے Heart Point کون سے ہونگے؟جہاں ذرا سی بھی ہل چل ہوگی تو ساری دنیا متاثرہو گی،ایکHeart Point ایشیاء کا ویسٹرن ایشیاء تھاجہاں آئل ہے، جہاں ساری دنیا آئی ہےوہاں ڈسٹرب کیا جائے،جنوبی ایشیاءHeart Point ہے۔جہاں ساری دنیا آئی گی ، امریکہ،چائنا ،روس آئے گا۔ افغانستا ن اور شمالی کوریا ، مغربی کوریا بھی ایسا ہی ہے۔اس کو بھی ڈسٹرب کیا جائے۔کیسے؟؟؟ بعض جگہ پر تکفیریت کے ذریعے مذہبی انتہا پسندی کے ذریعے جہاں ممکن ہے،ویسٹرن ایشیا ء میں ممکن ہے اور جہاں یہ ممکن نہیں ہے وہاں نسلی فساد پیدا کریں اور آزادی کی تحریکیں چلیںاور اس کے علاوہ ممالک کے آپس کے اختلافات پیدا کرناجیسے پاکستان انڈیا، چائناانڈیا، پاکستان ایران،ایران ترکی، ترکی عراق، سوریاایران، سعودیہ ایران،چائنا فلپائن، نارتھ کوریا سائوتھ کوریا،کے اختلافات کو ہوا دی جائے۔تاکہ ایشیا ء کو ڈسٹرب کیا جائے،اتنا ڈسٹرب کیا جائے کہ یہ اس قابل نہ ہو کہ یہ دنیا کو لیڈ کر سکے۔

اب اس سارے منصوبے کو کیسے کائونٹر کیا جا سکتا ہے جیسا کہ میں نے ذکر کیااب پاکستان ، چین ، روس ، ایران، ترکی اور عراق ملکر کر ایک الائنس بنالیں تو یہ کائونٹر ہو سکتا ہے۔ان ممالک کے فورم بننے چاہیں۔Asian Nation کے فورم بننے چاہئیں۔دانشوروں کے فورم بننے چائیں۔صحافیوںکے فورم بننے چائیں۔پارلیمنٹرینز کے فورم بننے چائیں۔ادیبوں کے فورم بننے چائیں۔شعراء کے فورم بننے چائیں۔ایشیاء لیول پر کوششیں ہونی چایئے، پاکستان ایشیاء کے اندر ہے پاکستان زبر دست جگہ پر ہے۔اللہ نے پاکستان کوGeo Political location دی ہے۔یہ وہ ملک ہے جو پانچ ارب انسانوں کو آپس میں ملاتا ہے۔آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس کےEast اور North میں دنیا کی 40% فیصد آبادی ہے اور یہاں سے ہی روس اور ترکی کے راستے نکلتے ہیںجہاں پر آئل کے ذخائر موجود ہیں وغیرہ اب آپ خود ہی سوچیں جب یہ خطہ اتنا اہم ہے ۔تو آپ کو یاد ہو گاکہ برصغیر جب تقسیم نہیں تھا تو سکندر اعظم اُٹھتا ہے اور مکدونیہ سے یہاں آتا ہے۔مغل وہاں سے آئے،برطانیہ سے انگریز یہاں آئے۔ کیوں؟؟؟؟

برصغیر بہتRich تھا،دنیا کے بلند و بالا پہاڑ یہاں،عظیم دریا یہاں،سرسبز و شاداب زمینیں یہاںیہ خطہ بہتRich تھا لوگ یہاں آ کرقبضہ کرتے تھے لوٹتے تھے ۔انگریز کیو ں یہاں آئے تھے،اسی طرح پاکستان بہت اہم جگہ پر واقع ہے، اب اگر پاکستان مضبوط ہوتا ہے اور امریکن بلاک سے نکلتا ہے تو اس پورے ایشیا ء کو فائدہ ہےاور اگر پاکستان کمزور ہوتا ہے تو امریکہ کا National Interest اسی کامتقاضی ہے،جسطر ح روس کی ex-worldگوادراینڈHot Waterمیںا مریکن اورEuropean National Interest کوThreatsکرتی تھی،اسطرح چائنا کی ریچ ورلڈ گوادریہ بھی امریکن اورEuropean National Interest  کوThreatsکر تی ہے،اس کو کائونٹر کرنا چاہتی ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان کمزور ہو وہ پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیںتاکہ پورا ایشیاء ہلتا رہے ڈاواں ڈول رہےیہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی فیصلہ ہو تا ہے چاہئے غلط ہو یا ٹھیک ہو اس میں امریکہ کا عمل دخل ہوتا ہے، کیونکہ ہمارے سیاستدانوں، بیوروکریٹ اور ٹیکنو کریٹس میں اتنا زیادہ امریکن اثر رسوخ ہے کہ جسکو کائونٹر کرنے کے لئے ہماری قوم کےاندر کوئی یک سوئی نہیں کہ ہم اس کو کائونٹر کر سکیں۔اب تو دشمن کی بھی شناخت اور پہچان ہمارے ملک کے اند ر نہیں ہے۔کوئی کہتا ہے انڈیا ہمارا دشمن ہے کوئی کہتا ہے انڈیا دشمن نہیں ہے مودی دشمن ہے،جو قوم اپنے دشمن کے مقابلے میں کنفیوژہو وہ اس کا کیسے مقابلہ کر سکتی ہےوہ تو شکست کھاتی ہےوہ تو سائے سے لڑتی رہتی ہے،کون دشمن ہے ہمارا انڈین اسٹیبلشمنٹ دشمن ہے یا مودی دشمن ہے؟ امریکہ دشمن ہے یا اسرائیل دشمن ہے،کون دشمن ہے ہمارا؟؟؟ اتنا زیادہ امریکن اثر رسوخ پایا جاتا ہے کہ اپنے دشمن کی پہچان کرنا مشکل ہے۔

سوال:سوریامیں امریکہ و اسرائیل کیسے ناکام ہوا؟

علامہ راجہ ناصرعباس: اصل ناکامی اس کو کہتے ہیں کہ جو وہ اہداف لے کر آیا تھا اس میں وہ اس میں ناکام ہواآپ دیکھ لیں پاکستان میں مسلکی لڑائی نہیں ہے،افغانستان میں مسلکی لڑائی نہیں ہےاگر یہاں مسلکی لڑائی ہوتی تو گلی گلی ، کوچہ کوچہ لڑائی ہوتی،امریکن نے اس پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی لیکن وہ ناکام ہوئے ہیں۔

سوال:آئندہ الیکشن میں آپ کی جماعت کا کیا رول ہوگا ؟

علامہ راجہ ناصرعباس :میں پاکستان کے آئین پر یقین رکھتا ہوںاور پاکستان کے آئین کی روشنی میں جو جمہوری جدوجہد ہے وہ ہمارے لئے ایک درست راستہ ہے۔لہذا ہم الیکشن سے تو کبھی بھی ہم اپنے آپ کو باہر نہیں کریں گے،اب الیکشن کے اندر اب جو بہترین صورت حال ہے وہ الائنس ہے۔عموماً پارٹیاں الائنس کرتی ہیں اگر الائنس نہ بھی ہوتا تو پھر بھی ہم الیکشن میں جائیں گے۔ہمارا مقصد ہے کہ پاکستان علامہ اقبال اور قائد اعظم والا پاکستان ہو،جہاں آئین اور قانون کی عملداری ہو، Discrimination کے خلاف اسٹینڈ لینے والے ہوںDiscrimination کو سپورٹ نہ کریں،پاکستان کو ایک مسلم پاکستان بنائیںاس کو انتہا پسند پاکستان نہ بنائیںجہاں تعلیم ،صحت اور ترقی کی راہیں کھلتی ہوںپاکستان میں مسلک کے نام پر کبھی بھی جماعتیں نہیں بننی چاہیں تھیں ہم مجبور ہوئے ہیں جماعت بنانے پرجب بسوں سے اُتار کر شناختی کارڈ چیک کر کے قتل کیا گیامساجد اور امام بارگاہوں میں بم بلاسٹ کیے گئےہمارے لوگوں کو پاراچنار میں محصور کیا گیااس وقت ہماری بات کوئی سننے کیلئے بھی تیار نہیں ہوتا تھامیڈیا میں کوئی ہماری خبر تک نہیں دیتا تھاکاش ریاست اپنی ذمہ داری ادا کرتی تو آج اس ملک میں مسلکی بنیادوں پر جماعتیں کبھی نہیں بنتی۔

جیسے پاکستان مسلم لیگ کوئی مسلکی جماعت نہیں تھی اور جو مسلک کی بنیادوں پر جماعتیں تھی وہ پاکستان بننے کے خلاف تھیں،پاکستان مسلم لیگ برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی کی جدوجہد کر رہی تھی، اس میں تمام مسلمان شریک تھے حتیٰ غیرمسلم بھی اس میں شامل تھےاور جو جماعتیں برصغیر میں مسلکی بنیادوں پر بنی تھیں وہ تو پاکستان بننے کی مخالفت کر رہی تھیں، کاش ایسا نہ ہوتا ہمارے ملک کے اندر اور ہم نے جیسے پاکستان بنایا تھا ویسے ہی اسے آگے بڑھانے کی سیاسی جدوجہد کرتے ، ہم نے اس ملک کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے، قومی ، مذہبی، لسانی بنیادوں پر ہم نے جماعتیں بنا کر پاکستان کو تقسیم کر دیا ، ریاست کہاں گئی، اس طرح کی جماعتوں اور گروہوں نے وہ جذبہ ختم کر دیا، کاش ہم دوبارہ وہ جذبہ اور ولولہ حاصل کر لیں جس کے تحت پاکستان بنا تھا، موجود ہ مسلم لیگ اس نہج پر نہیں ہے، اس کے سربراہ کو سپریم کورٹ نااہل قرار دیتی ہےاور پانچ ججز نے اتفاق رائے سے فیصلہ دیا اور آپ ان پر چڑھ دوڑے ہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ قانون جدوجہد کرتے، بھٹو کو پھانسی دی گئی تو اس کی بیٹی نے سیاسی جدوجہد کی، جن کا قانون پر ایمان ہوتا ہے وہ سختیاں جھیلتے ہیں، وہ قانون کو پاوں تلے نہیں روندتے ، مثال کے طور پر امام حسین علیہ السلام جب مکہ سے کربلا کی طرف جارہے تھے تو راستے میں انہیں حر کا لشکر ملا، امام حسین علیہ السلام نے انہیں پانی دیا، ان کے جانوروں کو بھی سیراب کیا، جینے کا حق ہر کسی کو ہے یہ ہے بنیادی انسانی حقوق پر عمل ،لیڈرشپ کارویہ یہ ہوتا ہے، یہ لوگ معاشرے کو لیکر آگے بڑھتے ہیں، اب ان کے بیٹے کہتے ہیں کہ ہم نے پاکستان آنا ہی نہیں ہے،  یہ کیسے حکمران ہیں، باپ حکمرانی کرنے آئے گا، بیٹے آتے ہی نہیں ہیں، ہمارے عوام سادہ لوح ہیں جس کی وجہ سے یہ لوگ مالدار ہو گئے ہیں۔ حکومتی اسٹیل مل کمزور ہو گئی ہے ان کی طاقتو ر ہو گئی ہے۔ کتنا ظلم ہے کہ ستر سالوں میں ہمیں قوم نہیں بننے دیا گیا، حالانکہ ہم میں اس کی صلاحیت موجود ہے، کشمیر میں زلزلہ آیا تو لوگ کیسے نکل کھڑے ہوئے تھے ، لیکن ہمیں فوجی اور سیاسی حکمرانوں نے قوم نہیں بننے دیا۔

ہم مسلکی بنیادوں پر سیاست کے مخالف ہیں، ہم نے اہل سنت کے ساتھ قربتیں پیدا کیں، شیعہ سنی جھگڑے کو ختم کیا، ہم سیاست بھی ایسی نہیں کریں گے جو مسلکی ہو، کاش قائداعظم کی مسلم لیگ دوبارہ بن جائے۔ جب سے مجلس وحدت مسلمین بنی ہے ہم نے دھرنا دیا ہے، پتھر نہیں مارا۔  جب ہمارے لوگ زیادہ مر رہے تھے تو ایک امکان تھا کہ ملک میں عسکریت پسندی جنم لے گی،  ایم ڈبلیو ایم جب بنی تو ہم نے پہلے کہا کہ ہم نے ملک کے اندر اسلحہ نہیں اٹھانا اور اہم نے اس کی قیمت دی ہے، آئین اور قانون کی حکمرانی میں رہتے ہوئے کام کیا ہےاسلحہ اٹھانے سے بربادی ہوتی ہے۔

ہم اگر انتہا پسند ہوتے تو صاحبزادہ حامد رضا اور ڈاکٹر طاہر القادری کا ساتھ نہ دیتے، ضیاءاللہ بخاری شاہ صاحب اچھے دوستوںمیں سے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ۔۔۔
وطن سے محبت کی انتہا نہیں بھول سکتا ، جس دن پاکستان دو لخت ہوا، میرے والد ریڈیو کمنٹری سنتے تھے، اٹھتے تھے بیٹھتے تھے، دکھ کا اظہار کیا اور انہیں ہارٹ اٹیک ہو گیا۔ میں تو اس دن یتیم ہو گیا تھا، جس دن پاکستان ٹوٹا۔
مسلک دین سمجھنے کا ذریعہ ہے نہ کہ انسان دین کے نام پر دوسروں کے گلے کاٹے۔

امام خمینی اسلحہ کے زور پر نہیں بلکہ عوامی طاقت کے بل بوتے پر انقلاب لیکر آئے۔

پارا چنار چار سال محاصرے میںرہا، چاروں طرف سے حملہ کیا جاتا تھا، ان کی ناموس محاصرے میں تھی، یہ مجلس وحدت مسلمین وہیں سے بنی،  اس تمام معاملے پر اخبار میں خبر نہیں چھپتی تھی اور صوبائی حکومت بھی بات نہیں سنتی تھی، وہ کہتے تھے پارا چنار چھوڑ دو کہیں اور پناہ لے لو،اب ایسی صورتحال میں کہ جب چار اطراف سے حملہ ہوگا آپ دفاع نہیں کریں گے،پاراچنار کے لوگ محب وطن اور پڑھے لکھے ہیں، پارا چنار کا لٹریسی ریٹ اسلام آباد کے برابر ہے، وہاں ہیروئن کی فیکٹریاں نہیں ہیں، یہ ایک ایسی ایجنسی ہے جہاں پاکستان کا جھنڈا لہراتا ہے، پاکستان کے خلاف کوئی کام نہیں ہوتا۔ فوج پر حملہ نہیں ہوتا، تذویراتی حوالوں سے بھی بہت اہم ہے تین اطراف میں افغانستا ن ہے، یہ علاقہ افغانستان کے اندر گھسا ہوا ہے،اس لئے طالبان اس علاقے کے باسیوں کو مار رہے تھے۔  اس علاقے کے لوگوں کا 1500 بندہ مارا گیا ہے۔

آج کی فرقہ واریت ضیاالحق کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے،  جمہوریت کے خلاف اقدام اٹھایا گیا، ایک خاص سوچ کے لوگوں کو پروان چڑھایا گیا۔ امریکہ نے پیسہ لگایا اور پاکستان کو تختہ مشق بنایا گیا۔ ملک میں علمائے کرام کو بے گناہ قتل کیا گیا ، یہ عالمی سازش اور ان کی Investmentہے۔

ٓٓٓانگریز نے مسلمانوں کی طاقت توڑنے کے لئے انہیں تقسیم کیا مسلم لیگ میں سنی اور شیعہ اکٹھے تھے توپاکستان بن گیا اسی وجہ سے انہیں آپس میں لڑوا دیا گیا تاکہ یہ طاقت نہ بن جائیں۔

پاکستان مسلم امہ میں ایک فعال ملک ہوا کرتا تھالیکن اسے اب مسائل میں الجھا دیا گیا ہے۔

سعودیہ کے ساتھ اگر ہمارے تعلقات اچھے ہوں گے تو ا س ریجن کافائدہ ہے، پاکستان اکیس کروڑ عوام کا ایک ایٹمی ملک ہے،  اس کے تعلقات کسی بھی ملک کے ساتھ خراب نہیں ہونے چائیں ۔

 سوال:کالعدم جماعتوں کا بڑا شوشا ہے ان کو الیکشن میں آنا چاہے یا نہیں؟
جواب: میں کہتا ہوں پاکستان کے آئین اور دستور پر عمل ہونا چاہے مثال کے طور پر ایک آدمی کو قتل کر دیا جاتا ہے جو شادی شدہ نہیں تھا
جس نے قتل کیا وہ شادی شدہ تھا اب اسلام نے کیا کہا اسکو سزا دو  پھانسی کی اب قاتل کے بیوی بچے بھی ہیںاگر اسکو پھانسی دی جائے تو اس کے بچے یتم ہو جائیں گے اور گھر اجڑ جائے گا اب اسلام جزوی چیزوں کو نہیں دیکھتا اسلام  As a whole دیکھتا ہے اسلام ہر بات کو سامنے رکھ کر فیصلے کرتا ہے اور قانون بنتا ہے ممکن ہے کسی ایک کو نقصا ن ہو لیکن As a whole پوری سوسائٹی کو فائدہ ہے قانون اور آئین کے مطابق عمل ہونا چاہئے نہ انصافیاں جرائم کو جنم دیتی ہیں۔

سوال: یہ فرقہ وارنہ جنگ کیوں ہوئی پاکستان میں اور دونوں طرف سے لٹریچر چھپا؟
علامہ راجہ ناصرعباس: پاکستان میںکبھی فرقہ ورانہ جنگ نہیں ہوئی البتہ فرقہ وارت ہوئی ہے اور اس کی بنیادضیاءالحق نے رکھی یہ پاکستان کی ڈیموکریسی کے خلاف ہوئی یہ افغان پالیسی کا رزلٹ ہے، انہوں نے مخصوص لوگوں کو انتہا پسندی کی طرف راغب کیا ان کے لشکر بنائے پلان امریکہ کا تھا پیسہ دوسرے ملکوں کا تھا اور اجرا پاکستان نے کیا بر صغیر میں جب بر طانیہ آیا توحکومت مسلمانوںسے چھینی تھی جو مسلمانوں کا حق ہے اور مسلمانوں کو تقسیم کیا گیا اور یہ لٹریچربھی اس وقت چھپنا شروع ہوا ایک طرف کہتے تھے کہ فلاں کتاب لکھو ابھی کتاب پرنٹ نہیں ہوتی تھی اس کا مسودہ شیعہ دے دیا جاتا تھا کہ یہ آپکے خلاف لکھا جا رہا ہے جیسے ہی کتاب پرنٹ ہوتی تھی اس کا جواب بھی آجاتا تھا اہلسنت اور شیعہ کو تقسیم کر کے توڑا گیا مسلم لیگ میں شیعہ سنی ایک ساتھ تھے اسی وجہ سے مسلمانوں کو توڑا گیا اور فرقہ وانہ کتابیں برطانیہ کے آنے کے بعد پرنٹ ہوئی اورمجیب الرحمٰن شامی صاحب نے اپنے ایک پرگرام میں کہا یہ کتابیں انڈیا سے پرنٹ ہوتی ہیں اور ان پر ایڈریس کسی اور ملک کا ہوتا ہے ، پاکستان کے سعودیہ کے ساتھ تعلقات اچھے ہونے چاہے اس سے خطے کو فائدہ ہو گا اگر کہیں حالت خراب بھی ہوئے تو پاکستان ٹھیک کر سکتا ہے پس پاکستان اکیس کروڑ عوام کا ملک ہے اور ایٹمی ملک ہے اس کا کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات کسی دوسرے ملک کے تعلقات کے ساتھ کمپرومیز نہیں ہونا چاہیے ایک سمجھ دار حکومت کی طرح سلوک کرنا چاہیے اور ان کو سیکھنا چاہے کون سی چیز میڈیا پر لانی ہے اور کون سی نہیں  ہزاروںمسائل ہوتے ہیں آپس میں حکومتوں کے۔

انٹرویو بشکریہ روزنامہ اوصاف اسلام آباد



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree