وحدت نیوز (آرٹیکل) اٹھارہ اکتوبر کو واٹس اپ چیک کیا تو ناصر شیرازی کا میسج آیا ہوا تھا ۔میسج اوپن کیا تو یہ انکی میڈیا ٹاک کی ایک ویڈیو تھی ۔جس میں بولے گئے انکے الفاظ یہ تھے ”پاکستان کے جو سٹیٹ انسٹیٹیوشنز ہیں جن میں جوڈیشری ہے ،جن میں فوج ہے انکو divide کرنے کی کوشش کرنا یہ نا صرف غداری کے زمرے میں آتا ہے بلکہ یہ ڈس کوالیفائی کے زمرے میں آتا ہے۔بس جو بندہ پبلک آفس رکھتا ہو وہ سٹیٹ انسٹیٹیوشنز کوdivide کرنے کی کوشش کرے گا کسی بھی بنیاد پر ،وہ غداری کا مرتکب بھی کہلائے گا اورآئین کے تحت نا اہل بھی قرار پائے گا۔صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے ایک ایسا فیصلہ جو معروف فیصلہ ہے جسٹس باقر نجفی صاحب کا جو جوڈیشل کمیشن بنا تھا،اس کمیشن نے جو رپورٹ بنائی تھی اس رپورٹ پرلائیو ٹی وی چینل پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ کہا کہ یہ جج صاحب ایک خاص مسلک سے تعلق رکھتے ہیں ۔انہوں نے ایک خاص مسلک کو نشانہ بنایا ۔ججز کا کوئی مسلک نہیں ہوتا ۔ججزلاءکی بنیاد پر فیصلہ دیتے ہیں،ججز آئین اور قانون کی بنیاد پر فیصلہ دیتے ہیں ۔اگر جوڈیشری کو مسلک کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی سازش کی گئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سٹیٹ انسٹیٹیوشنز کو ڈس انٹیگریٹ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو غداری کے مترادف ہے “۔وغیرہ وغیرہ ۔
ناصر شیرازی نے وزیر قانون پنجاب رانا ثناءاللہ کیخلاف عدالت میں انکی بطور ممبر صوبائی اسمبلی نا اہلی کے حوالے سے دائر کی گئی پٹیشن کے بعد یہ الفاظ میڈیا بریفنگ میں ادا کیے ۔اس پٹیشن کے تقریباً دو ہفتے بعدیکم نومبر کوبعد مجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ناصر شیرازی کوواپڈا ٹاون کمرشل مارکیٹ کی شاہراہ پر رات نو بجے سیاہ ڈبل کیبن ڈالے میں سوار پنجاب ایلیٹ فورس کی وردی اور سادہ لباس میں ملبوس افراد نے اس وقت اغواءکر لیا جب وہ فیملی کیساتھ واپڈا ٹاون جا رہے تھے ۔ان کے اغواءکو کئی دن گزر چکے ہیں مگر تاحال ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا(تاہم بعض ذرائع کے مطابق ناصر شیرازی کاونٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ کی تحویل میں ہیں )تاہم کاونٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ اسکی تصدیق نہیں کر رہااور پنجاب حکومت نے بھی اس پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ناصر شیرازی کے اغواءنے جہاں کئی سوالات کو جنم دیا ہے وہیں پنجاب حکومت کو ایک بار پھر مشکوک بنا دیا ہے ۔پنجاب حکومت اپنے مخالفین کو انجام تک پہنچانے کے حوالے سے خاصی شہرت رکھتی ہے ۔شریف خاندان جو برسوں سے پنجاب پر برسر اقتدار ہے ،اس کے دور حکومت میں مخالفین کو جس طرح سے تشدد اور جان سے بھی پار کر دینے کا رجحان پایا جاتا ہے یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ۔پنجاب حکومت میں برداشت نام کی کوئی چیز نہیں ۔کئی صحافیوں کو خلاف لکھنے پر مختلف طریقوں سے ابدی نیند سلاد یا گیا یا انکی زبان بندی کرا دی گئی ۔
پاکستان میں سیاسی مقدمے عروج پر رہے ہیں ،ان میں پنجاب کا شاید پہلا نمبر ہو ۔ماڈل ٹاون سانحہ تو ابھی انصاف کا طلبگار ہے جس میں سفاکیت کی انتہا کرتے ہوئے درجن بھر نہتے افراد کو موت کی وادی میں دھکیل دیا گیا ۔بدقسمتی قوم کی یہ ہے کہ آج تک نہ کسی نے واقعہ کی ذمہ داری لی اور نہ کسی کو سزادی جا سکی جبکہ پنجاب حکومت جسٹس باقر نجفی رپورٹ کو اوپن کرنے اور اس میں ملوث افراد کو سزا دینے کی بجائے اسے متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔اوراس کیلئے پنجاب حکومت کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔رانا ثناءاللہ کارپورٹ کے حوالے سے مسلکی بیان قابل مذمت ہے ۔حد تو یہ ہے کہ پنجاب حکومت اپنے کیے پر نادم اور خود کو قانون کے کٹہرے میں پیش کرنے کے بجائے ملک میں انتشار پھیلانے کے درپے ہے ۔راقم کی ناصر شیرازی سے کئی برس کی شناسائی ہے ۔وہ پڑھے لکھے اور عالمی منظر نامے پر گہری نظر رکھنے والے نوجوان ہیں ۔میڈیا پرسنزکے ساتھ انکے ہمیشہ اچھے روابط رہے ہیں۔وہ پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں مگر کمیونٹی کی فلاح و بہبود کیلئے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں اگرقانون کے دائرے میں رہ کر کمیونٹی کی خدمت کی جائے یا انکے حقوق کیلئے آواز بلند کی جائے ۔متعدد نظریاتی جماعتیں اپنی کمیونٹی کی فلاح و بہبود اور حقوق کیلئے کام کر رہی ہیں ۔
ناصر شیرازی ایک مکتبہ فکرکی جماعت مجلس وحدت مسلمین سے وابستہ اور اس کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل تھے ۔جب بھی ان سے بات ہوئی ہر بار انکی باتوں سے پاکستان اور پاکستانیت سے سچی محبت کی خوشبو آئی ۔وہ ملک میں آئین اور قانون کی بالا دستی کیلئے سرگرم عمل رہے اور رانا ثناءاللہ کیخلاف بھی انہوں نے اس لیے پٹیشن دائر کی کہ وہ عدالیہ جیسے اداروں کو متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہے تھے ۔پوری قوم کی طرح ناصر شیرازی اور انکے مکتبہ فکر نے دہشت گردی کے ناسور کے خاتمہ کیلئے اہم کردارا دا کیا۔ پنجاب حکومت ہمیشہ کسی بات پر صبر ،تدبر اور تحمل کی بجائے اس معاملہ کو فوراً قصہ پارینہ بنا دینے پر تل جاتی ہے ۔اس حوالے سے اسکا ٹریک ریکارڈ بھی سب کے سامنے ہے ۔کالعدم تنظیمیں کن کی سپورٹ سے دندناتی پھرتی تھیں یہ بھی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ،مگر بھلا ہو آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کا کہ پاک فوج نے ملک سے ان ناسوروں کے خاتمے کی ٹھانی اور پنجاب حکومت کو بھی مجبوراً اپنی بوئی گئی فصلوں کو اپنے ہاتھوں سے کاٹنا پڑا ۔انسان یہ سوچ کر دنگ رہ جاتا ہے کہ رانا ثناءاللہ جیسا متنازعہ شخص صوبے کا وزیر قانون ہے جس کا سانحہ ماڈل ٹاون سمیت کئی دوسرے حوالوں سے ایک شہرہ ہے۔
آفرین ہے شریف برادران پر جنہیں رانا ثناءاللہ کے علاوہ دوسرا کوئی شخص اس عہدے کے قابل نظر نہیں آتا ۔ابھی حال ہی میں قادیانیوں کے حوالے سے موصوف اپنے غیر متنازعہ بیان کی وجہ سے تنقید کی زد میں ہیں ۔رانا ثناءاللہ جیسا وزیر داخلہ صوبے کیلئے بہت بڑا سکیورٹی رسک ہے مگر شریف برادران کی مجبوری ہے کہ وہ انہیں خود سے دور بھی نہیں کر سکتے چونکہ رانا صاحب میاں بردران کے بہت بڑے رازدان اور بعض” معاملات“ میں برابر کے شریک بھی ہیں۔ناصر شیرازی کے اغواءمیں ایک اورپہلواورخدشہ یہ ہے کہ کسی دوسرے فریق نے اس تمام صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہو۔مگر یہ خدشہ اس وقت دم توڑ جاتا ہے جب اس کیس میں پنجاب حکومت کی سستی اورسردمہری سامنے آتی ہے ۔جب یہ الفاظ قلم سے رواں ہیں ناصر شیرازی کے اغواءکو ایک ہفتہ گزر چکا ہے مگر تاحال پنجاب حکومت کی طرف سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی اور نہ اس حوالے سے کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی۔
سیف سٹی منصوبہ کے اربوں روپے کے کیمرے کہاں گئے؟ایک پر ہجوم سڑک پر وردی اور سادہ لباس میں ملبوس افراد زبردستی ایک شہری کو لے جاتے ہیں ،سکیورٹی ادارے کہاں ہیں؟ابھی تو ملک میں سکیورٹی بھی الرٹ ہے۔ان عوامل سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے نہیں تو اب تک چکھ نہ کچھ سراغ لگایا جا چکا ہوتا ۔کیونکہ پنجاب حکومت خاص طور پر رانا ثناءاللہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس اغواءکی ذمہ داری ان پر ڈالی جا رہی ہے اس لیے اگر انکا اس اغواءمیں کوئی کردار نہیں تو وہ بازیابی کیلئے تمام وسائل برائے کار لاتے جو عملی طور پر دیکھنے میں نہیں آئے۔ناصر شیرازی کے بھائی کی طرف سے رانا ثناءاللہ اور شہباز شریف کیخلاف دی گئی درخواست پر ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔مگر مغوی کے بھائی کی طرف سے لاہور ہائیکورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں عدالت نے مغوی کو دو یوم کے اندر 8نومبر کو عدالت کے سامنے پیش کرنے کا حکم دے دیا ۔ناصر شیرازی کا اغواءبلاشبہ پنجاب حکومت کو ایک بار پھر مشکوک بنا گیا ہے۔
فیض احمد فیض نے کیا خوب کہا ہے۔
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
تحریر۔۔۔۔۔صابر بخاری