وحدت نیوز(آرٹیکل) ملت کا ہر شہید قوم کے مقدر کا ستارہ اور ملت کے ماتھے کا جھومر ہے اس وقت ہمارے ملک کا ہر حصہ ملت جعفریہ کے باوفا بیٹوں کے پاکیزہ خون سے رنگین ہو چکا ہے اور قبرستانوں کے شہر آباد ہو گئےہیں لیکن اج شہادت کے درجے پہ فائز ہونے والے شہید محمد سیدین زیدی حقیقتا شوق شہادت سے سر شار اور سالہا سال سے اسی تمنا میں اپنی زندگی کے آخری سال گذار رہے تھے،کوئی چارسال قبل میں ہیوسٹن امریکا میں مرکز اسلامی میں دینی وظائف کی ادائیگی میں مشغول تھا کہ کہ ایک دن مجھے سیدین بھائی کا فون آیا اور وہ مجھ سے ملنا چاہتے تھے چنانچہ دوسرے دن گیارہ بجے وہ مجھ سے ملنے میرے آفس تشریف لائے اور انہوں نے اپنامدعا کچھ یوں بیان کیا کہ میں پاکستان میں ایک ایڈووکیٹ کی حیثیت سے کافی عرصہ کام کر چکا ہوں اور ابھی کافی مدت سے امریکا آکر رہائش پذیر ہو گیا لیکن اب جبکہ ملک میں ملت کی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے اور آئے دن وطن عزیز میں ہونے والی شہادتوں کا سنتا ہوں تو جی چاہتا ہے اپنے ملک جا کر قوم و ملت کی خدمت کروں اور اس وقت جب مختلف علاقوں میں تکفیری قوتوں نے ہمارے بہت سے مومنین کو جھوٹے مقدمات میں جکڑ کر ان کو جیلوں میں بند کروا دیا ہے اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔
انہوں نے فرمایا کہ وہ اپنی خدمات اور سابقہ تجربے اور وکلا کے ساتھ ملکی سطح پہ دیرینہ تعلقات کو پیش کرنے لئے حاضر ہیں اگر ان کو مجلس وحدت میں لیگل ایڈوائزر کے طور پہ رکھ لیا جائے تو وہ ملک میں شیعہ وکلا پہ مشتمل ایک ایسا لیگل فورم بنائیں گے جو ملک بھر میں قید و بند کی صعوبتوں گرفتار مومنین کے مقدمات کی پیروی کرکے ان کی آزادی کے لئے تگ و دو کریں گے اور قوم کی خدمت میں اپنی زندگی کے آخری ایام کو گذاریں گے،پھر اچانک فرط جذبات سے ان کی آنکھوں میں آنسو چھلکنے لگے اور ان کی آواز گلے میں اٹک گئی جب وہ شوق شہادت میں مخمور ہو کر یہ کہہ رہے تھے کہ میں نے اپنی زندگی تو گذار ہی لی ہے اور بچے بھی سب بڑے ہو گئے اب چاہتا ہوں کہ زندگی کے آخری سال قوم کی خدمت میں وقف کر دوں شاید اللہ تعالیٰ مجھے آخر ی عمر میں شہادت کی موت عطا کر دے ،میں چاہتا ہوں کہ مجھ ناچیز کی جان دین مبین کے کام آ جائے،مجھے کہا اپ پاکستان میں قبلہ راجہ ناصر عباس صاحب سے بات کریں،تو میں جانے کے لئے تیار ہوں چنانچہ اقا صاحب سے بات کی تو انہوں اس تجویز کا استقبال کیا اورسیدین صاحب ایک ڈیڑھ ماہ کے اندر اندر وطن عزیزجانے کو تیار ہو گئے،پاکستان پہنچ کر اسلام آباد میں ان کے لئے مجلس نے ایک دفتر اور رہائش بنائی جہاں سے انہوں نے اپنی فعالیات کا آغاز کیا اور اس دوران انہوں نے ملکی سطح پہ دورے کئے اور کئی قیدیوں کی آزادی کے لئے مقدمات لڑے اور بالخصوص راولپنڈی سانحہ عاشور میں سینکڑوں بے گناہ اسیران کی قانونی مشاورت اور وکالت میں کلیدی کردار ادا کیا،سال بھر مسلسل ملک میں گذارا اورپھر کچھ ناگزیر حالات کے باعث انہیں واپس امریکا جانا پڑا جہاں پھر سے میری ان سے ملاقات ہوئی۔
شہید علماء سے بہت انس اور محبت رکھنے والے انسان تھے چنانچہ ان کے دو بیٹوں کی شادیاں علماء ہی کے خانوادہ سے ہوئیں ان کی ایک بہو مولانا سید سرتاج زیدی صاحب کی بیٹی اور دوسری مولانا شمشاد حیدر کی صاحبزادی ہیں،وہ واپس جاکر بھی تمام اوقات ملک و قوم کی فکر میں مبتلا رہتے انہوں وہاں بیٹھ کر کئی مومنین قیدیوں کے مقدمات کے لئے مدد فرمائی-وہ ہر آن قوم کی فکر میں رہتے،ہر سال زیارت اربعین پہ جانے والے، تہجد گذار ، مومن و متقی،اجتماعی فکر کے حامل، مخلص، پیرو رہبری ،باپ کی حیثیت سے بہترین باپ اور بچوں کی کچھ اس طرح تربیت کی کہ سب بچے امریکا میں رہتے ہوئے بھی انتہائی متدین اور با تقویٰ ہیں . ان کے ایک فرزند اس وقت حوزہ علمیہ قُم میں زیر تعلیم ہیں- اج شہید کی دیرینہ تمنا پوری ہو گئی اور وہ زیارت اربعین کے بعد مشہد مقدس کی زیارت سے فارغ ہو کر حرم ہای اہل بیت کی زیارت سے توشہ آخرت لے کر حریم الہی کی زیارت کو لبیک کہتے ہوئے دشمنان اہل بیت کی گولیوں کا نشانہ بن کرامام بارگاہ کے باہر ایک نمازی کی حیثیت سے اپنے پروردگار سے جا ملے،اے عاشق حقیقی اہل بیت اطہار اور اے شوق شہادت میں شراب شہادت نوش فرمانے والے سید محمد سیدین ہمارے آپ پر سلام ہوں ،ہم تو اسی مادی دنیا میں باقی رہ گئے اور آپ لقاءاللہ کے لئے رخصت ہوگئے،خدا انکے درجات بلند فرمائے اور انہیں جوار معصومین علیہم السلام میں جگہ نصیب فرمائے۔
از قلم ۔۔۔حجتہ الاسلام.علامہ غلام حر شبیری