وحدت نیوز(آرٹیکل) آج ہم ایک برائے نام انسانی معاشرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں، ایک ایسا معاشرہ جس میں انسانیت فقط برائے نام ہے ، اسی طرح ہم اسلامی عقائد کے بجائے اپنے من گھڑت عقائد کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں، ہمارے عقائد کے پیچھے کسی قسم کی تحقیق کے بجائے دوسروں سے سنی سنائی باتیں اور کہانیاں ہوتی ہیں۔
ہم جب کسی سے لڑتے ہیں، کسی کے خلاف یا حق میں فتوے دیتے ہیں، کسی کے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں یا کسی کو گلے سے لگاتے ہیں، یا کسی کو اچھا برا کہتے ہیں تو اس کے پیچھے کوئی اصول ، ضابطہ ، اخلاقی جذبہ یا قانونی و آئینی پہلو نہیں ہوتا۔
درحقیقت سب کچھ ہماری نادانی اور خاندانی جہالت کے گرد گھومتا ہے، ہم جانتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے لیکن اس کے باوجود عقلِ کل بن کر بولتے ہیں۔ کسی نے کہا تھا کہ اگر دنیا میں بے وقوف اور جاہل بولنا بند کردیں تو دنیا کے مسائل ہی حل ہو جائیں۔
اب ہم نے اپنی نادانی کے باعث کچھ اس طرح کے عقائد بنا رکھے ہیں اور دوسروں کوبھی ان کی تعلیم دینا اپنا فرضِ اوّلین سمجھتے ہیں:
۱۔ پاکستان کی کبھی اصلاح نہیں ہو سکتی
۲۔ہمارے ارد گرد سب لوگ راشی، مرتشی اور بد دیانت ہیں
۳۔ جہاں کوئی مسئلہ ہوجائے وہیں چاپلوسی کرنی اور رشوت دینی شروع کردیں
۴۔ظلم کو ظلم اور غلط کو غلط کہنے کے بجائے سب کو اچھا کہنے یا سب کو برا کہنے کا راگ الاپیں
۵۔ یہاں کوئی کسی کی نہیں سنتا،مسنگ پرسنز جیسے مسائل پر چپ سادھ لینی چاہیے، یعنی طاقتور کے خلاف احتجاج در اصل بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہے
۶۔ یہاں تو دہشت گردی کبھی رُک ہی نہیں سکتی، دیگر ممالک کا اثرو نفوز ختم نہیں ہو سکتا
۷۔ اجتماعی ناانصافی کے باعث یہاں بے روزگاری اور فقر کبھی ختم نہیں ہو سکتا
۸۔ معاشرے میں عدل و انصاف اور انسانی مساوات سب کتابی باتیں ہیں
۹۔ اور ۔۔۔۔
اس طرح کے عقائد اور سوچ کا منبع خدا سے ناامیدی ہے، جب لوگ خدا کے بجائے اقوام، قبیلوں، صوبوں، زبانوں، نوکریوں، دولت اور سٹیٹس کی پرستش شروع کر دیتےہیں تو اپنی اور معاشرے کی اصلاح سے مایوس ہو جاتے ہیں اورجہاں پر لوگ مایوس ہو جائیں وہاں پر انحرافات ، برائیوں اور منکرات کے خلاف جدوجہد ختم ہو جاتی ہے۔
اگر ہم خدا کی توحید اور یکتائی پر ایمان رکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ جس خدا نے ہمیں یہ ملک عطا کیا ہے اس کی مدد و نصرت سے اس کی اصلاح بھی ممکن ہے، اللہ پر ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں منکرات کے خلاف جدوجہد اور حرکت کریں ۔ حرکت اور جدوجہد زندگی کی علامت ہے۔ توحید انسانوں کو زندگی دیتی ہے اور توحید پر عدمِ ایمان انسانوں اور معاشروں کی موت ہے۔
ہم شاید یہ بھول گئے ہیں کہ انسانی افکار کی زندگی اور انسانی سماج کی اصلاح کا انحصار عقیدہ توحید پر ہے۔اگر ہم اصلاح اور جدوجہدسے مایوس ہیں تو در اصل ہمارا عقیدہ توحید کمزور ہے۔
ارشادِ پروردگار ہے:
وَٱعْتَصِمُوا۟ بِحَبْلِ ٱللَّهِ جَمِيعًۭا وَلَا تَفَرَّقُوا۟ ۚ وَٱذْكُرُوا۟ نِعْمَتَ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَآءًۭ فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِۦ إِخْوَٰنًۭا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍۢ مِّنَ ٱلنَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمْ ءَايَٰتِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿103﴾
ترجمعہ: اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور اللہ کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو تم کو اس سے بچا لیا اس طرح اللہ تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ (سورہ آل عمران،آیت 103)
کیا کبھی ہم نے سوچا کہ وہ کونسی اللہ کی رسی ہے اور وہ کونسی نعمت تھی جس نے متفرق لوگوں کو متحد کر دیا، دشمنوں کو بھائی بھائی بنا دیا، کالے اور گورے ، عربی و عجمی کے فرق مٹا دئیے ، اگر ہم تدبر کریں تو اس میں سب سے بڑی نعمت ہمیں توحید ہی نظر آئے گی۔
بقولِ اقبال:
زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی!
آج کیا ہے؟ فقط اک مسئلہ علم کلام!
روشن اس ضو سے اگر ظلمت کردار نہ ہو!
خود مسلماں سے ہے پوشیدہ مسلماں کا مقام
میں نے اے میر سپہ تیری سپہ دیکھی ہے
قل ہو اللہ کی شمشیر سے خالی ہیں نیام
آہ! اس راز سے واقف ہے نہ ملا‘ نہ فقیہہ
وحدت افکار کی بے وحدتِ کردار ہے خام
قوم کیا چیز ہے‘ قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بے چارے دورکعت کے امام
تحریر۔۔۔۔نذر حافی