وحدت نیوز (آرٹیکل) صحافت ایک آفاقی شعبہ ہے، ایک صحافی کی ماضی پر عقابی، حال پر احتسابی اور مستقبل پر فیصلہ کن نگاہیں ہوتی ہیں، بعض لوگ ایک ٹریکٹر اور موٹر سائیکل کی ٹکر کی خبر چھاپنے کو صحافت سمجھتے ہیں لیکن درحقیقت صحافت آنے والے زمانوں پر نگاہ رکھتی ہے اور مستقبل کے آسمان پر سیاسی و سماجی ستاروں کی حرکات کا نوٹس لیتی ہے۔
16 جنوری 2018ء کو ایوانِ صدر پاکستان میں پیغامِ پاکستان کے نام سے کیا ہوا!؟ اس پر ہماری صحافی برادری کو جو دلچسبی لینی چاہیے تھی وہ نہیں لی گئی۔بات فقط پیغامِ پاکستان کے نام سے ایک فتویٰ جاری کر دینے کی نہیں بلکہ اِن فتویٰ دینے والوں کی شناخت قومی زبوں حالی اوت کشت و کشتار میں ان کا کردار اور اس وقت میں یہ فتویٰ دینے کی وجہ نیز اس فتوے کے ہمارے مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہونے والے ہیں یہ سب کچھ زیرِ بحث آنا چاہیے۔
بلاشبہ جو لوگ ہمیشہ امت مسلمہ کے اتحاد کے لئے کوشاں رہے ہیں وہ ہمارے لئے لائق صد احترام ہیں لیکن صحافت کسی کی جی حضوری کرنے، خوشامد کرنے اور ہاں میں ہاں ملانے کا نام نہیں ہے۔
یہ انتہائی مضحکہ خیز بات ہے کہ جب ٹرمپ نے پاکستان کی امداد بند کرنے کا اعلان کیا تو اس کے جواب میں مسٹر ٹرمپ کو مطمئن کرنے کے لئے 1829 علمائے کرام کو بٹھا کر ایک فتویٰ صادر کیا گیا۔ان فتویٰ صادر کرنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے ماضی میں امریکہ سے ڈالر ملنے پر ہی فتوے جاری کئے تھے اور ملک میں قتل و غارت کا بازار گرم کیا تھا۔
یعنی بالکل وہی لوگ جنہوں نے امریکی ڈالر ملنے پر قتل وغارت کے فتوے دئیے تھے اب انہوں نے امریکی ڈالر رکنے پر بھی فتویٰ جاری کیا ہے۔ اس سے ڈالر کی طاقت اور اپنے ہاں کے علمائے کرام کے قلم کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
جن لوگوں کی زندگی ہی وحدت اسلامی کے لئے وقف ہے وہ ہمارا موضوع نہیں ہیں بلکہ ہمارا موضوع سخن وہ لوگ ہیں کہ جن کے دامن پر بے گناہوں کے خون کے دھبے ہیں ، جن کی آستینوں پر نہتے لوگوں کے لہو کے نشانات ہیں ، جن کے فتووں سے مساجد پر خود کش حملے کئے گئے ہیں ، جن کی تقریروں نے مسافروں کو قتل کروایا ہے ۔۔۔
وہ لوگ جو کل ڈالر لے کر معصوم انسانوں کے قتل کے فتوے جاری کرتے تھے اور آج ڈالر رُکنے کے خوف سے اتحاد کی باتیں کر رہے ہیں ایسے لوگ کسی طرح بھی قابلِ اعتماد نہیں ہیں۔
اگر حکومتی ادارے معاشرے میں واقعتاً اسلامی اتحاد چاہتے ہیں اور علمائے کرام اس ملک کو امن و اخوت کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے بے گناہ انسانوں کے قاتلوں سے قصاص لیا جائے، دین فروشوں، فتویٰ فروشوں، خود غرضوں، زر پرستوں اور اغیار کے ایجنٹوں کو علمائے کرام کی صفوں سے باہر کیا جائے۔
جن کی ایک تقریر سے نفرتوں کےا لاو بھڑکتے رہے اور ایک ایک فتوے سے سینکڑوں بے گناہ لوگ مارے گئے ، انہیں عدالتوں کے کٹہرے میں لایا جائے۔
جب تک بے گناہ شہیدوں کے لہو کی روشنائی قصاص مانگتی رہے گی، جب تک بے آسرا مائیں بد دعائیں دیتی رہیں گی، جب تک اجڑے ہوئے سہاگ خون اگلتے رہیں گے، جب تک بیواوں کے بین گونجتے رہیں گے ، جب تک یتیموں کی سسکیاں سنائی دیتی رہیں گی تب تک فتووں کی سیاہی اس ملک کو کوئی روشنائی نہیں بخش سکتی۔
جو فتویٰ قاتل کو دار تک نہ پہنچائے، جو قلم درندے کو زندان تک نہ پہنچائے جو علم وحشی کو رام نہ کرے جوحکومت باغیوں کو لگام نہ ڈالے وہ عوام کے لئے قابلِ اعتماد نہیں اور عوام کی امنگوں کی ترجمان نہیں۔
یہ یتیم ، یہ بے نوا، یہ بے آسرا ، یہ بیوائیں، یہ بے زبان، یہ اداس لوگ فتوے نہیں قصاص مانگتے ہیں، یہ ٹرمپ کی خوشی نہیں اپنے دشمنوں کا سراغ مانگتے ہیں ، اور یہ ڈالر کی امداد نہیں قاتلوں کے سر مانگتے ہیں۔
یہ صحافت اور میڈیا سے مربوط افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ٹرمپ کی خوشنودی کے لئے فتوے جاری کرنے والوں کا محاسبہ کریں ۔ یہ مقامِ فکر ہے کہ ۱۸ سو سے زائد علمائے کرام نے ٹرمپ کو مطمئن کنے کے لئے فتویٰ دیا لیکن گزشتہ ستر سالوں میں قوم کو مطمئن کرنے کے لئے انہیں اکٹھے ہونے کی توفیق نہیں ہوئی۔
اگر ان لوگوں کو بے نقاب نہیں کیا گیا اور فتوی فروشی کے اس کاروبار سے پردہ نہیں اٹھایا گیا تو مستقبل میں اس سلسلے کو روکنا سب کے لئے مشکل بلکہ ناممکن ہو جائے گا۔
ہمیں چاپلوسی اور خوشامد کے بجائے صاف انداز میں یہ بیان کرنا چاہیے کہ یہ پیغام ، پیغامِ پاکستان نہیں بلکہ ٹرمپ کی خوشامد کے لئے فتویٰ فروشوں کا پیغام ہے۔ پاکستانی قوم مستقل طور پر فتویٰ فروشی اور شدت پسندی کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے۔
پاکستانی بحیثیت قوم فتویٰ فروشی اور شدت پسندی دونوں کو یکسر طور پر مسترد کرتے ہیں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.