وحدت نیوز (آرٹیکل) ہر چند کہ راقم بلتی زبان و ادب کے رموز اورادبی و علمی اصطلاحات سے تقریبا نا آشنا ہوں۔ یوں سمجھ لیجیئے کہ صرف معاشرے میں رائج الفاظ اور عام بول چال ہی جانتا ہوں۔ ایک مرکب لفظ‘‘سرفہ رنگہ’’پر غور کیا گیا۔ پہلا لفظ سرفہ یعنی تازہ، نیا، جدید، جبکہ رنگاہ ایسا خطہ ارضی یا زمین کا ایسا ٹکڑا جو باقاعدہ ذراعت وغیرہ کیلئے استعمال نہ ہو، بلکہ قرب و جوار کی آبادیوں کے لئے بطور چراگاہ استعمال ہونے والی زمین۔ اس مرکب لفظ کے معنی و مفہوم جو اخذ کئے جا سکتے ہیں وہ ہیں ایسی تازہ زمین جو کہ کاشت کاری کیلئے استعمال نہ ہو۔ رنگاہ، سنیو رنگا، ہلما رنگاہ اور سرفہ رنگاہ وغیرہ کے علاقوں سے بلتستان کے عوام واقف ہیں۔ سرفہ کو ہم ماڈرن یا جدید کے معنی میں لیں تو ہمارے ذہنوں میں زمانے کے نت نئے طور طریقوں، نت نئی ٹیکنالوجی، نئی سیاسی، سماجی اور اقتصادی اصطلاحات اور پالیسیاں وغیرہ بھی آجاتے ہیں۔ انسان اپنی ضروریات کے مطابق رنگاہ یعنی غیر آباد علاقے کو استعمال کرتا ہے۔ جس کیلئے سرفہ یعنی تازہ خیالات اور مشورے کار آمد ہوتے ہیں۔ نئی اصطلاحات اور پالیسیاں ضروری نہیں کہ کسی پرانے اصطلاح یا پالیسی کے متبادل کے طور پر بنائی جائے، بلکہ یہ نئی تخلیق بھی ہوسکتی ہے۔ کیونکہ انسان کو اللہ نے سوچنے کی صلاحیت دی ہے جس سے نت نئے ایجادات ہوتے آج کی دنیا کو اکیسویں صدی میں ھم گلوبل ولیج کہتےہیں۔ بقولِ شاعر،
جہانِ تازہ کے افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
یہی وجہ ہے دنیا آج تحقیق کے شعبے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اورمحققین کی ہی محنت کا ثمرہے جو آج نت نئی ٹیکنالوجی، ایجادات ہماری زندگیوں کو پر آسائش بنا رہی ہیں۔ سکردو کے مضافات میں دریائے سندھ کے اس پار سرفہ رنگاہ سے اب ایک دنیا واقف ہوچکی ہے۔ اس کی وجوہات سرفہ رنگاہ جیب ریلی، سرفہ رنگاہ ہائیکنگ اور سرفہ رنگاہ کی جانب سکردو شہر کی وسعت کیلئے ہونے والے اقدامات ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ برطانیہ عظمی کی سلطنت دنیا بھر میں پھیلی ہوئی تھی، تقریبا پوری دنیا میں اسکا سکہ رائج تھا۔ لوگوں کیخیالات بدلے، زمانہ بدلا، ضروریات بدلیں، نئے تقاضے سامنے آئے۔ آج ڈالر پوری دنیا پر راج کررہا ہے۔ اور سپر پاور امریکہ دنیا پر دھاک بٹھاتا نظر آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ کی دنیا پر معاشی و سیاسی اجارہ داری کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے؟ قرائن یہی بتلاتے ہیں کہ جدت پسندی اور تازہ خیالات کو عملی جامہ پہنانے میں مہارت ایسا ہتھیار ہے جو امریکہ کو سپر پاور بنا گیا۔ دنیا کو اس بات سے آگاہ ہونا چاہئے کہ امریکہ کی اجارہ داری اس وقت تک قائم رہے گہ جب تک اقوام عالم میں اس کے خیالات و افکار کے مقابل کوئی تازہ تر اور جدید تر خیال سامنے نہیں آجاتا۔
تحقیق کے طالبعلم ہونے کے ناتے مختلف کتب اور دستاویز سے واسطہ پڑتا ہے اور ماضی اور حال کی کئی حقیقتیں اور ایجادات سے واقفیت ہو جاتی ہے۔ میرا قلیل مطالعہ باور کراتا ہے کہ دنیا کی معاشی بازار میں تیل کو اولیت حاصل ہونے سے قبل لوگوں کا انداز فکر ویسا نہیں تھا جیسا عہد رفتہ میں ہے۔ عرب ممالک میں قدامت پرستی عروج پر تھی، لارنس آف عربیہ نامی مووی دیکھنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ خطہ عرب کے نقشے کو اس عہد کی طاقتوں نے نئی شکل دی۔ تب سے زمانہ جدید سے ما بعد جدیدیت کا روپ دھار گیا۔ آج بھی دنیا کی طاقتیں خاص کر امریکہ بہادرعرب سرزمین کو اپنے بہترین مفاد میں استعمال کررہا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم اور مایہ ناز لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کرایا گیا۔ اس سے قبل سعودی عرب کے جدید تفکر کے حامل شاہ فیصل کو بھی انجام تک پہنچایا جا چکا تھا۔ بھٹو تازہ خیالات کے مالک تھے جو سامراجی قوتوں کے جبر کو قبول کرنے کو اپنی اور قوم کی توہین سمجھتے تھے۔بھٹو کو منظر سے ہٹانے کے بعد پاکستان میں امریکہ کا عمل دخل بڑھ گیا۔ امریکی ساختہ مرد مومن, مرد حق ضیاء الحق کے ذریعے مجاہدین کی تربیت کروائی، ضیاء کے اندھیرے ملک کے کونے کونے میں پھیل گئے۔ مخصوص سکول آف تھاٹ کو پروان چڑھایا گیا۔ حال ہی میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے اعتراف کے بعد اب اس میں شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ امریکی ساختہ مرد مومن کے مجاہدین کے نعرے با قاعدہ عقیدے بن گئے۔ اس وقت بوئی گئی زہریلی فصل کو پاکستان سمیت خطے کے ممالک اب تک کاٹ رہے ہیں۔ امریکہ بہادر کی ضروریات بدلیں، سو پالیسی بھی بدلی۔ نتیجتا نئی تھیوری سامنے آئی۔اب روشن خیال اعتدال پسندی کا ڈھونگ رچایا گیا اور یہ بھی ایک اور آمر مطلق کے ذریعے۔ گزشتہ مرد مومن سے تربیت دلانے گئے مجاہدین کو کچلنے کیلئے روشن خیال بہادر کو خوب استعمال کیا گیا جس کے نتائج سے پوری دنیا واقف ہے۔ افغانستان میں سترہ سالہ جنگ میں ناکامی کے بعد گزشتہ دنوں قندوز میں ڈیڑھ سو معصوموں پر بمباری نے ثابت کیا کہ اس اعتدال پسند روشن خیال سوچ کے پیچھے شہہ دماغوں کو اپنی دھاک بٹھانے کیلئے کسی بھی حد تک جانے سے کوئی روکنے والا نہیں۔
گزشتہ دنوں مقامی اخباروں میں خبر شائع ہوئی ہے کہ بلتستان کے مخصوص علاقے میں مخصوص بیرونی طاقت کو پانچ سو کنال کی اراضی چاہئے۔ صوبائی حکومت خطے کی ہزاروں بلکہ لاکھوں ایکڑ زمین خالصہ سرکار کے نام پر ہتھیانے کے لئے پہلے سے ہی بے تاب ہے۔ خالصہ سرکار کے کالے اصول کے نفاذ میں ہنوز عوامی طاقت رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ سکردو چھومک میں سولہ روزہ عوامی نگہبانی کے نتیجے میں انتظامیہ قبضے میں فی الحال ناکام ہے۔ اب خبریں آ رہی ہیں کہ لینڈ ریفارمز کے نام پر گلگت بلتستان میں جہاں جہاں سرفہ رنگاہ یعنی غیر آباد علاقے ہیں ان کو زیر استعمال لانے کیلئے حکومت نئی پالیسی بنا رہی ہے۔ عین ممکن ہے کہ حکومتی پالیسی کی آڑ میں مخصوص ملک کے لئے پانچ سو کنال عوام کی ملکیتی زمین مفت دینے کی بھی حکمت عملی بن رہی ہو۔ عوامی سطح پر ایسی پالیسی کی شدید مخالفت کے آثار نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب اسی علاقے کے نوجوانوں کا ایک طبقہ روشن خیالی کے نعروں اور سوچ سے مرعوب و متاثر دکھائی دیتا ہے۔ مقامی طور پر اس سوچ کو ہوا دینے کی کچھ مثالیں ثقافتی پروگرامز اور خواتین کے حقوق کیلئے سرگرم سماجی انسان دوست گروہوں کی سرگرمیاں ہیں۔ اتفاقا ثقافت کے نام پر کی جانیوالی سرگرمیوں کو بھی ستر کی دہائی کے بعد سے باقاعدہ ایک نئی فکر کے ساتھ علاقے سے ختم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ دنیا جدیدیت کے جتنے زینے طے کر لے مگر یہ بات اٹل ہے کہ کوئی شریف انسان قدیم جاہلیت کے زمانے کے قبیح کاموں کو اچھا نہیں سمجھتا۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے علاقے میں اب کچھ لا ابالے منچلے ڈانس پارٹیاں منعقد رہے ہیں۔ یعنی ان کے حصے میں جدید تعلیم اور طرز فکر کی بجائے ایسی جدید مگر قبیح حرکتیں آئیں۔
گلگت بلتستان کے اہل فکر اور ہوش مند افراد کی یہ اجتماعی ذمہ داری بنتی ہے کہ خطے کو بیرونی عناصر کے ثقافتی یلغار سے بچایا جائے. مروت اور ادب کی آمیزش میں گوندی ہوئی ہماری تہذیب کو کسی اور تمدن سے ملانے کی چنداں ضرورت نہیں. ساتھ ساتھ اہل نظر کایہ بھی قومی فریضہ ہے کہ بیرونی طاقتوں کی اچانک گلگت بلتستان میں بڑھتی دلچسپی کا ادراک کیا جائے. یہاں کی جدی پشتی عوامی ملکیتی زمینوں کو خالصے والی سرکار کی مشکوک نظروں سے بچایا جائے۔ یہ زمینیں نہ سرکار کی ہیں اور نہ کسی بیرونی شاہ، شیخ یا مسٹر کو تحفے میں دینے کے واسطے پڑی ہیں۔ یہ زمین ہماری ہے۔ہم اس زمین سے ہیں۔سارفہ رنگاہ ہمارا ہے۔نہ سرکار کا ہے اور نہ کسی بیرونی طاقت کی ملکیت ہے۔
تحریر: شریف ولی کھرمنگی(بیجنگ)