وحدت نیوز (آرٹیکل) جہالت ہر درد کی ماں ہے،پسماندگی کی جڑ ہے، شیاطین اور طاغوت کا ہتھیار ہے، انسان دشمنوں کا اوزار ہے اور انسان کی بدبختیوں کا سرچشمہ ہے۔ دینِ اسلام کسی طور بھی انسانوں کو جاہل رکھنے کے خلاف ہے۔ انسانوں کو دوطرح سے جاہل رکھا جاتا ہے، ایک یہ کہ تعلیمی داروں کو بند کر دیا جائے اور یا پھر انہیں غیر معیاری کر دیا جائے جبکہ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ تعلیمی ادارے تو کھلے رہیں لیکن وہ علمی معیارات کے بجائےتعصب ، ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم اپنے نظریات لوگوں کے سامنے پیش کریں۔
ظہورِ اسلام سے پہلے لوگوں میں یہ وہم عام تھا کہ چاند گہن اور سورج گہن اس وقت لگتا ہے کہ جب زمین پر کوئی ناخوشگوار حادثہ پیش آتا ہے چنانچہ جب نبی اکرمﷺ کی زندگی میں ایک مرتبہ سورج گہن لگا تو اسی روز اتفاق سے آپ کے فرزند حضرت ابراہیمؑ کا انتقال بھی ہوا اور لوگوں نے یہ چہ مہ گوئیاں شروع کر دیں کہ یہ سورج گہن جنابِ ابراہیم کی وفات کی وجہ سے لگا ہے۔
اس وقت نبی اکرمﷺ نے لوگوں کی جہالت کو دور کرتے ہوئے فرمایا:
سورج اور چاند خدا کی دو نشانیاں ہیں انہیں کسی کی موت کی وجہ سے گہن نہیں لگتا ہے۔[1]
اپنے آپ کو نبی اکرم ﷺ کا جانشن اور وارث کہنے والوں کی یہ اولین زمہ داری بنتی ہے کہ وہ ببانگِ دہل عوامی جہالت کے خلاف آواز اٹھائیں اور جہالت کے مقابلے میں اپنا علمی نظریہ پیش کریں۔
عصرِ حاضر میں عوام اس مسئلے میں سرگرداں ہیں کہ نبی اکرمﷺ کے بعد وہ کونسا نظامِ حکومت ہے جس کے نفاذ کے لئے تگ و دو اور کوشش کی جائے۔
میں نے اسلامی نظامِ حکومت کا پرچار کرنے والے بہت سارے لوگوں سے پوچھا کہ بھائی دنیا تشنہ ہے، لوگ جاننا چاہتے ہیں، آپ بتائیں کہ عصرِ حاضر کے لئے اسلام کا مجوزہ نظامِ حکومت کیا ہے!؟ بعض نے کہا کہ بھائی ولایت و امامت ہی عصرِ حاضر کا مطلوبہ نظام ہے۔ میں نے خوش ہوتے ہوئے عرض کیا اچھا تو یہ بتائیں کہ ولایت کی واو پر فتحہ ہوتو اس کا کیا مطلب ہے اور کسرہ ہوتو س کا کیا مطلب ہے!؟ بہت سارے دانشور تو یہیں پر پھسل گئے ، اب جو رہ گئے ان سے ہم نے پوچھا کہ یہ جو نظام ولایت و امامت ہے آپ نص خاص کے ذریعے اس کے معتقد ہیں یا نص عام کے ذریعے ۔۔۔
کہنے لگے جب آمر ہوگا تو نظام آمریت ہوگا، بادشاہ ہوگا تو نظامِ بادشاہت ہوگا، جمہور ہونگے تو نظام جمہوریت ہوگا اسی طرح جب امام ہونگے تو نظامِ امامت ہوگا۔ اس پر ہم نے عرض کیا کہ کیا اس وقت امام ؑ موجود ہیں!!!؟
کہنے لگے نہیں اس وقت عصر غیبت ہے اور ہمیں نص عام کے ذریعے نظام مرجعیت کی طرف دعوت دی گئی ہے۔
امام مہدی علیہ السلام نے سنہ260ہجری قمری میں اپنی امامت کے آغاز ہی سے شیعیان آل رسول(ص) سے اپنا تعلق نمائندگان خاص کے ذریعے محدود کیا ہوا تھا۔ آپ(عج) کے آخری نائب علی بن محمد سمری تھے جو 15 شعبان سنہ 329 ہجری قمری / 9 مئی 941 عیسوی کو وفات پاگئے۔
ان کی وفات سے صرف ایک ہفتہ قبل امام زمانہ(عج) کی جانب سے ان کی طرف ایک توقیع جاری ہوئی جس میں امام(عج) نے انہیں لکھا تھا:
علی بن محمد سمری! خداوند متعال تمہارے بھائیوں کو تمہارے حوالے سے [یعنی تمہاری وفات کے حوالے سے] اجر عطا فرمائے؛ کیونکہ تم 6 دن بعد وفات پاو گے؛ اپنے آپ کو تیار کرو اور کسی کو بھی اپنی موت کے بعد اپنا جانشین نہ بناؤ۔ کیونکہ ابھی سے غیبت کبری کا آغاز ہوچکا ہے، اور کسی قسم کا ظہور نہ ہوگا اس وقت تک جب خداوند متعال اذن عطا کرے گا۔ اور وہ [اذن] طویل مدت کے بعد ہوگا، جب لوگوں کے دل پتھروں جیسے ہوچکے ہونگے اور دنیا ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔ اور اس عرصے میں بعض لوگ میرے حامیوں (پیروکاروں) کی طرف آئیں گے اور دعوی کریں گے کہ انھوں نے مجھ سے ملاقات کی ہے؛ لیکن آگار رہو کہ جس نے بھی سفیانی کے خروج اور آسمانی چیخ سے قبل میرے دیدار کا دعوی کیا وہ الزام لگانے والا اور جھوٹا ہے۔[2]
امام مہدی(عج) نے سنہ 329ہجری قمری میں چوتھے نائب خاص کی وفات کے بعد کسی نائب کا تعین نہیں کیا اور یوں عوام کے ساتھ آپ(عج) کا براہ راست تعلق بھی اور آپ(عج) کی وکالت خاصہ کا دور بھی اختتام پذیر ہوا۔ دوران غیبت کے بارے میں منقولہ روایات ـ منجملہ امام مہدی(عج) سے منقولہ ایک روایت ـ میں شیعیان اہل بیت کو دین و دنیا کے امور میں فقہاء سے رجوع کرنے پر مامور کیا ہے، غیبت کے دور میں امام مہدی(عج) کی نیابت عامہ کا منصب فقہاء نے سنبھالا۔
"عام" ’’عام ‘‘کی قید "خاص" کے مقابلے میں آئی ہے اور مراد یہ ہے کہ اس دور میں کوئی بھی امام مہدی(عج) کی طرف سے خاص اور متعینہ نیابت کا عہدیدار نہیں ہے بلکہ جامع الشرائط فقہاء ـ جن کی شرطیں روایت میں منقول ہیں؛ امام عسکری(ع) نے فرمایا:
"فَأَمَّا مَنْ کَانَ مِنَ الْفُقَهَاءِ صَائِناً لِنَفْسِهِ حَافِظاً لِدِینِهِ مُخَالِفاً عَلَى هَوَاهُ مُطِیعاً لِأَمْرِ مَوْلَاهُ فَلِلْعَوَامِّ أَنْ یُقَلِّدُوهُ۔ [3]
ترجمہ: پس جو فقیہ اپنے نفس پر قابو رکھنے والا اور اپنے دین کا نگہبان ہو اور اپنی نفسانی خواہشات کا کی مخالفت کرے اور اپنے مولا کے فرمان کا مطیع و فرمانبردار ہو، تو عوا پر واجب ہے کہ اس کی تقلید کرے۔ اور ان شرائط پر پورے اترنے والے فقہاء عام طور پر نیابت امام زمانہ(عج) کے حامل ہیں۔
نتیجہ:۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ عصرِ حاضر میں ہمارے پاس ہماری نجات کے لئے نظامِ مرجعیت موجود ہے۔ اگر کوئی نظام مرجعیت کی رعایت نہیں کرتا تو وہ در اصل نظامِ امامت سے ہی کٹ جاتا ہے۔ اس دور میں یہ مراجع عظام ہی ہیں جو یہ بتا سکتے ہیں کہ دنیا کے کس خطے میں کونسا نظامِ حکومت مناسب ہے اور لوگوں کو ووٹ دینا چاہیے یا نہیں، نظام مرجعیت کو نظرانداز کر کے اور پس پشت ڈال کر یا پھر مسترد کر کے ہم نظامِ امامت تک نہیں پہنچ سکتے۔
عصر غیبت میں یہ مراجع کرام ہی ہیں جو دین کے چراغ، ہدایت کے ستون اور تحریکوں کے قطب ہیں۔ لہذا ہمیں اپنے تمام تر مسائل میں مراجع عظام کی طرف ہی رجوع کرنا چاہیے۔
جب تک ہم نظام مرجعیت کے اتنظام و احترام پر پورےنہیں اترتے تب تک نظام امامت کی باتیں کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے پہلی کلاس کے بچے کو پی ایچ ڈی میں داخل کرانے کی ضد کی جائے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.