وحدت نیوز(انٹرویو) ملک اقرار حسین کا بنیادی تعلق پنجاب کے علاقہ دینہ ضلع جہلم سے ہے، وہ اسوقت مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری روابط کی حیثیت سے ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں، ملک صاحب کا شمار ایم ڈبلیو ایم کے تاسیسی رہنماوں میں ہوتا ہے، اسکے علاوہ وہ سماجی اور فلاحی امور میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ رواں ماہ کے آخر میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا سالانہ تین روزہ مرکزی کنونشن منعقد ہونے جا رہا ہے، ملک اقرار حسین صاحب کو اس کنونشن کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے، اسلام ٹائمز نے اس کنونشن کی مناسبت اور ڈی آئی خان ٹارگٹ کلنگ و نیوزی لینڈ سانحہ سے متعلق ملک اقرار حسین کیساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔(ادارہ)
سوال: ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے، لیکن ڈیرہ اسماعیل خان میں صورتحال روز بروز ابتر ہو رہی ہے، یہاں قتل و غارت گری کیوں رک نہیں پا رہی اور ایم ڈبلیو ایم اس حوالے سے کیا کوششیں کر رہی ہے۔؟
ملک اقرار حسین: سب سے پہلے تو آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے ہمیں موقع دیا، جہاں تک ڈی آئی خان کا مسئلہ ہے تو اس حوالے سے ہمارے کچھ بنیادی اہداف ہیں، پاکستان میں جب ہم نے ملی اعتبار سے جدوجہد کا آغاز کیا تھا تو شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) نے ہمیں بڑا بنیادی اصول دیا تھا، انہوں نے فرمایا تھا کہ ہم ہر ظالم کے مخالف ہیں، چاہے وہ شیعہ ہی کیوں نہ ہو اور ہر مظلوم کے حامی ہیں چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ ہم اسی اصول کو سامنے رکھ کر آج تک جدوجہد کرتے رہے ہیں، گذشتہ کئی سالوں سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی ظلم ہوا ہے، مجلس وحدت مسلمین نے کراچی سے خیبر تک ہر موقع پر اپنا رول پلے کیا ہے، ڈی آئی خان کی بات کی جائے تو گذشتہ دس بارہ سال سے وہاں حالات خراب ہیں، ہم اس حوالے سے اداروں کیساتھ بیٹھے ہیں، صوبائی حکومت سے بات ہوئی ہے، حکومتی کمیٹی کیساتھ مسئلہ کو اٹھایا ہے۔
ایک چیز انہیں بھی کلئیر ہے اور ہمیں بھی واضح ہے کہ چند سالوں کے دوران ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس اور بعض اداروں میں ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کی بھرتیاں کی گئیں، ٹارگٹ کلنگ کی یہ کارروائیاں اسی مائنڈ سیٹ کا ہی نتیجہ ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب جبکہ ایک نئی حکومت آئی ہے، عمران خان صاحب ایک نئے ویژن اور نئے پاکستان کا نعرہ لگا کر آئے ہیں تو ہم ان کے وزراء اور دیگر حکومتی مسئولین کو یہ باور کروا رہے ہیں کہ ڈی آئی خان میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنایا جائے۔ الحمد اللہ وہاں سے بھی رسپانس مثبت ہے، لیکن چیزیں کہیں نہ کہیں خراب ہو رہی ہیں، کچھ کالی بھیڑیں ایسی ہیں کہ جو نہیں چاہتیں کہ پاکستان اور بالخصوص ان علاقوں میں جہاں اہل تشیع قدرت مند ہیں، امن قائم ہوسکے۔ آنے والے دنوں میں سیکرٹری داخلہ سے ہماری ملاقات ہے اور مزید اس مسئلہ پر ہم کوششیں جاری رکھیں گے۔
سوال: گذشتہ دنوں نیوزی لینڈ میں افسوسناک واقعہ پیش آیا، ابھی تک تو امریکہ اور مغرب مسلمانوں کو دہشتگرد قرار دیتے رہے ہیں، اس مخصوص واقعہ کے پس پردہ کیا محرکات ہوسکتے ہیں۔؟
ملک اقرار حسین: سب سے پہلے تو میں ان شہداء کے لواحقین کو تعزیت پیش کرتا ہوں، ہماری ہمدردیاں ان خاندانوں کیساتھ ہیں، ان شہداء کے لئے ہم دعاگو ہیں۔ نیوزی لینڈ انتہائی پرامن ملک ہے، بظاہر یہ اسی انٹرنیشنل ٹرائیکا کی کارستانی ہے، امام خمینی (رہ) نے فرمایا تھا کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی شیطانیت ہوتی ہے، اس کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے۔ نیوزی لینڈ کا واقعہ بھی اسی استکباری ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے کرایا گیا ہے، استکبار بعض اوقات اپنے ہی لوگوں کا نقصان کراکر اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے، جسطرح کہ نائین الیون کا واقعہ کہ انہوں نے خود کیا اور پھر اس کے ردعمل میں مسلم ممالک پر چڑھ دوڑے، جبکہ بعض اوقات وہ براہ راست اپنے مخالفین کو نشانہ بناتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ آسٹریلوی نژاد باشندہ انہی قوتوں کا آلہ کار ہے، چاہے القاعدہ ہو، چاہے طالبان کی شکل میں ہوں، چاہے داعش کی شکل میں ہو، یہ سب امریکہ اور اسرائیلی ایجنسیوں سے منسلک ہیں، دہشتگردی کی جتنی بھی شکلیں ہیں، وہ قابل مذمت ہیں۔
سوال: 29 مارچ سے مجلس وحدت مسلمین کا سالانہ کنونشن منعقد ہونے جا رہا ہے، ہمارے قارئین کو ذرا اس تنظیمی کنونشن کے پس منظر سے آگاہ کیجیئے گا۔؟
ملک اقرار حسین: اس کنونشن کو جانثاران امام عصر (عج) کنونشن کا نام دیا گیا ہے، ویسے تو سالانہ طور پر ہمارا پروگرام ہوتا ہے، جسے ہم شوریٰ عمومی کے اجلاس کے عنوان سے منعقد کرتے ہیںو تاہم تین سال بعد مجلس وحدت مسلمین کے اہم ترین عہدہ مرکزی سیکرٹری جنرل کا انتخاب ہوتا ہے، اس اجلاس کو ہم کنونشن کا نام دیتے ہیں۔ لہذا اس عنوان سے یہ کنونشن بہت اہم ہے، اس کنونشن کے ذریعے ہم ان جمہوری قوتوں کو بھی یہ پیغام دیتے ہیں کہ جو ہر وقت جمہوریت کا راگ الاپتی ہیں کہ درحقیقت جمہوری اقدار کو فروغ دینے کیلئے کردار ہم ادا کر رہے ہیں، ہم کہتے ہیں کہ پارٹی چیئرمین، صدر یا سربراہ تاحیات نہیں ہونا چاہهئے، یہ ہمارے دستور میں بھی شامل ہے، یہی جمہوریت کا بھی حسن ہے کہ پورے ملک سے شوریٰ عمومی کے اراکین ہر تین سال بعد مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے میر کاررواں کا انتخاب کرتے ہیں۔
اس کے ذریعے ہم یہ پیغام بھی دیتے ہیں کہ ہم موروثیت کے قائل نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ اس کنونشن کی دوسری اہم چیز کہ پاکستان میں اتحاد و وحدت کے فروغ کیلئے ہم ہر سطح پر کردار ادا کرتے رہے ہیں، اس کنونشن کا آخری سیشن انتہائی شایان شان ہوگا، جس میں ملک بھر کی سیاسی و مذہبی قیادت کو آن بورڈ لیا جا رہا ہے، تمام ملی و قومی تنظیموں کو بلایا جا رہا ہے، اس میں علمائے کرام شامل ہیں، دانشور حضرات، صحافی، سیاسی و مذہبی رہنماوں کو دعوت دی جا رہی ہے، کنونشن کے آخر میں وحدت اسلامی کے عنوان سے ایک کانفرنس منعقد ہوگی، جس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات بھی شریک ہونگی، اس کنونشن سے ملک بھر میں وحدت و اخوت کا پیغام جائیگا۔
سوال: اس کنونشن کے سلسلے میں اب تک تیاریوں اور رابطہ مہم کی کیا صورتحال ہے۔؟
ملک اقرار حسین: اسلام آباد میں 29 مارچ سے 31 مارچ تک یہ تین روزہ کنونشن منعقد ہوگا، اس حوالے سے مختلف کمیٹیاں تشکیل دی جاچکی ہیں، بنیادی انتظامات کو حتمی شکل دی جاچکی ہے، جہاں تک رابطہ مہم کا تعلق ہے تو ہمارے مرکزی ذمہ داران، صوبائی ذمہ دران، دفاتر کے احباب اور اضلاع کے دوست کراچی سے خیبر تک دعوت کا عمل بھرپور طریقہ سے جاری ہے۔ امید ہے کہ آنے والے ایک دو دنوں تک ملک بھر سے وہ افراد جن کو اس کنونشن میں شریک ہونا ہے، سب تک ہمارا دعوت نامہ اور پیغام پہنچ جائے گا۔
سوال: یہ کنونشن گذشتہ کنونشنز جیسا ہوگا یا پھر اس بار کوئی نیا پہلو سامنے لایا جا رہا ہے۔؟
ملک اقرار حسین: ظاہر سی بات ہے کہ ہر جماعت اور سسٹم کے ابتدائی مراحل ہوتے ہیں، مجلس وحدت مسلمین بھی اپنا ابتدائی سفر طے کرچکی ہے اور اب تک لگ بھگ ایک دہائی کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس میں ہمارے بہت تجربہ کار اور نظریاتی لوگ شامل ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان سیاسی طور پر ایک اہم رول ادا کرے گی، اس کے علاوہ مذہبی طور پر جو کہ ایک خواب تھا کہ ہم ملی اخوت اور اتحاد و وحدت کی طرف بڑھ سکیں، اس عنوان سے بھی ان شاء اللہ کامیابیاں سمیٹیں گے۔ امید ہے کہ نئے سیکرٹری جنرل کا جو انتخاب ہوگا اور نئی کابینہ آئے گی، وہ پہلے سے زیادہ بہتر انداز میں کام کرسکے گی۔ لوگوں میں بہت محبتیں اور دلچسپیاں ہیں، جہاں بھی ہم جاتے ہیں، وہاں لوگ بہت محبتوں کا اظہار کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ کنونشن کب اور کیسے منعقد ہونے جا رہا ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مجلس وحدت مسلمین کی عوام کیساتھ وابستگی پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئی ہے۔
سوال: ملت تشیع کے بعض طبقات اکثر یہ گلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ شیعہ جماعتیں آپس میں متحد نہیں ہوتیں، اس کنونشن میں کیا شیعہ جماعتوں اور اکابرین کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔؟
ملک اقرار حسین: جی بالکل، اس حوالے سے ہم تمام ملی جماعتوں، اکابرین، مدارس کو دعوتیں دے رہے ہیں، ماتمی سنگتوں، مقامی تنظیموں کو بھی دعوتیں دے رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ یہ کنونشن ملی اعتبار سے اتحاد و اخوت کا گلدستہ ثابت ہوگا۔
سوال: اس کنونشن کے حوالے سے اپنے تنظیمی مسؤلین، کارکنان اور دیگر کو کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟
ملک اقرار حسین: اس حوالے سے میں تمام مسئولین کو یہ کہنا چاہوں گا کہ جس دور سے ہم گزر رہے ہیں، اس میں ہماری سنگین ذمہ داریاں ہیں، ہمیں چاہیئے کہ شرح صدر کیساتھ ملت کے تمام طبقات کو اپنے قریب کریں، کہیں پر بھی ایسا پیغام نہیں جانا چاہیئے، جس سے کسی کی دل آزاری ہو، ملت کو متحد کرنے کیلئے آگے بڑھیں، ملت اور پاکستان کی بھی اسی میں بقاء ہے کہ ہم ملکر آگے بڑھیں، اسلام اور پاکستان دشمن قوتوں کو ہم ٹف ٹائم دے سکیں۔