وحدت نیوز (آرٹیکل) چند برسوں سے صفر کے مہینے میں سوشل میڈیا اربعین واک کی تصاویر اور ویڈیوز سے بھر جاتا ہے جن میں ہر کوئی عراقیوں کے جذبہ مہمان نوازی کو سراہاتا نظر آتا ہے۔ لیکن ان تصاویر اور ویڈیوز کے پسِ منظر میں کیا اہم موقع ہے، یہ شاید بہت کم افراد جانتے ہیں۔ اربعین واک کے بارے میں پڑھیے بی بی سی کی منزہ انوار کی تحریر۔
وہ ایک 80 کلومیٹر طویل سڑک تھی۔ ایک عام شاہراہ جو کسی بھی ملک میں دو شہروں کو ملانے کے لیے تعمیر کی جاتی ہے لیکن شیعہ مسلمانوں کے لیے مقدس سمجھے جانے والے دو عراقی شہروں نجف اور کربلا کو ملانے والی اس سڑک پر منظر کچھ خاص تھا۔
یہاں جا بجا دورانِ سفر کسی بھی مسافر کو پیش آنے والی ہر ضرورت کا مفت انتظام تھا۔ کوئی زبردستی آپ کو جوس پلانا چاہتا تو کوئی کجھوریں یا دیگر اشیائے خوردونوش پکڑا دیتا۔
کچھ بچے ملے جو درخواست کر رہے تھے کہ ہم ان سے اپنے جوتے پالش کروا لیں تو کوئی چاہتا تھا کہ آپ انھیں اپنی ٹانگیں دبانے کی سعادت دے دیں۔
سڑک کنارے ایک طرف صوفے لگے ہوئے تھے تاکہ تھکے ہوئے مسافر ان پر بیٹھ کر آرام کر لیں تو دوسری جانب کسی نے اپنے گھر کے بہترین گدے بچھا رکھے تھے۔
آخر یہ کون لوگ ہیں اور اس سڑک پر یہ ساری چیزیں مفت کیوں بانٹ رہے ہیں اور اپنے گھروں کا بہترین سامان سڑک پر کیوں لے آئے ہیں؟
یہ منظرعراق میں ہر برس صفر کے اسلامی مہینے میں ہونے والی اربعین واک کا تھا۔ 'مشی' کے نام سے معروف یہ عمل ہر برس لاکھوں افراد نواسۂ رسول کے چہلم کے موقع پر نجف سے کربلا کا پاپیادہ سفر کر کے سرانجام دیتے ہیں۔
اور اس موقع پر غریب اور امیر کی تفریق سے بالاتر ہو کر مقامی عراقی زائرین کی خدمت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔
مجھے یہ جان کر خاصی حیرت ہوئی کہ جنگ زدہ ملک کے یہ باسی جو خود بمشکل گزارہ کرتے ہیں انھی دنوں کے لیے سال بھر پیسے بچاتے ہیں تاکہ دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والے زائرین کی خدمت میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔.
اربعین کیا ہے؟
اربعین عربی گنتی میں 40 کو کہتے ہیں اور اصطلاحاً کسی شخص کی موت کے 39 دن بعد اس کی یاد میں منائے جانے والے دن کو کہا جاتا ہے۔
عراق میں اربعین کا تہوار سنہ 61 ہجری میں دس محرم کو پیش آنے والے کربلا کے واقعے کے 40 دن کی تکمیل پر 20 صفر کو منایا جاتا ہے۔
اربعین واک کا آغاز کب ہوا اس بارے میں مصدقہ طور پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم نجف کے حوزة علمیة سے تعلق رکھنے والے عالم سید رضا کے مطابق 'تاریخی روایات کے مطابق جابر بن عبد اللہ الانصاری وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے امام حسین کی قبر کی زیارت کی۔'
آج، کربلا کے واقعے کے 1400 سال بعد بھی نواسۂ رسول کی قربانی کی یاد میں دنیا کے کونے کونے سے کروڑوں افراد کربلا پہنچتے ہیں۔
صدام حسین کے دور میں اربعین
عراق کے سابق صدر صدام حسین کے دورِ حکومت میں اربعین واک پر سخت پابندیاں عائد تھیں اور حکام ہر برس عراقی عوام کو اربعین کے موقع پر روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے تاہم اس کے باوجود اس سفر کا سلسلہ جاری رہا۔
سنہ 2003 میں صدام حسین کے دورِ اقتدار کے خاتمے کے بعد سے اربعین واک کا سلسلہ ایک نئے جذبے سے شروع ہوا اور تب سے ہر سال اس سفر کے لیے کربلا پہنچنے والے افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
اربعین کے لیے زائرین کی آمد کا سلسلہ تب بھی جاری رہا جب عراق کا ایک بڑا حصہ شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ کے زیرِ اثر تھا اور بہت سے ممالک اپنے شہریوں کو عراق کے سفر سے اجتناب برتنے کا مشورہ دے رہے تھے۔
اربعین کے سفر کا آغاز
عموما ً اس سفر کا آغاز نجف سے ہی ہوتا ہے اور اربعین کے لیے سفر کرنے والے زیادہ تر افراد نجف کے ہوائی اڈے پر ہی اترتے ہیں لیکن میرے لیے اس سفر کا آغاز عراقی شہر بصرہ سے ہوا تھا۔
سنا تھا غیر شادی شدہ خاتون کوعراقی ویزہ نہیں دیتے تاہم میرا نمبر آنے پر ٹوٹی پھوٹی انگریزی عربی میں صرف اتنا پوچھا گیا کہ عراق کیوں آئی ہو، میں نے جواب دیا 'زیارت حسین'۔
نہ کوئی سوال نہ مزید تفتیش۔ شیشے کے پیچھے موجود نوجوان نے ٹھک سے میرے پاسپورٹ پر دو ہفتے کا ویزہ لگایا اور 'مرحباک فی عراق' کہتے ہوئے پاسپورٹ واپس تھما دیا۔
دنیا بھر کے ہوائی اڈوں پر کھانے پینے کی چیزوں سے لے کر پینے کا پانی تک خریدنا پڑتا ہے اور وہ بھی زیادہ قیمت پر لیکن بصرہ ایئرپورٹ پر زائرین کے لیے پانی کا مفت انتظام تھا۔
دیکھا جائے تو اربعین کے موقعے پر سوائے جہاز کے ٹکٹ اور ویزے کے ہر چیز ہی تقریباً مفت ہے۔
اس بات کا اندازہ ایئرپورٹ سے نکل کر ہوا۔ ایئرپورٹ کے باہر سینکڑوں بسیں اور کاریں کھڑی تھیں۔
بصرہ سے کربلا یا یا نجف یا جہاں کہیں بھی آپ جانا چاہیں، ایک مناسب قیمت طے کرنے پر یہ ڈرائیور آپ کو وہاں لے جائیں گے اور اگر آپ کے پاس پیسے نہیں تو فکر کی کوئی بات نہیں، بصرہ کے رہائشی بنا کسی قیمت کے مفت میں یہ خدمت انجام دینے کو بھی تیار نظر آئے۔
نجف جانے کے لیے گاڑی میں سوار ہونے لگی تو اس کے دروازے پر بھی ڈرائیور نے بنا کچھ کہے مجھے پانی کی بوتل اور کجھوروں کا ایک پیکٹ تھما دیا۔
بصرہ سے نجف تقریباً چار گھنٹے کی مسافت پر ہے اور سارے راستے میں چیک پوسٹوں اور سخت حفاظتی انتظامات کے باوجود بہت رونق دکھائی دی۔
کہیں لوگ سر پر سامان رکھے پیدل ہی نجف کی جانب رواں دواں دکھائی دیے تو کہیں ایسے مسافروں کی خدمت کے لیے لوگ سٹال لگائے بیٹھے تھے۔ ایسا محسوس ہوا کہ جیسے اس اہم تہوار میں پورا ملک شریک ہو۔
تین گھنٹے کے سفر کے بعد ایک جگہ ہماری گاڑی رکی۔ سڑک کے درمیان ایک شخص ایک سیاہ پرچم لیے کھڑا تھا اور کسی گاڑی کو آگے جانے نہیں دے رہا تھا۔
خواہش تھی کہ زائرین اس کے ریستوران پر کھانا کھا کر دوبارہ سفر شروع کریں۔ نجف پہنچنے کی جلدی تھی لیکن میزبان کا اصرار اتنا شدید تھا کہ اترنا پڑا۔
ریستوران، امام حسین اور ان کے اصحاب کے لیے تعریفی کلمات اور اربعین کے لیے آنے والے مہمانوں کے لیے استقبالہ بینرز سے سجا تھا۔
مرد حضرات کے لیے ریستوران کے باہر کرسیاں لگائی گئی تھیں جبکہ خواتین کے لیے ریستوران کے ساتھ ملحقہ مکان میں آرام اور کھانے کا انتظام تھا۔
خواتین کے لیے آرام کی غرض سے قالین پر گدے بچھے تھے۔ ایک جانب جائے نماز موجود تھیں تو دوسری جانب کچھ عرب اور ایرانی خواتین کھانا کھا رہی تھیں۔
شیخ کا پورا خاندان اس خدمت میں انتہائی خوش دلی سے مگن تھا۔.
نجف سے کربلا کا پیدل سفر
اس مختصر سٹاپ کے بعد ہماری بس مزید ایک گھنٹے کے سفر کے بعد نجف پہنچ گئی۔ اربعین کے لیے آنے والے زائرین کا سفر نجف میں حضرت علی کے روضے پر سلام سے شروع ہوتا ہے۔
ہر برس چہلمِ امام حسین کے موقع پر نجف سے کربلا کا رخ کرنے والوں کی درست تعداد کے بارے میں مختلف اندازے لگائے جاتے ہیں لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق اربعین کے موقع پر اس علاقے میں تین کروڑ سے زیادہ افراد کا اجتماع ہوتا ہے۔
نجف پہنچتے ہی ہر کسی کو کربلا کا رِخ کرنے کی جلدی ہوتی ہے۔ لہٰذا زیادہ تر افراد اپنا سامان نجف میں چھوڑتے ہیں اور چھوٹے بیگوں میں سفری ضرورت کا سامان لے کر پیدل کربلا کی جانب روانہ ہو جاتے ہیں۔
نجف سے کربلا کا فاصلہ تقریباً 80 کلومیٹر ہے۔ نجف سے کربلا جانے والی سڑک کو 'این نجف' کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اربعین کے لیے آنے والے زیادہ تر افراد اسی سڑک پر مشی (پیدل چلنا ، پیادہ روی ) کرکے کربلا پہنچتے ہیں۔
اب یہ آپ کی قوت، صحت اور حوصلے پر منحصر ہے کہ آپ روزانہ کتنا چلتے ہیں اور یہ فاصلہ کتنے دن میں طے کرتے ہیں لیکن عموماً نجف سے کربلا مشی کرنے والے افراد تین سے چار دن میں یہ سفر طے کر لیتے ہیں۔
اگر آپ پہلی مرتبہ اربعین واک میں شرکت کر رہے ہیں تو میرا مشورہ ہے کہ میری طرح اپنے بیگ میں دنیا بھر کے لوازمات بھر کے مت لے جائیے گا کیونکہ یہاں سب کچھ مفت ملتا ہے۔ خواہ مخواہ وزن اٹھانے کی زحمت ہی ہو گی۔
این نجف پر کربلا جانے والے زائرین کے لیے ہر قسم کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔
دنیا کے ہر ملک کی خوراک سے لے کر بچوں کے پیمپر اور ٹشو پیپر تک مفت دستیاب ہیں۔
جگہ جگہ عراقیوں نے اپنے اپنے خاندانی ناموں کے ساتھ ’موکب‘ لگا رکھے ہیں۔ انھیں آپ آرام گاہیں بھی کہہ سکتے ہیں اور طعام و قیام کی جگہیں بھی۔
یہاں آپ نماز پڑھنے کے لیے رکنے سے لے کر جتنی دیر چاہیں آرام کر سکتے اور اس دوران اپنا موبائل اور دوسری اشیا چارج کر سکتے ہیں۔
موکب کے اندد چارجنگ کی تاروں، وائی فائی، گرما گرم کھانے، مساج اور پیر دبوانے سے لے کر آپ کے گندے کپڑے دھلوانے تک کی سہولت میسر ہے۔
اگر آپ کی طبعیت ناساز ہو جائے یا آپ کو کسی دوا کی ضرورت ہے تو اس کے لیے ہر چند کلو میٹر پر میڈیکل کا سٹال بمعہ عملہ بھی موجود ہے۔
چھوٹے چھوٹے بچے اپنے سروں پر بڑے بڑے تھال میں کھانے کی اشیا رکھے نظر آتے ہیں۔ اِن سب کا اصرار ہوتا ہے کہ آپ ان کا کھانا ضرور کھا کر جائیں۔
کئی مقامات پر طویل دسترخوان بچھے نظر آتے ہیں، اس سڑک کو دنیا کا سب سے بڑا دستر خوان کہنا غلط نہ ہوگا۔
عراقی نہ صرف اربعین کو بلکہ اس کے لیے آنے والوں کی خدمت کو بھی ایک عبادت سمجھتے ہیں اور اسی لیے وہ زائرین کی خدمت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے اور پورے پورے عراقی خاندان اس خدمت میں بخوشی مگن دکھائی دیتے ہیں۔
ایک عراقی نے بتایا کہ اس عمل میں بچوں کو خاص طور پر اس لیے شریک کیا جاتا ہے تاکہ زائرین کی خدمت کا عمل نسل در نسل جاری رہے۔
اگرچہ نجف سے کربلا تک سڑک پر کیے گئے 99 فیصد انتظامات مقامی عراقی ہی کرتے ہیں لیکن یہاں تقریباً ہر ملک کا کوئی نہ کوئی سٹال نظر آتا ہے۔
کہیں پاکستانی بریانی اور چائے تیار کرکے آپ کی راہ دیکھ رہے ہوتے ہیں تو کہیں اچانک کوئی لبنانی آپ کے سامنے آکر فلافل تھما دیتا ہے۔
اربعین واک میں جہاں صنف اور عمر کی کوئی تفریق نہیں وہیں یہ سفر صرف شیعہ مسلمانوں تک بھی محدود نہیں بلکہ سنی، کرد، یزیدی، عیسائی غرض ہر مذہب اورفرقے کے لوگ باہمی ہم آہنگی سے رواں دواں نظر آئے۔
ایک ایرانی خاتون اپنے ڈیڑھ ماہ کے بچے کو لیے جانبِ کربلا جا رہی تھیں۔ ان کے دو بچے واکر میں بیٹھے تھے جنھیں ان کے شوہر چلا رہے تھے۔
کچھ فاصلے پر ایک نوجوان ایک برقع پوش خاتون کی ویل چیئر چلاتا نظر آیا۔
دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اس کی ضعیف والدہ چلنے پھرنے سے قاصر ہیں لیکن ان کی خواہش تھی کہ اس سال اربعین کے موقعے پر کربلا جائیں۔
ایک مقام پر سیاہ برقعوں میں ملبوس عورتوں کو اونٹوں کی ایک قطار میں دیکھا۔ ان کے ہاتھ رسیوں سے بندھے تھے۔
پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اربعین کے موقعے پر عراق کے مختلف علاقوں سے کئی قبیلے واقعہِ کربلا کی یاد میں ایسے جلوس کی صورت میں کربلا پہنچتے ہیں جو اس دوران پیش آنے والے واقعات کی عکاسی کر سکیں۔
کربلا اور روزِ اربعین
کربلا کی حدود میں پہنچے ایک چیک پوسٹ پر خواتین کو ایک کمرے میں لے جا کر بٹھا دیا گیا اور کہا گیا کہ جب تک آپ کا سامان چیک کیا جا رہا ہے آپ سکون سے بیٹھیں اور چائے پیئیں۔
ہمارا قافلہ جس وقت کربلا میں داخل ہوا تو فجر کا وقت تھا۔ ہم شہر کی حدود میں داخلے کے بعد دم لینے کو بیٹھے ہی تھے کہ چند نوجوان عراقی چائے لے آئے۔
یہاں بھی فری وائی فائی میسر تھا سو میں نے چائے پیتے پیتے گھر والوں کو کربلا پہنچنے کی اطلاع دی۔
کچھ فاصلے پر واقع چیکنگ پوائنٹ پر زائرین کے سامان کی چیکنگ کے لیے بڑے بڑے سکینرز لگائے گئے تھے۔ سکیورٹی پر مامور اہلکار خوش اخلاق لیکن چیکنگ کا عمل انتہائی سخت تھا۔
ہماری لائن میں موجود سب افراد کو انتظار کرنے کو کہا گیا ہے کیونکہ ایک صاحب کے سامان سے زنجیرزنی میں استعمال ہونے والی چھریاں برآمد ہوئیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ اربعین کے دوران کربلا میں کسی قسم کا چاقو، چھری وغیرہ لے جانے پر پابندی ہے۔
کربلا شاید دنیا کا وہ واحد شہر ہے جہاں کوئی تفریح کی غرض سے نہیں جاتا۔ یہاں آنے والے تقریباً سبھی افراد نواسۂ رسول اور ان کے اہلِ خانہ کی عظیم قربانی کی یاد منانے آتے ہیں۔
امام حسین کے روضے میں داخلے کے لیے کل 10 دروازے ہیں اور ہر دروازے پر اتنا رش تھا کہ خدا کی پناہ۔
ابتدا میں تو مجھے لگا کہ میں کبھی اندر نہیں جا پاؤں گی اور اگر جانے کی کوشش بھی کی تو ہڈیاں تڑوا بیٹھوں گی۔ خیر یہ خیال بعد میں غلط ثابت ہوا۔
اربعین کے موقعے پر چونکہ کروڑوں افراد کربلا آتے ہیں اور ہر ایک کا مقصد روضۂ امام حسین تک پہنچنا ہی ہوتا ہے تو عراقیوں نے ایسا انتظام کر رکھا ہے جس میں آپ کو دو سے تین گھنٹے تو لگ جاتے ہیں لیکن ہر شخص روضے تک ضرور پہنچتا ہے۔
زائرین ایک طرف سے آتے ہیں روضے کو چھوتے ہیں اور سیدھے باہر نکلتے جاتے ہیں۔
یہاں کھڑے ہونے کا سوچیے گا بھی مت۔ وہاں تعینات سیاہ چادروں میں ملبوس انتہائی مستعد خواتین نے نرم جھالر دار چھڑیاں اٹھا رکھی تھیں، جیسے ہی آپ ایک سیکنڈ بھی زیادہ رکے وہ اس چھڑی سے آپ کو باہر کا راستہ دکھا دیتی ہیں۔
ایک پاکستانی خاتون کو یہ کہتے سنا ’ہم اتنے دور سے آئے اور ہمیں چند منٹ یہاں کھڑے بھی نہیں رہنے دیا جا رہا۔‘
یہ سب ناگوار تو بہت لگتا ہے لیکن اگر ہر کسی کو وہاں قیام کی اجازت دے دی جائے تو کوئی شخص روضے تک نہیں پہنچ پائے گا۔
کربلا میں زائرین کے لیے انتظامات
کربلا میں بھی این نجف جیسے انتظامات تھے۔ جابجا کھانے کے سٹال اور موبائل واش رومز والی گاڑیاں کھڑی تھیں۔
جو لوگ ہوٹلوں میں رہنے کی سکت نہیں رکھتے ان کے لیے موکب لگائے گئے ہیں جن میں گدے، کمبل، تکیے اور واش روم کا مفت انتظام ہے۔
جن کو موکب میں جگہ نہیں ملی انھوں نے گلیوں میں چھوٹے ٹینٹ لگا رکھے تھے۔ جو خیمے نہیں لائے انھوں نے ایک کمبل نیچے بچھا رکھا ہے اور ایک اوپر لیے مزے سے فٹ پاتھ پر سو رہے تھے۔
راتوں رات یہ کمبل کہاں سے آتے ہیں اور صبح کہاں غائب ہو جاتے ہیں یہ اگلے روز معلوم ہوا جب میں نے کمبلوں سے بھرے ایک بہت بڑے ٹرک کو دیکھا۔
ہر روز رات کو ایسے کئی ٹرک کربلا کی سڑکوں پر چکر لگاتے اور کمبل پھینکتے جاتے ہیں۔ اگلے دن فجر کے بعد یہی ٹرک دوبارہ آکر یہ کمبل اکٹھے کرتے ہیں۔
یہ چھوٹا سا شہر کروڑوں افراد کو کیسے سمو لیتا ہے یہ میں آج تک نہیں سمجھ پائی۔
روزِ اربعین
20 صفر کا دن بہت اہم ہے۔ ہر شخص اپنے کام کاج چھوڑ اور راستے کی صعوبتیں برداشت کرکے اسی دن کے لیے یہاں پہنچتا ہے۔
رش کی صورتِ حال یہ تھی کہ صرف روضے کے بیرونی دروازے تک جاتے جاتے مجھے تین گھنٹے لگ گئے جبکہ یہ دروازہ بالکل میرے ہوٹل کے سامنے چند منٹ کی مسافت پر واقع تھا۔
تاہم اتنے زیادہ ہجوم کے باوجود یہ مجمع انتہائی پرسکون تھا۔ نہ کوئی کسی سے جھگڑتا نظر آیا نہ کہیں بھگدڑ مچتے دیکھی۔
سب سکون سے روضہ امام حسین کی جانب جا رہے تھے جیسے یقین ہو کہ کچھ بھی ہو جائے وہ روضے تک ضرور پہنچیں گے۔
اگر کسی نوجوان کے پیچھے کوئی عورت چل رہی ہے تو وہ اپنے آگے والے شخص کے کندھے پر ہلکا سے تھپتپھا کر بتاتا ہے کہ عورتیں ہیں راستہ بناؤ اور سب جتنا ہو سکے ادھر ادھر کھسک کر آپ کے لیے راستہ چھوڑ دیتے ہیں۔
اس ہجوم میں شامل افراد کسی ایک فرقے یا تہذیب سے تعلق رکھنے والے لوگ نہیں تھے۔ کہیں عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد صلیب اٹھائے روضہ امام حسین کی طرف بڑھ رہے تھے تو کہیں سفید لباس میں ملبوس بوہرہ برادری کے افراد ایک گروپ کی صورت میں روضے میں داخل ہوتے دکھائی دیے۔
یورپی اور افریقی ممالک کے لوگ بھی اپنے اپنے ملکوں کے جھنڈے اٹھائے اپنی زبانوں میں کلمات پڑھتے اندر جا رہے تھے۔
نواسۂ رسول کے روضے اور اردگرد کی گلیوں میں ہر افراد کی زبان پر ایک ہی ورد جاری تھا ’لبیک یا حسین، لبیک یا حسین‘۔
میں سوچ رہی تھی کہ 14 صدیاں قبل دینِ اسلام کے لیے جان دینے والے ایک فرد کی قربانی میں کیا طاقت ہے کہ دنیا کے کونے کونے سے کروڑوں افراد ان کا غم منانے اور ان کی دی گئی قربانی کی یاد تازہ کرنے کربلا کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر شخص کا امام حسین سے ایک انفرادی تعلق ہے جسے کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا اور یہی وہ جذبہ ہے جو دنیا کے کونے کونے سے ہر مذہب کے لوگوں کو کربلا لے آتا ہے اور عراقیوں کے خاندان در خاندان اس خدمت کو عبادت سمجھتے ہیں۔
(بشکریہ بی بی سی اردو)