وحدت نیوز(آرٹیکل)60 ہجری جونہی ختم ہوئی ِ60ہجری کا محرم بڑے افسوس اور غم و اندوہ میں غرق ہو کر، بڑی بے تابی سے، حزن سے بھرے ہوئے اور مجبوری کے عالم آغاز ہوا اس لئے کہ نواسہ رسول ؐ سال کی ابتدامیں کربلا میں پہنچ کر خیمہ زن ہو چکے تھے ۔نہ صرف نواسہ رسولؐ بلکہ رسول خدا کے اہل بیت ؑ اور دیگر رشتہ دار بھی کربلا کے میدان میں پہنچ کر مستقبل قریب کے منتظر تھے ۔زمین کربلا مضطرب دکھائی دے رہا تھا اور یہ لوگ خدا کے ساتھ راز و نیاز اور دعا و مناجات میں مصروف نظر آرہے تھے ۔آل محمد کا یہ قافلہ نئے سال کے شروع میں ہی ایک تبتی ہوئی ریگستان میں پہنچ چکے تھے اور نواسہ رسولؐ اپنے ساتھیوں کو شہادت کی خوشخبریاں سنا رہے تھے ۔ یہ وہی حسین علیہ السلام تھا جس کی شان میں رسولؐ خدا نے فرمایا تھا :حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ یہ رسول اللہ ؐ کا وہی نور نظر تھا کہ جب آنحضرت رب کے حضور سر بسجود ہو ئے تو آپ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیٹ پر سوار ہوئے اور رسول اللہ حکم خدا کے منتظر رہے اور رب کی طرف سے حکم ہوا کہ جب تک یہ معصوم بچہ خود سے نہ اترے آپ سجدے کی حالت میں ہی رہیں ۔
آج یہی عظیم ہستی ،اللہ کا یہی محبوب بندہ حج کو عمرے میں تبدیل کر کے کربلا پہنچ چکا تھا تاکہ اموی استبداد اور ظالم و جابر حکمران کےہاتھوں جان بلب اسلام کو ایک دفعہ پھر نئی زندگی عطا کرے اور اسلامی معاشرے کو اپنی خطوط پر استوار کرے جن خطوط پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استوار فرمایاتھا ۔ اسلامی تہذیب سے رخ پھیر کر جاہلیت کی طرف پلٹنے والی قوم کو پھر سے قرآن و سنت کے سائے میں بندگی کا درس اور تربیت دے کر پھر سے ایک مہذب قوم میں بدل سکیں ۔نواسہ رسول پہلے سے مطلع تھے کہ اگر حج کو عمرے میں تبدیل نہ کریں تو شام کے درندہ صفت انسان جو حاجیوں کی روپ میں تھے حسین ابن علی ؑکو خانہ خدا میں ہی شہید کر دیتے۔ نواسہ رسول نے مناسب نہ سمجھا کہ حرم پاک کی حرمت پامال ہو جائے اس لئے آپ عمرہ کر کے بیت اللہ کی حرمت کو محفوظ رکھتے ہوئے کربلا پہنچ گئے ۔جس اسلام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جان کی ہتھیلی میں رکھ کر بڑی کوششوں اور ہزار زحمتوں ، اذیتوں کو برداشت کر کے پالاتھا آج وہی اسلام سرے سے مٹ رہاتھا اور مسلمانوں کے قلب ونظر میں اس کی جڑیں اس حد تک کمزور ہو چکی تھی کہ جب تک خون سے انہیں سیراب نہ کیا جاتا اسلام کازندہ رہنا محال نظر آرہا تھا ۔
اس پس منظر میں نواسہ رسول ؐ نے یہ اعلان کرتے ہوئے قیام فرمایا !میرا مقصد دنیاوی حکومت یا مال و زر کا حصول نہیں بلکہ اپنے نانا محمد مصطفیؐ اور بابا علی مرتضیٰ ؑ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امت محمدی کی اصلاح کرنا ہے۔ مفسدوں ،ظالموں اور جابروں کے تباہ کاریوں سے دین اور مسلمانوں کو نجات دلانا ہے اور خون کے پیاسے درندہ صفت انسانوں کے مقابلے میں اسلام کی آبیاری کرنا ہے ۔راستے کی مشکلات و مصائب جھیلتے ہوئے آل محمد کا یہ قافلہ بڑی آب وتاب کے ساتھ محرم کی دوسری تاریخ کو کربلا پہنچ گئے۔آل محمد کو 61ہجری کی ابتدا میں ہی مصائب و مشکلات سے دوچار ہونا پڑا اور یہ مہینہ آل محمد اور ہر انصاف پسند انسان کے لئے نہ بھولنے والا مہینہ ثابت ہوا اور قیامت تک کے لئے یہ مہینہ اسی غم و اندوہ کے ساتھ شروع ہونے کو ہی اپنا فخر سمجھنے لگا ۔
اسلام کے دامن میں بس اس کے سواکیا ہے
ایک ضرب یداللہ ہی ایک سجدہ شبیریؑ
نواسہ رسولؐ نے بد عتوں ،گمراہیوں ،ظلم و استبداد اور شرک و استحصال کے خلاف قیام کیا۔اس مہینہ میں نواسہ رسولؐ کو حق پرستی اور عدل پروری کے جرم میں شہید کیا گیا۔ کربلا کی تپتی ہوئی صحرا کو نواسہ رسولؐ اور ان کے 72 ساتھیوں کے خون سے سیراب کیا گیا ۔ یوں اسلامی معاشرہ ہمیشہ کے لئے درندہ صفت ،حکمرانوں ،استحصال و استکبار اور ظلم و نا انصافی کے خونچکاں پنجوں میں گرفتارہو گیا ۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ
دین محمد ؐ کا سورج جواپنی روشنی کھو چکا تھا ایک دفعہ پھر بڑی آب وتاب سے طلوع ہوا اور اپنی کرنوں کے ذریعے دنیا والوں کو بتلا دیا کہ کربلامیں نواسہ رسولؐ نے ہمیشہ کے لئے اسلام کا علم بلند کیا ہے۔قیامت تک نواسہ رسولؐ کی یاد دنیا والوں کو یہ درس دیتا رہے گا کہ کسی ظالم ،فاسق و فاجر کی بیعت کی ذلت قبول کرنے سے عزت کی موت بہتر ہے ۔الموت أولی من رکوب العار والعار أولی من دخول النار"۔
اصول دین نہ بچاتے جو کربلا والے
ورق ورق یہ کہانی بکھر گئی ہوتی
بچا لیا اسے سجدہ ،حسین ؑ کا ورنہ
نماز ،عصر سے پہلے ہی مرگئی ہوتی
محرم زندہ دل انسانوں کو یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ واقعہ کربلا صرف حسین بن علی علیہ السلام اور یزید کے درمیان چھڑ جانے والی جنگ نہیں بلکہ حق و باطل کے درمیان لڑی جانے والی جنگ ہے اور حق نے اپنا سر کٹوا کر باطل کو ہمیشہ کیلئے سر نگوں کر دیا ہے ۔ امام حسین علیہ السلام اپنے مختصر سے قافلہ کےساتھ کربلا پہنچے اوروہاں امام عالی مقام نے کربلا کے تپتےہوئے صحرا میں انسانوں کو جینے اور مرنے کا سلیقہ سکھا دیا۔
جی کے مرنا تو سب کو آتا ہے
مر کے جینا سکھا دیا تو نے
آج کا محرم کربلا کی یاد ہے اور یہ محرم ہل من کی آواز ہے ۔ محرم سرفروشان حق کی ناقابل شکست ولولہ ہے ،محرم ظلمت کی گٹھاوں سے طلوع ہونے والی نوید سحر ہے ۔یہی وہ مہینہ ہے جس میں عاشورہ برپاہوئی ۔یوم عاشور ہ جو میزان حق و باطل ہے ، جس روز سید الشہدا ء علیہ السلام نے اپنے با وفا اہل بیت واصحاب کے ساتھ بنی امیہ کے مکروہ چہرے سے اسلام کا نقش نوچ پھینکا اور کربلا کی تپتی ہوئی ریگستان میں یزیدیت کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا ۔
شاہ است حسین بادشاہ است حسین
دین است حسین دین پناہ است حسین
سر داد نداد دست د ر دست یزید
حقائے کہ بنا لا الہ است حسین ؑ
جب تک بے کس مظلوم انسانوں کی آخری امید حجت خدا امام زمانہ ؑ کا ظہور نہیں ہو گا اور وہ عظیم الہی انقلاب بر پا نہیں ہو گا جو تمام انسانیت کی فلاح اورنجات کا ضامن ہے عزاداران حسین ؑ محرم مناتے رہیں گے ،راہ حق میں سروں کوقربان کرتے رہیں گے ، سینوں میں گولیاں کھاتے رہیں گے ، مشکلات ومصائب جھیلتے رہیں گے اور اپنی جانوں کو نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان کرتے رہیں گےاور غم حسین میں اس وقت تک آنسو بہاتے رہیں گے جب تک باطل کو بہاکر نہیں لے جائے گا۔
قتل حسین ؑ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
آج بھی یزیدی فکر دنیا میں پروان چڑھ رہی ہے اور یہ حسینیت کا تقاضا ہے کہ حسینی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اچھائیوں کو رائج اور برائیوں کو ختم کر کے معاشرے کو ایک حقیقی اصلاحی معاشرہ بنا دیں کہ جہاں کوئی طاقتور کسی کمزور پر ظلم نہ کر سکے جہاں برائی کو اچھائی پر ترجیح نہ دی جائے۔ آج شیطان بزرگ امریکہ اور اس کے چیلے داعش ،القاعدہ اور طالبان اسلام ناب کے حقیقی چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شیطان بزرگ امریکہ، اسرائیل ،سعودی عرب ا ور ان کے دستر خوان پر پلنے والے یزیدی افکار رکھنے والےعناصر کو علم ہونا چائیے کے شیعیان حید کرار اہل بیت عصمت و طہارت سے محبت کرتےرہیں گے اور ان کا غم مناتے رہیں گے اور قیامت تک یہ سلسلہ بڑی آب و تاب کے ساتھ جاری و ساری رہے گا۔
تحریر :محمد لطیف مطہری کچوروی