وحدت نیوز(آرٹیکل) پاک فوج کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آخر کار چار سال گزرنے کے بعد انھوں نے دیوبندی وتکفیری دھشگردوں کے اصلی چہرے سے پردہ اٹھایااور پاکستانی عوام بلکہ پوری دنیا کے سامنے مدلل انداز سے خود دھشگردوں کے زندہ اعترافات کے ساتھ فتنہ راولپنڈی روز عاشورا 2013 کو واضح کیا اور اس فتنہ کے اغراض ومقاصد بھی انہیں دھشگردوں کی زبانی پوری قوم نے سنے ،اس لئے آج پوری قوم آئی ایس آئی اور پاک فوج کو سلام پیش کرتی ہے، لیکن حق بات یہ ہے کہ ابھی اس فتنے پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے،اس فتنے کے سب کرداروں کو پاکستانی قوم کے سامنے لانے کی ضرورت ہے ابھی فقط اس فتنے کا پہلا کردار ادا کرنے والا گینگ چار سال بعد گرفتار گیا اور ابھی دوسرے اور تیسرے اور باقی سب گینگز کے افراد کو گرفتار کرنا باقی ہےاور مندرجہ ذیل حقائق سامنے لانا باقی ہے
* اسکی پلاننگ کس فرد اور ادارے نے کی ؟
* کیا یہ فقط بیرونی انڈیا اور افغانستان کی ہی پلاننگ تھی یا اندرونی دشمن بھی اس میں شریک تھے؟
* وہ اندرونی دشمن کون ہیں ؟ کیا وہ مشخص ہوئے یا نہیں ؟
* اگر مشخص ہیں تو وہ کون کون ہیں ؟
* کیا انکی گرفتاری عمل میں لائی گئی ؟
* انکے سہولت کار پاکستان کے مختلف شہروں بالخصوص روالپنڈی میں کون کون تھے؟
* وہ گرفتار ہوئے یا نہیں؟
دوسرا گینگ:
اس سانحے کے ایک دن بعد جب ناصر ملت علامہ راجہ ناصر عباس کے ہمراہ کرفیو کے ایام میں راولپنڈی کے اس علاقے کا دورہ کیا تو ہم نے وھاں کے اھل سنت اور اھل تشیع سے جو آنکھوں دیکھا حال سنااس کے مطابق ابھی ایک اور گینگ کو گرفتار کرنے کی ضرورت ہے جس نے مدرسہ تعلیم القران اور مسجد کو آگ لگانے کے بعد نزدیک ہی 6 اہل تشیع کی مساجد اور امام بارگاہوں کو نذر آتش کیا.ان مساجد وامام بارگاہوں سے اٹھتے ہوئے آگ کے شعلے اور دھواں، آتش زدہ قران مجید اور دینی کتابیں، مقدسات کی بیحرمتی ، تکفیری جتھوں کی بربریت کا آنکھوں دیکھا حال بتانے والے خوفزدہ لوگ اور سہمی ہوئی مستورات یہ سب المناک مناظر آج بھی آنکھوں کے سامنے گردش کر رہے ہیں۔
اس فتنہ کی تہہ تک پہنچنے کے لئے ان منظم جتھوں کو گرفتار کرنا اور ان سے تفتیش کرنا بہت ضروری ہے ۔
یہ بقول اہلیانِ راولپنڈی کے تقریبا 100 کے لگ بھگ افراد تھے جن کے پاس آتش گیر مواد ، اسلحہ اور لاٹھیاں تھیں اور ایسے مساجد اور امام بارگاہوں کو آگ لگانے کے لئے بڑھ رھے تھے جیسے انھوں نے باقاعدہ پریکٹس اور مشقیں کیں ہوں اور انکے پاس نقشے اور معلومات بھی تھیں یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ بہت بڑی منظم سازش تھی اور بہت سارے اندرونی وبیرونی کردار ملوث ہیں۔
اب ہم سوال کرتے ہیں کہ قوم کو بتایا جائے کہ
* یہ آگ لگانے والے افراد کون تھے ؟
* کیا واقعا لال مسجد سے آئے تھے جیسے بعض عینی شاہدین نے کہا تھا؟
* اگر لال مسجد سے نہیں آئے تو کہاں سے منظم طور پر سے آئے اور آگ لگانے اور دھشگردی پھیلانے کے بعد چلے گئے ؟
* انکا تعلق کس مدرسے ، علاقے اور مرکز سے تھا. کیونکہ مقامی عینی شاہدین اور سیاستدانوں کے بقول وہ راولپنڈی کے نہیں تھےآخر وہ کون تھے.؟
* کیوں ابھی تک گرفتار نہیں ہوئے ؟
تیسرا گینگ
تیسرا گینگ سوشل میڈیا ، الیکٹرانک اور پرنٹنگ میڈیا پر فتنے کی آگ بھڑکانے والا تھا جو برما ، فلسطین اور شام وغیرہ کے بچوں کی تصویریں اور مظالم دکھا رھا تھا اور جھوٹا پروپیگنڈا کر رھا تھا کہ اہل تشیع نے مدرسے ، مسجد اور مارکیٹ کو آگ لگا دی اور بچوں کو قتل کیا اور پاکستانی عوام کے جذبات سے کھیل رہا تھااور جلتی پر پٹرول ڈال رھا تھا یقینا اس گروہ کی بھی مکمل تیاری تھی اور نشر کرنے کے لئے پہلے ہی مواد تیار کر چکا تھا۔
انکو گرفتار کر کے تفتیش اور تحقیق ہونی چاہیئے کہ
یہ جھوٹا پروپیگنڈا کرنے والے کون کون تھے.؟
ان کا تعلق کس ادارے یا پارٹی یا گروہ سے ہے ؟
کس کے کہنے پر فتنہ پھیلا رہے تھے. ؟
چوتھا گینگ
اس فتنے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا کردار یہ وہ چوتھاگینگ کر رھا تھا کہ جس کے کردار
* انتھا پسند اور تکفیری آئمۃ مساجد جو پورے ملک میں آگ لگانے پر کام کر رہے تھے
* تکفیری فتوے دینے والے مفتیان
* فتنے کو تقویت دینے والے وفاق العلماء ، مدرسے ، مذہبی ادارے اور تنظیمیں
* مذہبی وسیاسی متعصب قائدین
* ضمیر فروش صحافی اور اینکر پرسنز
* دولت کی خاطر ملک کی سالمیت کا سودہ کرنے والے ٹی وی چینلز کے مالکان
ان سب میں کون کون اس فتنے اور سازش کا باقاعدہ حصہ تھے، اسکی بھی تحقیق اور تفتیش ہونی چاہیئےاور مجرم خواہ جتنا ہی با اثر ہو اسے عدالت کے کٹھڑے میں لانا چاہئےاور اسے قرار واقعی سزا ملنی چاہیئے۔
رد المظالم:
راولپنڈی اور اطراف کے بیگناہ سیکڑوں شیعہ نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا،چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا گیا،انکی زندگیاں معطل ہوئیں اور انھوں نے بیگناہ ہونے باوجود قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں، مالی طور پر نقصانات برداشت کئے۔
اور ریاستی ادروں کے مزید بھی ظلم وستم اور تشدد کا نشانہ بننے والے ان افراد کی مظلومیت ثابت ہو گئی. کیا وزارت داخلہ کے پاس اتنی اخلاقی جرأت ہے کہ ایک پریس کانفرنس کے ذریعے ہی سہی پاکستانی قوم اور بالخصوص جن پر ظلم کیا ہے ان سے معافی مانگے اور جو انکا مالی نقصان ہوا اور انہیں اذیتیں برداشت کرنا پڑیں حکومت انہیں اسکا معاوضہ ادا کرے اور جھوٹی الزام تراشی کرنے والے شیعہ قوم سے معافی مانگیں۔
تحریر۔۔۔ڈاکٹر علامہ شفقت حسین شیرازی