وحدت نیوز(آرٹیکل) [دورہ یونان}علم منطق کب اور کیسے اپنے سیر تکامل کو طے کیا اس کا بیان ایک دشوار اور ناممکن کام ہے لیکن اکثر مورخین کا عقیدہ ہے کہ اس علم کی بنیاد دوران یونان باستان سے ملتا ہے ۔تاریخی کتابوں کےمطابق پہلا شخص جس نے عقلی استدلال سےاستفاد ہ کیا وہ {پارمیندس م 487} تھا۔ اس نے ان مباحث کو جدلی رو ش کےمطابق بیان کیا لیکن اس کے بعد [زنون م426۔491] جو پارمیندس کے شاگرد تھااپنے استاد کی پیروی کرتے ہوئے اس روش کو مزید آگے لےگیا اوراس استدلالی روش کومزید رونق بخشا۔
قرن پنجم کےآخر میں یونان کے بعض اندیشمندوں نے اپنے شاگردوں کو جدل اور مناظرہ کی طرف تشویق کی۔ان اندیشمندوں میں سے برجستہ ترین فرد[پرودیکوس] کا نام لیا جاسکتا ہے جو آخری عمر میں جلا وطن ہو ا یہاں تک کہ اس کے تمام تالیفات جلائے گئےکیونکہ اس نے عرف یعنی موجودہ نظام کی سخت مخالفت کی تھی ۔ اس نے جدلی روش کو اس حد تک آگے بڑھایا کہ تمام موجودات کے لئے انسان کو معیار و ملاک قرار دیا اور حقایق ہستی کے منکر ہو ا۔بعض افراد محکمہ قضائی میں اپنے حقوق کی اثبات کے لئے جدلی و استدلالی دانشمندوں سے استفادہ کیاکرتے تھے جو ایک مدت کے بعد سوفیست [دانشمند ] کے نام سے پہچانے جانےلگے۔ ان افراد میں [پروتاگراس 380 ۔485 م] کا نام لیا جاسکتا ہے۔ان دانشمندوں کے لئے جو چیز زیادہ اہمیت کا حامل تھا وہ محکمہ قضائی میں اپنے موکلوں کےحق کوحاصل کرنا تھا۔یہ افرادحق بات کی اثبات کے درپے نہیں تھے اس لئے انہوں نے اپنی استدلال میں مغالطہ سے کام لینا شروع کیا جس کی وجہ سے یہ لقب [سوفیست] اپنے حقیقی معنی سے نکل کر ان لوگوں پر اطلاق ہونا شروع ہواجو روش مغالطہ سے استدلال کیا کرتے تھے۔
اس غبار آلود دور میں سقراط[399 ۔469 م] نےعلم و دانش کے میدان میں قدم رکھا۔ اس نے سوفیست کی فکری روش کی مخالفت کی اور اسی وجہ سے وہ قلیل عرصے میں زیادہ مشہور ہوگیا ۔اس نے اپنے علمی کوششوں سے اس گروہ کا خاتمہ کیا اوراس گروہ کوسخت شکست سے دوچار ہوناپڑا اور یہی سقراط کے لئے بہت زیادہ پیرورکار فراہم کرنے کاسبب بنا ۔
سقراط کے برجستہ ترین پیروکاروں اور شاگردوں میں افلاطون [347 ۔427 ق م ]کا نام لیا جاسکتا ہے۔ افلاطون نےسقرا ط کے تجربات کی حفاظت کی ۔افلاطون اشیاء کی تعریف کرنے کے لئےجنس و فصل کا سہارالیا کرتے تھے ۔ اس نے [آتن] میں زندگی گزارنے اور تدریس کرنے کے لئے ایک باغ کاانتخاب کیا جو بعد میں افلاطون اکیڈمی کے نام سے مشہورہوا۔افلاطون کے برجستہ شاگردوں میں سے ایک ارسطو تھا۔ مورخین کے مطابق ارسطو [ارسطا طا لیس 322 ۔384 ق۔م ] مقدونیہ کے شھر استاگیرا میں متولد ہوا۔اس کا باپ [نیکو ماخوس]ایک طبیب تھا ۔ارسطو اپنے خاندانی پس منظر اور علم دوستی کے سبب تحصیل علم میں مصروف ہوا اور اسی بنا پر 17 [سترہ] سال کی عمر میں افلاطون کے درس میں حاضر ہوا اور افلاطون کے پاس بیس سال تک شاگردی اختیارکی اور یہ شاگرد زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے استاد سے بھی زیادہ مشہور ہو گیا۔
افلا طون استدلال کے لئے صرف صحیح تعریف کو کافی نہیں سمجھتا تھا۔ اس لئے اس نے پہلی مرتبہ علم منطق کو آٹھ ابواب میں تدوین کیا جو یہ ہیں:
۱۔ قاطیغوریاس [مقولات دہ گانہ]
۲۔باری ارمیناس [قضایا]
۳۔انولوطبقای اول [قیاس]
۴۔ انولوطبقای دوم [برہان]
۵۔طوبیقا [جدل]
۶۔ ریطوریقا [خطابہ]
۷۔سوفیسطیقا [مغالطہ]
۸۔ بوطیقا [شعر]
ارسطو کی طرف بہت سے تالیفات کی نسبت دی گئی ہے یہاں تک کہ بعض مورخین کے مطابق ان تالیفات کی تعداد ایک ہزار ہیں۔انہی تالیفات میں سے صرف منطقی مباحث کے بارے میں تالیف کی گئی منطق ارسطو باقی رہ گیا ہے ۔یہ کتاب [ارغنون ۔ ارگانون] {آلت و ابزار} اب بھی علم منطق میں ایک اہم کتاب سمجھی جاتی ہے ۔
ارسطو کے دنیا سے جانے کے بعد زنون رواقی[260 ۔350 ق۔م] نے ارسطو کے مباحث کوجا ری رکھا اور اس نے [معرف] اور [قیاس شرطی] کے مباحث کو اضافہ کیا۔فرفوریوس صوری [233 ۔304 ق۔م] نےزنون کے بعد ارسطو کی کتاب پر شرح لکھااور ایک مقدمہ بعنوان مدخل کا اضافہ کیاجو کلیات خمس کے مباحث پر مشتمل تھا۔اس کے بعد یہ بحث ایک مباحث منطقی اور ایساغوجی مباحث کے نام سےمشہور ہوا۔ارسطو کی یہ تقسیم بندی ایک طولانی مدت تک بڑی آب و تاب کے ساتھ جاری رہا یہاں تک کہ فر فوریوس کے بعد بعض اہل منطق نے مقولات عشر کو منطق سے جدا کر کے فلسفے کے مباحث کے ساتھ ملحق کیااور مباحث معرف جو برہان کےباب میں شامل تھا اسے کلیات خمس میں سے قرار دیا۔یہ سلسلہ دکارت[1596 ۔1650 ق۔م] کے زمانے تک جاری رہا ۔دکارت نے نئے نظریوں کے ذریعے علم منطق میں قابل توجہ تحول لے آیا اور یہ تحول و تبدل منطق جدید کے وجود میں آنے تک فراز و نشیب کے ساتھ پائیدار رہا ۔
بعض مورخین اس گزارش کے برخلاف علم منطق کے زادگاہ کو مشرق زمین سمجھتے ہیں اور ہندوستان ، ایران ، جاپان ،چین اور مصر کو اس علم کا مرکز و گہوارہ سمجھتے ہیں ۔
[دورہ اسلامی]
اسلامی تہذیب و تمدن میں علم منطق کب اور کیسے وارد ہوا اس حوالے سے بھی مورخین کے درمیا ن شدید اختلافات پائے جاتےہیں لیکن جو بات مشہور ہے وہ یہ ہے کہ فلسفہ [فلوطین] پہلی مرتبہ مشرق زمین میں وارد ہوا ہے۔مسلمانوں نے جب اسکندریہ کو فتح کیا تو مسلمانوں نے یونان کے علمی و فلسفی مراکز تک رسائی حاصل کی کیونکہ اس زمانے میں اسکندریہ فلسفہ و الہیات یونان کا مرکز تھا ۔ شام و عراق کے مناطق میں بسنے والے افراد جو سریانی زبان بولتے تھے، یونانی زبان کے مطالعے میں مشغول ہو گئے اور انہی افراد نے بہت سارے اہم منطقی آثارکا ترجمہ کیا اور یہی مسلمانوں کے ان آثار سے زیادہ آشنائی پیدا کرنے کا سبب بنا ۔یہ ترجمے فقط ارسطو کے مباحث{ ایساغوجی ،فرفوریوس و قاطیغوپارس باری آرمیناس اور آنولو طبقای اول} پر مشتمل تھے۔ جن افراد نے ترجمے کاکام مکمل کیا ا ن میں یعقوب ہاوی م 708 م سورس بسوخت م667 م جارجیوس م 724م اور حسین بن اسحاق قابل ذکر ہیں ۔
اسلامی مناطق میں فلسفی و منطقی مباحث کو اس وقت زیادہ رونق آیا جب وہاں علمی مراکز وجود میں آیا مخصوصا ایسے مراکز جن میں یونانی متون اور کتابوں کا ترجمہ کرتے تھے اور اکثران مراکز کی بنیاد خلفای عباسی کے دور میں رکھی گئی ۔اہم ترین مدرسہ و مرکز[ بیت الحکمۃ] تھا جو مامون عباسی کے دستور پر بنایا گیا تھا۔ عبد اللہ بن مقضع جنہوں نے ارسطو کے قاطیغوریاس اور انولوطبقای اور فرفوریوس کے ایساغوجی کو منصورخلیفہ عباسی کے لئے ترجمہ کیا ۔منصور عباسی کے دورکے بعد منطق دانوں نے منطقی کتابوں کی تفسیر وتشریح پر زیادہ کام شروع کیا یہاں تک کہ بعض افراد نے اس ضمن میں نئی کتابیں بھی تالیف کی ۔ابو یوسف ،یعقوب بن اسحاق الکندی [م258 ھ۔ق] ملقب بہ فیلسوف عرب جو اپنے استعداد علمی کی وجہ سے مامون اور معتصم کے پاس ایک خاص مقام رکھتا تھا نے بیشتر ارسطو کی کتابوں کا شرح لکھا۔ ابو العباس سرخسی [م280ھ۔ق]اور محمد بن زکریا رازی[م 151 ھ۔ق] کے دور میں بھی یونان سے آئے ہوئے علوم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی کیونکہ اس زمانے میں علم منطق اپنے طفولیت سے گزر رہاتھا۔اس دور کے بعد فلسفہ ا و رمنطق جدید دور میں داخل ہوا جسے عصر طلائی حکمت کہا جاتاہے۔
اس دور میں جس اہم شخصیت نے بنیادی کردار ادا کیا وہ حکیم ابو النصر محمد فارابی [260۔ 339 ھ۔ق] معروف بہ معلم ثانی ہے ۔فارابی کا علم منطق میں نقش و تاثیر اس قدر زیادہ ہے کہ اکثر دانشمندان فارابی کو اسلامی دور میں علم منطق کا بنیان گزار سمجھتے ہیں ۔
فارابی کے اہم کاموں میں سے ایک [منطق ارسطو ] ارغنون اور [ایساغوجی] فرفریوس پر شرح لکھنا ہے ۔اس کے علاوہ انہوں نےبے شمار کتابیں علم منطق کے موضوع پر تالیف کی جو آج بھی علم منطق کے اہم ترین کتابوں میں شمار ہوتے ہیں ۔فاربی نےمتعدد شاگردوں کی تربیت کی۔ ان کے معروف شاگردوں میں یحیی بن عدی منطقی کا نام لیا جا سکتا ہے ۔اس عصر کے دوسرے منطق دانوں میں ابو سلیمان سجتانی[398 ھ ۔ ق ] ابوحیان توحیدی[م414 ھ۔ق] عیسی بن زرعہ[م 398 ھ۔ق] ابن مسکویہ [م 325 ھ۔ق ابو عبد اللہ ناتلی [343 ھ۔ق] وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے ۔ فارابی کے علاوہ یہ تمام افراد اس قدر مشہور نہیں ہوا اور یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ [ناتلی]
کے برجستہ ترین شاگرد علم و حکمت کے میدان میں وارد ہوا اور یہ فیلسوف و حکیم حسین بن عبد اللہ شیخ الرئیس بو علی سینا جو شہر بخارا کے کسی دیہات میں 370 ھ ق میںمتولدہوا۔پانچ سال کی عمر میں والد کے ہمراہ بخارا آیا اور قرآن کی تعلیم حاصل کی ۔دس سال کی عمر میں ادب کے علوم میں مہارت حاصل کی اور کچھ مدت تک مذہب اسماعلیہ کوقبول کیا ۔انہوں نے حکمت ، منطق اور ریاضی کو ابو عبد اللہ ناتلی کے پاس سیکھا اور بعد میں وہ خود ان علوم کے برجستہ ترین اساتیذمیں شامل ہوا ۔ابن سینا عقلی علوم کے علاوہ طبی علوم کے بھی بڑے اساتیذ جیسے ابو ریحان بیرونی اور ابو سہل مسیحی سے سیکھااور اپنے دور میں معروف طبیب کے عنوان سے مشہور ہوا۔بو علی سینا کے بے شمار گرانقدر تالیفات ہیں کہ ان میں سےکتاب شفا و قانون قابل ذکر ہے ۔ بھمینار بن مرزبان [458ھ۔ق] ابو عبد اللہ معصومی بو علی سینا کے شاگرد ہیں ۔ ابن سینا کے بعد بے شمار منطق دان میدان میں واردہوئے لیکن کوئی بھی ابن سینا کی طرح مشہورنہیں ہوا جیسے ابو حامد غزالی ،قاضی زید الدین عمر سہلان ساوجی ،محمد بن عمر فخر رازی ۔ابو جعفر نصیر الدین طوسی ،نجم الدین علی بن کاتبی قزوینی ،شیخ شہاب الدین سہروردی [بنیانگذار حکمت اشراق]ابو جعفر قطب الدین محمد بن رازی ،سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی ،سعد الدین محمد داونی ،محمد بن ابراہیم شیرازی ملا صدرا[بنیادگذارحکمت متعالیہ اور ملا ہادی سبزوار ی وغیرہ ۔یہ سب حکماء ایک درجے کے نہیں تھے ان میں سے بعض جیسے سہروردی اور ملا صدرا نےحکمت مشائی میں ایک نئے تحول لے کرآیا جس کی وجہ سے یہ افراد بنیانگزار کے طور شہرت پایا۔
[دورہ منطق جدید ]
منطق جدید کو منطق ریاضی و منطق نمادی بھی کہا جاتا ہے ۔بعض ریاضی دان جیسے لایب نیتز[1646 ۔1716] فلیسوف و ریاضی دان آلمانی علم منطق اور ریاضی کو تلفیق کرنےکے لئےکوشش کی کیونکہ وہ چاہتے تھا کہ منطقی مسائل کو حل کرنے کے لئے ریاضی سے مدد لے۔
لایب نیتزنے اس مقصد تک پہنچنے کے لئے زیادہ سعی و کوشش کی اسی بنا پر بعض افراد ان کو[ پدر علم منطق جدید] کے نام سے یاد کرتے ہیں۔جرج بوی ریاضی دان انگلستان،آگو ستوس دمورگانریاضی دان انگلستان ،گوتلوپ فرگر ،زوزف پائانو ریضی دان اٹلی یہ سب ایسےافراد تھے جنہوں نے منطق جدید کی تدوین میں کام کیایہاں تک کہ بر تراند راسل [1872 ۔1970 م]اور آلفردنودث وایتہد [1871۔ 1937م] فلاسفر انگلستان نے اصول ریاضی کے عنوان سے کتابیں لکھی جو منطق جدید کی تدوین میں مددگار ثابت ہوئے۔اور یہ سلسلہ ان دونوں کے بعد بھی جاری و ساری رہا لیکن اختصار کی خاطرہم ان سب کو یہاں ذکر نہیں کریں گے ۔
علم منطق آج ایک اہم بحث اور موضوع کے طورپر پورےدنیا کے یونیورسٹیوں میں تدریس کی جاتی ہے ۔ علم منطق کی اہمیت اور مختلف علوم میں اس کا اثر اورنقش قابل انکار ہے ۔
منابع:
1۔سیر حکمت در اروپا، آماکوویسکی
2۔تاریخ فلسفہ۔ برتداندراسل ترجمہ:بہالدین خرمشاہی
3۔تاریخ فلسفہ اسلامی۔ ترجمہ گروھی از دانشمندان
4۔تاریخ فلسفہ غرب۔ ترجمہ:نجف دریا بندری
5۔سیر فلسفی در جہان اسلام۔دکتر علی اصغر حلبی
6۔مبانی منطق جدید۔ سید علی اصگر خندان
7۔دوران اسلامی۔ میر محمد شریف
8۔یونان باستان۔محمد علی فروغی
9۔تاریخ منطق۔کاپلتون فردریک ترجمہ:فریدون شایان
10۔درآمدی بر منطق جدید۔ضیاء موحد
11۔دورری منطق جدید۔ لطف اللہ نبوی
12۔تاریخ فلاسفہ ایرانی از آغاز اسلام تا امروز۔دکتر سید حسین نصر
13۔تاریخ فلسفہ درایران۔میر محمد شریف
14۔منطق مقدماتی ۔ابوالفضل روحی
15۔ تاریخ فلسفہ د ر اسلام میر محمد شریف ج 1 باب 1
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی