وحدت نیوز (آرٹیکل) پاکستان اسلام کا قلعہ ہے۔دینِ اسلام علم و عمل کاعلمبردار ہے۔ پاکستان کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ اس میں علم و عمل کی فضا حاکم ہو۔ علما کا احترام کیاجائے،دینی مدارس کو دہشت گردوں سے پاک کیا جائے،دانشمندوں کی قدر کی جائے،سکولوں ویونیورسٹیوں کے تعلیمی معیار کو بلند کیا جائے اور انسانی حقوق کا احترام کیاجائے۔
اگر یہ سب نہیں ہوتا تو ہمارے سیاستدان اور حکمران کسی بہروپیے کی طرح عوامی خدمت کی اداکاری تو کرسکتے ہیں لیکن ملی مسائل اور عوامی مشکلات کو حل نہیں کر سکتے۔
گلگت بلتستان ہمارے حکمرانوں کی عدم توجہ کے باعث ویسے بھی مسائل کی آماج گاہ ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سےہمارے حکمران اس خطے کے مسائل حل کرنے کے بجائے الجھاتے ہی چلے جارہے ہیں۔ابھی کچھ دن پہلے گلگت بلتستان کی ایک محبوب شخصیت شیخ نئیر مصطفوی کو گرفتار کیاگیا اورگرفتاری کی وجہ یمن اور بحرین کے مسلمانوں کی حمایت کرنا بتائی گئی ۔
تعجب کی بات ہے کہ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں فلسطین،کشمیر ،یمن اور بحرین کے نہتے مسلمانوں کے حقوق کی بات کرنا تو جرم ہے لیکن آل سعود کے بہروپیوں کی مدد و حمایت کرنے پر کوئی قد غن نہیں۔
ہمارے ہاں ابھی بھی بہت سارے حکومتی ادارے ،سیاستدان اور لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں یہ معلوم نہیں کہ آل سعود نے فقط اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے اور وہ خادم الحرمین کے روپ میں،شام اور عراق کے اندر فقط امریکہ اور اسرائیل کے دفاع اور بقاکی جنگ لڑ رہے ہیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ نام نہاد خادم الحرمین کا شمار ان بہروپیوں میں ہوتا ہے جنہیں ہمارے ہاں کی سادہ اکثریت ابھی تک نہیں پہچان سکی۔
یقین جانئے کہ اس سے پہلے بھی تاریخ میں بعض ایسے بہروپیے گزرے ہیں کہ جنہوں نے بھیس بدل کر بڑی بڑی شخصیات کو دھوکہ دیا ہے۔ان نامی گرامی بہروپیوں میں سے ایک کا نام کندن بہروپیا ہے۔
کہتے ہیں کہ اورنگزیب عالمگیر کے دربار میں ایک دن کندن بہروپیا آیا اور اس نے کہا :
ظلّ الٰہی! اگرچہ آپ کو اپنے علم ،سیاست اور مدیریت پر بڑا ناز ہے لیکن میں روپ بدل کر آپ کو بھی دھوکہ دے سکتا ہوں۔
اورنگزیب نے کہا کہ منظور ہے ،کچھ کر کے دکھاو!
اس نے کہا حضور اگر آپ مجھے پہچان نہ سکے اور میں نے ایسا بھیس بدلا تو آپ سے پانچ سو روپیہ لونگا -
شہنشاہ نے کہا شرط منظور ہے -
اگلے سال اورنگزیب کی مرہٹوں سے ان بن شروع ہوگئی۔
ایک سال کے بعد جب اپنا لاؤ لشکر لے کر اورنگزیب عالمگیر ساؤتھ انڈیا پہنچا اوروہاں پڑاؤ ڈالا تو تھوڑا سا وہ خوفزدہ تھا -پھر جب اس نے مرہٹوں پر حملہ کیا تو وہ اتنی مضبوطی کے ساتھ قلعہ بند تھے کہ اس کی فوجیں وہ قلعہ توڑ نہ سکیں –
لوگوں نے اورنگزیب سے کہا کہ یہاں قریب ہی ایک درویش بابا اورولی الله رہتے ہیں،جائیں ان کی خدمت میں حاضر ہوں ،ان سے دعا کروائیں اور پھر حملہ کریں۔
شہنشاہ پریشان تھا بیچارہ بھاگا بھاگا گیا ان کے پاس - سلام کیا اور کہا ؛ " حضور میں آپ کی خدمت میں ذرا ............ "
انھوں نے کہا ! " ہم فقیر آدمی ہیں ہمیں ایسی چیزوں سے کیا لینا دینا - "
شہنشاہ نے کہا ! " نہیں عالم اسلام پر بڑا مشکل وقت ہے ،اسلام خطرے میں ہے، آپ ہماری مدد کریں میں کل اس قلعے پر حملہ کرنا چاہتا ہوں - "
فقیر نے کچھ دیر تامل کیا اور پھر فرمایا ! " نہیں کل مت کریں ، پرسوں حملہ کریں اور وہ بھی پرسوں بعد نماز ظہر -
اورنگزیب نے کہا جی بہت اچھا ! چنانچہ اس نے نماز ظہر کے بعد فقیر کی دعا سے ایسا حملہ کیا کہ دشمنوں کو شکستِ فاش ہو گئی۔اتنی بڑی کامیابی اور فتح کے بعد بادشاہ دوڑتا ہوا فقیر کی خدمت میں حاضر ہوا کہنے لگا ،یہ فتح آپ کی ہی بدولت ہوئی ہے
فقیر نے ٹھندی آہ بھر کر کہا " نہیں جو کچھ کیا ہے وہ میرے الله ہی نے کیا "
بادشاہ نے کہا کہ آپ کی خدمت میں کچھ پیش کرنا چاہتا ہوں
درویش بابانے کہا : " نہیں ہر گز نہیں ! جانتے نہیں کہ ہم فقیر لوگ ہیں "
اورنگزیب نے کہا دو بڑے بڑے قصبے آپ کی خدمت میں ہدیہ ہیں اور ۔۔۔ اور۔۔۔ آئندہ آپ کی سات پشتوں کے لئے ۔۔۔ بھی ہے۔
فقیر نے کہا : " بابا ہمارے کس کام کی ہیں یہ ساری چیزیں - ہم تو فقیر لوگ ہیں تیری بڑی مہربانی - "
بادشاہ نے بڑا زور لگایا لیکن درویش بابا نہیں مانے اور بالاخر بادشاہ مایوس ہو کے واپس آگیا -
اگلے دن عین اس لمحے کہ بادشاہ کاروبارِ حکومت میں مشغول اپنے تخت پر جلوہ افروز تھا تو سامنے سے درویش بابا داخل ہوئے۔
بادشاہ نے کھڑے ہوکر عرض کیا ،سرکار،حضور،قبلہ و کعبہ۔۔۔" آپ یہاں کیوں تشریف لائے مجھے حکم دیتے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا - "
درویش بابا نے کہا ! " نہیں شہنشاہ معظم ! اب یہ ہمارا فرض تھا کہ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ۔۔۔!
تو جناب عالی!یہ رہا میرا لباسِ درویشی ۔۔۔ میں کندن بہروپیا ہوں ۔
آپ مہربانی کرکے بس مجھے میرے پانچ سو روپے مجھے عنایت فرمائیں !
بادشاہ ٹھٹھک کر رہ گیا :
تم وہ ہو !
جی ہاں میں وہی ہوں – کندن بہروپیا! جو آج سے ڈیڑھ برس پہلے آپ سے وعدہ کر کے گیا تھا -
اورنگزیب نے کہا : " مجھے پانچ سو روپے دینے میں کوئی تامل نہیں لیکن میں صرف یہ پوچھنا چاہتاہوں کہ جب میں نے تمہیں دو قصبے عطا کرنے چاہے اور تمہاری سات پشتوں کو بھی مراعات دینے کا اعلان کیا تو اس وقت تم نے کیوں انکار کر دیا ؟ یہ پانچ سو روپیہ تو کچھ بھی نہیں !
اس نے کہا : " حضور بات یہ ہے کہ جن کا روپ دھارا تھا ، ان کی عزت مقصود تھی - وہ سچے لوگ ہیں ہم جھوٹے لوگ ہیں - یہ میں نہیں کر سکتا کہ روپ سچوں کا دھاروں اور پھر بے ایمانی کروں - "
جب بھی ہمارے ملک میں آل سعود کی ایما پر کسی کو گرفتار کیا جاتاہے یا کسی کو قتل کیا جاتاہے تو میں سوچتا ہوں کہ کتنا ذمہ دار تھا وہ کندن بہروپیا کہ جس نے سچوں کا روپ دھارنے کے بعد بے ایمانی کرنا گوارا نہیں کیا اور کتنے غیر ذمہ دار ہیں یہ آلِ سعود کہ جو خادم الحرمین کا روپ دھار کر ملت اسلامیہ کی پیٹھ میں خنجر گھونپ رہے ہیں۔
آلِ سعود کے بہروپیوں کو خوش کرنے والے ہمارے سرکاری کارندے بھی اس حقیقت کو بھول رہے ہیں کہ جذبے کبھی پابندِ سلاسل نہیں ہوتے۔
تحریر۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.