وحدت نیوز (آرٹیکل) یہ ایک حقیقت ہے کہ اس دنیا میں وہی قومیں آگے بڑھتی ہیں جو سیاسی قوت بن کر ابھرتی ہیں۔ اپنے نظریات اور افکار کا تحفظ کرتی ہیں اور چھپی سازشوں کا سدباب کرتی ہیں۔ اگر کسی ملت اور قوم کی سیاسی قوت نہیں تو وہ ہمیشہ اپنے حقوق کی بھیک مانگتی نظر آتی ہے۔ ان کی سیاسی جدوجہد سڑکوں پر احتجاج اور پارلیمنٹ کے سامنے حکمرانوں کو متوجہ کرنے سے آگے نہیں بڑھتی۔ پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ جماعتیں اور گروہ آگے بڑھ سکے، جنہوں نے سیاسی میدان میں کام کیا ہے۔ جمعیت علماء اسلام کا نام لیں یا پھر جماعت اسلامی کا، دونوں جماعتوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ انہوں نے ہر الیکشن میں اپنا کوئی نہ کوئی رول ضرور ادا کیا ہے، یوں ان کے نمائندے ایوانوں میں موجود رہے اور ہر آنے والی حکومت کا حصہ بنے رہے۔ دونوں جماعتیں مکتب دیوبند کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اگر ہم پاکستان کی آبادی کا تناسب نکالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس ملک میں سب سے زیادہ آبادی اہل سنت کی ہے، جنہیں بریلوی مکتب فکر کے عنوان سے جانا جاتا ہے، یعنی ملک میں مکتب اہل سنت آبادی کا تقریباً 70سے 75فیصد ہیں، اسی طرح اہل تشیع کے بارے میں محتاط اندازے کے مطابق ان کی تعداد آبادی کے لحاظ سے 15 سے 20 فیصد بنتی ہے، جبکہ مکتبہ دیوبند اور اہل حدیث کی ملاکر تعداد آبادی کے لحاظ سے تقریباً 8 سے 10 فیصد بنتی ہے۔ لیکن سیاسی افق پر سب سے زیادہ مضبوط مکتب دیوبند کی جماعتیں ہیں، جو ہر دور حکومت میں اسمبلیوں میں موجود رہی ہیں، جبکہ دوسری جانب اہل سنت اور اہل تشیع سیاسی میدان میں وہ کامیابیاں نہیں سمیٹ سکے، جو آبادی کے تناسب کے لحاظ سے انہیں سمیٹنی چاہیں تھیں۔ اس کی بنیادی وجہ سیاسی میدان کو خالی چھوڑنا اور کسی حکمت عملی کا نہ ہونا ہے۔ یہی وجہ بنی کہ ریاستی اداروں نے بھی ہر معاملے میں فقط انہی لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا، جن کی سیاسی قوت موجود تھی جبکہ جو لوگ سیاسی لحاظ سے کمزور تھے یا انہوں نے اس میدان میں کوئی کردار ادا نہیں کیا، انہیں مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا۔ کلی طور پر مذہبی جماعتوں کے عوام میں پذیرائی کا نہ ہونا بھی ایک موضوع ہے، جو فی الوقت ہمارا موضوع بحث نہیں ہے۔
پس سیاسی قوت بنے بغیر اس ملک میں کوئی اہم کردار ادا کرنا ناممکن نظر آتا ہے۔ شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی نے 6 جولائی 1987ء کو مینار پاکستان پر منعقد ہونے والی عظیم الشان قرآن و سنت کانفرنس میں سیاسی میدان میں اترنے اور اسلامی حکومت کے احیاء کے حوالے سے واضح اعلان کرکے دشمن کو پیغام دیا تھا کہ مکتب اہل بیت ؑ اب سیاسی میدان کو خالی نہیں چھوڑے گا، لیکن دشمنوں نے ہم سے ہمارا عظیم قائد چھین لیا، ضیاء دور کے بعد الیکشن میں اپنی شناخت کے ساتھ حصہ لیا گیا، لیکن اس کے بعد اس میدان کو خالی چھوڑ دیا گیا۔ ممکن ہے کہ بعض لوگ یہ رائے رکھیں کہ ہمیں سیاسی جماعتوں کے اندر رہ کر ہی کوئی رول ادا کرنا چاہیئے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ چکے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے پیش نظر ان کا سیاسی ایجنڈا ہوتا ہے، جس کو وہ فالو کرتی ہیں۔ حتٰی ان سیاسی جماعتوں میں موجود شیعہ حضرات جنہیں اسمبلیوں میں پہنچایا گیا، وہ بھی فقط اس وجہ سے کوئی کردار ادا نہ کرسکے کہ ان کے آگے سیاسی جماعتوں کی پالیسی آڑے آجاتی رہی۔ پارا چنار کا تین سال کا محاصرہ ہو یا پھر ڈی آئی خان میں سینکڑوں لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ، سیاسی جماعتیں ان معالات کو اٹھانے اور انہیں رکوانے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئیں۔ عموماً تصور کیا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی اہل تشیع اور اہل سنت (بریلوی) پر مشتمل جماعت ہے، کیونکہ اس جماعت کا بیشتر ووٹ بینک ان دو مکتب فکر پر مشتمل ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پارا چنار کا تین سال کا محاصرہ اسی جماعت کے دور حکومت میں پیش آیا، ڈیرہ اسماعیل خان سے لوگ ہجرت پر اسی جماعت کے دور حکومت میں مجبور ہوئے، لیکن ان حالات میں اس جماعت نے کوئی ایسا بڑا اقدام نہیں کیا، جو مکتب تشیع میں یہ اطمینان پیدا کرسکے کہ اس کے تحفظ کیلئے اقدامات اٹھائے گئے۔
حد تو یہ تھی کہ پیپلز پارٹی نے اہل تشیع کو اپنا ووٹر تک نہ سمجھا، سانحہ چلاس ہو یا پھر سانحہ لالوسر، ہر جگہ اس جماعت کی خاموشی نے اس تاثر کو مزید گہرا کر دیا کہ سیاسی جماعتیں اپنی مصلحت کے پیش نظر کچھ بھی نہیں کرسکتیں۔ شیعہ ٹارگٹ کلنگ پر پیپلز پارٹی میں واحد سینیٹر فیصل رضا عابدی تھے جو بابانگ دہل بولتے تھے، لیکن سیکولر جماعت ہونے کی دعویٰ دار اس جماعت سے یہ برداشت نہ ہوسکا اور فیصل رضا عابدی سے استعفٰی لیکر اسے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے گھر بھیج دیا گیا۔ چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ سینکڑوں شیعہ مرتے رہے لیکن سیاسی جماعتوں کے رہنما تعزیت تک نہ کرنے آئے، اس مادر وطن پر اہل تشیع کو تیسرے درجہ کا شہری ہونے کا تاثر دینا شروع کر دیا گیا۔ اہل تشیع کو اس حد تک کمزور و نحیف سمجھا گیا کہ ان کو فٹ بال بنا دیا گیا، پیپلزپارٹی سے نکلے تو نون لیگ میں اور نون لیگ سے نکلے تو پھر پیپلزپارٹی میں۔ لیکن ان دونوں جماعتوں نے ہمیشہ اپنے مفادات کو مقدم جانا۔ تکفیریوں کو چند ووٹوں کی خاطر مضبوط کرتے رہے اور آج بھی کر رہے ہیں۔ کالعدم جماعت کا رہنما مولانا احمد لدھیانوی برملا اظہار کرتا رہا کہ دونوں جماعتوں کے درجنوں ایم این اے ان کے ووٹوں کی وجہ سے جیتے۔ سچ تو یہ ہے کہ پارا چنار کے تین سالہ محاصرے اور ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ نے تشیع کے اندر احساس محرومی پیدا کر دیا تھا، حتٰی تشیع کے حقوق کے دفاع کے نام پر بننے والی جماعتوں نے بھی خاموشی سادھ لی تھی تو ریاستی اداروں نے یہ تاثر دینا شروع کر دیا کہ وہ ایک خاص پالیسی پر گامزن ہیں، شیعوں کا ووٹ اینٹھنے والی سیاسی جماعتوں نے بھی کچھ نہ بولنے کی قسم اٹھا لی۔
حالات تیزی سے تبدیل ہونے لگے اور ملت کے مخلص لوگوں کو مل بیٹھنے اور اس ظلم کیخلاف آواز اٹھانے پر مجبور کر دیا۔ یوں حالات کے ستم نے ملت کے خواص کو مکتب کیخلاف ہونے والی منظم سازشوں سے نمٹنے کیلے اجتماعی رول اور نقش ادا کرنے پر مجبور کر دیا۔ ایسے میں مجلس وحدت مسلمین معرض وجود میں آئی اور ملک بھر میں پھیلے امامینز اور مخلص علمائے کرام نے اپنے ناتواں کندھوں پر ملت کا بوجھ اٹھانے کی ٹھان لی۔ مخلص اور بےلوث افراد نے کرم ایجنسی کے پہاڑوں میں دبی آواز کو نہ صرف پارلیمنٹ اور میڈیا پر اٹھایا بلکہ اس ظلم کو دنیا کے سامنے عیاں کیا، ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ میں کمی آئی تو ملت کے اندر حوصلہ بڑھا۔ کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ برادری پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے تو یہ جماعت سینہ تان کر ہر ستم کا مقابلہ کرنے کیلئے آگے آگئی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ پاکستان میں پہلی بار اہل تشیع نے تاریخ ساز احتجاج کیا اور صوبائی حکومت کو اس ظلم پر خاموشی اختیار کرنے پر سزا دیتے ہوئے چلتا کیا۔ یوں یہ جماعت ملک بھر میں پھیل گئی اور مظلوموں کی ڈھارس بن گئی۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
سانحہ عاشورہ راولپنڈی کے وقت بھی اسی جماعت نے آگے آکر عزاداری سیدالشہداء کے خلاف ہونے والی منظم سازش کا مقابلہ کیا اور عزاداری سیدالشہداء ہماری شہہ رگ حیات کے قائد شہید کے جملوں کو عملی کرکے دکھایا۔ اس کامیابی نے ملت کے اندر حوصلہ پیدا کیا اور خواص اس نتیجے پر پہنچے کہ سیاسی کردار ادا کئے بغیر ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے، یوں مجلس وحدت مسلمین کی شوریٰ عالی نے سیاسی کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا اور دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں سیاسی شعبے نے بہت ہی کم وقت میں اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا اور ملک بھر میں الیکشن مہم کا آغاز کر دیا گیا۔
وہ سیاسی جماعتیں جو کبھی مکتب اہل بیت علیہ السلام کے ماننے والوں کو اہمیت نہیں دیتی تھیں، انہیں احساس ہونا شروع ہوگیا کہ اہل تشیع کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، یوں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، مسلم لیگ قاف کے سربراہ چودھری شجاعت حسین، اے این پی کے رہنما اور ایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے مجلس وحدت مسلمین کی قیادت سے براہ راست رابطے کئے اور ایم ڈبلیو ایم کے دفاتر آکر ملاقاتیں کیں۔ یوں سکوت ٹوٹنے لگا اور سیاسی اتحاد کی باتیں سامنے آنے لگیں۔ 2013ء کے الیکشن میں مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ سے ایک ایم پی اے منتخب کرانے میں کامیاب ہوئی تو کئی جگہوں پر اپنا ووٹ بینک بنانے میں کامیاب ہوئی، یوں اہل تشیع کا بکھرا ہوا ووٹ جمع ہونے لگا، حکومت مخالف تحریک میں نئے اتحاد وجود میں آئے تو پاکستان میں اتحاد بین المسلمین کے عظیم الشان مظاہر دیکھنے کو ملے۔ گلگت بلتستان کے الیکشن میں بھی اس جماعت نے پہلی بار الیکشن میں حصہ لیا اور اپنے دو نمائندے جتوانے میں کامیاب ہوئی اور گلگت بلتستان میں ووٹوں کے اعتبار سے دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔
یہ بات یاد رہے کہ تحریک انصاف کو موجودہ پوزیشن پر آنے کیلئے بیس سال لگے، سیاسی قد کاٹھ بنانے کیلئے وقت درکار ہوتا ہے، سیاسی تجربات سے گزرنا پڑتا ہے، میدان میں غلطیاں ہوتی ہیں اور ان غلطیوں کی روشنی میں اپنے سفر کو جاری و ساری رکھنا پڑتا ہے۔ اگر ہم ماضی میں شروع کئے گئے سیاسی سفر کو جاری رکھتے تو یقیناً آج ہمارا ووٹ بینک بن چکا ہوتا ہے اور کئی افراد پارلیمنٹ میں بھی پہنچ چکے ہوتے، سیاسی میدان کو دو دھاری تلوار سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے، آج جب ہم حزب اللہ کی مثال دیتے ہیں تو یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ انہیں بھی اس مقام تک پہنچے میں دہائیاں لگی ہیں۔ امید کرتے ہیں ایم ڈبلیو ایم اپنے سیاسی تجربات کی روشنی میں غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے آگے بڑھے گی اور ملت کا نام روشن کرے گی۔ وقتی مفاد کے بجائے دائمی مفاد کو مقدم جاننا ہوگا، اپنی توانائیوں کو غیر ضروری کاموں میں صرف کرنے سے اجتناب کرنا ہوگا۔ الیکشن میں اتحاد بنانے اور براہ راست امیدوار کھڑے کرنے سے قبل اپنی توانائی اور مالی امور کو دیکھ کر پاوں پھیلانا ہوں گے۔ جہاں جہاں یقین ہو کہ تھوڑی محنت سے سیٹ نکل سکتی ہے، وہاں پر اپنی توانائیاں صرف کی جائیں اور جہاں اندازہ ہو کہ امیدوار کامیاب نہیں ہو پائے گا، وہاں جانے سے گریز کرنا ہوگا۔ سیاسی کونسل اور تھینک ٹینکس بنانے کے ساتھ اس کی آراء کی روشنی میں اپنے امور کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہوئے تو ایک دن ضرور پارلیمنٹ میں اپنی نمائندے بھیجنے میں کامیاب ہوں گے۔ مذہبی جماعت ہونے کے ناطے قائد شہید کی نصیحت کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی رنگ کو مذہبی رنگ پر غالب نہ آنے کی پالیسی کو قائم رکھنا بھی بیحد ضروری ہوگا۔
تحریر۔۔۔۔این اے بلوچ