وحدت نیوز(لیہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کی سلامتی جیسے حساس امور میں براہ راست مداخلت کر کے اس ملک کے امن و سکون اور معاشی ڈھانچے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔پاکستان کے تعلقات اس کے سرحدی ممالک سے خراب کرنے کے لیے ہر روز نئی سازش تیار کی جاتی ہے۔پاکستان پرغیر حقیقی الزامات لگا کر اسے دنیا میں تنہا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔جغرافیائی اعتبار سے ہمیں کمزور کرنے کے لیے پڑوسی مسلم برادر ممالک ایران اور افغانستان سے تعلقات میں ڈراریں ڈالی جا رہی ہیں۔ ان خیالات کااظہار اُنہوں نے کروڑ لعل عیسن میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو الجھا کر ہماری سرزمین کو تختہ مشق بنا دیا گیا جس کے نتیجے میں ہمیں ستر ہزار سے زائد لاشیں اٹھانا پڑیں۔ پاکستان پر مسلط کی گئی اس جنگ میں جتنا نقصان ہم نے اٹھایا ہے اتنا اور کسی کو نہیں اٹھانا پڑا۔پاکستان سے حساب مانگنے والوں کو پہلے ان نقصانات کا حساب دینا ہو گا جو اس ریاست کو پہنچائے گے۔انہوں نے کہا کہ اس ملک کے حصول میں ہمیں بے پناہ قربانیاں دینا پڑی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو امریکی امداد کی ضرورت نہیں بلکہ امریکہ عالمی سلامتی کے نام پر اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ہمیشہ پاکستان کے ترلے کرتا آیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم عالمی قوتوں سے برابری اور احترام پر مبنی تعلقات کے خواہاں ہیں۔ایسے کسی بھی تعلق کی اس ملک کو قطعی ضرورت نہیں جس سے قومی وقار کو ٹھیس پہنچے۔اُنہوں نے کہا کہ معیشت کے عادلانہ نظام کے بغیر انصاف کرنا ناممکن ہے،ملک میں میرٹ کو پائوں تلے روندا جاتا ہے،کفر سے حکومت باقی رہ سکتی ظلم سے باقی نہیں رہ سکتی،قانوں کی حکمرانی کا نام عدل ہے ہمارے ملک میں رول آف لاء نام کی کوئی چیز ہے؟کیا ادارے قانون کو فالو کرتے ہیں؟ سیاسی انتقام لیا جاتا ہے؟ہمارے سکول اورہسپتال سب متاثر ہیں، قانون کو کمزوروں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے، ماڈل ٹاون میں دن دھاڑے لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے، قانون تماشا دیکھ رہا ہوتاہے،ہمارے حکمران پڑھتے وہاں ہیں جہاں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے لیکن یہاں آ کر سب کچھ بھول جاتے ہیں، اس موقع پر ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنما ڈاکٹر یونس حیدری، جنوبی پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی، مولانا ہادی حسین ہادی، ضلعی سیکرٹری جنرل محسن خان سواگ، جمیل حسین خان اور دیگر رہنما بھی موجود تھے۔